Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا یہ کفر نہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کیا یہ کفر نہیں



    السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

    ذیل میں موجود دار العلوم دیوبند انڈیا کا ایک فتویٰ موجود ہے، اس فتوے کو

    ﴿
    Answer: Darul Ifta Deoband India ﴾ اس لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

    جس میں اللہ تعالیٰ کے

    1

    - ہر جگہ ہونے

    ﴿زات کے ساتھ﴾

    2

    - ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ موجود ہے

    ﴿زات کے ساتھ﴾

    3

    - اللہ تعالیٰ ہرچیز میں موجود ہے۔ یہ تمام امور قرآنی آیات سے ثابت ہیں۔

    ﴿زات کے ساتھ﴾

    کا اقرار ہے

    (نعوذباللہ من ذلک)

  • #2
    Re: کیا یہ کفر نہیں

    نعوذ بااللہ کی کیا بات ہے بے شک اللہ ہر جگہ ہر وقت موجود ہے آپ عیسائیوں کی طرح کیسے سوچتے ہیں وہ صرف آسمان پہ ہے
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: کیا یہ کفر نہیں

      Originally posted by Sub-Zero View Post
      نعوذ بااللہ کی کیا بات ہے بے شک اللہ ہر جگہ ہر وقت موجود ہے آپ عیسائیوں کی طرح کیسے سوچتے ہیں وہ صرف آسمان پہ ہے
      سلام

      میرے بھائی کیا کہیں گے آپ

      یہ پڑھ کر

      جواب ضرور دیجیے گا












      Comment


      • #4
        Re: کیا یہ کفر نہیں

        جزاک الله
        الله کا ذات کے ساتھ جگہ موجود ہونے کا عقیدہ صوفیوں کا ہے اس بنیاد پر ہی ابن عربی اور منصور حللاج نے وحدت-الوجود کا نظریہ دیا
        یہ نظریہ کفر پر مبنی ہے..


        Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

        Comment


        • #5
          Re: کیا یہ کفر نہیں

          sub-zero bhai aap nay jawab nahin diya meri post ka.

          please kuch yahan bhi apnay ilm say nawazaian. shukriya

          Comment


          • #6
            Re: کیا یہ کفر نہیں

            Mujahy is Behass se kia Lena Dena jab main in Ayaat ko parhta hoon tu (Tarjumay mein Kami-Beshi Allah Taalah muaaf farmye)


            1- Allah Noor hy Asmaano aur Zameen Ka

            2- Hum ne os k andar apni Rooh phoonk di (insaan k putlay ka tazkira hay, Sorah Suaad)

            3- Tum jis taraf bhi Rukh karo gay osi ka chehra paao gay

            4- Hum tu tumhari Sheh-rag se bhi ziada Qareeb hein

            5- Hum tumharay andar hein pus tum dekhtay kion nahi

            6- Keh do wo "Ahad" hay

            Comment


            • #7
              Re: کیا یہ کفر نہیں

              لولی ایک تو تم معلوم نہیں کہاں کہاں سے گوگل سرچ مار کر پوسٹر اکٹھے کرتے ہو پھر انہیں پوسٹ کرکے ایسے جواب مانگتے ہو جیسے برسوں کی محنت و ریاضت کا نچوڑ پیش کردیا
              مجھے اتنا پتہ ہے سورج کروڑوں میل دور چمکتا ہے اس کی کرنیں کروڑوں گھروں جنگلوں وادیوں کو منور کرتی ہیں جبکہ خدا وحد لاشریک کی ذات تو اس سے اربوں کھربوں درجے بلند ہے
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #8
                Re: کیا یہ کفر نہیں

                Baat kuch yoon hay Sir keh aik saazish k tehat hamein hamaray paishwaaon ne Khuda se ye keh kar door kar dia keh wo kaheen 7th aasman par rehta hy. Aj jub main ye baatein kabhi soun loon tu boht hansi aati hy, na-aehl daanishwaron ne hakeekat ko chupaanay k liye Wahdat Alwajood aur Wahdat al Sahahood k ilzaamat bhi tarash liye. But ye hakeekat chounkah Qura'an e paak mein bhi bayan farma di gai jesa keh main kuch aayaat apni previous post mein likhi hein, tu phir in naam nehaad rehbaron ne oun ayaat ki tashreeh mein apna rang dikha kar awaam ko gumraah kia aur Khuda se door kia (ye keh kar k wo kaheen 7ween asmaan par rehta hy aur haath mein Tarazoo pakar k baitha hay aur Jahannum ka eendhan ikatha kiye ja raha hy)

                Comment


                • #9
                  Re: کیا یہ کفر نہیں

                  Originally posted by Son of Mountains View Post
                  Baat kuch yoon hay Sir keh aik saazish k tehat hamein hamaray paishwaaon ne Khuda se ye keh kar door kar dia keh wo kaheen 7th aasman par rehta hy.






