نمازِ عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنے سے قربانی نہیں ہوتی جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا، وہ اپنے لئے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد کیا، اس کی قربانی مکمل ہو گئی۔ اور وہ مسلمانوں کے طریقے کو پہنچا ہے۔''
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں۔ شہر، بستی اور گائوں والے سب اس میں داخل ہیں۔ اب تو شہر والوں کے ساتھ خاص کرنے کے لئے دلیل چاہئے جو صحیح اور صریح نص ہو ، لیکن ایسی کوئی صحیح دلیل ہے ہی نہیں۔ احناف چونکہ گائوں والوں پر نمازِ عید کو واجب نہیں سمجھتے جیسا کہ احناف کی معتبر کتاب ہدایہ میں ہے
''کہ نمازِ عید اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز واجب ہے۔''
(ہدایہ اوّلین ص۱۷۱)
اور جمعہ کے بارے میں یہ لکھا گیا
''کہ جمعہ صرف بڑے شہر یا شہر کی عید گاہ میں صحیح ہے اور بستیوں ، دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں ہے۔''
(ہدایہ اوّلین، ص۱۲۸)
ان دونوں عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ احناف کے نزدیک نہ جمعہ گائوں میں اور نہ عید پڑھی جا سکتی ہے یہ مذہب بالکل باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے
اے ایمان والوں ، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے آواز دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑکر آئو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
(الجمعۃ)
یہ آیت کریمہ سب لوگوں کے لئے ہے۔ بڑے چھوٹے شہر، گائوں اور بستی والوں سب کو یہ حکم ہے، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے جو اس کی تخصیص کرے کہ یہ صرف بڑے شہر والوں کے لئے ہے اور چھوٹے شہر، گائوں اور بستی والوںکو یہ حکم نہیں۔ اس کے علاوہ بخاری شریف میں حدیث ہے
''کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ کے بعد کا سب سے پہلا جمعہ عبدالقیس کی مسجد بحرین کی جواثی نامی بستی میں پڑھایا گیا۔''
حافظ ابنِ حجر من البحرین کی وضاحت میں لکھتے ہیں
''ایک روایت میں ہے کہ یہ بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی اور دوسری روایت میں ہے عبدالقیس کی بستیوں میں سے تھی۔''
یہ بات مسلم ہے کہ عبدالقیس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر جمعہ نہیں پڑھا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ نزول وحی کے زمانہ میں اپنی طرف سے شرعی امور کے موجد بن جاتے ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی طرف سے یہ کام کر لیا تو قرآن ہی میں نازل ہو جاتا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عزل کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ اگر عزل درست نہ ہوتا تو قرآن نازل ہو جاتا ۔ جب اس بارے میں قرآن نازل نہیں ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا تو ثابت ہو گیا کہ یہ امر جائز ہے۔ اللہ کے رسول کی ایک صحیح حدیث یہ بھی ہے کہ
''جماعت کے ساتھ جمعہ ہر مسلمان پر واجب ہے سوائے چار آدمیوں کے۔''
(ابو دائود)
اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گائوں اور بستیاں والے بھی مسلمان ہیں جیسا کہ شہر والے مسلمان ہیں اور جمعہ مسلمان پر واجب ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ پہنچ کر جمعہ اور عیدین کی نماز شروع کی، اس وقت مدینہ بھی ایک بستی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اپنی پاک زبان سے بستی قرار دیا ہے کہ
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ بستی میں پڑھا گیا
(بخاری مسلم )
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جمعہ اور عیدین بستی میں پڑھی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں بغیر دلیل شرعی کے ان نصوص کی تخصیص کرنے والے۔ باقی احناف جس اثر سے استدلال کرتے ہیں کہ
(الا جمعۃ ولاتشریق ولافطرولااضحی الافی مصرجامع)
(ابن ابی شیبہ ہدایہ اولین ص ۱۶۸)
یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر صحیح نہیں ہے، امام نووی کہتے ہیں ''متّفق علیٰ ضعفہ''کہ اس کے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس روایت کی سند میں سید نا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا حارث اعور کذاب ہے۔ امام شعبی اور علی بن المدینی نے بھی اسے کذاب کہا ہے۔ ابنِ حبان کہتے ہیں
''کہ غالی شیعہ اور حدیث بھی بالکل کمزور تھا۔''
اس کی سند میں جابر جعفی بھی ہے جس کے بارے میں امام ابو حنیفہ کا فیصلہ ہے کہ (ما رایت اکذب منہ) کہ ''میں نے اس سے زیادہ جھوٹا آدمی نہیں دیکھا ۔ اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی یہ قرآن کی آیت اور احادیث کی تخصیص کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کرنے والے بھی ہیں۔ خود احناف کے اپنے اصول کے مطابق بھی کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے نہیں ہو سکتی اور یہ تو خبر واحد بھی نہیں ہے۔ تو ثابت ہو گیا کہ جمعہ گائوں والوں پر بھی واجب ہے اس طرح عید بھی پڑھنی چاہیے اور قربانی عید سے پہلے ہو ہی نہیں سکتی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ احناف نے شہر والوں کے لئے پھر بھی نمازِ عید سے پہلے قربانی ذبح کرنے کا ایک حیلہ ایجاد کر رکھا ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے
''کہ شہر میں رہنے والا اگر جلدی کرنا چاہتا ہے تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ اپنی قربانی کو کسی گائوں میں بھیج دے اور وہاں طلوع فجر کے بعد ذبح کر دی جائے اور پھر گوشت شہر میں لا کر استعمال کرے۔
(ہدایہ اخیرین ، ص۴۴۶)
حیلہ کے استعمال سے صحیح حدیث کے حکم کو ٹالنے کی یہ صورت مچھلی والوں کے ساتھ کس قدر مشابہت رکھتی ہے ہمارے ثقہ بھائیوں نے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت والے اس پر آج بھی عمل کرتے ہیں اور جب عید کی نماز سے فارغ ہو کر واپس آتے ہیں گوشت کھانے کے لئے تیار ہو تا ہے جو کہ پہلے سے ذبح کر کے لایا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنا چاہیے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اس طرح حیلے بنا کر رَد کر دیتے ہیں اور یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ایسی قربانی ہر گز جائز نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ واللہ اعلم