سورج ساکن نہیں ہے
زمانہ قدیم سے لوگ صرف انہی سات سیاروں سے واقف تھے جو ان کو نظرآتے تھے، ان میں مشتری ،زہرہ،مریخ، جوپیٹر،سیٹرن ،چانداورسورج شامل تھے۔ ابتدائی نظریہ یہی تھا کہ زمین ساکن ہے اور یہ سب زمین کے گرد گردش کرتے ہیں جیساکہ عموماً نظر آتاہے۔چناچہ تقریباً 350 سال قبل مسیح میں یونان کے فلاسفر ارسطو (Aristotle)نے یہی نظریہ پیش کیاتھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج سمیت تمام سیارے اس کے گرد حرکت کرتے ہیں ۔ پھر 250 سال قبل مسیح میں یونا ن کے ایک اور فلاسفر اور ہیئت دان فیثاغورث (Aristarchus)نے ارسطو کے نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور ہماری زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔نیز ہماری زمین کے علاوہ اوربھی بہت سے سیارے ہیں جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ فیثا غورث ہی وہ پہلاشخص ہے کہ جس نے سورج کے ساکن ہونے کا نظریہ پیش کیا تھامگر یہ نظریہ زیادہ مقبول نہ ہوا اور لوگوں کے ذہنوں پر ارسطو کا نظریہ چھایارہا۔
بعد ازں140 ء میں یونان کے فلاسفر بطلیموس (Ptolemy)نے علم ہیئت کے متعلق وہی پہلانظریہ پیش کیا کہ حقیقت میں ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہی وہی نظریہ تھا جو ارسطو نے پیش کیا تھا۔بطلیموس علم ہندسہ ،ہیئت اور نجوم میں استاد وقت اوریکتائے روزگار تھا۔ اس نے اجرام فلکی کی تحقیق کے لیے ایک رصد گاہ بھی تیارکی ہوئی تھی۔ علم ہیئت پر اس کی کتاب '' مجسطی '' نہایت معتبر سمجھی جاتی تھی۔چناچہ ارسطو اور بطلیموس کا پیش کردہ نظریہ 1800 سال تک دنیا بھر میں مشہور ومقبول رہا۔ بالآخر یورپ کے ایک ہیئت دان کوپرنیکس (1473۔ 1543ئ) نے سولہویں صدی میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے اور ہماری زمین اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے اور سورج کے گرد بھی سال بھر میں ایک چکر لگاتی ہے لیکن کوپر نیکس کے بعد ڈنمارک کے ہیئت دان ٹیکو براہی(Tycho Brahe) (1601۔ 1546ء)نے کوپر نیکس کے نظریے کو رد کر دیا اور تھوڑی سی ترمیم کے بعد اسی پہلے بطلیموسی نظریے کو ہی صحیح قرار دیا۔ جس کے مطابق زمین ساکن اور سورج نیز دوسرے تمام سیارے اس کے گرد حرکت کر رہے ہیں۔ بعد ازں'ٹیکوبراہی کے اسسٹنٹ کیپلر(Kepler) (1630۔ 1564ء ) ، اٹلی کے ہیئت دان گلیلیو (Galileo) (1642۔ 1571ئ) اور نیوٹن (Newton) (1727۔1642ء )نے اپنی تحقیقات کے ذریعے کوپرنیکس کے نظریے کی حمایت کی (کہ سورج ساکن ہے اور زمین سمیت تما م سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں )اور جدید فلکیات کی بنیاد رکھی جسے کوپرنیکس تحریک (Copernican Revolution)کانام دیا گیا۔
بعد ازں کئی ہیئت دانوں نے اس نظریہ کی تائیدجاری رکھی تاآنکہ 1915 ء میں مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت(Theory of Relativity) پیش کیا۔اس تھیوری کی رو سے تمام اجرام ِسماوی خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے وہ گردش میں ہیں۔چناچہ آج جدید نظریہ یہی ہے کہ سورج متحرک ہے اور آٹھ سیارے اس کے گر دمحو گردش ہیں اور ہمارا سورج اپنے پورے خاندان (نظام شمسی )سمیت ملکی وے کہکشاں کے مرکزکے گرد گھوم رہاہے .....جبکہ سورج کے متعلق کتاب وسنت میں بالصراحت مذکور ہے کہ وہ حرکت کر رہاہے اور اس حرکت سے مراد محض محوری گردش ہی نہیں۔ بلکہ جریان یا سبح کے الفاظ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور کرتے جانا مراد ہے۔یاد رہے کہ اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی (Arzachel)نے 1080 ء میں سورج اورزمین ،دونوں کے محوِحرکت ہونے کانظریہ پیش کیا تھا،اس کے مطابق سورج اورزمین میں سے کوئی بھی مزکزِکائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد بیضوی مداروںمیں حرکت کرتے ہیں مگر یورپ نے اس نظریہ کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔
