Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟


    اول یہ کہ انسان کی داخلی زندگی کے چند گوشے ایسے ہیں جن کے متعلق اس کو ضروری تعلیم و تربیت اور ہدایات دینے میں شرم کا بے جا احساس اکثر مانع ہوتا رہا ہے اور اسی وجہ سے اعلٰی ترقی یافتہ قومیں تک ان کے بارے میں طہارت و نظافت کے ابتدائی اصولوں تک سے ناواقف رہی ہیں۔ شریعت الہٰی کا یہ احسان ہے کہ اس نے ان گوشوں کے بارے میں بھی ہم کو ہدایات دیں اور ان کے متعلق قواعد و ضوابط بتا کر ہمیں غلطیوں سے بچایا۔ غیر قوموں کے صاحب فکر لوگ اس چیز کی قدر کرتے ہیں، کیونکہ ان کی قومیں اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم و تربیت سے محروم ہیں۔ مگر مسلمان جن کو گھر بیٹھے یہ ضابطے مل گئے، آج اس تعلیم کی ناقدری کر رہے ہیں اور عجیب لطیفہ ہے کہ ان ناقدری کے اظہار میں وہ لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں جو اہل مغرب کی تقلید میں (Sex Education) تک مدارس میں رائج کرنے کے قائل ہیں۔

    دوم یہ کہ اللہ تعالٰی نے جس نبی پاک کوہماری تعلیم کے لیے مامور فرمایا تھا، اسی کے ذمہ یہ خدمت بھی کی تھی کہ اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم و تربیت بھی ہمیں دے۔ اہل عرب اس معاملہ میں ابتدائی ضابطوں تک سے ناواقف تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ان کے مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی طہارت، استنجا اور غسل وغیرہ کے مسائل، نیز ایسے ہی دوسرے مسائل نہ صرف زبان سے سمجھائے بلکہ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اجازت دی کہ آپ کی خانگی زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کریں اور عام لوگوں کو بتائیں کہ حضورﷺ خود کن ضابطوں پر عمل فرماتے تھے۔

    سوم یہ کہ اللہ تعالٰی نے اسی ضرورت کی خاطر حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کو مومنین کے لیے ماں کا درجہ عطا فرمایا تھا تا کہ مسلمان ان کی خدمت میں حاضر ہو کر زندگی کے ان گوشوں کے متعلق رہنمائی حاصل کر سکیں اور جانبین میں ان مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کسی قسم کے ناپاک جذبہ کی دخل اندازی کا خطرہ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے پورے ذخیرہ میں کوئی ایک نظیر بھی اس بات کی نہین ملتی کہ جو باتیں امہات المومنین سے پوچھی گئی ہیں وہ خلفائے راشدین یا دوسرے صحابیوں کی بیگمات سے بھی کبھی پوچھی گئی ہوں اور انہوں نے مردوں سے اس نوعیت کی گفتگو کی ہو۔

    چہارم یہ کہ لوگ اپنے گمان سے، یا یہود و نصاریٰ کے اثر سے جن چیزوں کو حرام یا مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھ بیٹھے تھے، ان کے متعلق صرف یہ سن کر ان کا اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ شریعت میں وہ جائز ہیں۔ حکم جواز کے باوجود ان کے دلوں میں یہ شک باقی رہ جاتا تھا کہ شاید یہ کراہت سے خالی نہ ہو اس لیے وہ اپنے اطمینان کی خاطر یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ حضور ﷺکا اپنا طرز عمل کیا تھا۔ جب وہ یہ جان لیتے تھے کہ حضور ﷺ نے خود فلاں عمل کیا ہے، تب ان کے دلوں سے کراہت کا خیال نکل جاتا تھا، کیونکہ وہ حضور ﷺ کو ایک مثالی انسان سمجھتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ جو کام آپ نے کیا ہو وہ مکروہ یا پایۂ ثقاہت سے گرا ہوا نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک اہم درجہ ہے جس کی بنا پر ازواج مطہرات کو حضور ﷺ کی خانگی زندگی کے بعض ایسے معاملات کو بیان کرنا پڑا جو دوسری خواتین نہ بیان کر سکتی ہیں، نہ ان کو بیان کرنا چاہیے۔

