اسلام علکیم
طوفان نوح پہ میں دو دفعہ کوشش کر چکا پوسٹ لگانے کی اور دونوں دفعہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کی وجہ سے وہ مکمل نہیں ہو سکی مجھے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہنوز وہ قصہ تشنہ ہی ہے اور پھر جانے کبھی فرصت ملے کہ نہ ملے۔۔فی الحال ایک اور پوسٹ کشتی نوح کی ساتھ حاضر ہوں امید کے ساتھ کہ اسے سے استفادہ یا کم از کم لطف اندوزی کے لیے ایسے قاری آئے گے کہ
قلب اُو مومن وودماغش کافر است
ا
کشتی نوح
طوفان کے آنے سے قبل خدا نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا ( سورۃ ہود37) ۔۔اس کشتی کو مسلمنا کشتی نوح اور عیسائی آرک کا نام دیتے ہیں جب کے مصریوں نے اس محل کا نام دیا لیکن اس کی ساخت لکڑی کے ایک بڑے تیرتے ہوئے مکان کی سی تھی۔۔ادھرریڈ انڈین اسے صنوبر کا درخت قرار دیتے ہیں جسے ’’ نتا ‘‘ نے طوفان سے پہلے اپنی بیوی ’’ نینا ’’ کے لیے کھوکلا کیا تھا
ایک روایت کہتی ہے کہ کشتی نوح کی لمبائی 450 فٹ اور چوڑائی 45 فٹ تھی۔۔جب کے دوسری روایت کے مطابق اس کی تین منزلہ کشتی کی لمبائی 547 فٹ اور چوڑائی 91 فٹ اور بلندی 47 فٹ تھی۔۔قران کےمطابق نوح علیہ اسلام کی عمر ساڑھے نو سو برس تھی۔۔بیضاوی کا کہان ہے کہ کشتی کی تعمیر میں دو سل کی مدت صرف ہوئی جب کہ ڈاکٹر بلیسکی کے مطابق پوری ایک صدی کا عرصہ لگا۔۔
کشتی کی تعمیر مکمل ہونے پر نوح نے چند ایمانداروں کو ساتھ لیا اور تمام پاک و ناپاک جانوروں کے جوڑے رکھ لیئ اور روایت کے مطابق نر و مادہ الگ الگ رکھے
کسوی روایت کے مطابق ہیسدار کو ہیا دیوتا نے اناج اسباب باندیاں اور ھیوانات جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور آریائی روایات کا دیو کلیان جب خندان کے ہمراہ صندوق میں سوار ہوا تو کل حیوانات دوڑتے آئے اور اس میں سوار ہو گئے۔۔ادھر ریڈ انڈین روایات کہ مطابق ٹٹلان دیوتا نے نتا کو ایک بھٹہ مکئی کا اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔۔
طوفان ختم ہونے پر کشتی کہاں گئی؟؟
یونانی دیو مالا کے مطابق زیوس دویاتا کہ کہنے پر ہرمس نے شاہ بلوط کو جو جہاز بنایا تھا وہ پارناسس کی چوٹیوں پر جا کے لگا تھا۔۔
مہا بھارت کے مطابق رشی منو کی کشتی ہماوت کی چوٹی پر جا کہ رکی تھی ۔۔جب کے آرایاوں کے دیو کلیان کا صندوق پارنا سس پہاڑ پر ٹھہرا تھا۔۔سمیریوں کے ’’ جلج موس’’ کی کشتی( جسکی چھ منزلیں، سات درجے اور ہر منزل کے نو حصے تھے ) کوہ نصر پر جا لگی تھی۔
نوح کی کشتی بائبل کے مطابق اراررط پہاڑ پر رکی تھی۔۔قران کے ممطابق وہ جودی پہاڑ تھا بعض لوگوں کے نزدیک جودی اور ارراط ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں یہ ترکی اور آرمینا اور ایران کی سرحدوں کے پاس واقع ہے جسے فارسی میں کوہ نوح کہتے ہیں اس پاس کے علاقے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کبھجی زیر اب رہا ہے۔۔پہلے اس پہاڑ کو اغری تاغ کہتے تھے۔۔عبرانی میں اسے اراد ہو یا ارا تو کہتے ہیں۔۔جب کہ جبل قرداد اور جبل الحارث بھی اسی کے نام ہیں۔۔
