Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عيد ميلاد ا لنبى صلى اللہ عليہ وسلم کیوں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عيد ميلاد ا لنبى صلى اللہ عليہ وسلم کیوں

    بسم الله الرحمن الرحيم
    سورة المائدة
    الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
    آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا


    ************************************************** *********
    ايک صاحب عقل وخرد کو اس بات سے دھوکہ نہيں کھانا چاہئے کہ جابجا لوگ کثرت سے محفل ميلاد منعقد کرتے ہيں کيونکہ حق زيادہ لوگوں کے کرنے سے نہيں بلکہ شريعت كى دليلوں سے پہچانا جاتا ہے.
    جيسا کہ اللہ نے يہود ونصارى كى بابت فرمايا:
    ﴿ وقالوا لن يدخل الجنة إلا من کان هودا أونصارى تلك أمانيهم قل هاتوا برهانکم إن کنتم صادقين ﴾ البقرۃ ( 2 / 111 )
    يہ کہتے ہيں کہ جنت ميں يہودونصارى کے سوا کوئي نہيں جائے گا يہ صرف ان كى آرزوئيں ہيں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئي دليل پيش کرو.
    نيز ارشاد باري تعالى ہے:
    ﴿ وإن تطع اکثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله ﴾الانعام ( 6 / 116 ).
    اور دنيا ميں زيادہ لوگ ايسے ہيں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگيں توآپ کواللہ كى راہ سے بے راہ کردينگے.
    ************************************************** **
    اول:

    عيد اس تہوار كا نام ہے جس ميں بار بار اجتماع عادتا ہو، يا تو وہ سال بعد آئے يا پھر ايك ماہ بعد يا ايك ہفتہ بعد، عيد ميں كچھ امور جمع ہوتے ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
    ـ وہ تہوار جو عيد الفطر اور يوم الجمعہ كى طرح بار بار آئے
    ـ اس دن اجتماع ہو اور لوگ جمع ہوں.
    ـ اس روز جو عبادات اور عادات جيسے اعمال كيے جاتے ہيں.

    دوم:
    " جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
    تو اسميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ مشروع ہے.
    اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
    فتاوى اللجنة الدائمة 3/59.
    عيد ميلاد ا لنبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت ہے، اور اس ميں معين عبادات مثلا سبحان اللہ والحمد للہ اور اعتكاف اور قرآن مجيد كى تلاوت اور روزے وغيرہ كى تخصيص كرنا بدعت ہے ايسا كرنے والے كو كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہو گا كيونكہ يہ مردود ہے.
    عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
    " جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا تو وہ مردود ہے "
    صحيح بخارى حديث نمبر ( 1718 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2550 ).





    فاكہانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    " ميرے علم كے مطابق كتاب و سنت ميں اس ميلاد كى كوئى دليل نہيں، اور نہ ہى علماء امت ميں سے كسى معتبر اور قدوہ دين عالم دين سے اس پر عمل كرنا ثابت ہے جو سلف صالحين كے آثار پر عمل كرنے والے ہوں، بلكہ يہ بدعت ہے جسے باطل اور شہوانى قسم كے افراد جو كھانے پينے كو مشغلہ بنائے ہوئے تھے كى ايجاد د ہے "

    ديكھيں: المورد فى عمل المولد ( بحوالہ كتاب: رسائل فى حكم الاحتفال بالمولد النبوي





    اللہ تعالى ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم آپ کے اہل وعيال اورساتھيوں پر رحمت نازل فرمائے.

    اللہ عزوجل نے فرمايا:

    ﴿ فليحذرالذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم ﴾ النور ( 24 / 63 ).

    سنو! جولوگ حکم رسول كى مخالفت کرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہيں ان پر کوئي زبردست آفت نہ آپڑے يا انہيں دردناک عذاب نہ پہنچے.