    پنجم یہ کہ احادیث کا یہ حصہ درحقیقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت اور ان کی نبوت کے بڑے اہم شواہد میں شمار کرنے کے لائق ہے۔ محمد رسول اللہ کے سوا دنیا میں کون یہ ہمت کر سکتا تھا اور پوری تاریخ انسانی میں کس نے یہ ہمت کی ہے 23 سال تک شب و روز کے ہر لمحے اپنے آپ کو منظر عام پر رکھ دے، اپنی پرائیویٹ زندگی کو بھی پبلک بنا دے اور اپنی بیویوں تک کو اجازت دے دے کہ میری گھر کی زندگی کا حال بھی لوگوں کو صاف صاف بتا دو۔

    اعتراضات کا تفصیلی جائزہ

    ان امور کو نگاہ میں رکھ کر فرداً فرداً ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے پیش کی جاتی ہیں

    پہلی حدیث میں حضرت عائشہ دراصل یہ بتانا چاہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ رہبانیت سے بالکل دور تھے اور اپنی بیویوں سے وہی ربط و تعلق رکھتے تھے جو دنیا کے ہر شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالٰی سے آپ کا ایسا گہرا تعلق تھا کہ بستر میں بیوی کے ساتھ لیٹ جانے کے بعد بھی بسا اوقات یکایک آپ پر عبادت کا شوق غالب آ جاتا تھا اور آپ دنیا کا لطف و عیش چھوڑ کر اس طرح اٹھ جاتے تھے کہ گویا آپ کو خدا کی بندگی کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کا یہ مخفی گوشہ آپ کی اہلیہ کے سوا اور کون بتا سکتا تھا؟ اور اگر یہ روشنی میں نہ آتا تو آپ کے اخلاص لِلہ کی صحیح کیفیت دنیا کیسے جانتی؟ مجلس وعظ میں خدا کی محبت اور خشیت کا مظاہرہ کون نہیں کرتا۔ سچی اور گہری محبت و خشیت کا حال تو اسی وقت کھلتا ہے جب معلوم ہو کہ گوشۂ تنہائی میں آدمی کا رنگِ زندگی کیا ہوتا ہے۔

    دوسری حدیث میں دراصل بتانے کا مقصود یہ ہے کہ بوسہ بجائے خود وضو توڑنے والے چیز نہیں ہے جب تک کہ غلبۂ جذبات سے کوئی رطوبت خارج نہ ہو جائے۔ عام طور پر لوگ خود بوسے ہی کو ناقصِ وضو سمجھتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس اگر وضو ٹوٹتا نہیں ہے تو کم از کم طہارت میں فرق ضرور آ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کو ان کا شک دور کرنے کے لیے یہ بتانا پڑا کہ حضور ﷺ نے خود اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھی ہے۔ یہ مسئلہ دوسرے لوگوں کے لیے چاہے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو، مگر جنہیں نماز پڑھنی ہو، ان کو تو یہ معلوم ہونے کی بہرحال ضرورت ہے کہ کس حالت میں وہ نماز پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں اور کس حالت میں نہیں ہوتے۔

