Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ميلاديوں کے چند شبھات اور اس کا ازالہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ميلاديوں کے چند شبھات اور اس کا ازالہ



    ميلاديوں کے چند شبھات اور اس کا ازالہ


    میلادی حضرات عید میلاد النبی کے تعلق سے اپنے زعم کے مطابق چند دلائل پیش کرتے ہیں اور کچھ شبہات کا اظہار کرتے ہیں ذیل کے سطورمیں انہیں شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے

    (١)

    اگر عید میلاد النبی ۖ منانا غلط اور بدعت ہے تو پھر ہندوستان ،پاکستان،بنغلادیش اور دیگر ممالک میں لاکھوں مسلمان کیوں مناتے ہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اسلام میں اعتبار نہیں بلکہ حق وباطل کا معیار اور کسوٹی کتاب وسنت ہے پس اگرہزاروں آدمی کتاب وسنت کے خلاف کر رہے ہوں اور صرف ایک آدمی اللہ کی کتاب اور نبی ۖ کی سنت کے مطابق عمل کررہا ہو تو وہ ایک آدمی صحیح اور حق پر ہے .دیکھئے اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق فرمایا(ان ابراہیم کان أمة قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین)
    ٫٫ بیشک ابراہیم علیہ السلام ایک امت اور اللہ تعالی کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ، وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،،

    (سورئہ نحل :١٢٠)

    اسی طرح یہود ونصاری کا اپنی اکثریت کی دلیل پیش کرنے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنے نبی ۖ کو خطا ب کرکے فرمایا
    ( وان تطع أکثر من فی الأرض یضلوک عن سبیل اللہ )
    ٫٫اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں،،

    (سورئہ انعام :١١٦)

    ایک دوسر ے مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے(وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین)٫٫آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں،،

    (سورئہ یوسف:١٠٣)

    (وما یؤمن أکثرہم باللہ الا وہم مشرکون )

    ٫٫ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں،،

    (سورئہ یوسف:١٠٦)

    معلوم یہ ہوا کہ حق وباطل کا معیار ،دلائل وبراہین ہیں،لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں،اسلئے یہ کہنا کہ٫٫ اتنے سارے لوگ عید میلاد النبیۖ مناتے ہیں یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ ،،
    درست نہیں

    (٢)

    حق وباطل کا معیار جب کتاب وسنت ہے تو ہمارے ملکوں میں اتنے بڑے بڑے علماء ہیں کیا وہ قرآن اور حدیث نہیں پڑھتے ہیں؟کیا ان کے پاس کتاب وسنت کا علم نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
    یقینا ہمارے ملکوں میں بڑے بڑے علماء ہیں جو قرآن وحدیث پڑھتے اورپڑھاتے ہیں مگر وہ انبیاء کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں ہیں
    ان سے بھی قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اسی لئے تو امام مالک نے مسجد نبوی میں حدیث کا درس دیتے وقت نبی اکرم ۖکی قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
    ٫٫کہ دنیا میں بڑے سے بڑے عالم کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی سوائے اس قبر والے کے ،،.


    (٣)

    ہمارے ملکوں میں علماء کرام کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی ۖمنانا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے اور اس عمل کے لئے قرآن وحدیث سے بے شماردلائل پیش کرتے ہیں، اور جب حق وباطل کا معیار دلائل اور براہین ہی ہیں تو پھر وہی لوگ حق پر ہیں کیونکہ ان کے پاس دلائل ہیں !؟

    تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے (کل حزب بما لدیہم فرحون )٫٫ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے ،،

    (سورئہ مؤمنون:٥٣).

    آئیے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دلیل کس کو کہا جاتا ہے ؟ دلیل یہ عربی کا لفظ ہے اور ٫٫دَلَّ،، سے ماخوذ ہے جسکا معنی ہے مرشد یعنی رہنمائی کرنے والا،اب میں یہاں ان تمام قرآنی آیات کا ترجمہ جناب احمد رضا صاحب کے ترجمہ وتفسیر سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جنہیں میلادی لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں


    (١)

    عیسی بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پرآسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی،،

    (سورئہ مائدہ:١١٤)

    (٢)
    ٫٫اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ،،

    (سورئہ آ ل عمران :١٠٣)

    (٣)

    اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ،،

    (سورئہ ضحی:١١)

    (٤)

    ٫بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ،،

    (سورئہ آل عمران :١٦٤)

    (٥)

    تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسکی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ،،

    (سورئہ یونس:٥٨)

