بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
طاغو ت سے کفرواجتناب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہلَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ
اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٢٥٦
اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ
مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٥٧ۧ
دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے الگ واضح کر دی گئی ہے پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں ہے اور اللہ سنتا وجانتا ہے۔ اللہ ان کا ولی ہو جاتا ہے جو ایمان لے آتے ہیں ،وہ اُنہیں اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لے آتا ہے۔ اور جو انکار کرتے ہیں طاغوت ان کے ولی ہوتے ہیں جو انہیں روشنیوں سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں ۔ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
(۲: البقرہ ۔۲۵۶،۲۵۷)
آیاتِ بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کا مضبوط سہارا صرف اس شخص کو میسر آتا ہے جو طاغوت سے کفر کر نے ( طاغوت کو ردّ کرنے )کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے۔ اس سے’’طاغوت سے کفر کرنا‘‘ اللہ پر ایمان کی بنیادی اور اوّلین شرط قرار پاتا ہے، ایسا ایمان رکھنے والوں ہی کااللہ ولی(حامی وناصر،دوست وسرپرست) ہو جاتا ہے اور انہیں گمراہی کے اندھیر وں سے نکال کر نور ِہدایت میں لے آتا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ پرایسا ایمان لانے سے انکار کرنے والوں(یعنی اللہ پر ایمان سے پہلے طاغوت سے کفرکرنے سے انکارکرنے والوں) کے ولی طاغوت ہی ہوتے ہیں جو انہیں نورِ ہدایت سے گمراہی کے اندھیروں میں کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
طاغوت !
طاغوت ’’ طغیٰ‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے حد سے تجاوز کرجانا، سرکش ہو جانا۔
اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى 17
یہ کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے۔
سورۃ النازعات آیت نمبر ۱۷
اوپردرج آیت میں ’’ ہدایت کے گمراہی سے الگ واضح کر دیئے جانے‘‘ کی بات کہنے کے بعد کہا گیا ہے کہ ’’ پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا ․․․․․․۔‘‘ یہ بات واضح ہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اُس نے ’’کتابُ اللہ(قرآن مجید) اور سنت ِرسول اللہﷺ ‘‘ کی صورت میں لوگوں کی ہدایت کے لئے ’ ’برحق علم‘‘نازل کردیا ہواہے اور’’حق ‘‘کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اسے گمراہی قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
قُلْ اِنَّ ھُدَى اللّٰهِ ھُوَ الْهُدٰى ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ١٢٠ تم کہہ دو کہ بے شک اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے۔ اور اگر کہیں اتباع کر لی تم نے ان کی اھواء کی اس کے بعد بھی کہ آچکا ہے تمہارے پاس’’ علم‘‘ (اللہ کی نازل کردہ ہدایت)تو تمہارے لئے اللہ سے (بچانے والا)کوئی دوست اور کوئی مددگار نہ ہو گا۔
۲: البقرہ۔۱۲۰
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ښ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ 32
پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟
۱۰: یونس۔۳۲
سورۃ بقرہ کی آیت ۲۵۶میں ہدایت و گمراہی کے حوالے سے اللہ(جس کی طرف سے ہدایت نازل کی گئی ہے) کے مقابل ذکر ہونے سے طاغوت ’’گمراہی‘‘پھیلانے والے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اُس کو یہ مقام معاملات ِ زندگی میں لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کی بجائے اھواء پیش کرنے کی بناء پر ملتا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ ہی سے وہ حد سے تجاوز کرنے والا(طاغوت) قرار پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَ اِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآ ئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْن
