Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی



    وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ


    اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‏


    سوره اعراف آیت نمبر ٢٠٤

    سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

    چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالٰی جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھےآیت ( لا تسموعوا لھذا القران والغوا فیہ الخاس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو ۔ اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے کہ امام اقتدا کے کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے ۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو ۔ اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے ۔ امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کیلئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو ۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حدیث(من صلی خلف الا مام فلیقرا بفا تحۃ الکتاب) یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھ لے ۔ پس سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے، اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ (واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں ، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی ۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے حدیث(انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورۃ) یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی ۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم ۔ حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری ۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا؟ ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابوحاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں (مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد وغیرہ میں ہے جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا حدیث(لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا) یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورہ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے ۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔ بلکہ ساتھ ہی فرمادیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں - زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے ۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری ۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور ۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب ، ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گذر چکا ۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورہ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے ۔ صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے ۔ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ (لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ حدیث(کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفاتحتہ الکتاب و سورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب) یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دور کعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرأت ہے ۔ یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبداللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے ۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے ، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا ۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کافرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے ۔ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے ۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت ، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے ۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو ۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا (حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے ۔ ) حضرت حسن فرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر ۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا ۔





  • #2
    Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی


    لولی آپ نے آیت کی جو تشریح بیان کی ہے اس سے آپ کا موقف ثابت ہی نہیں ہوتا۔
    اپ نے اس آیت کی تشریح کے لئے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ کی روایت پیش کی تو جناب اس روایت میں تو واضح الفاظ ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔ اور یہ روایت ہے بھی نماز کے لئے اور اس روایت میں تو خاموشی سے سننے کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ آپ کے موقف کے خلاف ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہی ثابت کرتے ہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو۔




    آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
    اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟

    آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔



    مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
    حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
    (تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
    حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔




    اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟

    یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟




    رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
    عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
    ( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
    سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔




    تفسـيرُ الطبري ، یہ تفسیر شيخ المُفسـرين امام محمد بن جرير الطبري رحمه الله کی ہے اس آيـة مبـاركه کی تفسیر میں صحابه وتابعین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ان تمام اقوال میں سب سے زیاده صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول نماز اور خطبه ہے ، اور ہم نے جو یہ کہا کہ یہ قول سب سے زیاده صحیح اور راجح قول یہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحیح حدیث میں یہ ثابت ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اورتمام علماء کا إجماع ہے کہ جن لوگوں پرجمعه فرض ہے ان پرامام کا خطبه سننےکے دوران توجہ کرنا اور خاموش رہنا لازمی اورضروری ہے اور اس کے ثبوت میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کی بکثرت احادیث موجود ہیں ، پس یہی دو حالتیں ہیں (یعنی نماز اورخطبه) جن میں قراءت قرآن کے وقت خاموش ره کر توجہ کرنا ضروری ہے ، رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، لہذا جو شخص امام کے پیچهے اس کی اقتداء کر رہا ہو اوراس کی قراءت سن رہا ہو تواس پر واجب ہے کہ وه خاموش ہوکر قراءت سنے ، کیونکہ قرآن کے ظاہری الفاظ اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی صحیح حدیث سے یہی ثابت ہے





    2 = تفسـيرُ البغـوي ، یہ تفسیرامام حسين بن مسعود البغوي رحمه الله کی ہے آیت مذکوره کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کیئے اورفرمایا کہ بعض نے اس کا شان نزول خطبه اوربعض نے وعظ وتلاوت کہا ہے اس کے بعد امام حسين بن مسعود البغوي رحمه الله اپنا فیصلہ اس طرح تحریركيا
    والأول أولاها وهو أنها في القراءة في الصلاة لأن الآية مكية والجمعة وجبت بالمدينة . واتفقوا على أنه مأمور بالإنصات حالة ما يخطب الإمام
    تفسـيرُ البغـوي ، سورة الأعراف
    يعنى ان تمام اقوال میں سب سے بہتر وصحیح ترین قول پہلا ہے وه یہ کہ آيـة مبـاركه وإذا قرئ القرآن الخ کا شان نزول صرف نماز ہے اس لیئے کہ یہ آیت مَکہ مُکرمه میں نازل ہوئ ہے اور جمعه مدینه مُنوره میں فرض ہوا ہے ( لہذا خطبه اس کا شان نزول کیسے ہوسکتا ہے) اورعلماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ امام کے خطبه دینے کی حالت میں سننے والے کو خاموش رہنے کا حکم ہے