                  اِمام نعمان بن ثابت أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ ، تاریخ وفات 150 ہجری

                  أبو اِسماعیل الأنصاری اپنی کتاب ’’’الفاروق ‘‘‘میں أبی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی ، جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ’’’ الفقہ الاکبر ‘‘‘ لکھی ، جسے غلط عام طور پر اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے،اِن أبی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا """ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟"""،
                  تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
                  تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے
                  الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
                  الرحمٰن عرش پر قائم ہوا
                  اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے
                  میں نے پھر پوچھا """ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟
                  تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
                  ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے








                  حوالہ جات ::: مختصر العلو لعلی الغفار / دلیل رقم 118/صفحہ 136/مؤلف امام شمس الدین الذھبی رحمہ ُ اللہ /تحقیق و تخریج امام ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ ، ناشرمکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان،دوسری اشاعت،
                  شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 288/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
                  اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اِماموں کی بات نقل کرتا چلوں ۔









                  اِمام أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 321ہجری

                  اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں :
                  اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے
                  اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
                  یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
                  (یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں اِن شاء اللہ تعالیٰ )،
                  پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا
                  فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا
                  يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا


                  اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)










                  لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے
                  حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،








                  قارئین کرام ، یہ مذکورہ بالا شدید فتوے میرے نہیں ہیں ، بلکہ امام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ اور فقہ حنفی کے اِماموں رحمہم اللہ کے ہیں ، لہذا کوئی بھائی یا بہن انہیں پڑھ کر ناراض نہ ہو ۔


                  اِمام مالک ابن أنس ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 179 ہجری

                  مھدی بن جعفر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اِمام مالک بن أنس رحمہ ُ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا:
                  " اے أبو عبداللہ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى::: الرحمٰن عرش پر قائم ہوا ﴾ کیسے قائم ہوا ؟"
                  اِس سوال پر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ اتنے غصے میں آئے کہ میں نے اُنہیں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا کہ غصے کی شدت سے اِمام صاحب پسینے پسینے ہوگئے ، اور اِمام رحمہ ُ اللہ بالکل خاموش ہو گئے ، لوگ انتظار کرنے لگے کہ اب اِمام صاحب کیا کہیں گے !
                  کافی دیر کے بعد اِمام رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
                  (اللہ کا عرش پر )قائم ہونا (یعنی استویٰ فرمانا) أنجانی خبر نہیں ، اور (اللہ کے أستویٰ فرمانے کی )کیفیت عقل میں آنے والی نہیں (کیونکہ اُس کی ہمارے پاس اُس کیفیت کے بارے میں کوئی خبر نہیں نہ اللہ کی طرف سے اور نہ ہی اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے )اور اِس پر اِیمان لانا فرض ہے ، اور اِس کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ، اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تُم گمراہ ہو
                  پھر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے اُس آدمی کو مسجد (نبوی )سے نکال دینے کا حُکم دِیا اور اُس کو نکال دِیا گیا ۔








                  حوالہ::: أثبات الصفۃ العلو /روایت 104/مؤلف اِمام موفق الدین عبداللہ بن أحمد بن قدامہ المقدسی۔
                  اِمام الذہبی نے کہا کہ یہ قول اِمام مالک سے ثابت ہے ، اِس کے عِلاوہ یہ قول اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اُستاد سےبھی ثابت ہے،
                  اِن شاء اللہ تابعین کے ذِکر میں، اُن کا ذِکر کروں گا ۔
                  عبداللہ بن نافع رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
                  اللہ آسمان پر ہے اور اُس کا عِلم ہر جگہ ہے اور اُس کے عِلم سے کوئی چیز خارج نہیں
                  حوالہ جات ::: أعتقاد اہل السُّنۃ/مؤلف اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي ،
                  التمھید/مؤلف اِمام أبن عبد البَر ۔









                  اِمام مُحمد بن اِدریس الشافعی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 204 ہجری

                  أبی شعیب ، اور أبی ثور رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اِمام الشافعی رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
                  میں نے اِمام مالک اور اِمام سفیان الثوری اور دیگر تابعین (اِِن کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا )
                  کو جِس طرح سُنّت کی جِس بات پر پایا میں بھی اُس پر ہی قائم ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اِس بات کی شہا دت دِی جائے کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ آسمان سے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ہے ، جیسے چاہتا ہے اپنی مخلوق کے قریب ہوتا ہے ، اور جیسے چاہتا ہے دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور عقیدے کے دیگر معاملات کا ذِکر کیا ۔