    اس طرح كى ميلادي مجالس کو ايجاد کرنے کا مفہوم يہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالى نے اس امت کے لئے دين مکمل نہيں کيا، اور جن باتوں پر عمل کرنا امت کے لئے ضروري تھا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ان تک نہيں پہنچايا، يہاں تک کہ جب بعد ميں يہ بدعتي لوگ آئے تو انہوں نے اللہ تعالى كى شريعت ميں ايسي چيزوں کو ايجاد کيا جن كى اللہ تعالى نے اجازت نہيں دي تھي اور ان لوگوں نے يہ خيال کيا کہ يہ اعمال انہيں اللہ کے قريب کردينگے.

    بلاشبہ دين ميں اس طرح كىنئي چيزوں کا ايجاد کرنا انتہائي خطرناک اور اللہ و رسول پر اعتراض ہے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے دين کو مکمل فرما کر اپني نعمت کا اتمام کرديا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نےواضح طور پردين کو پہنچا ديا اور انہيں جنت تک پہنچانے اور جہنم سے نجات دلانے والے ہر راستہ كى راہنمائي فرمادي .



    قابل تعجب بات يہ ہے کہ بہت سے لوگ اس طرح کے غيرشرعي اجتماعات ميں شرکت کے لئے انتہائي سرگرم اور کوشاں نظرآتے ہيں اور بوقت ضرورت اس كى جانب سے دفاع بھي کرتے ہيں، جبکہ دوسري طرف وہي لوگ جمعہ وجماعت اور اللہ کے ديگر فرائض سےبالکل پيچھے نظر آتے ہيں، نہ ہي وہ فرائض كى کچھ پرواہ ہي کرتے ہيں اور نہ ہي ان کے چھوڑنے کو کوئي بڑا گناہ سمجھتے ہيں ، بلا شبہ يہ سب کچھ کمزور ايمان، کم علمي، اور گوناگوں گناہوں کے ارتکاب کے سبب دلوں کے انتہائي زنگ آلود ہوجانے كى وجہ سے ہے، ہم اللہ تعالى سے اپنے اور تمام مسلمان بھائيوں کے لئے عافيت کا سوال کرتے ہيں.

    ميلاد كى ان محفلوں ميں ايک قبيح اور بدترين عمل يہ بھي انجام پاتا ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت کا ذکر آنے پر بعض لوگ ازروئے تعظيم وتکريم آپ کا خير مقدم کرتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہيں، کيونکہ ان کا عقيدہ ہے کہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميلاد ميں حاضر ہوتے ہيں، يہ عظيم ترين جھوٹ اور بد ترين جہالت ہے، کيونکہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم قيامت سے قبل اپني قبر مبارک سے نہ تو نکل سکتے ہيں اور نہ لوگوں ميں سے كسى سے ملاقات کرسکتے ہيں، اور نہ ہي ان مجلسوں ميں حاضر ہوسکتے ہيں، بلکہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم اپني قبر ميں قيامت تک رہيں گے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى روح مبارک دارکرامت ( جنت ) ميں اپنے رب کے پاس اعلى عليين ميں ہے.

    جيسا کہ اللہ تعالى نے سورۃ المومنون ميں فرمايا :

    ﴿ ثم إنکم بعد ذلك لميتون ثم إنکم يوم القيامة تبعثون ﴾المؤمنون ( 15/16 ) .

    اس کے بعد پھر تم سب يقينا مرجانے والے ہو، پھر قيامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤگے.


    شيخ رحمہ اللہ كا ايك دوسرى جگہ يہ فرمانا ہے:

    " اگر ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مشروع ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے اسے ضرور بيان فرماتے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سب سے زيادہ خيرخواہ تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں جو كوئى ايسى بات بيان كرے جس سے نبى كريم صلى اللہ وسلم خاموش رہے ہوں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاتم النبيين ہيں.
    كتاب و سنت ميں يہ پورى وضاحت كے ساتھ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا لوگوں پر كيا حق ہے آپ كے حقوق ميں آپ سے محبت كرنا، اور آپ كى شريعت اور سنت مطہرہ كى پيروى و اتباع كرنا شامل ہے اور اس كے علاوہ باقى حقوق كى ادائيگى كرنا بھى جن كى وضاحت قرآن و سنت ميں ہوئى ہے.
    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے يہ ذكر نہيں كيا كہ ان كى ولادت باسعادت كا جشن ميلاد النبى منانا مشروع ہے تا كہ اس پر عمل كيا جائے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى سارى زندگى اس پر عمل نہيں كيا اور نہ پھر آپ كے بعد صحابہ كرام جو سب لوگوں سے زيادہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق كو جاننے والے اور علم ركھنے والے تھے.