    3 = تفسير ابن كثير ، یہ امام إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي الشافعي رحمه الله کی تفسیر ہے ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
    تفسير ابن كثير ، سورة الأعراف
    جب الله تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید مومنین کے بصیرت ورحمت وهدایت ہے تو پهر الله تعالی نے اس قرآن کی تعظیم واحترام کا یہ طریقہ بتلایا کہ قرآن کی قراءت کے وقت تم خاموش رہو ، ایسا نہیں جیسا کہ مشرکین وکفار قریش قرآن سنتے وقت شور وغل کرتے تهے ، لیکن احادیث سے تاکید کے ساتهہ خاموش رہنے کا حکم صرف امام کے پیچهے فرض نماز میں اقتداء کرنے والوں کے لیئے معلوم ہوتا ہے ، جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت أبي موسى الأشعري ، رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب امام تکبیر کہے توتم بهی تکبیر کہو اورجب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اسی طرح أهل السنن نے بهی أبي هريرة رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے اورامام مسلم نے اس کی تصحیح کی ہے لیکن اس کو اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا الخ



    4 = تفسير القرطبي ، یہ تفسیر امام محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالکي رحمه الله کی ہے ، امام القرطبي رحمه الله نے بهی آیت کی تفسیر میں دو قول نقل کیئے ایک نماز اور دوسرا خطبه اورپهر اس دوسرے قول کو بحوالہ ابن العربي رحمه الله ضعیف قراردیا کیونکہ خطبه میں قرآن کم پڑها جاتا ہے اورویسے بهی پورے خطبه میں خاموش رہنا واجب ہے الخ
    الأولى : قوله تعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا قيل : إن هذا نزل في الصلاة الخ وقيل : إنها نزلت في الخطبة الخ وهذا ضعيف . لأن القرآن فيها قليل ، والإنصات يجب في جميعها . قاله ابن العربي الخ
    الجامع لأحكام القرآن » سورة الأعراف



    حضرت سعيد بن المسيب تابعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا ابن المثنى قال : حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن رجل ، عن قتادة ، عن سعيد بن المسيب : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة.
    تفسير الطبري



    حضرت مجاهد رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا ابن وكيع قال : حدثنا جرير وابن إدريس ، عن ليث ، عن مجاهد : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة المكتوبة
    تفسير الطبري



    حضرت سعید ابن جُبیر رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ
    فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا المحاربي ، عن ليث ، عن مجاهد ، وعن حجاج ، عن القاسم بن أبي بزة ، عن مجاهد وعن ابن أبي ليلى ، عن الحكم عن سعيد بن جبير : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة المكتوبة .
    تفسير الطبري



    حضرت أبي هريرة رضی الله عنه سے روایت ہے فرمایا کہ وه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پیچهے نماز میں آوازوں کواونچا کرتے تهے تو یہ آیت نازل ہوئ ، وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا
    حدثني العباس بن الوليد قال : أخبرني أبي قال : سمعت الأوزاعي قال : حدثنا عبد الله بن عامر قال : حدثني زيد بن أسلم ، عن أبيه ، عن أبي هريرة ، عن هذه الآية : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : نزلت في رفع الأصوات وهم خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ، في الصلاة .
    تفسير الطبري



    صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
    یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
    (بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص

    ۱۶)
    یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔



    باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
    صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
    اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
    صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔



    حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
    جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.


    ( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)





    عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
    (ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
    (بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

    یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔



    Comment


    • #3
      Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

      Originally posted by i love sahabah View Post

      لولی آپ نے آیت کی جو تشریح بیان کی ہے اس سے آپ کا موقف ثابت ہی نہیں ہوتا۔
      اپ نے اس آیت کی تشریح کے لئے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ کی روایت پیش کی تو جناب اس روایت میں تو واضح الفاظ ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔ اور یہ روایت ہے بھی نماز کے لئے اور اس روایت میں تو خاموشی سے سننے کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ آپ کے موقف کے خلاف ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہی ثابت کرتے ہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو۔




      آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
      اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟

      آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے )تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔



      مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے
      حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
      (تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
      حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔




      اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟

      یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟




      رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے
      عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضۃ
      ( روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج13/ص349/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲)
      سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔




      تفسـيرُ الطبري ، یہ تفسیر شيخ المُفسـرين امام محمد بن جرير الطبري رحمه الله کی ہے اس آيـة مبـاركه کی تفسیر میں صحابه وتابعین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ان تمام اقوال میں سب سے زیاده صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول نماز اور خطبه ہے ، اور ہم نے جو یہ کہا کہ یہ قول سب سے زیاده صحیح اور راجح قول یہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحیح حدیث میں یہ ثابت ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اورتمام علماء کا إجماع ہے کہ جن لوگوں پرجمعه فرض ہے ان پرامام کا خطبه سننےکے دوران توجہ کرنا اور خاموش رہنا لازمی اورضروری ہے اور اس کے ثبوت میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کی بکثرت احادیث موجود ہیں ، پس یہی دو حالتیں ہیں (یعنی نماز اورخطبه) جن میں قراءت قرآن کے وقت خاموش ره کر توجہ کرنا ضروری ہے ، رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، لہذا جو شخص امام کے پیچهے اس کی اقتداء کر رہا ہو اوراس کی قراءت سن رہا ہو تواس پر واجب ہے کہ وه خاموش ہوکر قراءت سنے ، کیونکہ قرآن کے ظاہری الفاظ اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی صحیح حدیث سے یہی ثابت ہے





      2 = تفسـيرُ البغـوي ، یہ تفسیرامام حسين بن مسعود البغوي رحمه الله کی ہے آیت مذکوره کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کیئے اورفرمایا کہ بعض نے اس کا شان نزول خطبه اوربعض نے وعظ وتلاوت کہا ہے اس کے بعد امام حسين بن مسعود البغوي رحمه الله اپنا فیصلہ اس طرح تحریركيا
      والأول أولاها وهو أنها في القراءة في الصلاة لأن الآية مكية والجمعة وجبت بالمدينة . واتفقوا على أنه مأمور بالإنصات حالة ما يخطب الإمام
      تفسـيرُ البغـوي ، سورة الأعراف
      يعنى ان تمام اقوال میں سب سے بہتر وصحیح ترین قول پہلا ہے وه یہ کہ آيـة مبـاركه وإذا قرئ القرآن الخ کا شان نزول صرف نماز ہے اس لیئے کہ یہ آیت مَکہ مُکرمه میں نازل ہوئ ہے اور جمعه مدینه مُنوره میں فرض ہوا ہے ( لہذا خطبه اس کا شان نزول کیسے ہوسکتا ہے) اورعلماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ امام کے خطبه دینے کی حالت میں سننے والے کو خاموش رہنے کا حکم ہے




      3 = تفسير ابن كثير ، یہ امام إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي الشافعي رحمه الله کی تفسیر ہے ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
      تفسير ابن كثير ، سورة الأعراف
      جب الله تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید مومنین کے بصیرت ورحمت وهدایت ہے تو پهر الله تعالی نے اس قرآن کی تعظیم واحترام کا یہ طریقہ بتلایا کہ قرآن کی قراءت کے وقت تم خاموش رہو ، ایسا نہیں جیسا کہ مشرکین وکفار قریش قرآن سنتے وقت شور وغل کرتے تهے ، لیکن احادیث سے تاکید کے ساتهہ خاموش رہنے کا حکم صرف امام کے پیچهے فرض نماز میں اقتداء کرنے والوں کے لیئے معلوم ہوتا ہے ، جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت أبي موسى الأشعري ، رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب امام تکبیر کہے توتم بهی تکبیر کہو اورجب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اسی طرح أهل السنن نے بهی أبي هريرة رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے اورامام مسلم نے اس کی تصحیح کی ہے لیکن اس کو اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا الخ



