Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ایمان اور عقلیات

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ایمان اور عقلیات


    ایمان اور عقلیات

    عقل کی دو قسمیں


    عقل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو سلیم، صحیح اور متوازن ہے ۔ یہ تو وحی و نبوت کی معجزہ طرازیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ دوسری وہ جو سقیم، کج اور غیر متوازن ہے۔ اس کا کام شکوک و شبہات پیدا کرنا اور الحاد و زندقہ کے جراثیم کی پرورش کرنا ہے اور ہم جب عقلیات کا ابطال کرتے ہیں یا اس کی شہادت کو مشکوک ٹھہراتے ہیں تو اس سے مراد و دوسری قسم ہوتی ہے پہلی نہیں۔
    اسی بات کو ہم ان الفاظ میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب عقلِ معقول اور عقلِ غیر معقول میں اختلاف پیدا ہو تو ہم عقلِ معقول کو غیر معقول پر ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔

    مشروط بہ عقلیات ایمان

    مشروط بہ عقلیات ایمان درحقیقت ایمان ہی نہیں کیونکہ ایمان جزم و یقین چاہتا ہے اور عقلیات تشکیک مشروط ایمان ، درحقیقت ایمان ہی نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ عین ممکن ہے کہ جس شے کو تم معقول سمجھ رہے ہو ، وہ دوسروں کے نزدیک معقول نہ ہو ۔
    پھر اگر ایمان کی فطرت، مزاج اور اثرات پر غور کیا جاے تو وہ جس نوع کا جزم، یقین اور استواری چاہتا ہے ، وہ ایسے عقلیات سے حاصل ہونے والا نہیں کہ جن میں یقین و انضباط کا امکان ہی نہیں ۔
    ایمان اگر عقیدے کا ایک خاص سانچہ چاہتا ہے، ایک متعین اذعان کا متقاضی ہے اور ایک منضبط طرزِ فکر کا مطالبہ کرتا ہے تو اس غرض و غایت کو ان عقلیات کے ذریعے کیسے پانا ممکن ہے جو آج کچھ ہیں، کل کچھ۔ عقلیات تو ایک جنس سے تعبیر ہیں اور کون کہہ سکتا ہے ، آئندہ چل کر اس کے تحت کیا کیا انواع ظہور پذیر ہو سکتی ہیں اور اعتراضات و شکوک کی کن نئی نئی سورتوں کی یہ تخلیق کر سکتی ہے۔ ان حالات میں اگر ایمان کو اس غیر منضبط اور غیر محدود جنس کے ساتھ وابستہ قرار دیا جاے گا کہ جس کا مستقبل واضح نہیں اور جس کے امکانات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تو ایسی صورت میں جزم و ایقان میں محکمی و استواری کس طرح پیدا ہو سکتے گی جو کسی طرح کی شرط و قید کو گوارا کرنے والی نہیں۔
    ایک آدمی اس وقت تک صحیح معنوں میں مومن نہیں ہوتا اور اس وقت تک ایمان میں جزم و استواری کی نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا ایمان غیر مشروط اور معارضہ و تناقض کی ہر ہر خلش اور خود سے آزاد نہ ہو۔
    غرض یہ ہے کہ وہ حضرت جو بشرط دعم معارضہ عقل ایمان کے دعویدار ہیں ، یہ صحیح معنوں میں لذت ایمان سے بہرہ یاب نہیں۔ منطقی حثیت سے ان کی حثیت ایسے شخص سے مختلف نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان تو رکھتا ہوں مگر صرف اسی حد تک جس حد تک میرے والدین اجازت دیں یا جس حد تک میرا پیر و مرشد اعتراض نہ کرے۔
    عقیدہ و الٰہیات کے حقائق کی تشریح کا تعلق دراصل اس چیز سے ہے کہ کوی شخص ایمان کے کس درجے پر فائز ہے ، یا وہ کس حد تک قرآن کے لفائف بیان سے آگاہ اور اس کے ذوقِ استدلال سے واقف ہے ۔

    صحابہ کرامؓ کو ایمانیات میں عقل کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوی؟؟

