Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں


    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز کی کیفیت و ہییت بیان فرمائی ہے اس کی دائیگی میں مرد و عورت برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

    تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ھو

    (بخاری مع فتح الباری ۲/۱۱۱، مسند احمد۵/۵۲، ارواء الغلیل حدیث نمبر ۲۱۳١٣)

    یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز ہیئت ایک جیسی ہے سب کیلئے تکبیر تحریمہ قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعاء استفتاح پڑھنا، سورہ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفیع الیدین رکوع، قیام ثانی، رفع یدین، سجدہ ، جلسہ استراحت ، قعدہ اولیٰ ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ ، تورک، درود پاک اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک ، مر دحال قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں او ر عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں یہ کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں ۔

    چنانچہ امام شوکافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

    اور جان لیجئے کہ یہ رفع یدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جوان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حدیث وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقتدار پر دلالت کرتی ہو اور احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس لئے زیادہ سا تر ہے لیکن اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ''۔

    ( نیل الا وطار ۲/۱۹۸)

    شارح بخاری امام حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ شمس الحق عظیم آابادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

    مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کیلئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ۔

    (فتح الباری۲٢/۲۲۲، عوں المعبود ۱/۲۶۳)

    مردوں اور عورتوں کے حال قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھیں خاص طور پر عورتوں کیلئے علیحدہ حکم دینا کہ وہ ہی صرف سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں اس لئے حنفیوں کے پاس کوئی صریح و صحیح حدیث موجود نہیں ۔

    علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ترمزی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ

    پس جان لو کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر امام بو حنیفہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں ہے ۔

    (تحفہ الا حوذی ۱/۲۱۳)


    محدث عصر علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں

    اور سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر بے اصل ہے ۔

    (صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم /۸۸)

    حالت سجدہ میں مردوں کا پانی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوعورتوں کے پاس گزر ے جو نماز پڑے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سجدہ کر وتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسانہیں ۔

    علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں

    روایت مرسل ہے جو قابل حجت نہیں امام ابو داؤد نےا سے مراسیل میں یزید بن ابی حبیبت سے روایت کیا ہے مگر یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متورک بھی علامہ ابن التر کمانی حنفی نے الجوھر النقی علی السنن الکبری للبیھقی ۲٢/۲۲۳پر تفصیل سے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے ۔

    اس بارے میں حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے اس طرح کہ اس کیلئے زیادہ سے زیادہ پردہ کا موجب ہو ۔ یہ روایت السنن الکبری للبیہقی ٢۲/ ۲۲۲۔ ۲۲۳ میں موجود ہے لیکن اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ

    قنوت نازلہ شرعیت اسلامیہ اور فقہ حنفیہ کی نظر میں "وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھے"۔ مگر اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے۔(تقریب ۱۸۲)
    پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کرنے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں

    مگر اس طریقہ کے خلاف رسول اللہ کے متعد ارشاد مروی ہیں چند ایک یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔
    '' تم سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے دونوں بازے کتے کی طرح نہ بچھائے''

    سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازہ کتے کی طرح نہ بچھائے ۔

    غرض نماز کے اند رایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح ہوں۔ امام بن قیمہ فرماتے ہیں ـ

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑ کی طرح اِ دھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرف افتراش یا کتے کی طرح اقعاء کو ے کی طرح ٹھونگیں مار نا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع نہیں ۔

    پس ثابت ہو اکہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے

    جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ ہی اپنے پہلوؤں سے ملاتے تھے ۔

    بخاری مع فتح الباری ۲٢/ ۳۰۱، سنن ابو داؤد مع عون۱/۳۳۹، السنن الکبری للبیہقی۲/۱۱۶، شرح السنہ للبغوی
    (۵۵۷)

    قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وار دہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں فرمایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیئت نماز کا مفرق مروی نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم کے عہدِ رسالت سے جملہ اُمہات المومنین ، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ کا ہوتا تھا ۔ چنانچہ امام بخاری نے بسند صحیح اُم درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے

    وہ نما ز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں ۔

    ( تاریخ صغیر للبخاری ٩٠)

    چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے

    '' تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔''

    ا س حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔

    پانچویں بات یہ ہے کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین محدثین اور صلحائے اُمت میں سے کوئی بھی ایسامرد نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عوتوں کی نماز میں فرق کیا ہو

    بلکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے استاذ کے استاذ امام ابرہیم نحعی سے بسند صحیح مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں

    نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے ۔

    (مصنف ابن ابی شیبہ۱/۷۵/۲)

    جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کیلئے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا قیام میں ہاتھ سینہ پر باندھنا اور سجدہ میں زمین کے چاتھ چپک جانا موجب ستر بتایا ہے۔ وہ دراصل قیاس فاسد کی بناء پر ہے کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن وسنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر از خود دین میں اضافہ کرے۔ البتہ نماز کی کیفیت وہیئت
    کے علاوہ چند مرد و عورت کی نماز مختلف ہیں ۔

    عورتوں کیلئے اوڑھنی او پر لے کر نماز پڑحنا حتی کہ اپنی ایڑیوں کو بھی ڈھکنا ضروی ہے۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔

    (ابن ماجہ (۶۵۵)۱/۲۱۵، ابوداؤد (۶۴۱) ، مسند احمد۶/۱۵۰،۲۱۸،۲۵۹)

    لیکن مردوں کیلئے کپڑا ٹخنوں سے اوپر ہونا چہائے کیونکہ بکاری شریف میں آتا ہے ہے کہ

    کپڑے کا ٹخنے سے نیچے ہونا باعث آگ ہے۔

    عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو اس کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو ۔ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور امام حاکم نے سیدنا عطاء سے بیان کیا ہے کہ

    سیدہ عائشہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں ۔

    اور اُ م سلمہ کی روایت میں آتا ہے کہ

    انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔

    ( مزید تفصیل کیلئے عون المعبود۲/۲۱۲ ملاحظہ فرمائیں )



    امام جب نماز میں بھول جائے تو ا سے متنبہ کرنے کیلئے مرد سبحان اللہ کہے اور عورت تالی بجائے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے

    '' مردوں کیلئے سبحان اللہ اور عورتوں کیلئے تالی ہے ''

    (بخاری ٢۲/۶۰، مسلم۲/۲۷، ابو داؤد (۹۳۹) ، ابن ماجہ۱/۲۲۹، نسائی۳/۱۱، مسند احمد۲/۲۶۱١،۳۱۷،۳/۳۴۸)

    ۴ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالتِ حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، دارمی اور مسند احمد میں موجود ہے۔

    اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوئی ہے ۔

    مسلم کتاب الصلوٰۃ ، ابو داؤد، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد۲/۴۸۵،۲۴۷،۳/۳،۱۶ میں حدیث موجو دہے ۔

    یہ مسائل اپنی جگہ پر درست اور قطعی ہیں مگر ان میں تمام تصریفات منصوصہ کو مروجہ تصریفات غیر منصوصہ کیلئے ہر گز دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ یہ تفریقات علماء احناف کی خودساختہ ہیں جن کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔


  • #2
    Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

    Originally posted by lovelyalltime View Post

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز کی کیفیت و ہییت بیان فرمائی ہے اس کی دائیگی میں مرد و عورت برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

    تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ھو

    (بخاری مع فتح الباری ۲/۱۱۱، مسند احمد۵/۵۲، ارواء الغلیل حدیث نمبر ۲۱۳١٣)

    یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز ہیئت ایک جیسی ہے سب کیلئے تکبیر تحریمہ قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعاء استفتاح پڑھنا، سورہ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفیع الیدین رکوع، قیام ثانی، رفع یدین، سجدہ ، جلسہ استراحت ، قعدہ اولیٰ ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ ، تورک، درود پاک اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک ، مر دحال قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں او ر عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں یہ کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں ۔

    چنانچہ امام شوکافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

    اور جان لیجئے کہ یہ رفع یدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جوان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حدیث وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقتدار پر دلالت کرتی ہو اور احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس لئے زیادہ سا تر ہے لیکن اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ''۔

    ( نیل الا وطار ۲/۱۹۸)

    شارح بخاری امام حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ شمس الحق عظیم آابادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

    مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کیلئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ۔

    (فتح الباری۲٢/۲۲۲، عوں المعبود ۱/۲۶۳)

    مردوں اور عورتوں کے حال قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھیں خاص طور پر عورتوں کیلئے علیحدہ حکم دینا کہ وہ ہی صرف سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں اس لئے حنفیوں کے پاس کوئی صریح و صحیح حدیث موجود نہیں ۔

    علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ترمزی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ

