کیا اللہ موجود ہے ؟؟؟
فلسفے کا ایک دہریا پروفیسر اپنی کلاس کےساتھ خدائے بزرگ و برتر (کے وجود) کو (سمجھنے میں) جو مسئلہ سائنس کو ہے اس پر گفتگو کرتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں میں سے ایک کو کھڑا ہونے کو کہتا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔۔
پروفیسر: کیا تم خدا پر ایمان رکھتے ہو؟
شاگرد: بالکل، جناب!
پروفیسر: کیا خدا اچھا ہے؟
شاگرد: یقیناً
پروفیسر: میرا بھائی اگرچہ اس نے خدا سے شفا یابی کی دعا مانگی تھی مگر وہ پھر بھی کینسر کیوجہ سے مر گیا۔ ہم میں سے بہت سے (لوگ) دوسروں میں سے جو بیمار ہوں ان کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن خدا نے نہ کی، تو پھر یہ خدا اچھا کیونکر ہوا ؟ ذرا بتاوء
(شاگرد خاموش ہے)
پروفیسر: تم جواب نہیں دے سکتے ؟ کیا تم جواب دے سکتے ہو؟
دوبارہ آغاز کرتے ہیں، اے نوجوان!
شاگرد: ہاں
پروفیسر: کیا شیطان اچھا ہے؟
شاگرد: نہیں
پروفیسر: شیطان کہاں سے آیا ہے (آتا ہے) ؟
شاگرد: خدا کی طرف سے
پروفیسر: بالکل ٹھیک، بیٹا! مجھے یہ تو بتاوء کیا اس دنیا میں برائی ہے؟
شاگرد: جی ہاں ہے
پروفیسر: برائی ہر جگہ ہے، ایسا ہی ہے نا، اور خدا نے ہر چیز کو بنایا، ٹھیک ؟
شاگرد: جی ہاں
پروفیسر: تو برائی کو کس نے پیدا کیا
(شاگرد خاموش ہے)
پروفیسر: کیا بیماری، بدکرداری، نفرت، بدصورتی یہ تمام خوفنا ک چیزیں دنیا میں اپنا وجود رکھتی ہیں؟ کیا ایسا ہی ہے؟
شاگرد: جی ہاں ہے
پروفیسر: تو ان سب کو کس نے پیدا کیا؟
(شاگرد کے پاس کوئی جواب نہیں ہے)
پروفیسر: سائنس کہتی ہے کہ کے آپ کے پاس پانچ حواس ہیں جن کے ذریعے آپ دنیا کو پہنچانتے اور اس پر غور کرتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔۔ کیا تم نے کبھی خدا کو دیکھا ہے؟
شاگرد: نہیں، جناب
پروفیسر: ہمیں بتاؤ، کیا کبھی تم نے اپنے خدا کو سنا ہے؟
شاگرد: نہیں، جناب
پروفیسر: کیا تم نے کبھی اپنے خدا کو محسوس کیا ہے،خدا کو چکھاہے ، خدا کو سونگھا ہے، کیا تم نے کبھی اس معاملے میں اپنے حواس کی مدد سے خدا کا کوئی خاکہ اپنے ذہن میں بنایا ہے؟
شاگرد: نہیں جناب، جہاں تک میرا خیال ہے میں نے ایسا نہیں کیا
پروفیسر: اس کے باوجود اب تک تم اس پر ایمان لاتے ہو؟
شاگرد: جی، جناب
پروفیسر: سائنس کے مشاہداتی، تجرباتی اور اثباتی اصول کے مطابق، سائنس کہتی ہے کہ تمہارا خدا نہیں ہے، بیٹا!تم اس پر کیا کہو گے؟
شاگرد: کچھ بھی نہیں، میرا بس اس پر ایمان ہے
پروفیسر: ایمان، اور یہی ایک مسئلہ لاحق ہے سائنس کو
شاگرد: کیا حرارت جیسی کوئی چیز ہے؟
پروفیسر: ہاں ہے
شاگرد: اور کیا ٹھنڈک جیسی بھی کوئی چیز موجود ہے؟
پروفیسر: ہاں ہے
شاگرد: نہیں جناب ، وہ نہیں ہے
( واقعات کا یوں رخ تبدیل ہونے سے لیکچر روم میں خاموشی چھا جاتی ہے)
پروفیسر: حرارت کی بہت سے مثالیں ہیں: حرارت بلکہ اس سے بھی زیادہ حرارت، super heat, mega heat, سفید حرارت، بہت تھوڑی حرارت یا حرارت کا نہ ہونا
ہم درجہ صفر سے 458 ڈگری مزید نیچے تک ماپ سکتے ہییں جس کو حرارت کانہ ہونا (no heat) کہتے ہیں۔ لیکن ہم اس سے نیچے نہیں جا سکتے۔ ٹھنڈک(cold) جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔
ٹھنڈک صرف ایک لفظ ہے جس کو ہم صرف حرارت کی غیر موجودگی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، ہم ٹھنڈک کی پیمائش نہیں کر سکتے، حرارت توانائی ہے، ٹھنڈک حرارت کا متضاد نہیں ہے جناب، بلکہ ٹھنڈک صرف حرارت کی غیر موجودگی کو ظاہر کرتی ہے
(کمرہ جماعت میں اس قدر خاموشی چھا جاتی ہے کہ سوئی پھینکو تو آواز سنائی دے)
شاگرد: پروفیسر صاحب! تاریکی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، تاریکی کسی چیز کی غیرموجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔
کم روشنی، مناسب روشنی، اجلی روشنی، تیز روشنی تو ہو سکتی ہے، مگر اگر کہیں پر مستقل روسنی کا وجود ہی نہ ہو تو آپ کے پاس اس کو تاریکی کہنے کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔
حقیقت میں تاریکی ہے ہی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو آپ تاریکی کو مذید تاریک کرنے کے قابل ہو جاتے، کیوں ایسا نہیں ہے کیا ؟
پروفیسر: تو ان سب باتوں سے تم کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہو؟ نوجوان!