      4 = تفسير القرطبي ، یہ تفسیر امام محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالکي رحمه الله کی ہے ، امام القرطبي رحمه الله نے بهی آیت کی تفسیر میں دو قول نقل کیئے ایک نماز اور دوسرا خطبه اورپهر اس دوسرے قول کو بحوالہ ابن العربي رحمه الله ضعیف قراردیا کیونکہ خطبه میں قرآن کم پڑها جاتا ہے اورویسے بهی پورے خطبه میں خاموش رہنا واجب ہے الخ
      الأولى : قوله تعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا قيل : إن هذا نزل في الصلاة الخ وقيل : إنها نزلت في الخطبة الخ وهذا ضعيف . لأن القرآن فيها قليل ، والإنصات يجب في جميعها . قاله ابن العربي الخ
      الجامع لأحكام القرآن » سورة الأعراف



      حضرت سعيد بن المسيب تابعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا ابن المثنى قال : حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن رجل ، عن قتادة ، عن سعيد بن المسيب : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة.
      تفسير الطبري



      حضرت مجاهد رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا ابن وكيع قال : حدثنا جرير وابن إدريس ، عن ليث ، عن مجاهد : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة المكتوبة
      تفسير الطبري



      حضرت سعید ابن جُبیر رحمه الله فرماتے ہیں کہ الله تعالی کا یہ فرمان وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له الخ
      فرض نماز کے بارے نازل ہوا ہے حدثنا المحاربي ، عن ليث ، عن مجاهد ، وعن حجاج ، عن القاسم بن أبي بزة ، عن مجاهد وعن ابن أبي ليلى ، عن الحكم عن سعيد بن جبير : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : في الصلاة المكتوبة .
      تفسير الطبري



      حضرت أبي هريرة رضی الله عنه سے روایت ہے فرمایا کہ وه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پیچهے نماز میں آوازوں کواونچا کرتے تهے تو یہ آیت نازل ہوئ ، وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا
      حدثني العباس بن الوليد قال : أخبرني أبي قال : سمعت الأوزاعي قال : حدثنا عبد الله بن عامر قال : حدثني زيد بن أسلم ، عن أبيه ، عن أبي هريرة ، عن هذه الآية : ( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ) قال : نزلت في رفع الأصوات وهم خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ، في الصلاة .
      تفسير الطبري



      صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
      یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
      (بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص

      ۱۶)
      یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔



      باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
      صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
      اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
      صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔



      حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
      جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.


      ( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)





      عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
      (ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
      (بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

      یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔





      سلام

      میرے بھائی ذرا اس حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ نے ویسے ہی بیان کر دی . اپ اس حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں





      صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4


      حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ
      لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ


      اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔







      Comment


      • #4
        Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

        Originally posted by lovelyalltime View Post



        سلام

        میرے بھائی ذرا اس حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ نے ویسے ہی بیان کر دی . اپ اس حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں





        صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4


        حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ
        لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ


        اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔


        لولی یہ جو لکھا ہے کہ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ یہ نبی کریم ﷺ کا قول ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا؟


        میرے بھائی ذرا ان حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے ویسے ہی بیان کر دیں . اپ ان حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں


        صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
        یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
        (بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص

        ۱۶)


        یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔


        باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
        صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
        اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا


        صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔



        عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
        (ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
        (بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)




        یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔

        Comment


        • #5
          Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

          Originally posted by i love sahabah View Post
          لولی یہ جو لکھا ہے کہ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ یہ نبی کریم ﷺ کا قول ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا؟




          سلام

          میرے بھائی یہ پوری کی پوری حدیث ہی حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ نے بیان کی ہے. حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ نے ووہی بات بیان کی جس پر ان کا عمل تھا . اگر ان کے اس عمل پر کوئی اعترض ہوتا تو ضرور کوئی اور صحابی اس پر اعترض کرتا .

