Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا اللہ موجود ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کیا اللہ موجود ہے



    کیا اللہ موجود ہے ؟؟؟



    فلسفے کا ایک دہریا پروفیسر اپنی کلاس کےساتھ خدائے بزرگ و برتر (کے وجود) کو (سمجھنے میں) جو مسئلہ سائنس کو ہے اس پر گفتگو کرتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں میں سے ایک کو کھڑا ہونے کو کہتا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔۔

    پروفیسر: کیا تم خدا پر ایمان رکھتے ہو؟


    شاگرد: بالکل، جناب!



    پروفیسر: کیا خدا اچھا ہے؟



    شاگرد: یقیناً



    پروفیسر: میرا بھائی اگرچہ اس نے خدا سے شفا یابی کی دعا مانگی تھی مگر وہ پھر بھی کینسر کیوجہ سے مر گیا۔ ہم میں سے بہت سے (لوگ) دوسروں میں سے جو بیمار ہوں ان کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن خدا نے نہ کی، تو پھر یہ خدا اچھا کیونکر ہوا ؟ ذرا بتاوء



    (شاگرد خاموش ہے)


    پروفیسر: تم جواب نہیں دے سکتے ؟ کیا تم جواب دے سکتے ہو؟



    دوبارہ آغاز کرتے ہیں، اے نوجوان!



    شاگرد: ہاں



    پروفیسر: کیا شیطان اچھا ہے؟



    شاگرد: نہیں



    پروفیسر: شیطان کہاں سے آیا ہے (آتا ہے) ؟


    شاگرد: خدا کی طرف سے



    پروفیسر: بالکل ٹھیک، بیٹا! مجھے یہ تو بتاوء کیا اس دنیا میں برائی ہے؟



    شاگرد: جی ہاں ہے



    پروفیسر: برائی ہر جگہ ہے، ایسا ہی ہے نا، اور خدا نے ہر چیز کو بنایا، ٹھیک ؟


    شاگرد: جی ہاں



    پروفیسر: تو برائی کو کس نے پیدا کیا



    (شاگرد خاموش ہے)



    پروفیسر: کیا بیماری، بدکرداری، نفرت، بدصورتی یہ تمام خوفنا ک چیزیں دنیا میں اپنا وجود رکھتی ہیں؟ کیا ایسا ہی ہے؟



    شاگرد: جی ہاں ہے



    پروفیسر: تو ان سب کو کس نے پیدا کیا؟



    (شاگرد کے پاس کوئی جواب نہیں ہے)



    پروفیسر: سائنس کہتی ہے کہ کے آپ کے پاس پانچ حواس ہیں جن کے ذریعے آپ دنیا کو پہنچانتے اور اس پر غور کرتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔۔ کیا تم نے کبھی خدا کو دیکھا ہے؟



    شاگرد: نہیں، جناب



    پروفیسر: ہمیں بتاؤ، کیا کبھی تم نے اپنے خدا کو سنا ہے؟



    شاگرد: نہیں، جناب



    پروفیسر: کیا تم نے کبھی اپنے خدا کو محسوس کیا ہے،خدا کو چکھاہے ، خدا کو سونگھا ہے، کیا تم نے کبھی اس معاملے میں اپنے حواس کی مدد سے خدا کا کوئی خاکہ اپنے ذہن میں بنایا ہے؟



    شاگرد: نہیں جناب، جہاں تک میرا خیال ہے میں نے ایسا نہیں کیا



    پروفیسر: اس کے باوجود اب تک تم اس پر ایمان لاتے ہو؟



    شاگرد: جی، جناب



    پروفیسر: سائنس کے مشاہداتی، تجرباتی اور اثباتی اصول کے مطابق، سائنس کہتی ہے کہ تمہارا خدا نہیں ہے، بیٹا!تم اس پر کیا کہو گے؟



    شاگرد: کچھ بھی نہیں، میرا بس اس پر ایمان ہے



    پروفیسر: ایمان، اور یہی ایک مسئلہ لاحق ہے سائنس کو



    شاگرد: کیا حرارت جیسی کوئی چیز ہے؟



    پروفیسر: ہاں ہے



    شاگرد: اور کیا ٹھنڈک جیسی بھی کوئی چیز موجود ہے؟



    پروفیسر: ہاں ہے



    شاگرد: نہیں جناب ، وہ نہیں ہے



    ( واقعات کا یوں رخ تبدیل ہونے سے لیکچر روم میں خاموشی چھا جاتی ہے)



