اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كرليا كرو
( النحل ٤٣)
ہمارے دوست احباب بڑے شدومد سے اس آیت کو تقلید کے جواز میں پیش کرتے ہیں حالانکہ اس آیت میں تقلید کا ارشاد تک موجود نہیں جس سے آئمہ کی تقلید ثابت ہوسکے۔۔۔ بلکہاس آیت میں تو یہ بتانا مقصود تھا کے تم جس جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہو محض اس لئے کے وہ بشر ہے اور تم اس کے مقام سے ناآشنا ہوتو اہل کتاب سے پوچھ لو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جتنے رسول آئے وہ سبھی بشر تھے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ مجھ صلی اللہ علیہ وسلم انہی سچے رسولوں میں سے ایک ہیں اب اس آیت کے مکمل الفاظ ملاحظہ کیجئے۔۔۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو (النحل ٤٣)۔۔۔
اس آیت کے سیاق وسباق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت کے مخاطب مشرکین ہیں اور اہل ذکر سے مراد اہل کتاب ہیں اس آیت میں ایک خاص اعتراض کے رفع کرنے میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جارہا ہے کیونکہ وہ صحائف انبیاء اور آسمانی کتابوں سے واقف تھے حالانکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے تو پھر ان سے سوال کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے علم کی بناء پر تمہیں بتادیں گے کہ رسول بشر ہی ہوتا ہے اور رسول کا بشر ہونا اس قدر واضح ہے کہ اہل کتاب سے بھی اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے اور پھر اس کی اگلی آیت میں تبلیغ کا حکم ہے۔۔۔
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں (النحل ٤٤)۔۔۔
اس آیت کے کے ابتدائی الفاظ کس قدر واضح ہیں کے اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ذمے اس کتاب کی تبلیغ ہے اور تبلیغ کن لوگوں کو کرنی ہے؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ کہ جن کی طرف یہ قرآن نازل کیا گیا ہہے تاکہ وہ غور فکر کریں اب دیکھئے پہلے ذکر کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور پھر مخاطبین کی طرف ہے۔۔۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور مخاطبین کی نسبت میں واضح فرق کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تبلیغ فرض ہے اور مخاطبین پر غوروفکر تو بھائی (مقلد) یہاں کسی ایک کی تخصیص کیسے ہوسکتی ہے جب کہ آپ خاص لوگوں کی طرف رسول بن کر نہیں آئے بلکہ تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجئے گئے ہیں اور تمام کو ہی غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے پھر یہ بات بھی مدنظر رکھیئے کے قرآنی اصطلاح میں ذکر وہ ہوگا جو اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہوا ہو جو اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل نہیں ہوا وہ قطعی ذکر نہیں ہوسکتا اور وہ عالم بھی عالم نہیں کہلائے گا جو ذکر سے واقف نہیں تو کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی کے قیاس کو دین بنا لیا جائے یہ بات اس آیت کے صریح خلاف ہوگی کے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی اور پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے کیونکہ علم وہ ہے جو اللہ رب عزت کی طرف سے ہو اور علماء وہ ہیں جو قیاسات کو چھوڑ کر کتاب وسنت کو اپناتے ہیں مقلد جاہل ہوتا ہے اور جاہل کو غور فکر کی حاجت ہی کیا لیکن اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ذکر کے ساتھ غوروفکر کو لازم قرار دیا ہے جو بھی مسلمان ہوگا اس کو کتاب کے مطابق غور خوض کرنا ہوگا