                  حوالہ ::: اجتماع الجیوش الاسلامیۃ/فصل في بیان أن العرش فوق السموات و أنّ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فوق العرش/مؤلف اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ ،ناشر دارالکتب العلمیہ، بیروت ، پہلی اشاعت،
                  مختصر العلو للعَلي الغفار /دلیل رقم 196

                  اِمام أحمد بن حنبل ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 241 ہجری

                  یوسف بن موسیٰ البغدادی کہتے ہیں کہ ، انہیں عبداللہ ابن احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ نے بتایا کہ اُن کے والد اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ سے پوچھا گیا" کیا اللہ عز و جلّ ساتویں آسمان کے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے ، اور اُسکی قدرت اور عِلم ہر جگہ ہے ؟ "
                  تو اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ فرمایا:
                  جی ہاں اللہ عرش پر ہے اور اُس (کے عِلم ) سے کچھ خارج نہیں
                  اِمام العلامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ نے "اجتماع الجیوش الاسلامیہ"میں لکھا کہ اِس روایت کو اِمام أبو بکر الخلال رحمہُ اللہ"السُّنّۃ " میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔
                  واضح رہے کہ اس عقیدے کے بارے میں ان أئمہ کرام کی طرف سے صِرف یہی اقوال میسر نہیں ، بلکہ اور بھی صحیح ثابت شدہ اقوال ملتے ہیں ، میں نے صِرف اختصار کے پیش نظر یہ چند ایک اقوال نقل کیے ہیں۔
                  اللہ تعالیٰ انہیں ہی سب قارئین کے لیے کافی کرنے پر مکمل قُدرت رکھتا ہے۔








































                  Comment


                  • #10
                    Re: کیا یہ کفر نہیں




                    معاویہ بن الحکم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میری لونڈی تھی جواحداورجوانیہ میں ہماری بکریاں چرایاکرتی تھی ایک دن معلوم کرنے کےلیےدیکتھاہوں کہ بھیڑیا ایک بکری کواٹھالےگیا،انسان ہونے کے ناطے دوسرے لوگوں کی طرح غصہ آیا اور میں نے لونڈی کو ایک تھپڑ رسیدکردیا،پھر میں نےرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کےپاس آیا،جب میں نے آپ کوبتایاتو آپ نےاسے غلط قراردیا،میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیا میں اسےآزاد نہ کردوں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا
                    اﷲ کہاں ہے؟لونڈی نے کہا؛آسمان پر ،پھر آپ نے پوچھا،میں کون ہوں؟اس نے کہا آپ اﷲ کے رسول﴿ صلی اﷲ علیہ وسلم ﴾ہیں،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے۔
                    ۔

                    ﴿صیح مسلم،ابوداؤد﴾






                    Comment


                    • #11
                      Re: کیا یہ کفر نہیں

                      Originally posted by Son of Mountains View Post
                      Mujahy is Behass se kia Lena Dena jab main in Ayaat ko parhta hoon tu (Tarjumay mein Kami-Beshi Allah Taalah muaaf farmye)


                      1- Allah Noor hy Asmaano aur Zameen Ka

                      2- Hum ne os k andar apni Rooh phoonk di (insaan k putlay ka tazkira hay, Sorah Suaad)

                      3- Tum jis taraf bhi Rukh karo gay osi ka chehra paao gay

                      4- Hum tu tumhari Sheh-rag se bhi ziada Qareeb hein

                      5- Hum tumharay andar hein pus tum dekhtay kion nahi

                      6- Keh do wo "Ahad" hay


                      ]
                      بسم اللہ الرحمن الرحیم



                      اللہ کہاں ہے؟
                      ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین)

                      آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے؟

                      1 اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے

                      إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ


                      ﴿54﴾




                      ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے
                      (سورۃ الاعراف ،آیت 54)




                      2 اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے

                      إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

                      ﴿٣﴾




                      ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے
                      (سورۃ یونس ،آیت 3)




                      3 اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے

                      ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ

                      ﴿٢﴾




                      ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو
                      (سورۃ الرعد،آیت 2)




                      4 اللہ الرحمن کا فرمان ہے
                      ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ

                      ﴿٥﴾




                      ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے
                      (سورۃ طہ،آیت 5)




                      5 اللہ ہر ایک چیز کے واحد خالق کا فرمان ہے

                      ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا


                      ﴿59﴾




                      ترجمہ: جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو
                      (سورۃ الفرقان،آیت 59)




                      6 اللہ الحکیم کافرمان ہے
                      ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

                      ﴿٤﴾




                      ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے
                      (سورۃ السجدۃ،آیت 4)




                      7 ۔ اللہ الکریم کا فرمان ہے

                      هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ


                      ﴿٤﴾




                      ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے
                      (سورۃ الحدید ،آیت 4)