    نہ تو انہوں نے اور نہ ہى خلفاء راشدين نے اور نہ ہى كسى اور نے ميلاد النبى كا جشن منايا، پھر قرون مفضلہ يعنى پہلے تين بہترين دور كے لوگوں نے بھى اس جشن كو نہيں منايا، كيا آپ كے خيال ميں يہ سب لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق كى ادائيگى ميں كمى و كوتاہى كرنے والے تھے، حتى كہ يہ بعد ميں آنے والے افراد نے اس نقص اور كمى كو واضح كيا اور اس حق كو پورا كيا؟!

    نہيں اللہ كى قسم ايسا نہيں ہو سكتا كہ يہ سب صحابہ كرام اور آئمہ كرام آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق سے جاہل و غافل تھے، يا اس ميں كمى و كوتاہى كى، كوئى عقلمند ايسى بات اپنى زبان سے نكال ہى نہيں سكتا جو ان صحابہ كرام اور تابعين عظام كے حالات سے واقف ہو.

    عزيز قارئين كرام جب آپ كے علم ميں آگيا كہ ميلاد النبى كى جشن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں موجود نہ تھا اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كرام كے ادوار ميں اس پر عمل كيا گيا، اور نہ ہى يہ چيز ان كے ہاں معروف تھى اس سے آپ كو يہ علم بھى ہو گيا كہ يہ دين ميں نيا ايجاد كردہ كام ہے اور يہ بدعت كہلاتا ہے اس پر عمل كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى دعوت دينى اور اس ميں شريك ہونا جائز ہے، بلكہ اس سے روكنا اور منع كرنا اور لوگوں كو اس سے بچانا واجب ہے "
    ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 318 - 319 ).


    عید میلاد کے بارے میں مختلف بریلوی علماء کی نظر میں

    مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اصل نہیں ھے اس کی ابتداء چاتھی صدی عیسوی میں ھوئی سب سے پہلے مصر میں نام نہاد شیعوں نے یہ جشن منایا-الخطط اللمقریزی 490/1
    نبی کے یوم پیدائیش کو یوم میلاد قرار دینا عیسایئوں کا وطیرہ ھے مروجہ عید میلادالنبی، عید میلاد عیسی کے مشابہ ھے اور بدعت سیہ ھے، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منا کیا گیا ھے، صحابہ کرام کے زمانے بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا ثبوت نہیں ملتا یہ بعد کی ایجاد ھے
    احمد یار خان نعیمی صاحب فرماتے ھیں کہ "میلاد شریف تینوں زمانوں نہ کسی نے کیا بعد کی ایجاد ھے" جاءالحق 236/1
    جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف حقیقت کرتے ھیں کہ "سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے میلاد کی محافل منعقد نہیں کیں" شرح صحیح مسلم 179/3
    جناب عبدالسمیع رامپوری بریلوی صاحب لکھتے ھیں کہ "یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی ایک مخصوص مہنے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وھی بارھوں دن معین کرنا بعد میں ھوا ھے یعنی چھٹی صدی کے آخر میں" انوار ساطعہ 159
    خود طاھر القادری صاحب اپنی کتاب "میلاد النبی" میں لکھتے ھیں کہ صحابہ 12 ربیع الاول کو میلاد نہیں مناتے تھے بلکہ غمگین رھتے تھے کیونکہ جب ان کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آتا تو وصال کے غم میں پیدایئش کی خوشی دب جاتی



    Yaad Rakhain
Working...
X