    پس جان لو کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر امام بو حنیفہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں ہے ۔

    (تحفہ الا حوذی ۱/۲۱۳)


    محدث عصر علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں

    اور سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر بے اصل ہے ۔

    (صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم /۸۸)

    حالت سجدہ میں مردوں کا پانی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوعورتوں کے پاس گزر ے جو نماز پڑے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سجدہ کر وتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسانہیں ۔

    علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں

    روایت مرسل ہے جو قابل حجت نہیں امام ابو داؤد نےا سے مراسیل میں یزید بن ابی حبیبت سے روایت کیا ہے مگر یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متورک بھی علامہ ابن التر کمانی حنفی نے الجوھر النقی علی السنن الکبری للبیھقی ۲٢/۲۲۳پر تفصیل سے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے ۔

    اس بارے میں حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے اس طرح کہ اس کیلئے زیادہ سے زیادہ پردہ کا موجب ہو ۔ یہ روایت السنن الکبری للبیہقی ٢۲/ ۲۲۲۔ ۲۲۳ میں موجود ہے لیکن اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ

    قنوت نازلہ شرعیت اسلامیہ اور فقہ حنفیہ کی نظر میں "وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھے"۔ مگر اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے۔(تقریب ۱۸۲)
    پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کرنے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں

    مگر اس طریقہ کے خلاف رسول اللہ کے متعد ارشاد مروی ہیں چند ایک یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔
    '' تم سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے دونوں بازے کتے کی طرح نہ بچھائے''

    سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازہ کتے کی طرح نہ بچھائے ۔

    غرض نماز کے اند رایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح ہوں۔ امام بن قیمہ فرماتے ہیں ـ

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑ کی طرح اِ دھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرف افتراش یا کتے کی طرح اقعاء کو ے کی طرح ٹھونگیں مار نا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع نہیں ۔

    پس ثابت ہو اکہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے

    جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ ہی اپنے پہلوؤں سے ملاتے تھے ۔

    بخاری مع فتح الباری ۲٢/ ۳۰۱، سنن ابو داؤد مع عون۱/۳۳۹، السنن الکبری للبیہقی۲/۱۱۶، شرح السنہ للبغوی
    (۵۵۷)

    قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وار دہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں فرمایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیئت نماز کا مفرق مروی نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم کے عہدِ رسالت سے جملہ اُمہات المومنین ، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ کا ہوتا تھا ۔ چنانچہ امام بخاری نے بسند صحیح اُم درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے

    وہ نما ز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں ۔

    ( تاریخ صغیر للبخاری ٩٠)

    چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے

    '' تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔''

    ا س حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔

    پانچویں بات یہ ہے کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین محدثین اور صلحائے اُمت میں سے کوئی بھی ایسامرد نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عوتوں کی نماز میں فرق کیا ہو

    بلکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے استاذ کے استاذ امام ابرہیم نحعی سے بسند صحیح مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں

    نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے ۔

    (مصنف ابن ابی شیبہ۱/۷۵/۲)

    جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کیلئے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا قیام میں ہاتھ سینہ پر باندھنا اور سجدہ میں زمین کے چاتھ چپک جانا موجب ستر بتایا ہے۔ وہ دراصل قیاس فاسد کی بناء پر ہے کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن وسنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر از خود دین میں اضافہ کرے۔ البتہ نماز کی کیفیت وہیئت
    کے علاوہ چند مرد و عورت کی نماز مختلف ہیں ۔

    عورتوں کیلئے اوڑھنی او پر لے کر نماز پڑحنا حتی کہ اپنی ایڑیوں کو بھی ڈھکنا ضروی ہے۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔

    (ابن ماجہ (۶۵۵)۱/۲۱۵، ابوداؤد (۶۴۱) ، مسند احمد۶/۱۵۰،۲۱۸،۲۵۹)

    لیکن مردوں کیلئے کپڑا ٹخنوں سے اوپر ہونا چہائے کیونکہ بکاری شریف میں آتا ہے ہے کہ

    کپڑے کا ٹخنے سے نیچے ہونا باعث آگ ہے۔

    عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو اس کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو ۔ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور امام حاکم نے سیدنا عطاء سے بیان کیا ہے کہ

    سیدہ عائشہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں ۔

    اور اُ م سلمہ کی روایت میں آتا ہے کہ

    انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔

    ( مزید تفصیل کیلئے عون المعبود۲/۲۱۲ ملاحظہ فرمائیں )