شاگرد: آپ کا سائنسی استدلال غلط ہے
استاد: غلط ؟ کیا تم وضاحت کر سکتے ہو، کیسے ؟
شاگرد: آپ دوہرے استدلال سے کام لے رہے ہیں، آپ دلیل دیتے ہیں کہ زندگی اور موت موجود ہیں، ایک اچھا خدا ہے اور ایک برا خدا ہے، آپ ایک ایسے خدا کا تصور دے رہے ہیں جو کہ محدود ہے اور جس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔
جناب، سائنس تو یہ بھی بتانہیں سکتی کہ خیال کیا چیز ہے۔ یہ برقیات اور مقناطیسیت کا ذکر تو کرتی ہے لیکن ان میں سے کسی کو دیکھا بھی نہیں، دیکھنا تو دور کی بات ان میں سے کسی کو صیح طور پر سمجھا بھی
نہیں۔
موت کا زندگی کے متضاد کے طور پر سمجھنا اس حقیقت سے ناواقفی کی دلیل ہے کہ موت بطور قابل ذکر چیز اپنا وجود نہیں رکھ سکتی۔ موت زندگی کا متضاد نہیں ہے بلکہ صرف اس کی غیر موجودگی ہے۔
پروفیسر صاحب، مجھے یہ تو بتائیے کہ کیا آپ اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ وہ بندر کی ترقی پذیر شکل ہیں؟
پروفیسر: اگر تم فطرتی ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کر رہے ہو تو یقیناً میں ایسا ہی کرتا ہوں
(پروفیسر مسکراتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلاتا ہے کیونکہ اس کو سمجھ آ جاتی ہے کہ بحث کہاں پر جارہی ہے)
شاگرد: چونکہ کسی نے بھی ارتقاء کے عمل کو وقوع پذیرہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ یہ بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ یہ عمل ایک مسلسل جہدہے۔
جناب، کیا آپ اپنی رائے کی تعلیم نہی دے رہے ہیں؟
کیا آپ سائنسدان سے زیادہ ایک مبلغ نہیں ہیں ؟
(جماعت میں سے آوازیں بلند ہوتی ہیں)
شاگرد: کیا کلاس میں سے کوئی ایسا ہے جس نے کبھی پروفیسر صاحب کا دماغ دیکھا ہو ؟
(کلاس قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے)
شاگرد: کیا کلاس میں سے کوئی ایسا ہے، جس نے کبھی پروفیسر کے دماغ کو سنا ہو، محسوس کیا ہو، چھوا ہو یا سونگھا ہو؟ کوئی بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا جس نے یہ عمل کیا ہو۔
تو سائنس کے مشاہداتی، تجرباتی اور اثباتی اصول کے مطابق سائنس کہتی ہے کہ آپ کے پاس کوئی دماغ نہیں ہے جناب (آپ کے تمام مرتبے اور عزت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے)
پھر ہم آپ کے لیکچرز پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں، جناب؟
(کمرے میں خاموشی ہے، پروفیسر شاگرد کے چہرے پر نگاہ ڈالتا ہے جبکہ شاگرد کے چہرے پر گہری خاموشی چھائی ہے)
پروفیسر: میرا خیال ہے، آپ کو اس پر ایمان لاناہو گا، بیٹا!
شاگرد: جی ہاں ایسا ہی ہے ۔ ۔۔ ۔۔
بندے اور خدا کے درمیان ایمان کا ہی ناطہ ہے۔ یہی چیزوں کو محرک اور زندہ رکھے ہوئے ہے
Comment