    تیسری حدیث میں ایک خاتون کو اس مسئلے سے سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ اگر ایک عورت اسی طرح کا خواب دیکھے جیسا عام طور پر بالغ مرد دیکھا کرتے ہیں تو وہ کیا کرے۔ یہ صورت چونکہ عورتوں کو بہت کم پیش آتی ہے اس لیے عورتیں اس کے شرعی حکم سے ناواقف تھیں۔ ان خاتون نے جا کر مسئلہ پوچھ لیا اور حضورﷺ نے یہ بتا کر عورت کو بھی مرد ہی طرح غسل کرنا چاہیے، نہ صرف ان کو بلکہ تمام عورتوں کو ایک ضروری تعلیم دے دی۔ اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورتیں اپنی زندگی کے مسائل کسی سے نہ پوچھیں اور شرم کے مارے خود ہی جو کچھ اپنی سمجھ میں آئے، کرتی رہیں۔ رہا حدیث کا دوسرا ٹکڑا تو اس میں ایک خاتون کے اظہار تعجب پر حضور ﷺ نے یہ علمی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ عورت سے بھی اسی طرح مادہ خارج ہوتا ہے، جس طرح مرد سے ہوتا ہے۔ اولاد ان دونوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے اور دونوں میں سے جس کا نطفہ غالب رہتا ہے بچے میں اسی کی خصوصیت زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اس حدیث کی جو تفصیلات بخاری و مسلم کے مختلف ابواب میں آئی ہیں ان کو ملا کر دیکھیے۔ ایک

    روایت میں حضور ﷺ کے الفاظ یہ ہیں

    و ھل یکون الشبہ الا من قبل ذالک؟ اذا علا ماٰء ھا ما الرجل اشبہ الولدا خوالہ و اذا علماء الرجل مارھا اشبہ الولد اعمامہ۔

    "اور کیا اولاد کی مشابہت اس کے سوا کسی اور وجہ سے ہوتی ہے؟ جب عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو ننھیال پر جاتا ہے اور جب مرد کا نطفہ اس کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو بچہ ددھیال پر جاتا ہے"۔

    منکرین حدیث نے جہالت یا شرارت سے ان احادیث کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ مجامعت میں اگر مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو تو بچہ باپ پر جاتا ہے ورنہ ماں پر۔ ہم اس ملک کی حالت پر حیران ہیں کہ یہاں جہلا اور اشرار اعلانیہ اس قسم کی علمی دغابازی کر رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تک تحقیق کے بغیر اس سے متاثر ہو کر اس غلط فہمی میں پڑ رہے ہیں کہ احادیث ناقابل یقین باتوں سے لبریز ہیں۔

    چوتھی حدیث میں حضرت عائشہ نے یہ بتایا ہے کہ زوجین ایک ساتھ غسل کر سکتے ہیں اور حضورﷺ نے خود ایسا کیا ہے۔ اس مسئلے کے معلوم کرنے کی ضرورت دراصل ان لوگوں کو پیش آئی تھی جن کے ہاں بیویاں اور شوہر سب نماز کے پابند تھے۔ فجر کے وقت ان کو بارہا اس صورت حال سے سابقہ پیش آتا تھا کہ وقت کی تنگی کے باعث یکے بعد دیگرے غسل کرنے سے ایک کی جماعت چھوٹ جاتی تھی۔ ایسی حالت میں ان کو یہ بتانا ضروری تھا تا کہ دونوں کا ایک ساتھ غسل کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مدینے میں اس وقت بجلی کی روشنی والے غسل خانے نہیں تھے اور فجر کی نماز اس زمانے میں اول وقت ہوا کرتی تھی اور عورتیں بھی صبح اور عشا کی نمازوں میں مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں بتایا جائے کہ اس حدیث میں کیا چیز ماننے کے لائق نہیں ہے۔

