سزائے رجم اور سنت رسولﷺ
دین اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور کنوارے زانی کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مغرب زدہ ایک حلقہ رجم کی حد کا انکار
کرتے ہوئے اس کو ظالمانہ اور غیر انسانی باور کرانے میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔
موجودہ دور کے متجددین کے ہاں کنوارے اور شادی شدہ زانی کے لیے سزا سو کوڑے ہے۔ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا نہیں بلکہ رجم کی سزا آیت حرابہ کے تحت دی جائے گی۔ اگر محاربہ کی کوئی صورت نہ ہو تو فقط زنا پر رجم کی سزا کا نفاذ نہ ہوگا۔ جبکہ نبی کریمﷺ نے شادی شدہ زانی پر سنگساری کی سزا نافذ فرمائی ہے۔ کبھی مجرم کے اعتراف پر اور کبھی چار گواہوں کے شہادت دینے پر یہ حد جاری کی گئی۔
اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے
عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث النفس بالنفس والثيب الزاني، والمارق من الدين التارك الجماعة "
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کا خون جو کلمہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ماننے والا ہو حلال نہیں ہے البتہ تین صورتوں میں جائز ہے۔ جان کے بدلہ جان لینے والا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا اور اسلام سے نکل جانے والا (مرتد) جماعت کو چھوڑ دینے والا۔
[صحیح بخاری: 6878]
حضرت عبادۃ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
’’مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو۔ بدکار عورتوں کے لیے اب اللہ نے راستہ بنا دیا۔ (یعنی حکم نازل فرما دیا) اور وہ یہ ہے کہ غیر شادی کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی۔‘‘
[صحیح مسلم : 1690]
اسی طرح حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
« لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ فَإِنَّهُ يُرْجَمُ وَرَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِبًا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الأَرْضِ أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا »
’’کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، مگر تین صورتوں میں اس کا خون مباح ہو جاتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے، اس جرم پر اسے سنگسار کیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرے تو اسے قتل کیا جائے گا یا اسے سولی دی جائے گی یا اسے جلا وطن کر دیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دے تو اس پر اسے بھی ( قصاص کے طور پر) قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
[ابوداؤد: 4353]
اس کے علاوہ دور نبویﷺ میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے کہ شادی شدہ شخص نے زنا کیا تو اس کو آپﷺ کے حکم پر رجم کر دیا گیا۔
اس سلسلہ میں صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے
أن أبا هريرة، قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل من الناس وهو في المسجد فناداه يا رسول الله إني زنيت. يريد نفسه، فأعرض عنه النبي صلى الله عليه وسلم فتنحى لشق وجهه الذي أعرض قبله فقال يا رسول الله إني زنيت. فأعرض عنه، فجاء لشق وجه النبي صلى الله عليه وسلم الذي أعرض عنه، فلما شهد على نفسه أربع شهادات دعاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال " أبك جنون ". قال لا يا رسول الله. فقال " أحصنت ". قال نعم يا رسول الله. قال " اذهبوا فارجموه "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آواز دی یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے۔ خود اپنے متعلق وہ کہہ رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنا منہ پھیر لیا۔ لیکن وہ صاحب بھی ہٹ کر اسی طرف کھڑے ہو گئے جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ پھیرا تھا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا منہ پھیر لیا اور وہ بھی دوبارہ اس طرف آ گئے جدھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ پھیرا تھا اور اس طرح جب اس نے چار مرتبہ اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور پوچھا کیا تم پاگل ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم شادی شدہ ہو؟ انہوں نے کہا جی یا رسول اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو۔
[صحیح بخاری6815]
صحیح مسلم میں ایک حدیث کے الفاظ ہیں
جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِى. فَقَالَ « وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ ». قَالَ فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ ». قَالَ فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِى. فَقَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « فِيمَ أُطَهِّرُكَ ». فَقَالَ مِنَ الزِّنَى. فَسَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَبِهِ جُنُونٌ ». فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ. فَقَالَ « أَشَرِبَ خَمْرًا ». فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ. قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَزَنَيْتَ ». فَقَالَ نَعَمْ. فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ
’’ماعز بن مالک رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسولﷺ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا: تیرا ستیاناس ہو، چلا جا اور اللہ سے بخشش مانگ اور توبہ کر۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر لوٹ آئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے پاک کر دیجئے۔ نبی کریمﷺ نے پھر اسی طرح کہا حتیٰ کہ جب چوتھی مرتبہ ایسا ہوا تو آپﷺ نے پوچھا میں تجھے کس چیز سے پاک کر وں؟ انھوں نے کہا: زنا سے۔ آپﷺ نے پوچھا: یہ دیوانہ تو نہیں؟ بتایا گیا کہ یہ مجنوں نہیں۔ پھر آپﷺ نے پوچھا کیا اس نے شراب پی ہے؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور ان کو سونگھا تو شراب کی بو نہ پائی، پھر آپﷺ نے فرمایا: کیا تو نے زنا کیا ہے؟ ماعز بولے: ہاں! پس آپﷺ کے حکم پر انھیں رجم کر دیا گیا۔‘‘
[صحیح مسلم: 1691]
ان احادیث کے علاوہ متعدد احادیث ایسی ہیں جن میں واضح طور پر شادی شدہ زانی کی حد رجم مذکور ہے۔ دور رسالت کے ایک مقدمہ زنا کی روداد میں یہ بات نہیں ملتی کہ آپﷺ نے کسی ملزم کی پر رجم کی سزا آیت حرابہ کے تحت نافذ کی ہو اور نہ ایسی کوئی روایت ملتی ہے جس میں آپﷺ نے کسی کنوارے زانی کو اس کے غنڈہ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا دی ہو۔ کسی ایک بھی حدیث سے اس بات کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا کہ نبی کریمﷺ نے کسی شادی شدہ زانی کو رجم کے بجائے صرف سو کوڑوں کی سزا دی ہو۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے حد رجم سنت سے ثابت ہے، جس کا انکار سراسر گمراہی ہے۔