                      اس مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں ہمارے اس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ،جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں،اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی "معیت" یعنی اُس کا ساتھ ہونا۔جس کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے،جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے خود ہی اپنی "معیت" کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
                      وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ


                      ﴿٤﴾




                      ترجمہ: اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے
                      (سورۃ الحدید ،آیت 4)




                      یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت ،سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ،نہ کہ اس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے۔

                      (8) اللہ المعز کا فرمان ہے

                      مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۭ ۖ وَمَكْرُ أُو۟لَٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ


                      ﴿10﴾




                      ترجمہ: جو شخص عزت چاہتا ہو سو الله ہی کے لیے سب عزت ہے اسی کی طرف سب پاکیزہ باتیں چڑھتی ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں انہی کے لیے سخت عذاب ہے اوران کی بری تدبیر ہی برباد ہو گی
                      (سورۃ الفاطر،آیت 10)




                      (9) اللہ ذی المعارج کا فرمان ہے

                      سَأَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍۢ وَاقِعٍۢ ﴿١﴾لِّلْكَٰفِرِينَ لَيْسَ لَهُۥ دَافِعٌۭ ﴿٢﴾مِّنَ ٱللَّهِ ذِى ٱلْمَعَارِجِ ﴿٣﴾تَعْرُجُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ


                      ﴿٤﴾




                      ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا (اور وہ) اللہ ئے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا) جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا
                      (سورۃ المعارج،آیت 1تا4)




                      (10) اللہ الاعلیٰ کا فرمان ہے

                      يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ

                      ﴿٥﴾




                      ترجمہ: وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا
                      (سورۃ السجدۃ،آیت 5)







                      (11) اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے

                      يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩

                      ﴿50﴾




                      ترجمہ: اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں
                      (سورۃ النحل،آیت 50)




                      اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرامین سے صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ اللہ الاعلیٰ اپنی تمام مخلوق کے اوپر ،اُس سے جدا اور بلند ہے،کسی لفظ کی کوئی تشریح یا تاویل کرنے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے یہ درج ذیل فرامین بھی ذہن میں رکھنے چاہیے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم محمد ﷺ کو مخاطب فرما کر ،اُن کے اُمتیوں کو اُن ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری بتائی ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارک کو اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کردہ قولی اور عملی تفسیر شرح اور تعلیمات کے مطابق سمجھنا ہے،نہ کہ اپنی عقل و سوچ،مزاج،پسند و ناپسند اور اپنے خود ساختہ جہالت زدہ فلسفوں کے مطابق

                      بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ


                      ﴿٤٤﴾




                      ترجمہ: (اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں
                      (سورۃ النحل،آیت 44)




                      اور مزید تاکید فرمائی کہ

                      وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۙ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ

                      ﴿64﴾




                      ترجمہ: اور ہم نے جو تم پر کتاب نازل کی ہے تو اس کے لیے جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے تم اس کا فیصلہ کردو۔ اور (یہ) مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
                      (سورۃ النحل،آیت 64)




                      اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تفسیر اور شرح کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ کو دی گئی ہے ہر کس و ناکس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سےیا اپنی سوچ و فکر کے مطابق ،یا اُس کے ذہن پر مسلط فلسفوں اور شرعا نا مقبول خود ساختہ کسوٹیوں کی بنا پر قرآن پاک کی آیات مبارکہ کی ایسی تفسیر یا تشریح کرے جو اللہ یا رسول ﷺ کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کہ مطابق نہ ہوں، اور جب اس کی جہالت زدہ سوچیں اور فلسفے قرآن کریم کی ہی آیات شریفہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو آیات شریفہ کی باطل تاویلات کرنے لگے،اور جب اس کی باطل تاویلات صحیح چابت شدہ سنت مبارکہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو سنت مبارکہ کا ہی انکار کرنے لگے۔
                      پس اللہ کے مقرر کردہ تفہیمء قُران کے اس دُرست ترین منھج کے مطابق، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کے تمام تر مخلوق سے جُدا،الگ اور بُلند ہونے کی صفت کے بیان والی آیات مبارکہ کے بعد اب ہم یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ اللہ الرَّحیم کے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے اللہ کی اِن باتوں اور اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا، الگ اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟
                      اُس کے بعد اِن شاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین اور أئمہ رحمہم اللہ جمعیاً کے أقوال ، پھر آپ فیصلہ کیجیے گا کہ اللہ تعالیٰ اُوپر ہے ؟ یا معاذ اللہ ہر جگہ منتشر جسے عام طور پر ہر جگہ موجود ہونے کے الفاظ میں بھی ذکر کیا جاتا ہے ؟ یا کہیں اور ؟ اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جو کچھ اللہ بارے میں بتایا ہے وہ کہنا کُفر ہے یا اُس کے خِلاف کہنا ؟؟؟