          اگر آپ کے پاس اس حدیث پر کوئی جرح ہے تو پیش کریں. اور یہ حدیث سنن ابو داوود میں بھی صحیح سند کے ساتھ روایت ہوئی ہے




          یہ حدیث سنن نسائی میں بھی آئ ہے


          کتاب سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 912

          قتیبہ، مالک، العلاء بن عبدالرحمن، ابوسائب، ہشام ابن زہرة، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے ہرگز پوری نہیں ہے حضرت ابوسائب نے فرمایا کہ میں نے ابوہریرہ سے دریافت کیا کہ میں کبھی کبھی امام کی اقتداء میں ہوتا ہوں تو میں سورہ فاتحہ کس طریقہ سے پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا اور پھر میرا ہاتھ دبایا اور ارشاد فرمایا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لے اس لئے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس فرماتا ہے نماز میرے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہوگئی ہے تو نماز آدھی میرے واسطے ہے اور آدھی میرے بندے کے واسطے ہے اور میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے واسطے موجود ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت بندہ کہتا ہے (اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) تمام تعریف خدا کے واسطے ہے جو کے مالک ہے تمام جہان کا تو خداوند قدوس فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی ہے پھر بندہ کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بہت مہربان اور نہایت رحم والا تو خداوند قدوس فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی پھر بندہ کہتا ہے مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ مالک ہے بدلہ کے دن کا ۔ تو خداوند قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اس کے بعد بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ میرے اور بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے واسطے ہے کہ وہ جو کچھ مانگے پھر بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ہم کو سیدھا راستہ دکھلا دے۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تو نے اپنا فضل وکرم کیا۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔ یعنی نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو ناراض ہوا وہ گمراہ ہو گئے۔ مذکورہ تین آیت کریمہ بندوں کے واسطے ہے وہ جو سوال کرے وہ موجود ہے۔




          یہ حدیث ترمذی میں بھی آئ ہے

          کتاب جامع ترمذی جلد 2 حدیث نمبر 861

          قتیبہ ، عبدالعزیز بن محمد، علاء بن عبدالرحمن، عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز ناقص ہے نامکمل ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا اے فارسی کے بیٹے دل میں پڑھا کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کی نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصہ اپنے لیے اور ایک اس بندے کے لئے۔ پھر میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے لیے ہے۔ چنانچہ جب بندہ کھڑا ہو کر (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء بیان کی جب (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعظیم کی۔ اور یہ خالصتاً میرے لئے ہے اور میرے، اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ پھر (إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) سے آخر تک میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہی ہے جو وہ یہ کہتے ہوئے مانگے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) یہ حدیث حسن ہے۔ شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی راوی علاء بن عبدالرحمن سے وہ اپنے والد سے وہ ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ پھر ابن جریح اور مالک بن انس بھی علاء بن عبدالرحمن سے وہ ابوسائب سے (جو ہشام کے مولی) ہیں وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہں۔ نیز ابن ادریس اپنے والد سے اور وہ علاء بن عبدالرحمن سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے والد اور ابوسائب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی کی ہم معنی روایت کی ہے۔

          یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں بھی آئ ہے

          کتاب سنن ابن ماجہ جلد 1 حدیث نمبر 838

          ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیّہ، ابن جریج، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب، ابوالسائب، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے نماز میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص و ناتمام ہے (راوی کہتے ہیں)
          میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ! میں بسا اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو آپ نے میرا بازو دبایا اور (آہستگی سے) فرمایا (ایسی صورت میں) اس کو اپنے دل ہی دل میں پڑھ لیا کر ۔


          کتاب سنن ابن ماجہ جلد 3 حدیث نمبر 665

          ابومروان محمد بن عثمان عثمانی، عبدالعزیزبن ابی حازم، علاء بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی۔ لہذا آدھی میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کیلئے ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو ! بندہ کہتا ہے (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں حَمِدَنِي عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری حمد بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا (دنیا میں ورنہ آخرت میں) پھر بندہ کہتا (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری ثناء بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ بندہ کہتا ہے (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں مَجَّدَنِي عَبْدِي فَهَذَا لِي وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی۔ یہاں تک کا حصہ میرا تھا اور آئندہ آیت میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے۔ بندہ کہتا ہے ( إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) یہ آیت ہے جو میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا اور سورہ کا آخری حصہ میرے بندے کیلئے ہے۔ بندہ کہتا ہے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ) یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا اسے ملے گا۔