    پروفیسر: حرارت کی بہت سے مثالیں ہیں: حرارت بلکہ اس سے بھی زیادہ حرارت، super heat, mega heat, سفید حرارت، بہت تھوڑی حرارت یا حرارت کا نہ ہونا
    ہم درجہ صفر سے 458 ڈگری مزید نیچے تک ماپ سکتے ہییں جس کو حرارت کانہ ہونا (no heat) کہتے ہیں۔ لیکن ہم اس سے نیچے نہیں جا سکتے۔ ٹھنڈک(cold) جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔
    ٹھنڈک صرف ایک لفظ ہے جس کو ہم صرف حرارت کی غیر موجودگی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، ہم ٹھنڈک کی پیمائش نہیں کر سکتے، حرارت توانائی ہے، ٹھنڈک حرارت کا متضاد نہیں ہے جناب، بلکہ ٹھنڈک صرف حرارت کی غیر موجودگی کو ظاہر کرتی ہے



    (کمرہ جماعت میں اس قدر خاموشی چھا جاتی ہے کہ سوئی پھینکو تو آواز سنائی دے)


    شاگرد: پروفیسر صاحب! تاریکی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، تاریکی کسی چیز کی غیرموجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔

    کم روشنی، مناسب روشنی، اجلی روشنی، تیز روشنی تو ہو سکتی ہے، مگر اگر کہیں پر مستقل روسنی کا وجود ہی نہ ہو تو آپ کے پاس اس کو تاریکی کہنے کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔
    حقیقت میں تاریکی ہے ہی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو آپ تاریکی کو مذید تاریک کرنے کے قابل ہو جاتے، کیوں ایسا نہیں ہے کیا ؟



    پروفیسر: تو ان سب باتوں سے تم کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہو؟ نوجوان!



    شاگرد: آپ کا سائنسی استدلال غلط ہے



    استاد: غلط ؟ کیا تم وضاحت کر سکتے ہو، کیسے ؟



    شاگرد: آپ دوہرے استدلال سے کام لے رہے ہیں، آپ دلیل دیتے ہیں کہ زندگی اور موت موجود ہیں، ایک اچھا خدا ہے اور ایک برا خدا ہے، آپ ایک ایسے خدا کا تصور دے رہے ہیں جو کہ محدود ہے اور جس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔



    جناب، سائنس تو یہ بھی بتانہیں سکتی کہ خیال کیا چیز ہے۔ یہ برقیات اور مقناطیسیت کا ذکر تو کرتی ہے لیکن ان میں سے کسی کو دیکھا بھی نہیں، دیکھنا تو دور کی بات ان میں سے کسی کو صیح طور پر سمجھا بھی
    نہیں۔


    موت کا زندگی کے متضاد کے طور پر سمجھنا اس حقیقت سے ناواقفی کی دلیل ہے کہ موت بطور قابل ذکر چیز اپنا وجود نہیں رکھ سکتی۔ موت زندگی کا متضاد نہیں ہے بلکہ صرف اس کی غیر موجودگی ہے۔
    پروفیسر صاحب، مجھے یہ تو بتائیے کہ کیا آپ اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ وہ بندر کی ترقی پذیر شکل ہیں؟



    پروفیسر: اگر تم فطرتی ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کر رہے ہو تو یقیناً میں ایسا ہی کرتا ہوں



    (پروفیسر مسکراتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلاتا ہے کیونکہ اس کو سمجھ آ جاتی ہے کہ بحث کہاں پر جارہی ہے)



    شاگرد: چونکہ کسی نے بھی ارتقاء کے عمل کو وقوع پذیرہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ یہ بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ یہ عمل ایک مسلسل جہدہے۔



    جناب، کیا آپ اپنی رائے کی تعلیم نہی دے رہے ہیں؟



    کیا آپ سائنسدان سے زیادہ ایک مبلغ نہیں ہیں ؟



    (جماعت میں سے آوازیں بلند ہوتی ہیں)



    شاگرد: کیا کلاس میں سے کوئی ایسا ہے جس نے کبھی پروفیسر صاحب کا دماغ دیکھا ہو ؟



    (کلاس قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے)