    امام جب نماز میں بھول جائے تو ا سے متنبہ کرنے کیلئے مرد سبحان اللہ کہے اور عورت تالی بجائے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے

    '' مردوں کیلئے سبحان اللہ اور عورتوں کیلئے تالی ہے ''

    (بخاری ٢۲/۶۰، مسلم۲/۲۷، ابو داؤد (۹۳۹) ، ابن ماجہ۱/۲۲۹، نسائی۳/۱۱، مسند احمد۲/۲۶۱١،۳۱۷،۳/۳۴۸)

    ۴ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالتِ حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، دارمی اور مسند احمد میں موجود ہے۔

    اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوئی ہے ۔

    مسلم کتاب الصلوٰۃ ، ابو داؤد، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد۲/۴۸۵،۲۴۷،۳/۳،۱۶ میں حدیث موجو دہے ۔

    یہ مسائل اپنی جگہ پر درست اور قطعی ہیں مگر ان میں تمام تصریفات منصوصہ کو مروجہ تصریفات غیر منصوصہ کیلئے ہر گز دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ یہ تفریقات علماء احناف کی خودساختہ ہیں جن کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔



    لولی نے جو بخاری کی حدیث پیش کی اس حدیث میں عورتوں کا ذکر ہی نہیں ہے اور مالک بن حویرث رضی اللہ کی یہ روایت انہوں نے جماعت کے ساتھ ادا کی تھی.
    سعودیہ کے مشہور عالم شیخ عطیہ سالم رح نے اپنے حرم کے دروس میں نبی کریم ﷺ کے مجافات ( اعضاء کو کشادہ کرنا) کا ذکر کیا پھر عام مرد حضرات کے لئے مجافات ( اعضاء کو کشادہ کرنا) کا ذکر کیا اور اس کے لئے یہ حدیث بیان کی ( صلوا كما رأيتموني أصلي ).اور اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ "ہم نے متنبہ کیا ہے کہ مجافات کا حکم مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے"
    ( شرح بلوغ المرام للشیخ عطیہ سالم، باب کتاب الصلوۃ۔

    یہی بات مشہور اہلحدیث عالم شیخ محمد عبدالحق ہاشمی رح نے بیان کی کہ یہ حدیث ظاہراََ مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے۔
    ( نصب العمود فی تحقیق مسائلہ تجافی المراۃ فی الرکوع والسجود، از رسائل ھاشمی،صفحہ 92)
    بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ ابراہیم نخعی رح کے اثر سے معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں مشہور تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ اور تابعین مردوں کے لئے اس مسئلہ تجافی( اعضاء کو کشادہ کرنا) کے قائل تھے عورتوں کے لئے نہیں تھے۔اور حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور شارحین احادیث کے اس مسئلہ پہ بہت اقوام ہیں۔
    ( نصب العمود فی تحقیق مسائلہ تجافی المراۃ فی الرکوع والسجود، از رسائل ھاشمی،صفحہ 80
    انہوں نے تو تمام ائمہ اربعہ اور بہت سے فقہاء ستٓے ثابت کیا کہ نماز میں اعضاء کو کشادہ کرنے کے مسئلہ میں عورتوں اور مردوں کے طریقہ میں فرق ہے۔
    )

    لولی نے فتح الباری کا حوالہ دیا ہے تو علامہ ابن حجر عسقلانی رح اسی کتاب میں اس حدیث ( صلوا كما رأيتموني أصلي ) کے بارے میں فرمایا ہے کہ
    "یہ خطاب کے لحاظ سے مالک بن حویرث رضی اللہ اور ان کے رفقاء کے لئے ہے کہ وہ نماز اس طریقہ پہ پڑھیں جس طریقہ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پڑھتے ہوئے دیکھا البتہ اس حکم میں ان کے ساتھ پوری امت اس شرط پہ شامل ہو گی بشرطیکہ ان کیفیات پر نبی کریم ﷺ کا آخیر زندگی تک دوام اور استمرار ثابت ہو''
    ( فتح الباری، جلد 13 صفحہ 237)
    اب لولی کو چاہیے کہ علامہ ابن حجر کی بات مانتے ہوئے اس عمل پہ دوام ثابت کریں۔