(1)
1781
ء میں یورنیس سیارے کو دریافت کیا گیا جبکہ ٹیلی سکوپ کی ایجاد کے بعد 1846ء میں نیپچون کو دریافت کیا گیا ( 1930ء میں پلوٹو کو دریافت کیا گیاتھا مگر اب سائنسدانوں نے اُسے نظام شمسی کے سیاروں میں سے نکال دیا ہے )۔ یوں ہمارے نظام شمسی میں سورج کے گرد گردش کرنے والے سیاروںکی تعدادآٹھ رہ گئی ہے۔ جدید سائنس نے آ ج معلوم کیا ہے کہ سورج اپنے محور کے گرد ایک چکر تقریباً 25 دن میں مکمل کرتاہے جبکہ سورج کی اپنے مرکز کے گردگھومنے کی رفتار 220 کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔اور ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر مکمل کرنے کے لیے سورج کو25کروڑ سال لگتے ہیں۔ قرآن مجید میں درج ذیل آیت میں سورج او ر دوسرے سیاروں کی حرکت کے متعلق بیان کیاگیا ہے۔
(وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ)
'' اوروہ اللہ ہی ہے جس نے رات اوردن بنائے اورسورج اورچاند کو پیداکیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیررہے ہیں''
)الانبیاء ، 21:33(
مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ
فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار
(Orbit) کے لیے استعمال ہوتاہے اور اس کا مفہوم سَمَاء (آسمان )کے مفہوم سے مختلف ہے۔ یہ ارشاد کہ ''سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں '' چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتاہے۔ایک یہ کہ نہ صرف سورج اورچاند ، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں۔دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک ، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے،تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہورہی ہے جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو۔
(2)
سورة یٰس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
(لَاالشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ ط وَکُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ)
'' نہ تو سورج سے ہو سکتاہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔سب اپنے اپنے مدار پر تیزی سے رواں دواں ہیں''
(36:40)
اس جملے کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ سورج چاند کی نسبت بڑا سیارہ ہے۔ اس کی کشش ثقل بھی چاند کی نسبت بہت زیادہ ہے تاہم یہ ممکن نہیں کہ سورج چاندکو اپنی طرف کھینچ لے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کے مدار میں جا داخل ہواور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ رات کو چاند چمک رہاہو اورا سی وقت سورج طلوع ہو جائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ دن کی مقرر ہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی رات آجائے اورجتنا وقت دن کی روشنی کے لیے مقرر ہے اس میں رات یکایک اپنی تاریکیوں سمیت آموجود ہو۔ سَبَّحَ کے معنی پانی یا ہوا میں نہایت تیز رفتاری سے گزر جانا یا تیرنا اور فلک کے معنی سیاروں کے مدارات یا ان کی گزر گاہیں (Orbits) ہیں۔ اس آیت میں پہلے صرف سورج اورچاند کا ذکر فرمایا پھر کل کا لفظ استعمال فرمایا جو جمع کے لیے آتا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور چاند کے علاوہ باقی تمام سیارے بھی فضا میں تیزی سے گردش کر رہے ہیں
(3)
کائنات کے مدارمخصوص اجرام فلکی کی گردش کے پابند نہیں ہیں۔ہمارے نظام شمسی اور کہکشاؤں کو دوسرے مراکز کے گرد ایک بڑی سرگرمی کا مظاہر ہ کرناہوتا ہے۔ ہر سال زمین اور نظام شمسی گزشتہ برس کے مقابلے میں اپنی جگہ سے 50کروڑ کلومیٹر دور ہو جاتے ہیں۔اس با ت کا اندازہ لگا یا گیا ہے کہ اگر یہ اجرام فلکی اپنے مداروں سے ذرا سابھی ہٹ جائیں تو یہ سار انظام الٹ پلٹ جائے۔ مثال کے طور پر آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اگر صرف 3ملی میٹر ہی زمین اپنے مدار سے ہٹ جائے تو اس کانتیجہ کیا نکلے گا