    شاگرد: کیا کلاس میں سے کوئی ایسا ہے، جس نے کبھی پروفیسر کے دماغ کو سنا ہو، محسوس کیا ہو، چھوا ہو یا سونگھا ہو؟ کوئی بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا جس نے یہ عمل کیا ہو۔
    تو سائنس کے مشاہداتی، تجرباتی اور اثباتی اصول کے مطابق سائنس کہتی ہے کہ آپ کے پاس کوئی دماغ نہیں ہے جناب (آپ کے تمام مرتبے اور عزت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے)
    پھر ہم آپ کے لیکچرز پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں، جناب؟



    (کمرے میں خاموشی ہے، پروفیسر شاگرد کے چہرے پر نگاہ ڈالتا ہے جبکہ شاگرد کے چہرے پر گہری خاموشی چھائی ہے)



    پروفیسر: میرا خیال ہے، آپ کو اس پر ایمان لاناہو گا، بیٹا!



    شاگرد: جی ہاں ایسا ہی ہے ۔ ۔۔ ۔۔



    بندے اور خدا کے درمیان ایمان کا ہی ناطہ ہے۔ یہی چیزوں کو محرک اور زندہ رکھے ہوئے ہے


  • #2
    Re: کیا اللہ موجود ہے

    یہ مکالمہ جس نے بھی تحریر کیا وہ انتہا درجے کا جاہل ہے وہ مفکر نہیں خطیب ہے۔۔کچھ عرصہ پہلے یہ جواب اس طرح دیا جاتا تھا کہ کسی بزرگ نے کسی کو پتھر مارا تو اسے کہا تمہیں درد ہوا۔۔لیکن درد ہے کہاں؟؟ جس پہ دہریہ کاموش ہوجاتا ہے ۔۔یہ من گھڑت مکالمے ابب برقناطیسی کیمروں سے دردر دیکھا جاکستا ہے۔۔ٹھنڈک کم درجہ حرارت کا نام ہے اور گرمی زیادہ درجہ حرارت کا نام ہے لیکن ہم چونہکہ ان کو اپنے حواس خمسہ اور دیگر آلات سے ریکارڈ کر سکتے ہیں اس لیے یہ موجود خیال کرتے ہیں اور ٹھنڈک اور گرمی انسانی اصطلاحات ہیں شدت کو ظاہر کرنے کی۔۔مقناطیسی فلیڈ مختلف تجربات میں اپنی موجدگی ظاہر کرتا ہے تو موجود ہے سائنس اسے تسلیم کرتی ہے۔۔خیال ذہن کے اس ھصے کی کارروائی ہے جسے کارٹیکس کہا جاتا ہے۔۔افرین ہے اپ پر اور پ کے ان پروفیسر پر۔۔اگر خدا موجود ہے اس کا یہ دعوی درست ہے کہ وہ ستر مائوں کے برابر مخبت کرتا ہے تو چلو کچھ دن پہلے کراچی میں ارشد پپو کا سر قلم کر کے دو گھنٹے فٹ بال کھیلا جاتا رہا کہاں تھا تمہارا خدا؟حاملہ خاتون پہ کتے چھوڑ دئے جاتے وہ بلکتی خدا کو پکارتی لیکن ۔۔لاکھوں بچے بوڑھے جراثیم زلزلے گینگ ریپ،ایکسیڈنٹ تو کہاں ہے ستر ماوں کا دعویٰ کرنے والے ۔۔کہ ماں کبھی اپنے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی اب بولوں کیا مصلحت؟کہاں ہے وہ خدا جو اپنے نبی کی شان میں بدترین گستاخی کرنے والوں کی زبان گدی سے نہیں کھنج رہا سلیمان رشدی ابھی تک ازاد گھوم رہا۔۔کہاں ہے وہ جو بنی اسرئیل کے لیے سمندر میں راستہ بنا دیتا لیکن بھوکی ننگی اس قوم پہ اس کو ترس نہیں آتا لوگ ۔تم لوگ پاگلوں کی طرح دعائیں مانگوں حج کرو جو مرضی کرو لیکن اسمان ازل سے خاموش ور ابند تک خاموش رہے گا۔۔سو لگے رہے منا بھائی