    حضرت براء رضی اللہ کی حدیث ہے کہ ''نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تو سجدہ کر تو اپنی ہتھیلیاں زمین پہ رکھ اور کہنیوں کو اٹھا لے''
    ( صحیح مسلم، حدیث 1099)
    یہ حدیث بیان کرنے کے بعد اہلحدیث کے مشہور عالم محمد بن اسماعیل صنعانی رح لکھتے ہیں کہ '' کہنیاں اوپر اٹھانے کا حکم مرد کے حق میں ہے عورت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ عورت کا حکم مرد کے حکم کے خلاف ہے۔اور اس پہ دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے یزید بن ابی حبیب سے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین کے ساتھ ملا دیا کرو کیونکہ عورت مرد کی طرح نہیں ہے''
    ( سبل السلام شرح بلوغ المرام، محمد بن اسماعیل صنعانی، جلد 1 صفحہ 283)
    اس کتاب کی تعلیق علامہ ناصر الدین البانی رح نے کی ہے۔


    بخاری و مسلم میں حدیث ہے
    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ
    رواه البخاري ( 788 )ومسلم ( 493 )
    انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سجدے میں اعتدال کرو تم میں سے کوئی اپنے بازو کو (سجدے میں) اسطرح نہ بچھائے جسطرح کتا بچھاتا ہے۔

    یہی حدیث بیان کرنے کے بعد اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم عبيد اللہ بن عبد السلام المباركپوري رح فرماتے ہیں کہ
    ''اعضاء کشادہ کرنے کا حکم صرف مرد کے لئے ہے عورت کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ اس حکم میں مرد کے خلاف ہے۔اس پہ دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے یزید بن ابی حبیب سے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین کے ساتھ ملا دیا کرو کیونکہ عورت اس حکم میں مرد کی طرح نہیں ہے''
    (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 3 صفحہ 207


    اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم عبدالجبار غزنوی نے نے بھی یزید بن ابی حبیب کی یہ حدیث بیان کی اور کہا کہ اسی پہ تعامل اہلسنت مذاہب اربعہ سے چلا آ رہا ہے ۔۔۔۔ اور عورتوں کا انضمام و انخفاض نماز میں احادیث و تعامل جمہور اہل علم از مذاہب اربعہ سے ثابت ہے اور اس کا منکر کتب حدیث تعامل اہل علم سے بے خبر ہے۔
    (فتاوی علمائے اہلحدیث، جلد 3 صفحہ 149)


    اس کے علاوہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے قائل صرف امام ابوحنیفہ رح ہی نہیں بلکہ تمام ائمہ کرام اور بہت سے فقہاء ہیں


    مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ



    (1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
    (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ)
    وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔
    (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)

    ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
    مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔

    (2) :

    قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
    (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
    ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔

    (3):

    قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
    (کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
    ترجمہ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔

    (4):

    قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
    (الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635)
    ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘

    گر یہ مسئلہ قران اور سنت کے خلاف ہے تو لولی کو چائیے کہ ان تمام اکابرین امت کا قرآن اور حدیث کے خلاف ہونا تسلیم کر لیں اور جس طرح یہ کھلے عام کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں احناف قران اور حدیث کے خلاف ہیں تو ایک پوسٹ ان ائمہ کرام اور ان علمائے کرام کے بارے میں بھی بنا دیں جنکے حوالے میں نے پیش کئے ہیں۔

    Comment


    • #3
      Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

      Originally posted by i love sahabah View Post



      مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ


      (1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
      (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ)
      وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔
      (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92
      )


      ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
      مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔
      (2) :


      قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
      (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
      ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔











      سلام

      آپ نے امام ابو حنیفہ رحم اللہ اور امام ملک رحم اللہ کے اقوال درج کیے

      اور عورت اورمرد کی نماز کو الگ الگ ثابت کیا ہے

      لیکن

      امام مالک کی احادیث کی کتاب موطا امام مالک

      میں وہ ایک حدیث پیش کرتے ہیں

      کتاب الصلوة

      نماز کے شروع کرنے کا بیان

      موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 163




      عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب شروع کرتے تھے
      نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اور سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہ اٹھاتے نہ سجدے کو جاتے وقت ۔


      کیا میرے بھائی آپ بتا سکتے ہیں کہ

      یہ حدیث مردوں کے بارے میں ہے یا عورتوں کے بارے میں

      اور اگر عورتوں کے بارے میں ہے تو حنفی عورت اس پر عمل کیو ں نہیں کرتی

      اور اگر مردوں کے بارے میں ہے تو حنفی مرد اس پر عمل کیوں نہیں کرتا

      امام مالک کا قول تو آپ پیش کر رھے ہیں

      لکن ان کی پیش کردہ حدیث کو آپ ٹھوکر مار رھے ہیں

      یہ کہاں کا انصاف ہے میرے بھائی
















      Comment


      • #4
        Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں



        میرے بھائی جب صحیح حدیث آ گئی تو علماء کے حوالوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے


        چلو اب میں امام احمد بن حمبل رحم اللہ کی کتاب مسند احمد سے حدیث نقل کرتا ہوں . اس حدیث کے بارے میں بتا دو کہ یہ صحیح ہے یا نہیں اور کیا عورتیں اور مرد اس پر عمل کر سکتے ہیں






        عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

        مسند احمد

        “ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے

        کیا یہ حدیث عورتوں کے بارے میں ہے

        یا مرد بھی اس پر عمل کر سکتے ہیں

        Comment


        • #5
          Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں


          تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

          لولی مجھے معلوم تھا کہ آپ اہنے علماء کے حوالوں کا کبھی جواب نہیں دو گے۔
          اگر احناف کا یہ مسئلہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے تو پھر تسلیم کرو کہ جن علماء کے حوالے میں نے دیے جو عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق کے قائل ہیں وہ بھی قران اور حدیث کے خلاف ہیں۔
          جن علماء کے میں نے حوالے دئے ہیں کیا وہ بھی اس مسئلہ میں قرآن اور حدیث کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے احناف ہیں؟


          لولی بات یہی ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ احناف کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے تو تم تسلیم کرو کہ جن علماء کے میں نے حوالے دئیے وہ سب اس مسئلہ میں حدیث کے خلاف ہیں.. امام مالک رح اور امام احمد بن حنبل رح کی احادیث بیان کی تو اس میں عورتوں کا ذکر کہاں ہے؟
          دوسرا ان کے اپنے فقہاء تسلیم کرتے ہیں کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے تو آپ یہ بھی تسلیم کرو کہ یہ سب علماء قران اور حدیث کے خلاف ہیں اس مسئلہ میں؟
          علماء کی اگر اہمیت نہیں احادیث کے خلاف تو احادیث تو میں نے بھی پیش کی ہیں ان احادیث کے بارے میں کیا خیال ہے؟
          اور جن علماء کے اقوال ان احادیث کے خلاف ہیں ان علماء کے بارے میں کیا خیال ہے؟

          مجھے معلوم ہے کہ تم ٹاپک تبدیل کر رہے ہو کیونکہ تمہارے ان اہلحدیث علماء کے حوالے بھی تمہارے خلاف ہیں تو پہلے ان اہلحدیث علماء کا قران اور حدیث کے خلاف ہونا تسلیم کرو پھر آگے بات کرو۔

          Comment


          • #6
            Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

            Originally posted by i love sahabah View Post

            تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

            لولی مجھے معلوم تھا کہ آپ اہنے علماء کے حوالوں کا کبھی جواب نہیں دو گے۔
            اگر احناف کا یہ مسئلہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے تو پھر تسلیم کرو کہ جن علماء کے حوالے میں نے دیے جو عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق کے قائل ہیں وہ بھی قران اور حدیث کے خلاف ہیں۔
            جن علماء کے میں نے حوالے دئے ہیں کیا وہ بھی اس مسئلہ میں قرآن اور حدیث کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے احناف ہیں؟


            لولی بات یہی ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ احناف کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے تو تم تسلیم کرو کہ جن علماء کے میں نے حوالے دئیے وہ سب اس مسئلہ میں حدیث کے خلاف ہیں.. امام مالک رح اور امام احمد بن حنبل رح کی احادیث بیان کی تو اس میں عورتوں کا ذکر کہاں ہے؟
            دوسرا ان کے اپنے فقہاء تسلیم کرتے ہیں کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے تو آپ یہ بھی تسلیم کرو کہ یہ سب علماء قران اور حدیث کے خلاف ہیں اس مسئلہ میں؟
            علماء کی اگر اہمیت نہیں احادیث کے خلاف تو احادیث تو میں نے بھی پیش کی ہیں ان احادیث کے بارے میں کیا خیال ہے؟
            اور جن علماء کے اقوال ان احادیث کے خلاف ہیں ان علماء کے بارے میں کیا خیال ہے؟

