حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جب نمرود سے مناظرہ ہوا تو اسنے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو کہ ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا، پھر ہونا، پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے ، موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے ، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے۔ ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا۔ دراصل یہ جواب اور یہ دعویٰ کس قدر بے معنی ہے ، یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو پیدا کیا نہ ان کی یا اپنی موت، حیات پر اسے قدرت ، لیکن جہلا کو بھڑکانے کے لیے اور اپنی علمیت جتانے کے لیے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوے صرف ایک بات بنالی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسکو سمجھ گئے اور آپ نے اس کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کر سکے، چناچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تیرا پورا تصرف ہونا چاہیے ، میرے اللہ نے تو یہ کیا کہ سورج کو حکم دے دیا کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چناچہ وہ نکل رہا ہے ، اب اگر تو ہی خدا ہے اور تیرا مکمل تصرف مخلوق پر ہے تو اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے ۔
اب ایسے میں نمرود کی بولتی ہی بند ہونی تھی ، چونکہ وہ ضدی اور ڈھیٹ تھا اسی لیے بے زبان ہو کر اپنی عاجزی کا تو معترف ہو گیا لیکن حق کو قبول نہ کیا ۔
ملخص از تفسیر ابن کثیر
اس ساری بات سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ نمرود جیسا جاہل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کو سمجھ گیا اور اسکی بولتی بند ہو گئی لیکن جو شخص نمرود سے بھی زیادہ جاہل ہو اول تو سمجھے ہی نہیں اور پھر اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوے اعتراض بھی کرے ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے ؟؟؟؟
سچ ہے جو قرآن نے کہا ہے
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾
گمراہ کرتا ہے خدائے تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور ہدایت کرتا ہے اس سے بہتیروں کو [۳۹] اور گمراہ نہیں کرتا اس مثل سے مگر بدکاروں کو
یہاں پر گمراہ ہونے والوں کو فاسق کہا گیا ہے ، کچھ علماء نے فاسق کو سمجھانے کے لیے بیل کی مثال دی ہے جو اپنا کھونٹا تڑوا کر بھاگتا پھرے کبھی اسلم کا کھیت خراب کرے اور کبھی جاوید کا ۔ یعنی وہ بیل جو اپنے سے پہلوں اکثریت سے زیادہ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھے اور انکی فہم سے کھونٹا تڑوا کر بھاگ جائے ۔
Comment