                      فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ

                      پس عبرت حاصل کرو اے بصیرت والو

                      Comment


                      • #12
                        Re: کیا یہ کفر نہیں

                        @ post # 9

                        Kia Allah k kalam ki ayaat ziada moatabar hein ya kisi Faqeeh ki fatway??? lol

                        @ post # 11
                        Is it really a relevant reply you posted? OMG, i think any 3rd person come in this matter to decide that hazrat lovely ne jo jawab dia hy ye wakai relevant reply dia hay? Seems a random copy-paste from somewhere....loll

                        Now i want to enjoy this ayat:


                        ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے
                        (سورۃ طہ،آیت 5)
                        "Momin ka dil Khuda ka Arsh hy"

                        Comment


                        • #13
                          Re: کیا یہ کفر نہیں

                          Originally posted by Son of Mountains View Post
                          @ post # 9


                          "Momin ka dil Khuda ka Arsh hy"

                          zara detail to bataian apni bat ki

                          Comment


                          • #14
                            Re: کیا یہ کفر نہیں



                            اللہ کہاں ہے؟

                            رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

                            آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے




                            أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِى فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِى فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِى فَأَغْفِرَ لَهُ



                            جب رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو(اِس وقت ) مُجھ سے دُعا کرے کہ میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو (اِس وقت)مُجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں اُسکا سوال پورا کروں ، کون ہے جو (اِس وقت) مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اُسکی مغفرت کروں)

                            صحیح البُخاری/ابواب التہجد
                            /باب14، صحیح مُسلم/حدیث 758 ،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا / باب24 (



                            قارئین کرام ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کو بھی غور سے پڑہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمارے رب اللہ عز و جل کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ، پس اگر یہ کہنا ہے کُفر ہے کہ اللہ اُوپر ہے تو کُفر کا فتویٰ لگانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان پر کیا فتویٰ لگائیں گے ؟؟؟



                            ( 2 )

                            أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا

                            يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِى فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ

                            رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے تُم لوگوں میں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں(یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں )پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے(یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُوپر ( اللہ کی طرف) چڑھتے ہیں تو(وہاں )اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، جبکہ وہ بندوں کے بارے میں فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ؟ تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے

                            صحیح مُسلم
                            / حدیث632/کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ / باب 37 کی پہلی حدیث ،صحیح البُخاری / حدیث 555 / کتاب مواقیت الصلاۃ / باب 16کی دوسری حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ/حدیث 321 /کتاب الصلاۃ / باب12 ذكر اجتماع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر وصلاة والعصر جميعا ودعاء الملائكة لمن شهد الصلاتين جميعا کی پہلی حدیث، صحیح ابن حبان /حدیث 1736/کتاب الصلاۃ/باب9،مؤطامالک/حدیث416/کتاب قصر الصلاۃ/ باب24 ،مُسند احمد /مُسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ ،سنن النسائی /حدیث489/ کتاب الصلاۃ/باب21۔

                            (3)

                            ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا

                            إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلاَئِكَةً سَيَّارَةً فُضْلاً يَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ - قَالَ - فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِى الأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ


                            بے شک اللہ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو (زمین میں)چلتے پھرتے ہی رہتے ہیں ،اور(اللہ کے) ذِکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جِس میں (اللہ کا)ذِکر ہو رہا ہو تو وہ ذِکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کے اور دُنیا والے آسمان کے ساری جگہ میں وہ فرشتے بھر جاتے ہیں ، اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے اور بُلند ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مزید فرمایا ۔تو(وہاں )اللہ عزّ و جلّ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ """ تُم سب کہاں سے آئے ہو ؟ """ جبکہ اللہ فرشتوں کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ہے، تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں """ہم آپ کے اُن بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں آپ کی پاکیزگی ، اور آپ کی بڑائی ، اور الوھیت میں آپ کی واحدانیت ،اور آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ، اور آپ سے سوال کرتے ہیں

                            )صحیح مُسلم /حدیث 7015/کتاب الذکر و الدُعاء والتوبہ/باب 8 (



                            قارئین کرام ،ملاحظہ فرمائیے ، اور بغور ملاحظہ فرمایے کہ ان دونوں احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑھنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، اور غور فرمایے کہ چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف ؟؟؟

                            اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی


                            (4 )

                            أبی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ یمن سے لائی جانے والی زکوۃ کی تقسیم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            أَلاَ تَأْمَنُونِى وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِى السَّمَاءِ ، يَأْتِينِى خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً



                            کیا تُم لوگ مجھے أمانت دار نہیں جانتے جبکہ میں اُس کی طرف سے امانت دار ہوں جو آسمان پر ہے ، اور مجھے صبح و شام آسمان سے خبر آتی ہے