    پانچویں حدیث میں حضرت عائشہ نے بتایا ہے کہ خواب سے غسل کس حالت میں واجب ہوتا ہے اورکس حالت میں واجب نہیں ہوتا۔ اور چھٹی حدیث میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ بیداری کی حالت میں غسل کب واجب ہو جاتا ہے۔
    ان دونوں حدیثوں کو آدمی اس وقت تک پوری طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک اسے یہ نہ معلوم ہو کہ وجوب غسل کے معاملہ میں اس وقت صحابہ کرام اور تابعین کے درمیان ایک اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ بعض صحابہ اور ان کے شاگرد اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ غسل صرف اس وقت واجب ہوتا ہے جب مادہ خارج ہو۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے حضرت عائشہ کو یہ بتانا پڑا کہ یہ حکم صرف خواب کی حالت کے لیے ہے، بیداری میں مجرد دخول موجبِ غسل ہو جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا عمل اسی طریقے پر تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ نماز پڑھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔کیونکہ جو شخص صرف خروج مادہ پر غسل واجب ہونے کا قائل ہوتا وہ مباشرت بلا اخراجِ مادہ کے بعد نماز پڑھے کی غلطی کر سکتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا عمل بتانے ہی سے اس مسئلے کا قطعی فیصلہ ہوا۔




  • #2
    Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟




    یہ جاننا ضروری ہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کے ناپاک ہونے کا تصور قدیم شریعتوں میں بھی تھا اور شریعت محمدیہ میں بھی پیش کیا گیا۔ لیکن قدیم شریعتوں میں یہودیوں اور عیسائی راہبوں کی مبالغہ آرائی نے اس تصور کو حد اعتدال سے اتنا بڑھا دیا تھا کہ وہ اس حالت میں انسان کے وجود ہی کو ناپاک سمجھنے لگے تھے اور ان کے اثر سے حجاز کے اور خصوصاً مدینے کے باشندوں میں بھی یہ تصور حدِ مبالغہ کو پہنچ گیا تھا۔ خصوصاً حائضہ عورت کا تو اس معاشرے میں گویا پورا مقاطعہ ہو جاتا تھا۔
    چنانچہ کتاب مشکوٰۃ میں، جس سے یہ حدیث نقل کی گئی ہیں، باب الحیض کی پہلی حدیث یہ ہے کہ "جب عورت کو حیض آتا تھا تو یہودی اس کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ رہنا سہنا چھوڑ دیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو بتایا کہ اس حالت میں صرف فعل مباشرت ناجائز ہے، باقی ساری معاشرت اسی طرح رہنی چاہیے جیسی عام حالت میں ہوتی ہے۔" لیکن اس کے باوجود ایک مدت تک لوگوں میں قدیم تعصبات باقی رہے اور لوگ یہ سمجھتے رہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کا وجود کچھ نہ کچھ گندا تو رہتا ہی ہے اور اس حالت میں اس کا ہاتھ جس چیز کو لگ جائے وہ بھی کم از کم مکروہ تو ضرور ہو جاتی ہے۔ ان تصورات کو اعتدال پر لانے کے لیے حضرت عائشہ کو یہ بتانا پڑا کہ حضورﷺ خود اس حالت میں کوئی اجتناب نہیں فرماتے تھے۔ آپﷺ کے نزدیک نہ پانی گندا ہوتا تھا، نہ بستر ، نہ جانماز۔ نیز یہ بھی انہوں نے ہی بتایا کہ حائضہ بیوی کے ساتھ اس کا شوہر صرف ایک فعل نہیں کر سکتا، باقی ہر قسم کا اختلاط جائز ہے۔ ان تعصبات کو حضور ﷺ کا اپنا فعل بتا کر حضرت عائشہ اور دوسری ازواج مطہرات نے نہ توڑ دیا ہوتا تو آج ہمیں اپنی گھریلو معاشرت میں جن تنگیوں سے سابقہ پیش آ سکتا تھا ان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے ان محسنوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ہم اب بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ بھلا نبی کی بیوی اور ایسی باتیں بیان کرے!







    Comment


    • #3
      Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

      mera dil cha raha hai aap ki aqal ka matam kroon

      sach hi kaha hai ksi ny

      taqleed mae insan itna andha hojata hai ..

      ko khud apny likhy howe per bhi ghor krna gwara nahi krta....