گو سینٹ جیکب کے دیاتیوں کا خیال ہے کہاس پہاڑ پر چڑھنا نحوست کو دعوت دینے کے مترادف ہے تاہم اس بات پر بہت لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر اج بھی ارراط کی جمی ہوئی برفانی چوٹی کو کھرچا جائے تو آرک کے اجزا مل سکتے ہیں کیونہ سکندر اعظم کے عہد کے مورخ پروسس نے جودی پر کشتی کے آثار بنظر انے کے بارے میں لکھا تھا 1829 میں ستمبر کی 27 تاریخ کو ایک جرمن پروفیسر پیرٹ نے چوٹی پر چڑھ کر دیکھا تو اس قدیم منجمد برف پ ر گول چبوترے جیسی چوٹی نظر ائی۔۔یہ پہلا ادمی تھا جو جودی پر چڑھا
۔۔1845 میں جرمن پروفیسر ہرمن نے اس سر کیا ایک وہا باز نے کہا کہ اسے چوٹی پر سیاہ دہبہ دکھائی دیا ہے جو شاید کشتی ہے 1970 میں باقعادہ ٹی بنا کر یورپی لوگوں نے کشتی کا رادہ کای تاہم کامیابی نہیں ہوئی
دوسری طرف بعض لوگوں کو دعوی ہے کہ اسرائیل کے شمال میں یانترقی کے جنوبی علاقوں میں کہیں ایک منجمد جھیل ہے جس میں آدھی کشتی باہر اور ادھی اندر ہے جس سال برف کم پڑے تو دیکھی جا سکتی ہے اس کے لکڑی کے تختے 10 انچ موٹے ہیں ج کہ بعض جگہ موٹائی دیڑھ فٹ سے دو فٹ تک اور ہیں کہیں سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔۔
خوش رہیں
پروفیسر بےتاب تابانی
۔22ویں مارچ2013 رات دو بج کر 12 منٹ حاجی شاہ اٹک
طوفان نوح پہ میں دو دفعہ کوشش کر چکا پوسٹ لگانے کی اور دونوں دفعہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کی وجہ سے وہ مکمل نہیں ہو سکی مجھے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہنوز وہ قصہ تشنہ ہی ہے اور پھر جانے کبھی فرصت ملے کہ نہ ملے۔۔فی الحال ایک اور پوسٹ کشتی نوح کی ساتھ حاضر ہوں امید کے ساتھ کہ اسے سے استفادہ یا کم از کم لطف اندوزی کے لیے ایسے قاری آئے گے کہ
قلب اُو مومن وودماغش کافر است
ا
کشتی نوح
طوفان کے آنے سے قبل خدا نے نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا ( سورۃ ہود37) ۔۔اس کشتی کو مسلمنا کشتی نوح اور عیسائی آرک کا نام دیتے ہیں جب کے مصریوں نے اس محل کا نام دیا لیکن اس کی ساخت لکڑی کے ایک بڑے تیرتے ہوئے مکان کی سی تھی۔۔ادھرریڈ انڈین اسے صنوبر کا درخت قرار دیتے ہیں جسے ’’ نتا ‘‘ نے طوفان سے پہلے اپنی بیوی ’’ نینا ’’ کے لیے کھوکلا کیا تھا
ایک روایت کہتی ہے کہ کشتی نوح کی لمبائی 450 فٹ اور چوڑائی 45 فٹ تھی۔۔جب کے دوسری روایت کے مطابق اس کی تین منزلہ کشتی کی لمبائی 547 فٹ اور چوڑائی 91 فٹ اور بلندی 47 فٹ تھی۔۔قران کےمطابق نوح علیہ اسلام کی عمر ساڑھے نو سو برس تھی۔۔بیضاوی کا کہان ہے کہ کشتی کی تعمیر میں دو سل کی مدت صرف ہوئی جب کہ ڈاکٹر بلیسکی کے مطابق پوری ایک صدی کا عرصہ لگا۔۔