            مجھے معلوم ہے کہ تم ٹاپک تبدیل کر رہے ہو کیونکہ تمہارے ان اہلحدیث علماء کے حوالے بھی تمہارے خلاف ہیں تو پہلے ان اہلحدیث علماء کا قران اور حدیث کے خلاف ہونا تسلیم کرو پھر آگے بات کرو۔






            Comment


            • #7
              Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

              Originally posted by i love sahabah View Post

              لولی نے جو بخاری کی حدیث پیش کی اس حدیث میں عورتوں کا ذکر ہی نہیں ہے اور مالک بن حویرث رضی اللہ کی یہ روایت انہوں نے جماعت کے ساتھ ادا کی تھی.
              سعودیہ کے مشہور عالم شیخ عطیہ سالم رح نے اپنے حرم کے دروس میں نبی کریم ﷺ کے مجافات ( اعضاء کو کشادہ کرنا) کا ذکر کیا پھر عام مرد حضرات کے لئے مجافات ( اعضاء کو کشادہ کرنا) کا ذکر کیا اور اس کے لئے یہ حدیث بیان کی ( صلوا كما رأيتموني أصلي ).اور اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ "ہم نے متنبہ کیا ہے کہ مجافات کا حکم مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے"
              ( شرح بلوغ المرام للشیخ عطیہ سالم، باب کتاب الصلوۃ۔

              یہی بات مشہور اہلحدیث عالم شیخ محمد عبدالحق ہاشمی رح نے بیان کی کہ یہ حدیث ظاہراََ مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے۔
              ( نصب العمود فی تحقیق مسائلہ تجافی المراۃ فی الرکوع والسجود، از رسائل ھاشمی،صفحہ 92)
              بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ ابراہیم نخعی رح کے اثر سے معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں مشہور تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ اور تابعین مردوں کے لئے اس مسئلہ تجافی( اعضاء کو کشادہ کرنا) کے قائل تھے عورتوں کے لئے نہیں تھے۔اور حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور شارحین احادیث کے اس مسئلہ پہ بہت اقوام ہیں۔
              ( نصب العمود فی تحقیق مسائلہ تجافی المراۃ فی الرکوع والسجود، از رسائل ھاشمی،صفحہ 80
              انہوں نے تو تمام ائمہ اربعہ اور بہت سے فقہاء ستٓے ثابت کیا کہ نماز میں اعضاء کو کشادہ کرنے کے مسئلہ میں عورتوں اور مردوں کے طریقہ میں فرق ہے۔
              )

              لولی نے فتح الباری کا حوالہ دیا ہے تو علامہ ابن حجر عسقلانی رح اسی کتاب میں اس حدیث ( صلوا كما رأيتموني أصلي ) کے بارے میں فرمایا ہے کہ
              "یہ خطاب کے لحاظ سے مالک بن حویرث رضی اللہ اور ان کے رفقاء کے لئے ہے کہ وہ نماز اس طریقہ پہ پڑھیں جس طریقہ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پڑھتے ہوئے دیکھا البتہ اس حکم میں ان کے ساتھ پوری امت اس شرط پہ شامل ہو گی بشرطیکہ ان کیفیات پر نبی کریم ﷺ کا آخیر زندگی تک دوام اور استمرار ثابت ہو''
              ( فتح الباری، جلد 13 صفحہ 237)
              اب لولی کو چاہیے کہ علامہ ابن حجر کی بات مانتے ہوئے اس عمل پہ دوام ثابت کریں۔


              حضرت براء رضی اللہ کی حدیث ہے کہ ''نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تو سجدہ کر تو اپنی ہتھیلیاں زمین پہ رکھ اور کہنیوں کو اٹھا لے''
              ( صحیح مسلم، حدیث 1099)
              یہ حدیث بیان کرنے کے بعد اہلحدیث کے مشہور عالم محمد بن اسماعیل صنعانی رح لکھتے ہیں کہ '' کہنیاں اوپر اٹھانے کا حکم مرد کے حق میں ہے عورت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ عورت کا حکم مرد کے حکم کے خلاف ہے۔اور اس پہ دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے یزید بن ابی حبیب سے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین کے ساتھ ملا دیا کرو کیونکہ عورت مرد کی طرح نہیں ہے''
              ( سبل السلام شرح بلوغ المرام، محمد بن اسماعیل صنعانی، جلد 1 صفحہ 283)
              اس کتاب کی تعلیق علامہ ناصر الدین البانی رح نے کی ہے۔