                            ( صحیح البُخاری /حدیث 4351/کتاب المغازی باب 61 کی تیسری حدیث ، صحیح مُسلم /حدیث 2500 / کتاب الزکاۃ / باب 48 )



                            ایک دفعہ پھر غور فرمایے محترم قارئین کہ وہ کون ہے جِس کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم امانت دار مقرر تھے ؟؟؟
                            جِس نے اپنے پیغامات اور احکامات کو امانت داری سے اُس کے بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو عطاء فرمائی تھی ؟؟؟
                            بے شک وہ اللہ ہی ہے ، اوربے شک وہ آسمانوں کے اُو پر ہے، اور بے شک اسی کی طرف سے آسمانوں کے اُو پر سے صُبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف وحی آتی تھی۔

                            ( 5 )

                            ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ ، وَلاَ يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ إِلاَّ الطَّيِّبُ ، فَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّى أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ


                            جِس نے پاک(حلال )کمائی سے کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور(یاد رکھو کہ )اللہ کی طرف پاکیزہ(چیز )کے عِلاوہ اور کچھ نہیں چڑھتا تو اللہ اُس صدقہ کو اپنے سیدھے ہاتھ میں قبول فرماتا ہے اور اُس صدقہ کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتا ہے یہاں تک وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے

                            (صحیح البُخاری /حدیث 7430 /کتاب التوحید /باب 23)



                            اس مذکورہ بالا حدیث شریف میں بھی بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ بُلندی پر ہے ، اور جیسا کہ پہلے ذِکر کردہ آیات شریفہ اور احادیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ وہ بلندی آسمانوں سے بھی بلند ، عرش سے بھی اُوپر ہے ،
                            اِس حدیث مبارکہ میں ہمارے رواں موضوع کے علاوہ دو اور اہم مسائل کا فیصلہ بھی ہے :::
                            (1) اللہ حلال و پاک چیز کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتا اور
                            (2) اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھی ہے ، پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کی مُختلف خود ساختہ تأویلات کرتے ہیں وہ اتنا ہی خیال کر لیا کریں کہ کوئی کچھ بھی ہو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بڑھ کر اللہ کو جاننے والا نہیں ہو سکتا ، پس اگر وہ کوئی ایسی بات کہتا یا مانتا ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا مُخالف و نافرمان ہے ، اور جو رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا مُخالف و نافرمان ہوا وہ اللہ کا مُخالف و نافرمان ہوا ، کیونکہ مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ


                            اور جس نے رسول کی تابع فرمانی کی اُس نے اللہ کی ہی تابع فرمانی کی

                            ( سورۃ النساء /آیت 80)



                            اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کے اِس فرمان کا مفہوم یہ ہوا کہ
                            " جس نے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کی اُس نے اللہ کی نافرمانی کی

                            (6 )

                            أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلاَّ كَانَ الَّذِى فِى السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا


                            اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی اِنکار کرے تووہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُس عورت کا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا

                            (صحیح مُسلم /حدیث 1436 /کتاب النکاح ، باب 20 کی دوسری حدیث )



                            جی ، کون ہے جو اپنے خاوند کی بات نہ ماننے والی عورت پر ناراض ہوتا ہے ، اور وہ ناراض ہونے والا آسمان سے اُوپر ہے ، یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے ۔

                            ( 7 )

                            عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھماکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا أَهْلَ الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِى السَّمَاءِ


                            رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے ،تم اُن پر رحم کرو جو زمین پر ہیں ، تُم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان پر ہے

                            ( سُنن الترمذی /حدیث 1924/کتاب البر و الصلۃ /باب 16 کی تیسری حدیث اِمام الترمذی نے اِسے حسن صحیح قرار دِیا ہے ، سُنن أبو داود /حدیث4931/کتاب الأدب /باب 66 کی پہلی حدیث ، مُصنف ابن أبی شیبہ /کتاب الأدب /باب 4 ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 925۔)



                            کون ہے ، جو آسمانوں کے اُوپر ہے اور زمین پر رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے ، الرحمٰن ، یقیناً اللہ پاک ہی ہے اور آسمانوں سے اُوپر ہی ہے۔









                            ( 8 )

                            أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ الخَلقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہِ فَہُوَ عِندَہُ فَوق َ العَرشِ إِنَّ رَحمَتِی تَغلِبُ غَضَبِی



                            جب اللہ تخلیق مکمل کر چکا تو اُس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہو گی وہ کتاب اللہ کے پاس ہے عرش کے اوپر

                            (صحیح البُخاری /حدیث 3194 /کتاب بداء الخلق /پہلے باب کی پہلی حدیث ، صحیح مُسلم /حدیث 2751 /کتاب التوبہ/باب 4 پہلی حدیث )