      چھپائی کے عمل سے کچھ وقت نکال کر

      ذرا باریک بینی سے اپنی اس پوسٹ کا خود مشاہدہ کرلیں


      لیکن گمان یہی غالب ہے کہ

      حضور کی عقل شریف میں ۔۔ کچھ آنے والا نہیں ہے

      اب آپ کہو گے بھائی ٹآپک پر کوئی اعتراض ہے تو وہ پیش کرو اس پر بات کرو



      ارے میرے بھائی

      ان تمام باتوں سے ایک بات تو واضح طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ

      قرآن پڑھو نہ پڑھو

      سمجھو نہ سمجھو

      مگر


      ان احادیث میں سے اگر ایک بھی رہ گئی یاد کرنے سے

      تو بندہ تو گیا مسلمانی سے

      یہاں تو پیدا ہونے سے لے کر بچے کو مسلمان کرنے کے لیے مسلمانی ہوتی ہے

      پھر ساری زندگی دائرہ مسلمانی سے بچنے کی کوشش

      ان تمام باتوں کے بعد یہ تو فرض ہوگیا کہ جس نے انکو نہ سمجھا یا پڑھا

      وہ تو گیا کام سے





      Comment


      • #4
        Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

        Originally posted by Baniaz Khan View Post
        mera dil cha raha hai aap ki aqal ka matam kroon

        sach hi kaha hai ksi ny

        taqleed mae insan itna andha hojata hai ..

        ko khud apny likhy howe per bhi ghor krna gwara nahi krta....




        چھپائی کے عمل سے کچھ وقت نکال کر

        ذرا باریک بینی سے اپنی اس پوسٹ کا خود مشاہدہ کرلیں


        لیکن گمان یہی غالب ہے کہ

        حضور کی عقل شریف میں ۔۔ کچھ آنے والا نہیں ہے

        اب آپ کہو گے بھائی ٹآپک پر کوئی اعتراض ہے تو وہ پیش کرو اس پر بات کرو



        ارے میرے بھائی

        ان تمام باتوں سے ایک بات تو واضح طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ

        قرآن پڑھو نہ پڑھو

        سمجھو نہ سمجھو

        مگر


        ان احادیث میں سے اگر ایک بھی رہ گئی یاد کرنے سے

        تو بندہ تو گیا مسلمانی سے

        یہاں تو پیدا ہونے سے لے کر بچے کو مسلمان کرنے کے لیے مسلمانی ہوتی ہے

        پھر ساری زندگی دائرہ مسلمانی سے بچنے کی کوشش

        ان تمام باتوں کے بعد یہ تو فرض ہوگیا کہ جس نے انکو نہ سمجھا یا پڑھا

        وہ تو گیا کام سے




        میں یہاں مسعود صاحب کے الفاظ دوہراؤں گا جو کافی عرصہ پہلے کسی کے بارے میں انہوں نے کہے تھے .


        ایک جانور ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنا منہ مارتا ہے . یہ دیکھے بغیر کہ یہ اچھی چیز ہے یا بری



        Comment


        • #5
          Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

          Originally posted by lovelyalltime View Post

          میں یہاں مسعود صاحب کے الفاظ دوہراؤں گا جو کافی عرصہ پہلے کسی کے بارے میں انہوں نے کہے تھے .


          ایک جانور ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنا منہ مارتا ہے . یہ دیکھے بغیر کہ یہ اچھی چیز ہے یا بری




          مسعود تیرا ماما لگتا ہے یا تو خود مسعود ہے آج تو کھل کے بتا ہی دے - اتنی بڑی بات تو نے اب بھونک ہی دی ہے تو اور راز بھی اگل دے جہالت کے پیکر تیری اوقات کیا ہے کاپی پیسٹر
          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

          Comment


          • #6
            Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

            Originally posted by Sub-Zero View Post

            مسعود تیرا ماما لگتا ہے یا تو خود مسعود ہے آج تو کھل کے بتا ہی دے - اتنی بڑی بات تو نے اب بھونک ہی دی ہے تو اور راز بھی اگل دے جہالت کے پیکر تیری اوقات کیا ہے کاپی پیسٹر