    خوش رہیں


    تابانی
    :(

    Comment


    • #3
      Re: کیا اللہ موجود ہے

      زندگی اتفاقی بن گئی مطلب سینکڑوں سال نامیاتی نائٹرک امینو ایسڈ پانی کے جوہڑ میں تب ایک دم اس میں ہلچل ہوئی اور زندگی نے آنکھ کھولی شائد یہ یک خلوی زندگی تھی جو ابتدائی سادہ
      ترین آر ڈی اے جو آج پیڑ پودوں کا چھوٹا جز ہے یا معلوماتی اکائی جیسے جیسے ارتقائی مراحل طے ہوئی یہ ڈی این اے یعنی جڑواں دھاگوں کی اکائی بنتی چلی گئی جس سے جانوروں کی
      ابتداء ہوئی ۔۔ سائنس کا ماننا ہے بیس پچیس کروڑ سال بعد ڈی این اے سے بڑھ کر ٹی این اے یعنی ٹرائی آکسیڈ قسم کے جاندار وجود میں ہونگے جو انسان جانور سے زیادہ جدید ہونگیں
      جیسے پیڑ پودے چل پھر ، بول سن یا دیکھ نہیں سکتے مگر ڈی این اے یعنی دہری لڑی کے حامل نیوکلیک ایسڈ ایسا کرسکتے ہیں جس میں جانور / انسان / پرندے کیڑے شامل ہیں کچھ بہت
      جدید مخلوق وجود میں ہوگئی جو ہم سے برتر ہوگئی انسانی مرد ختم ہوجائے گئی کیونکہ ان کے جنسی انحطاط جاری ہے دو کروڑ سال تک یہ پچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوگا پھر شروع ہوگا
      ایک نیا دور
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: کیا اللہ موجود ہے

        ڈاکٹر فاٹس مجھے آپ کی اکثر باتوں سے اتفاق ہے ہم میں سے اکثر لوگوں کو فخر ہے خدا کیڑے کو بھی مٹی میں رزق دیتا ہے مگر ان تیس لاکھ لوگوں کو بھول جاتا ہے جو بھوک سے مر جاتے ہیں
        ان کے انصاف کا یہ عالم ہے دنیا میں پچیس لاکھ بچے پیدائشی معذور پیدا ہوتے ہیں جن میں نابینا / بہرے گونگے ہاتھ پیر سے محتاج سب شامل ہیں جو تمام زندگی دوسروں کے محتاج رہتے ہیں
        یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں ۔۔ اس خدا کے انصاف کا یہ عالم ہے

        جلد مزید ابھی جارہا ہوں
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: کیا اللہ موجود ہے

          ڈاکٹر فا سٹس اور جمیل صاحب ...آپ سے گزارش ہے کہ الله سے توبہ کریں اور الله کے بارے میں اس قسم کے کفریہ کلمات سے پرہیز کریں جو ایک مسلمان کو اسلام سے خارج کر دینے کے لئے کافی ہیں -

          اور یہ آیت قرانی بھی پڑھ لیں شاید کہ سمجھ جائیں کہ کیا بیان کیا جا رہا ہے اس میں --


          وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
          اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ تو
          کافر مومنوں سے کہتے ہیں کہ بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا۔ تم تو صریح غلطی میں ہو


          Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

          Comment


          • #6
            Re: کیا اللہ موجود ہے

            کوئی بھی عام یہودی، عیسائی یا مسلمان واقعتاً اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ کہ زمین کی عمر چھ ہزار سال ہے، یا حواء آدم کی پسلی سے برآمد ہوئی، یا نوح نے جاندار انواع کے چھ ارب جوڑے قطبِ شمالی سے افریقہ تک اور ایمازان کے جنگلوں سے لے کر اسٹریلیا وقطبِ جنوبی تک جمع کیے اور انہیں ٹائٹینک سے بھی کئی گنا بڑی کشتی میں ٹھونس دیا، اور موسی نے واقعتاً بحرِ احمر کو اپںے اُسی ڈنڈے سے چیر ڈالا جو قبل ازیں سانپ بن گیا تھا، یا مسیح واقعی دو ہزار سال پہلے آسمان کی طرف اڑ گیا تھا، یا صلعم نے حقیقتاً ایک پروں والے گھوڑے پر سوار ہوکر روشنی کی رفتار میں سفر کرتے ہوئے ساتویں آسمان کا سفر کیا۔۔ سبھی کسی نہ کسی سادہ شکل میں ان قصوں پر یقین تو رکھتے ہیں مگر مضحکہ خیز لگنے والے حصوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کا ایمان منطقی نظر آئے، مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی تحاریر جامد ہوتی ہیں اور اپنا پول خود ہی کھولتی نظر آتی ہیں چاہے کوئی بھی انہیں ہاتھ نہ لگائے تو بھائی مجھے کچھ منطقی آیات پیش کریں ہدائت اللہ کے کرم سے بہت ہے میرے پاس
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: کیا اللہ موجود ہے