کشتی کی تعمیر مکمل ہونے پر نوح نے چند ایمانداروں کو ساتھ لیا اور تمام پاک و ناپاک جانوروں کے جوڑے رکھ لیئ اور روایت کے مطابق نر و مادہ الگ الگ رکھے
کسوی روایت کے مطابق ہیسدار کو ہیا دیوتا نے اناج اسباب باندیاں اور ھیوانات جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور آریائی روایات کا دیو کلیان جب خندان کے ہمراہ صندوق میں سوار ہوا تو کل حیوانات دوڑتے آئے اور اس میں سوار ہو گئے۔۔ادھر ریڈ انڈین روایات کہ مطابق ٹٹلان دیوتا نے نتا کو ایک بھٹہ مکئی کا اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔۔
طوفان ختم ہونے پر کشتی کہاں گئی؟؟
یونانی دیو مالا کے مطابق زیوس دویاتا کہ کہنے پر ہرمس نے شاہ بلوط کو جو جہاز بنایا تھا وہ پارناسس کی چوٹیوں پر جا کے لگا تھا۔۔
مہا بھارت کے مطابق رشی منو کی کشتی ہماوت کی چوٹی پر جا کہ رکی تھی ۔۔جب کے آرایاوں کے دیو کلیان کا صندوق پارنا سس پہاڑ پر ٹھہرا تھا۔۔سمیریوں کے ’’ جلج موس’’ کی کشتی( جسکی چھ منزلیں، سات درجے اور ہر منزل کے نو حصے تھے ) کوہ نصر پر جا لگی تھی۔
نوح کی کشتی بائبل کے مطابق اراررط پہاڑ پر رکی تھی۔۔قران کے ممطابق وہ جودی پہاڑ تھا بعض لوگوں کے نزدیک جودی اور ارراط ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں یہ ترکی اور آرمینا اور ایران کی سرحدوں کے پاس واقع ہے جسے فارسی میں کوہ نوح کہتے ہیں اس پاس کے علاقے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کبھجی زیر اب رہا ہے۔۔پہلے اس پہاڑ کو اغری تاغ کہتے تھے۔۔عبرانی میں اسے اراد ہو یا ارا تو کہتے ہیں۔۔جب کہ جبل قرداد اور جبل الحارث بھی اسی کے نام ہیں۔۔
گو سینٹ جیکب کے دیاتیوں کا خیال ہے کہاس پہاڑ پر چڑھنا نحوست کو دعوت دینے کے مترادف ہے تاہم اس بات پر بہت لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر اج بھی ارراط کی جمی ہوئی برفانی چوٹی کو کھرچا جائے تو آرک کے اجزا مل سکتے ہیں کیونہ سکندر اعظم کے عہد کے مورخ پروسس نے جودی پر کشتی کے آثار بنظر انے کے بارے میں لکھا تھا 1829 میں ستمبر کی 27 تاریخ کو ایک جرمن پروفیسر پیرٹ نے چوٹی پر چڑھ کر دیکھا تو اس قدیم منجمد برف پ ر گول چبوترے جیسی چوٹی نظر ائی۔۔یہ پہلا ادمی تھا جو جودی پر چڑھا
۔۔1845 میں جرمن پروفیسر ہرمن نے اس سر کیا ایک وہا باز نے کہا کہ اسے چوٹی پر سیاہ دہبہ دکھائی دیا ہے جو شاید کشتی ہے 1970 میں باقعادہ ٹی بنا کر یورپی لوگوں نے کشتی کا رادہ کای تاہم کامیابی نہیں ہوئی
دوسری طرف بعض لوگوں کو دعوی ہے کہ اسرائیل کے شمال میں یانترقی کے جنوبی علاقوں میں کہیں ایک منجمد جھیل ہے جس میں آدھی کشتی باہر اور ادھی اندر ہے جس سال برف کم پڑے تو دیکھی جا سکتی ہے اس کے لکڑی کے تختے 10 انچ موٹے ہیں ج کہ بعض جگہ موٹائی دیڑھ فٹ سے دو فٹ تک اور ہیں کہیں سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔۔
خوش رہیں
پروفیسر بےتاب تابانی
۔22ویں مارچ2013 رات دو بج کر 12 منٹ حاجی شاہ اٹک
Comment