اوراکثرلوگ دوسروں کو ’’علم‘‘(اللہ کی نازل کردہ ہدایت) کی بجائے، اپنی اھواء کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں۔
بے شک تیرا رب ان حد سے تجاوزکرنے والوں(طواغیت) کو خوب جانتا ہے۔
(۶: الانعام۔۱۱۹)
اوپر درج آیت سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی گمراہی کی وجہ طواغیت کی طرف سے پیش کردہ’’ اھواء‘‘ کی اتباع (اطاعت وپیروی) ہوتی ہے۔ کتاب و سنت سے ’’ اھواء‘‘مخلوق کی خواہش ومرضی،اس کے ظن وگمان اورہراُس بات کے طور پر سامنے آتی ہیں جوخالق کی نازل کردہ ہدایت کو چھوڑکر محض مخلوق کی خواہش ومرضی اور اس کے ظن وگمان سے اخذ کردہ ہوں اور محض اس کی ذہنی اختراع کی صورت میں ہوں۔ یوں ہر وہ شخص طاغوت قرار پاتا ہے جولوگوں کو اتباع کے لئے اللہ کی نازل کردہ ہدایت (کتاب و سنت)کی بجائے اپنی ’ ’اھواء ‘‘پرمبنی کوئی بات( حکم، قانون، فیصلہ، فتویٰ،فلسفہ ، نظریہ ،طریقہ و نظام ِزندگی وغیرہ)پیش کرے خواہ وہ والدین میں سے کوئی ہویا قبیلے کاسردارہو، ملک کا حکمران و سپہ سالار ہویا کوئی قانون ساز،جج و قاضی ہو ، کسی پارٹی کاسربراہ ہو یا علاقے کا سرپینچ ہو، عالم و مفتی ہو یاکوئی پیر و درویش ہو یا کوئی بھی اور ہو۔
شیطان: طاغوتوں کا سرغنہ
تمام طواغیت کا سرغنہ شیطان ہے کیونکہ وہی اپنے ان دوستوں (طاغوتوں)کی طرف گمراہ کن با تیں وحی کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں سے بحثیں کریں اورانہیں گمراہ کریں جیسا کہ سورۃ الانعام کی اوپر درج آیت ۱۱۹ کے ایک آیت بعد اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ
وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُم اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ
حقیقت یہ ہے کہ شیاطین اپنے ساتھیوں (حد سے بڑھنے والوں ؍طواغیت)کی طرف وحی کرتے ہیں
تا کہ وہ تم سے بحثیں کریں لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔
سورۃ الانعام۔۱۲۱
طاغو ت سے کفرواجتناب کا نتیجہ
غیر اللہ کی بندگی (شرک)سمیت ہرگمراہی سے نجات !
اوپر درج آیت سے واضح ہوتا ہے کہ طواغیت کی اطاعت کرنے والا مشرک ہوجاتاہے اورذیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَهْوَاۗءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ 56
کہہ دو ! بے شک مجھے منع کیا گیا ہے اس سے کہ میں عبادت کروں ان کی جنہیں تم پکارتے ہو اللہ کے سوا۔ کہہ دو ! نہیں اتباع کروں گا میں تمہاری اھواء کی ، اگر ایسا کیا تو یقینا میں گمراہ ہو جاؤں گا اور نہ رہوں گا شامل ہدایت پانے والوں میں ۔
(۶: الانعام ۔ ۵۶)
آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کسی غیراللہ کی بندگی(شرک) میں مبتلا ہوتا ہے مثلاًاللہ کے علاوہ کسی کو پُکارتا ہے، کسی کو سجدہ کرتا ہے وغیرہ تو وہ ایساکسی طاغوت کی اھواء کی اتباع(طاغوت کی عبادت) کی بنا پرکرتا ہے یوں طاغوت لوگوں سے اپنی اتباع (عبادت) کاشرک کروانے کے علاوہ دیگر غیراللہ کی عبادت کرانے کا بھی ذمہ دار بنتا ہے مگرجب انسان شیطان اوردیگر ہر طاغوت سے کفرواجتناب اختیار کرلیتا ہے تو اس کا یہ کفرواجتناب انسان کے لئے شرک سمیت ہر گمراہی سے بچنے کاباعث بنتا ہے ۔
طاغوت سے کفرواجتناب کرنے کی صورتیں
کتاب و سنت سے طاغوت سے کفرواجتناب کرنے کی درج ذیل صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں
الف۔ طاغوت پر ایمان نہ رکھنا : یعنی طاغوت کو حکم، قانون، فیصلہ، فتویٰ،فلسفہ ، نظریہ ،طریقہ و نظام ِزندگی وغیرہ جاری کرنے کا حق دار نہ ماننااور اتباع کے قابل نہ ماننا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ!
اَلْمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ
وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآءِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاسَبِیْلًا
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ ط وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ سیدھے راستے پر ہیں ،ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی حامی و مددگار نہ پاؤ گے۔
(۴: النساء ۔۵۱،۵۲)
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَا ٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَ یُرِیْدُ
الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَللٰاًم بَعِیْدًا
کیا آپ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو آپ پر نازل ہوا ہے اور اس پر جوآپ سے پہلے نازل ہوا ہے مگر فیصلہ کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں راہ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی(شرک) میں لے جانا چاہتا ہے۔
(۴: النساء ۔ ۶۰)
طاغوت کی عبادت سے اجتناب کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًااَنِ اعْبُدُوااللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
(۱۶: النحل۔ ۳۶)
طاغوت سے اجتناب کی روح حقیقت میں اس کی عبادت سے اجتناب کرناہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَ اَنَا بُوْ ٓا اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی
اورجن لوگوں نے طاغوت سے اجتناب کر لیاکہ اُس کی عبادت کریں اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔
(۳۹: الزمر۔ ۱۷)
’’طاغوت کی عبادت ‘‘بنیادی طور پرطاغوت کے ایسے احکامات، قوانین، فیصلوں، فتووں، فلسفوں، نظریات اور نظام ہائے زندگی وغیر ہ‘‘ کی اتباع (اطاعت و پیروی)ہوتی ہے جو اُس نے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی اھواء سے جاری کئے ہوں، اس لئے طاغوت کی عبادت سے اجتناب بنیادی طو رپر طاغوت کی اھواء پرمبنی مذکورہ بالاچیزوں کی اتباع کرنے سے اور اس سے فیصلے کروانے سے اجتناب قرار پاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’طاغوت کی عبادت سے اجتناب کرکے اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے‘‘ البتہ طاغوت اگر زور و زبردستی سے کسی مومن کو اپنی اھواء کی اطاعت پر مجبور کردے توایسے مومن کے لئے اللہ سے معافی کی امید ہے لیکن زورزبردستی کی حالت کے بغیر محض دنیا کے فائدے کی خاطرطاغوت کی اطاعت(طاغوت کی عبادت) اختیارکر لینے سے انسان اللہ کے غضب کا سزاوار ہو جاتا ہے ۔ اللہ کے ہاں انجام کے لحاظ سے سب سے بُرے لوگ طاغوت کے عبادت گذار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِِ وَلٰکِنْ
مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا
الْحَیوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ لا وَ اَنّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْن
جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے اگر اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو اور دل اُس کا ایمان پرمطمئن ہو ۔ مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر قبول کیااس پر اللہ کا غضب ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں پسند کر لیا ہے اور یقینًا اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(سورۃ النحل ۔ ۱۰۶)
قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰہِ ط مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ
عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ ط اُولٰٓئِکَ شَرُّ
مَّکَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ
کہو کیا میں بتاؤں تم کو کہ کون زیادہ بُرے ہیں اِن سے بھی انجام کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک ، وہ جن پر لعنت کی اللہ نے اور غضب ٹوٹا اُن پر اور بنا دیا اُن میں سے بعض کو بندر اور سؤراور جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ۔ یہی لوگ بدتر ہیں درجہ میں اور زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے۔
(سورۃالمائدہ۔ ۶۰)
طاغوت کی عبادت سے اجتناب
کے ساتھ اس سے تعلقات کی نوعیت
اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَيْكَ اَنَبْنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ
تمہارے لیے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیاتھا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔
(۶۰: الممتحنہ۔۴)
لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ
اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
نہیں منع کرتا تم کو اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم اُن سے اچھا سلوک کرو اوران سے انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ البتہ منع کرتا ہے تم کو اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالااور مدد کی ایک دوسرے کی تمہارے نکالنے میں کہ تم ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔
(سورۃ الممتحنہ۔ ۸،۹)