            سلام

            میرے بھائی اچھا ہوا کہ آپ نے اپنا آپ دکھا دیا

            لکن یہ غلطی آپ کی نہیں آپ کے والدین کی ہے جنھوں نے اپنی اولاد کو اتنا بھی نہیں بتایا

            کہ بات کیسے کی جاتی ہے

            افسوس ہے ایسے والدین پر

            اللہ ہم سب کو ھدایت دے

            آمین


            Comment


            • #7
              Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

              Originally posted by lovelyalltime View Post




              سلام

              میرے بھائی اچھا ہوا کہ آپ نے اپنا آپ دکھا دیا

              لکن یہ غلطی آپ کی نہیں آپ کے والدین کی ہے جنھوں نے اپنی اولاد کو اتنا بھی نہیں بتایا

              کہ بات کیسے کی جاتی ہے

              افسوس ہے ایسے والدین پر

              اللہ ہم سب کو ھدایت دے

              آمین



              ہدایت کی تمھیں ضرورت ہے جو جگہ جگہ منہ مار کر یہاں آکے وہ سب اگلتے ہو
              شرم تو تم کو آتی نہیں
              اس پر تم ان بے ہودہ باتوں کو دہرارہے ہو جو کبھی ایڈمن اور میرے درمیان تلخ معاملہ رہے
              دل تو بہت کچھ چاہ رہا جو تمھاری اس جرآت پہ اس شاندار تواضع کروں مگر تم ایسے جاہل کو بندہ کیا کہے
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #8
                Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

                Originally posted by lovelyalltime View Post

                میں یہاں مسعود صاحب کے الفاظ دوہراؤں گا جو کافی عرصہ پہلے کسی کے بارے میں انہوں نے کہے تھے .


                ایک جانور ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنا منہ مارتا ہے . یہ دیکھے بغیر کہ یہ اچھی چیز ہے یا بری



                372-haha

                muje tou pehly sy pata tha k aap yaha mazak krny or mazak urany aty ho..





                Comment


                • #9
                  Re: بعض احادیث میں عریاں مضامین کیوں ہیں؟

                  Originally posted by Baniaz Khan View Post
                  mera dil cha raha hai aap ki aqal ka matam kroon

                  sach hi kaha hai ksi ny

                  taqleed mae insan itna andha hojata hai ..

                  ko khud apny likhy howe per bhi ghor krna gwara nahi krta....




                  چھپائی کے عمل سے کچھ وقت نکال کر

                  ذرا باریک بینی سے اپنی اس پوسٹ کا خود مشاہدہ کرلیں


                  لیکن گمان یہی غالب ہے کہ

                  حضور کی عقل شریف میں ۔۔ کچھ آنے والا نہیں ہے

                  اب آپ کہو گے بھائی ٹآپک پر کوئی اعتراض ہے تو وہ پیش کرو اس پر بات کرو



                  ارے میرے بھائی

                  ان تمام باتوں سے ایک بات تو واضح طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ

                  قرآن پڑھو نہ پڑھو

                  سمجھو نہ سمجھو

                  مگر


                  ان احادیث میں سے اگر ایک بھی رہ گئی یاد کرنے سے

                  تو بندہ تو گیا مسلمانی سے

                  یہاں تو پیدا ہونے سے لے کر بچے کو مسلمان کرنے کے لیے مسلمانی ہوتی ہے

                  پھر ساری زندگی دائرہ مسلمانی سے بچنے کی کوشش

                  ان تمام باتوں کے بعد یہ تو فرض ہوگیا کہ جس نے انکو نہ سمجھا یا پڑھا

                  وہ تو گیا کام سے
                  وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
                  جو
                  کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو اور الله سے ڈرو بیشک الله سخت عذاب دینے والا ہے


                  Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                  Comment

                  Working...
                  X