              بخاری و مسلم میں حدیث ہے
              عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ
              رواه البخاري ( 788 )ومسلم ( 493 )
              انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سجدے میں اعتدال کرو تم میں سے کوئی اپنے بازو کو (سجدے میں) اسطرح نہ بچھائے جسطرح کتا بچھاتا ہے۔

              یہی حدیث بیان کرنے کے بعد اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم عبيد اللہ بن عبد السلام المباركپوري رح فرماتے ہیں کہ
              ''اعضاء کشادہ کرنے کا حکم صرف مرد کے لئے ہے عورت کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ اس حکم میں مرد کے خلاف ہے۔اس پہ دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں ذکر کیا ہے یزید بن ابی حبیب سے کہ نبی کریم ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین کے ساتھ ملا دیا کرو کیونکہ عورت اس حکم میں مرد کی طرح نہیں ہے''
              (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 3 صفحہ 207


              اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم عبدالجبار غزنوی نے نے بھی یزید بن ابی حبیب کی یہ حدیث بیان کی اور کہا کہ اسی پہ تعامل اہلسنت مذاہب اربعہ سے چلا آ رہا ہے ۔۔۔۔ اور عورتوں کا انضمام و انخفاض نماز میں احادیث و تعامل جمہور اہل علم از مذاہب اربعہ سے ثابت ہے اور اس کا منکر کتب حدیث تعامل اہل علم سے بے خبر ہے۔
              (فتاوی علمائے اہلحدیث، جلد 3 صفحہ 149)


              اس کے علاوہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے قائل صرف امام ابوحنیفہ رح ہی نہیں بلکہ تمام ائمہ کرام اور بہت سے فقہاء ہیں


              مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ



              (1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
              (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ)
              وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔
              (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)

              ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
              مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔

              (2) :

              قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
              (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
              ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔

              (3):

              قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
              (کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
              ترجمہ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔

              (4):

              قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
              (الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635)
              ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘

              گر یہ مسئلہ قران اور سنت کے خلاف ہے تو لولی کو چائیے کہ ان تمام اکابرین امت کا قرآن اور حدیث کے خلاف ہونا تسلیم کر لیں اور جس طرح یہ کھلے عام کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں احناف قران اور حدیث کے خلاف ہیں تو ایک پوسٹ ان ائمہ کرام اور ان علمائے کرام کے بارے میں بھی بنا دیں جنکے حوالے میں نے پیش کئے ہیں۔
              Asalam o alikum to all muslims

              Comment


              • #8
                Re: عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

                Originally posted by i love sahabah View Post

                تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

                لولی مجھے معلوم تھا کہ آپ اہنے علماء کے حوالوں کا کبھی جواب نہیں دو گے۔
                اگر احناف کا یہ مسئلہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے تو پھر تسلیم کرو کہ جن علماء کے حوالے میں نے دیے جو عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق کے قائل ہیں وہ بھی قران اور حدیث کے خلاف ہیں۔
                جن علماء کے میں نے حوالے دئے ہیں کیا وہ بھی اس مسئلہ میں قرآن اور حدیث کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے احناف ہیں؟


                لولی بات یہی ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ احناف کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے تو تم تسلیم کرو کہ جن علماء کے میں نے حوالے دئیے وہ سب اس مسئلہ میں حدیث کے خلاف ہیں.. امام مالک رح اور امام احمد بن حنبل رح کی احادیث بیان کی تو اس میں عورتوں کا ذکر کہاں ہے؟
                دوسرا ان کے اپنے فقہاء تسلیم کرتے ہیں کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے تو آپ یہ بھی تسلیم کرو کہ یہ سب علماء قران اور حدیث کے خلاف ہیں اس مسئلہ میں؟
                علماء کی اگر اہمیت نہیں احادیث کے خلاف تو احادیث تو میں نے بھی پیش کی ہیں ان احادیث کے بارے میں کیا خیال ہے؟
                اور جن علماء کے اقوال ان احادیث کے خلاف ہیں ان علماء کے بارے میں کیا خیال ہے؟

                مجھے معلوم ہے کہ تم ٹاپک تبدیل کر رہے ہو کیونکہ تمہارے ان اہلحدیث علماء کے حوالے بھی تمہارے خلاف ہیں تو پہلے ان اہلحدیث علماء کا قران اور حدیث کے خلاف ہونا تسلیم کرو پھر آگے بات کرو۔
                Asalam o alikum to all muslims

                Comment

                Working...
                X