                            محترم قارئین ، یہاں رُک کر ، ایک دفعہ پھر غور فرمایے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم صاف بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اُوپر ہے ، ہر جگہ نہیں،
                            آئیے دیکھتے ہیں کہ عرش کہاں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ عرش یہیں کہیں ہو اور اللہ بھی ؟؟؟






                            ( 9 )

                            أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَصَامَ رَمَضَانَ ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ جَاهَدَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، أَوْ جَلَسَ فِى أَرْضِهِ الَّتِى وُلِدَ فِيهَا


                            جو اللہ اور اُسکے رسول پر اِیمان لایا اور نماز ادا کرتا رہا اور رمضان کے روزے رکھتا رہا ، تو اللہ پر (اُس کا )یہ حق ہے کہ اللہ اُسے جنّت میں داخل کرے خواہ اُس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی بستی میں ہی زندگی گُذاری ہو



                            صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ::: اے اللہ کے رسول کیا ہم لوگوں کو یہ خوشخبری سنائیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            إِنَّ فِى الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ، مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ ، أُرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ


                            اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنّت میں ایک سو درجات بنا رکھے ہیں ، ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے ، لہذا جب تُم اللہ سے سوال کرو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا درمیانی اور سب سے بُلند مُقام ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اُس کے اُ وپر رحمان کا عرش ہے جِس میں سے جنّت کے دریا پھوٹتے ہیں

                            (صحیح البُخاری /حدیث 2790/کتاب الجھاد و السیر/باب 4، حدیث1 )



                            امام بخاری نے اس حدیث کی روایت کے بعد تعلیقاً لکھا کہ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ﴿وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ :::اور اُس سے اُوپر رحمٰن کا عرش ہے﴾ یعنی اوپر ذکر کردہ روایت میں راوی کی طرف سے اس جملے کے بارے میں جو لفظ """ أُرَاهُ """ کے ذریعے شک کا اظہار ہوا ہے وہ اس دوسری سند کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ و للہ الحمد و المنۃ،
                            اس حدیث مبارک کے ذریعے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا عرش جس سے اوپر اللہ تعالیٰ خود مستوی ہے ، وہ عرش فردوس الاعلی سے بھی اُوپر ہے ، یہیں کہیں نہیں ،لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ہر جگہ موجود یا قائم نہیں ۔




                            ( 10 )

                            جریر رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            مَن لا یَرحَمُ مَن فِی الأَرضِ لا یَرحَمُہُ مَن فِی السَّمَاء
                            ِ


                            جو اُن پر رحم نہیں کرتا جو زمین پر ہیں اُس پر وہ رحم نہیں کرتا جو آسمان پرہے

                            لمعجم الکبیر للطبرانی/حدیث2497،الترغیب والترھیب/حدیث 3411، اِمام المنذری رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ(اِمام) طبرانی(رحمہ ُ اللہ) نے یہ حدیث بہت اچھی اور مضبوط سند سے روایت کی ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور اس حدیث شریف کو "صحیح لغیرہ" قرار دیا ، صحیح الترغیب و الترھیب ، حدیث2255 )






                            ( 11 )

                            سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِىٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا


                            تمہارا رب تبارک و تعالیٰ بہت حیاء کرنے والا اور بزرگی والا ہے ، جب اُس کا کوئی بندہ اُس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو اللہ اِس بات سے حیاء کرتا ہے کہ وہ اُس بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے

                            ) سُنن أبو داؤد /حدیث 1485 ، سُنن الترمذی /حدیث3556 /کتاب الدعوات ، اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)



                            اگر اللہ ہر جگہ موجود ہے تو آگے پیچھے دائیں بائیں کسی بھی طرف ہاتھ پھیلا کر دُعا کرلی جانی چاہیے، آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف ہاتھ کیوں اٹھائے جاتے ہیں ؟
                            کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے والے لوگ بھی جب دُعا مانگتے ہیں تو ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور دورانء دُعا نظریں اُٹھا اُٹھا کر بھی آسمان کی طرف ، اُوپر کی طرف دیکھتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل میں یہ بھی ہے کہ ہم جس اللہ سے دُعا مانگ رہے ہیں وہ اُوپر ہی ہے ۔




                            ( 12 )

                            عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            أِتَقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا تَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ کأنَّہا شِّرار


                            مظلوم کی بد دُعا سے ڈرو کیونکہ وہ چنگاری کی طرح آسمان کی طرف چڑہتی ہے

                            ) المستدرک علیٰ الصحیحین للحاکم ، معروف ب المستدرک الحاکم/حدیث 81 ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث اِمام مُسلم کی شرئط کے مُطابق صحیح ہے ، اور امام الالبانی نے بھی صحیح قرار دیا ،السلسلہ الصحیحہ /حدیث(871