سورج کے گرد گھومتے ہوئے زمین ایک ایسے مدارپر گردش کرتی ہے کہ ہر 18میل کے بعد یہ اپنے اصل راستے سے 2.8ملی میٹر ہٹ جاتی ہے۔ وہ مدار جس پر زمین گردش کرتی ہے وہ کبھی نہیں بدلتا۔ اس لیے کہ 3ملی میٹر کا انحراف بھی تباہ کن نتائج پید ا کردے گا، اگر یہ انحراف 2.8کے بجائے 2.5ملی میٹر ہوتا تو پھر مدار بہت بڑا ہو تا اور ہم سب یخ بستہ ہو جاتے۔ اگریہ انحراف 3.1ملی میٹر ہوتا تو ہم گرمی سے جھلس کر مرجاتے
(4)
سورج ان 400ارب ستاروں میں سے ایک ہے جن سے مل کرملکی وے کہکشاں بنی ہے۔ جب کہ یہ زمین سے بلحاظ قطر 109گنا بڑا ہے مگر پھر بھی کائنا ت کے چھوٹے ستاروںمیں شمارہوتا ہے۔یہ کہکشاں کے مرکز سے 30ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے جس کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے۔ایک نوری سال 9,460,800,000,000 کلومیٹر کے برابرہوتاہے۔
(5)
ماہرین فلکیات کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق سورج 220کلومیٹر فی سیکنڈکی بے حد تیز رفتار سے رواں دواں ہے اور اس کی یہ گردش اس کے مخصو ص مدار میں ہے جسے ماہرین نے'' سولراپیکس '' (Solar Apex)کا نام دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج دن میں اندازاً 1,90,08,000کلومیٹر سفر کرتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تما م سیارے (Planets)اور طفیلی سیارچے (Satellites)بھی سورج کی کشش ثقل کے تحت گردش کررہے ہیں اور اتنا ہی فاصلہ طے کرتے ہیں۔علاوہ ازیں تما م ستارے (Stars)بھی اسی طرح ایک طے شدہ نظام کے مطابق محو ِ گردش ہیں۔ اس لیے پورا دائرہ کائنات راستوں اور مداروں سے بھرا ہوا ہے جس کا قرآن مجید کی درج ذیل آیت کریمہ میں ذکر آیا ہے۔
(وَالسَّمَآ ءِ ذَاتِ الْحُبُکِ)
''قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی ''
(سورة الذّاریا ت 51)
کائنات میں کھربوں اجرامِ فلکی اپنے اپنے مقررہ مداروں میں گھومتے ہیں اور لاکھوں سال سے انتہائی نظم وضبط کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گردش کر رہے ہیں۔ان کے علاوہ بہت سے دمدار ستارے (Comets)بھی اپنے مقررہ مداروں میں گھوم رہے ہیں۔ کائنات میں یہ مدار صر ف انہی اجرام فلکی کے لیے مخصوص نہیں ہیں،کہکشائیں بھی نہایت تیزرفتاری سے مقررہ مداروں میں متحرک رہتی ہیں۔ اس نقل وحرکت کے درمیان مختلف اجرام فلکی ایک دوسرے کا راستہ نہیں کاٹتے اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی تصادم ہو تا ہے۔ ایک عظیم ''کمپیوٹر '' انتہائی صحت اور زبردست احتیاط کے ساتھ ان کے راستوں اور رفتاروں کو کنٹرول کررہا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس زمانے میں قرآن نے یہ انکشاف کیے بنی نوع انسا ن کے پاس آج جیسی دوربینیں یا ترقی یافتہ مشاہداتی ٹیکنالوجی نہیں تھی کہ جس سے لاکھوں'کروڑوں کلومیٹر دور محوِگردش اجرام فلکی کا مشاہدہ کیا جاسکتا اورنہ ہی علم طبیعیات اورعلم فلکیات اس درجے پر پہنچے ہوئے تھے کہ انسان کی رہنمائی کرسکتے لہٰذا اس وقت اس امر کا سائنسی طور پر تعین کرناممکن نہیں تھا کہ خلا راستوں اور مداروں سے پُر ہے اور ہر چیز متحرک ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت نے اپنے فرقان حمید میں بتایا ہے لہٰذا درج بالا باتوں سے ایک ہی نتیجہ نکلتاہے کہ اس تما م نظام کا موجد اورخالق اللہ تعالیٰ کی ذات عالی شان کے علاوہ اورکوئی ہو ہی نہیں سکتا اوریہ کہ جس نتیجے پر سائنس بیسویں صدی میں پہنچی ہے ان باتوں کا چودہ سو سال سے قران مجید میں پایاجانا،اس کے برحق اورلاریب ہونے کی روشن دلیل ہے ۔
Comment