    مثلاً صحابہ کے مقدس اور پاکباز گروہ کو کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوی کہ وہ توحید باری ، اثباتِ نبوت اور معاد کے مسائل پر استدلال و قیاس کی بوقلمونیوں کی روشنی میں غور کریں، اس لیے کہ انہوں نے آفتابِ نبوت کی جلوہ آرائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ریاضِ رسالت کی شمیم آرائیوں سے بغیر کسی وساطت کے قلب و ذہن کو مہکانے کی سعادت حاصل کی تھی۔ ان کے نزدیک آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی زندگی ، آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ، کردار و سیرت کی عظمت اور روز مردہ زندگی کی تابانیاں دلائل و براہین تھے، جن کے ہوتے ہوے کسی مصنوعی منطق کی حاجت ہی نہیں تھی۔ یعنی یہ نفوسِ قدسیہ ایمان و عشق کی اس منزل پر فائز تھے، جہاں بقول ابو سلیمان المنطقی کے لم (کیوں) ساقط ہو جاتا ہے ۔ کیف (کس طرح ) باطل ٹھہرتا ہے ۔ ھلاً( کیوں نہیں) زوال و فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور لو (کاش ایسا ہوتا ) کی کوی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
    ان لوگوں کے نزدیک توحید، نبوت اور معاد کے مسائل علم و ادراک اور قیاس و استدلال یا فکر و تدبر کی طرفہ طرازیوں کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ ان کی حثٰیت ان کے ہاں ذاتی تجربہ کی تھی۔ انہوں نے تعلق باللہ کی لذتوں کو خود آزمایا تھا۔ نبوت کے شواہد کا عملی کونہ صرف بچشم خود دیکھا تھا بلکہ اس سے اپنے کردار و سیرت کے گوشوں کو سجایا اور آراستہ بھی کیا تھا۔ اسی طرح معاد اور حشت کے مبشرات و منذرات کے بارے میں جو ایمان، جس درجہ یقین اور اذعان حاصل تھا، اسے صرف سال و تجربہ ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، علم و ادراک سے نہیں!

    عقل و دانش کے مدعیوں کے تناقص پر ایک دلچسپ نکتہ

    علامہ ابن تیمیہؒ نے ایک دلچسپ نکتہ کی نشاندہی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ عقل و دانش کے ان مدعیوں کے طرز عمل میں تناقص دیکھئے کہ منطق ، طبیعات یا الٰہیات میں اگر ان کو اپنے پیر و مرشد سے اختلاف ہو اور یہ دیکھیں کہ ارسطو کے کلام میں خلل و فساد رونما ہے، الاسکندر الافرودیسی
    (Alexander of Aphrodisiac)
    کی شرح میں غلطیاں ہیں، یا فارابی و ابن سینا کے افکار میں تعارض اور الجھاو ہے تو ان مواقع پر ان کی رگِ عقلیت نہیں پھڑکتی ہے اور یہ کہہ کر ان کی لغزشوں سے دست کش نہیں ہو جاتے کہ یہ غلط ہیں بلکہ ان باتوں کی تاویل کرتے ہیں اور یا پھر توقف سے کام لیتے ہین۔ لیکن یہی معاملہ اگر دینیات میں پیش آئے تو ان کی حریت راے فوراً بیدار ہو جاتی ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ قرآن و حدیث کا مرتبہ ہماری عقل کے مقابلے میں کہیں اونچا ، کہیں قرینِ قیاس اور مبنی بر صحت و صواب ہے لہٰذا یہاں بھی بتقاضاے حسن ظن مناسب تاویل یا توقف سے کام لینا چاہیے ۔
    تعجب ہے کہ ایک طرف و تابع و متبوع کا رشتہ اس درجہ شدید ہے کہ ایک چیز کو غلط سمجھنے کے باوجود کوی نہیں چاہتا کہ جس سلسلے یا شخص سے اس کا دامنِ عقیدت وابستہ ہے ، اس سے اختلافِ راے کی نوبت آے۔ دوسری طرف کتاب و وسنت اور آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ساتھ لگاو کا یہ حال ہے کہ ہر شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کی محدود اور سمٹی ہوی عقلی صلاحیتیں کہیں کہیں حقائق دینیہ کو سمجھ نہیں پاتیں تو فوراً یہ کہہ کر ان سے منہ پھیر لیتے ہیں کہ عقل و فلسفہ کے پیمانوں سے ان کی تائید نہیں ہو پاتی۔ کیا فکر و عقیدہ کے اس تضاد پر کبھی اس گروہ نے غور کیا ہے ۔

    ماخذ

    ۱۔الرد علی المنطقین
    ۲۔موافقہ الصحیح المنقول
    ۳۔الصحیح المعقول لصحیح المنقول
    ۴۔عقلیات ابن تیمیہ




  • #2
    Re: ایمان اور عقلیات

    ایمان اور عقل ایک جگہ نہیں رہ سکتے ورنہ ان میں تصادم ناگزیر ہے کیونکہ عقل دلیل مانگتی ہے سوال کا جواب جاننا چاہتی ہے جبکہ ایمان کا تعلق ماننے سے ہے جاننا ضروری نہیں ویسے بھی ایمان کے لغوی معنی بھی یقین کے ہیں اندھے اور مستحکم یقین جو بغیر جانے بس مانا جائے اور جو جان لیا وہ ایمان نہیں بلکہ سودا ہے تجارت ہے لین دین ہے مگر عقل ان سے ماروا ہے جو پرکھ کر فیصلہ دیتی ہے
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment

    Working...
    X