                            مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑہتی ہے، کیوں اُس طرف چڑھتی ہے ؟؟؟ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود و قائم ہے تو پھر دُعا کو کسی بھی طرف چل پڑنا چاہیے ، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عطاء کردہ اس خبر کے مطابق تو مظلوم کی دُعا آسمان کی طرف چڑھتی ہے ، کیونکہ وہاں تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا اُن کا اکیلا خالق اللہ ہوتا ہے ، جس نے دُعائیں قبول و رد کرنا ہوتی ہیں ،
                            اس حدیث پاک میں ہمیں مظلوم کی طرف سے کی جانے والی بد دُعا سے بچنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے ، یعنی ظلم کرنے سے باز رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ جب ہم کسی پر ظلم نہیں کریں گے تو کوئی بحیثیت مظلوم ہمارے لیے بد دُعا نہیں کرے گا مظلوم کی بد دُعا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ

                            اتَّقِ دَعوَۃَ المَظلُومِ فَإِنَّہَا لَیس بَینَہَا وَ بَینَ اللَّہِ حِجَابٌ


                            مظلوم کی بد دُعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا

                            )صحیح البُخاری /حدیث 2316/ کتاب المظالم/باب10 ،صحیح مُسلم /حدیث 19/کتاب الایمان/ باب 7 )



                            ظلم ، مظلوم یا اس کی بد دُعا میری اس کتاب کا موضوع نہیں ، پس اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہوں کہ اس حدیث مبارک سے بھی یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ چونکہ مظلوم کی بد دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں لہذا وہ بددُعا آسمانوں کی طرف اسی لیے چڑھتی ہے کہ وہاں آسمانوں سے بُلند ، اپنے عرش سے اُوپر استویٰ فرمائے ہوئے، عرش سمیت اپنی تمام تر مخلوق سے بُلند ، الگ اور جُدا، اللہ کے پاس پہنچے ۔

                            ( 13 )

                            النواس بن سمعان الکلبی رضی اللہ عنہ ُ فتنہء دجال کے اور یاجوج ماجوج کے نکلنے اور قتل و غارتگری کرنے کی خبروں پر مشتمل ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِى الأَرْضِ هَلُمَّفَلْنَقْتُلْ مَنْ فِى السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا


                            پھر یأجوج مأجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑکے پاس جا پہنچیں گے ، اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے(جب وہاں پہنچیں گے) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے اُنہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ اُن کے تیروں کو خون کی طرح سرخ کر کے اُن کی طرف پلٹا دے گا)

                            صحیح مُسلم / حدیث 2937 /کتاب الفتن و أشراط الساعۃ /باب 20، سُنن النسائی /حدیث 2240/ کتاب الفتن /باب 59 )




                            ( 14 )

                            جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا خطبہء حج بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

                            وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّى فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ

                            اور تُم لوگوں کو میرے بارے میں پوچھا جائے گاتوتُم لوگ کیا کہو گے
                            سب نے جواب دِیا

                            نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ

                            ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے(اللہ کے پیغامات کی)تبلیغ فرما دی ، اور (رسالت و نبوت کا)حق ادا کر دیا اور نصیحت فرما دی

                            فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ

                            تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی شہادت والی اُنگلی سے لوگوں کی طرف اِشارہ فرماتے پھر اُسے آسمان کی طرف اُٹھاتے اور اِرشادفرمایا ،اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ :::اے اللہ گواہ رہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ کیا اور فرمایا

                            )
                            صحیح مُسلم /حدیث1218 /کتاب الحج / باب 19 ،حجۃ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )

                            رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن فرامین میں صاف صاف واضح طور پر یہ تعلیم دے گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش سے اُوپر ہے اور اپنی تمام مخلوق کے تمام أحوال جانتا ہے ، اُمید تو نہیں کہ کوئی صاحبِ اِیمان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے یہ فرامین پڑھنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود سمجھتا رہے ، اور اللہ کو اُوپر کہنے کو کفر کہے ۔






                            Comment


                            • #15
                              Re: کیا یہ کفر نہیں

                              Wow, what a game played by Arabics! Very wisely they did it on the name of.......

                              Afsoos hay keh, I am dumb and the looser. Sorry to all, Arabics win the race. LONG live their policy of playing with us and the whole world!!! One day, they will have to give Hisaab too in Akhirat for this game



                              P.S.., Plz do not ask me the explanation, bcz, i will not do it. (A Sorry to Wahabized aka arbanized bunch of the people)

                              But i TRUST that kuch Log meri baat samajh gaye hon gay keh mera rona kis baat ka hay.

                              Comment

                              Working...
                              X