          اور سنن ابو داوود میں ایک اور حدیث بھی آئ ہے صحیح سند کے ساتھ





          آپ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں











          Comment


          • #6
            Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

            Originally posted by i love sahabah View Post
            لولی یہ جو لکھا ہے کہ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ یہ نبی کریم ﷺ کا قول ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا؟


            میرے بھائی ذرا ان حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے ویسے ہی بیان کر دیں . اپ ان حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں


            صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
            یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
            (بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص

            ۱۶)


            یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔


            باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
            صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
            اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا


            صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔



            عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
            (ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
            (بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)




            یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
            لولی یہ جو لکھا ہے کہ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ یہ نبی کریم ﷺ کا قول ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا؟


            میرے بھائی ذرا ان حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے ویسے ہی بیان کر دیں . اپ ان حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں

            Comment


            • #7
              Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

              Originally posted by i love sahabah View Post
              لولی یہ جو لکھا ہے کہ فاتحہ کو دل میں پڑھو۔ یہ نبی کریم ﷺ کا قول ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا؟


              میرے بھائی ذرا ان حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے ویسے ہی بیان کر دیں . اپ ان حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں




              سلام

              جو حدیث آپ نے لگائی ہیں وہ جھری نماز کے بارے میں ہیں یا سری نماز کے بارے میں


              Comment


              • #8
                Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

                تفسير ابن كثير ، یہ امام إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي الشافعي رحمه الله کی تفسیر ہے ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
                تفسير ابن كثير ، سورة الأعراف
                جب الله تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید مومنین کے بصیرت ورحمت وهدایت ہے تو پهر الله تعالی نے اس قرآن کی تعظیم واحترام کا یہ طریقہ بتلایا کہ قرآن کی قراءت کے وقت تم خاموش رہو ، ایسا نہیں جیسا کہ مشرکین وکفار قریش قرآن سنتے وقت شور وغل کرتے تهے ، لیکن احادیث سے تاکید کے ساتهہ خاموش رہنے کا حکم صرف امام کے پیچهے فرض نماز میں اقتداء کرنے والوں کے لیئے معلوم ہوتا ہے ، جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت أبي موسى الأشعري ، رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب امام تکبیر کہے توتم بهی تکبیر کہو اورجب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ، اسی طرح أهل السنن نے بهی أبي هريرة رضي الله عنه کی حدیث روایت کی ہے اورامام مسلم نے اس کی تصحیح کی ہے لیکن اس کو اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا الخ



                4 = تفسير القرطبي ، یہ تفسیر امام محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالکي رحمه الله کی ہے ، امام القرطبي رحمه الله نے بهی آیت کی تفسیر میں دو قول نقل کیئے ایک نماز اور دوسرا خطبه اورپهر اس دوسرے قول کو بحوالہ ابن العربي رحمه الله ضعیف قراردیا کیونکہ خطبه میں قرآن کم پڑها جاتا ہے اورویسے بهی پورے خطبه میں خاموش رہنا واجب ہے الخ
                الأولى : قوله تعالى وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا قيل : إن هذا نزل في الصلاة الخ وقيل : إنها نزلت في الخطبة الخ وهذا ضعيف . لأن القرآن فيها قليل ، والإنصات يجب في جميعها . قاله ابن العربي الخ
                الجامع لأحكام القرآن » سورة الأعراف
                tafseer ibne kaseer
                Click image for larger version

Name:	Note.jpg
Views:	1
Size:	188.0 KB
ID:	2424694
                http://www.islamghar.blogspot.com/

                Comment


                • #9
                  Re: سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

                  امام ابو حنیفہ کے نزدیک فاتحہ خلف الامام مستحب ہے :

                  علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے
                  نانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں:

                  لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔



                  خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
                  http://www.islamghar.blogspot.com/

                  Comment

                  Working...
                  X