لیکن مقلد تو صرف اپنے امام کی رائے کو ہی کافی سمجھتا ہے تو ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کے تقلید کے دعوے دار اس آیت سے عامی (جاہل) کے لئے علماء کی طرف رجوع کرنا لازمی قرار دیتے ہیں تو اس بات میں کوئی شک بھی کیا ہوسکتا ہے کہ جاہل نے تو آخر علماء کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے البتہ اس کے لئے غوروفکر کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ وہ صرف کسی عالم کی بات کو اس لئے قبول نہ کرے کہ یہ بات فلاں عالم کی ہے بلکہ وہ اس میں دیکھے کے عالم نے جو فتوٰی دیا ہے کیا وہ کتاب وسنت کے موافق ہے یا نہیں۔۔۔۔
اس بات سے یہ شبہ پیدا نہ ہوکے جو کسی مسئلہ میں خود تحقیق کرسکتا ہے کہ وہ مسئلہ کتاب وسنت کے موافق ہے یا نہیں اس کو کسی سے فتوٰی لینے کی ضرورت ہی کیا ہے تو اس شبہ کے رفع کرنے میں عرض یہ ہے ک عامی مفتی سے دلیل تو طلب کر سکتا ہے کہ بتائیے آپ نے جو فتوی دیا ہے اس کی کتاب وسنت میں کیا اصل ہے جب مفتی دلیل بیان کرے تو وہ تقلید نہ رہے گی کیونکہ تقلید میں دلیل کا وجود نہیں ہوتا۔۔۔
عزیز دوستوں!۔۔۔
یہاں پر میں سوال آپ سے کرتا ہوں کے کیا آپ وہ بننا چاہتے ہیں (جس کو دلیل کی ضرورت نہیں) یا قرآن کی آیت کی وجہ سے تحقیق کر کے متبع بننا چاہتے ہیں۔۔۔
اب ہم مقلدین سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں ہیں کہ آخر اس آیت میں اللہ تعالٰی نے تقلید شخصی کو کہاں واجب قرار دیا ہے؟؟؟۔۔۔ اگر اس آیت سے تقلید شخصی کو کوئی پہلو نکلتا بھی ہے تو آج تک ان الفاظ کو بیان کیوں نہیں کیا گیا تھا؟؟؟۔۔۔ بلکہ اس آیت سے یہی معلوم ہوا ہے کے اگر تم علم سے واقفیت نہیں رکھتے تو کسی اہل علم سے پوچھ لو تو اس میں کسی ایک کی تخصیص کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ تم فلاں شخص سے مسئلہ پوچھو اور اس کے فتوٰی پر عمل کرو اگر مقلدین کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہاں پر ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا اسلام میں اہل علم چار ہی ہوئے ہیں اور ان کے بعد علم کا دروازہ بند کردیا گیا؟؟؟۔۔۔ یا ان چاروں نے بعد میں آنے والوں کو قیامت تک کے لئے علمی ضرورت سے مستثٰنی کردیا؟؟؟۔۔۔ ظاہر کے کہ کوئی بھی مقلد اس کا جواب نہیں دے سکتا چنانچہ مسئلہ صاف ہوگیا کے اہل ذکر سے مراد ہر دور کے وہ علماء ہیں جو ذکر (کتاب وسنت) پر عمل پیرا ہوں۔۔۔
پھر اس آیت کریمہ میں وہ کونسا لفظ ہے جس کا معنی تقلید ہے؟؟؟۔۔۔ اگر کہیں کے اس میں سوال کا ذکر ہے تو ہم کہتے ہیں کے بھائی (مقلد) دنیا کی کسی لغات میں سوال کا معنی مقلد نہیں اگر ہے تو پیش کیا جائے؟؟؟۔۔۔ اگر سوال کے معنی تقلید ہیں تو قرآن میں کئی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا ہے کہ آپ فلاں سوال کریں تو کیا اس کا معنی ہوگا کے اے رسول تم بھی فلاں کی تقلید کرو (معاذ باللہ)۔۔۔
اگر آج کے مقلد مفتی فتوٰی دیتے وقت فقہ کی کتابوں سے متقدمین کی عبارت کو نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں تو کون سی چیز مانع ہے کہ وہ قرآن اور کُتب احادیث (جو وحی کے مبارک الفاظ ہیں) سے نقل کر کے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی بھی حاصل کریں اور ثواب بھی پائیں۔۔۔
المختصر یہ آیت کسی طریقہ سے بھی تقلید کو ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ تو تقلید کے خلاف ایسی واضح آیت ہے جس کا انکار طالب حق سے ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ بلکہ اس آیت نے تو تقلیدی ذہن رکھنے والے مقلدین کی بخیں اُدھیڑ دیں۔۔۔۔