              Originally posted by Dr Faustus View Post
              یہ مکالمہ جس نے بھی تحریر کیا وہ انتہا درجے کا جاہل ہے وہ مفکر نہیں خطیب ہے۔۔کچھ عرصہ پہلے یہ جواب اس طرح دیا جاتا تھا کہ کسی بزرگ نے کسی کو پتھر مارا تو اسے کہا تمہیں درد ہوا۔۔لیکن درد ہے کہاں؟؟ جس پہ دہریہ کاموش ہوجاتا ہے ۔۔یہ من گھڑت مکالمے ابب برقناطیسی کیمروں سے دردر دیکھا جاکستا ہے۔۔ٹھنڈک کم درجہ حرارت کا نام ہے اور گرمی زیادہ درجہ حرارت کا نام ہے لیکن ہم چونہکہ ان کو اپنے حواس خمسہ اور دیگر آلات سے ریکارڈ کر سکتے ہیں اس لیے یہ موجود خیال کرتے ہیں اور ٹھنڈک اور گرمی انسانی اصطلاحات ہیں شدت کو ظاہر کرنے کی۔۔مقناطیسی فلیڈ مختلف تجربات میں اپنی موجدگی ظاہر کرتا ہے تو موجود ہے سائنس اسے تسلیم کرتی ہے۔۔خیال ذہن کے اس ھصے کی کارروائی ہے جسے کارٹیکس کہا جاتا ہے۔۔افرین ہے اپ پر اور پ کے ان پروفیسر پر۔۔اگر خدا موجود ہے اس کا یہ دعوی درست ہے کہ وہ ستر مائوں کے برابر مخبت کرتا ہے تو چلو کچھ دن پہلے کراچی میں ارشد پپو کا سر قلم کر کے دو گھنٹے فٹ بال کھیلا جاتا رہا کہاں تھا تمہارا خدا؟حاملہ خاتون پہ کتے چھوڑ دئے جاتے وہ بلکتی خدا کو پکارتی لیکن ۔۔لاکھوں بچے بوڑھے جراثیم زلزلے گینگ ریپ،ایکسیڈنٹ تو کہاں ہے ستر ماوں کا دعویٰ کرنے والے ۔۔کہ ماں کبھی اپنے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی اب بولوں کیا مصلحت؟کہاں ہے وہ خدا جو اپنے نبی کی شان میں بدترین گستاخی کرنے والوں کی زبان گدی سے نہیں کھنج رہا سلیمان رشدی ابھی تک ازاد گھوم رہا۔۔کہاں ہے وہ جو بنی اسرئیل کے لیے سمندر میں راستہ بنا دیتا لیکن بھوکی ننگی اس قوم پہ اس کو ترس نہیں آتا لوگ ۔تم لوگ پاگلوں کی طرح دعائیں مانگوں حج کرو جو مرضی کرو لیکن اسمان ازل سے خاموش ور ابند تک خاموش رہے گا۔۔سو لگے رہے منا بھائی


              خوش رہیں


              تابانی
              Dr Sahab,
              dhariye kia doghle bhi hote hain jab kisi bare mian baat ki jati hai to ap ye keh kar jan chura lete hain main apne amal ka jawab de hoon, mager jab ye kaha jaye ke qayamat ani hai tu ap us ke munkir ho jate hai janab ye jitni bateen ap ne likhi hian un mian har koi kisi na kisi amal ka jawab de ho ga, aur jab jawab de ho ga to phir ap ki duniya hi ka qanoon hai acha jawab hal karoo ge tu inam mile ga (yani pass) aur burah jawab to (fail), qudrat ka qanoon is per qaim hai,
              to janab apne liye to hisab kitab ka yaqeen rakhte hain mager dosre ke liye kuch aur qanoon hamari zaban mian is ko munafiqat kehte hain Allah hidayat dey AAmeen.
              aur akhir main hamara yaqeen quran ke aik aik lafz per hai shayad ap ka na ho usi quran main likha hai is ka mafhoom bayan kar raha hoon,
              ye kuch bhi kareen wapis to hamare pass aey gey. zulm ki intiha karne wale ko bhi marna to hai aur jawab bhi dena hai.
              hai wo khamoosh to us ki rahmat hai
              tere sabar per barhta hai tarja tera

              Comment

              Working...
              X