    یہ ہیں میلادیوں کی قرآنی دلیلیں جنہیں وہ چینخ چینخ کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے بھولے بھالے عوام کو سنا تے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ،قارئین کرام !دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا اللہ نے ہم مسلمانوں کو ان آیتوں میں ٫٫عید میلاد النبیۖ،، منانے کا حکم دیا ہے ؟اور کیا اس نے ہمیں وہ سب چیزیں کرنے کا حکم دیا جو آج ہمارے معاشرے میں عید میلاد النبی کے نام پر ہوتا ہے ؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا ،تو پھرکہیں کمانے کھانے کیلئے ان آیتوں کا سہارا تو نہیں لیا جارہا ہے ؟؟؟؟


    لاکھوں احادیث رسول میں میلادیوں کو اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہ ملی تو اس روایت کو بطور ثبوت انہوں نے پیش کیا


    اور عروہ نے کہا ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ،ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا تھا اور اس نے آنحضرتۖ کو دودھ پلایا تھا،جب ابولہب مرگیا تواس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے، کیا گزری ؟وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملامگر ایک ذرا سا پانی ،ابو لہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے ،یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا
    ،،

    (صحیح بخاری کتاب النکاح باب:٢٠ حدیث :٥١٠١)

    اس روایت سے عید میلاد النبی کے لئے استدلال کرنا کئی اعتبار سے غلط ہے


    (١)

    اس روایت میں محض ایک خواب کا ذکر ہے اور اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء ورسل (علیہم السلام) کے خواب کے علاوہ کسی کابھی خواب قابل حجت نہیں اور اس سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا .

    (٢)

    امام بخاری نے ضمنی طو رپر اس واقعہ کو ذکر صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کیاہے کہ ثویبہ یہ آپۖ کی رضاعی ماں تھی،اسی لئے انہوں نے یہ باب باندھاہے باب ٫٫ وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم،، اور تمہاری رضاعی ماؤں کا باب.

    (٣)

    اس واقعہ میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ابولہب نے نبی کی پیدائش کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا بلکہ تاریخ کی دیگر کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کرجانے کے بعد آزاد کیا تھا

    (دیکھئے الطبقات ج/١٠٨۔١٠٩،الاستیعاب ج١/١٢)


    (٤)

    امام بخاری نے اس واقعہ کو عید میلاد النبی کے ثبوت کے لئے ذکر کیا ہے اورنہ ہی شارحین صحیح بخاری میں سے کسی نے اس واقعہ سے میلاد کیلئے استدلال کیا ہے .

    (٥)

    یہ خبر ظاہر قرآن کے خلاف ہے ، ارشاد باری تعالی ہے (وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا)
    ٫٫اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کرانہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا،،یعنی کافروں کے عمل قیامت کے دن ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے.

    (سورئہ فرقان:٢٣)

    (٦)

    بعض روایت کے مطابق یہ خواب عباس نے دیکھا ہے ،اور ابولہب غزوئہ بدر کے سا ت دن بعد مرگیا،اور عباس غزوہ بدر میں مشرکین قیدیوں میں سے تھے،فدیہ کے بعد وہ مکہ واپس ہوئے اور وہاں انہوںنے اسلام قبول کیا ،قرینہ یہ بتلارہا ہے یہ خواب عباس کے حالت کفر کا ہے اور ایک کافر ومشرک کا خواب قابل اعتبار نہیں .

    (فتح الباری ج١/١٤٥۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٣/٥١١)


    (٧)

    اگر ما ن بھی لیاجائے کہ ابو لہب نے نبی کی ولادت کے دن اسے آزاد کیا تھا توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب نے اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی یا محمد رسول اللہ کی پیدائش پر ؟ظاہر ہے اس نے رسول اللہ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد نہیں کیا تھا ،ورنہ وہ اسلام دشمنی میں سب کوپیچھے نہ چھوڑتا ،اورآج ہمارے مسلم بھائی قربت الہی کیلئے اس کے اس عمل کو دلیل بناکر خوشی مناتے ہیں ،کیا دونوں میں فرق نہیں ہے ؟


    (٨)

    اگر مان بھی لیا جائے کہ ابو لہب نے یہ عمل اجروثواب اور قربت الہی کیلئے کیا تھا (اور یہ محال ہے )تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٫٫عید میلاد النبی ،،مناناملعون ابو لہب کی سنت ہے نہ کہ پیارے نبیۖ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی.اور ہم مسلمانوں پر ایک ملعون کافر ومشرک کی اتباع حرام ہے .

    اللہ تعالی ھم سب مسلمانوں کتاب وسنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین


  • #2
    Re: ميلاديوں کے چند شبھات اور اس کا ازالہ

    ہر سال کا سال نامہ شائع کرنے کا شکریہ۔
    :star1:

    Comment

    Working...
    X