Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں غلط فہمی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں غلط فہمی





    پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں غلط فہمی








    امام ترمذی نےپہلے رفع یدین کا باب باندھاپھر عددم رفع یدین کا باب باندھا اور حدیث لاءے تو آپ کو شاید محدیثین کا اصول معلوم نہیں کہ محدیثین پہلا باب اس عمل کا لاتے ہیں جو منسوخ ہوچکا ہو اور پھر اس کے بعد اس عمل کا باب لاتے ہیں جو ناسخ ہوتا ہے







    اس ضمن میں یہ
    خود ساختہ قاعدہ و قانون بہت زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ محدثین نے پہلے منسوخ اور پھر ناسخ روایات نقل کی ہیں!!! اس خود ساختہدعوے کی تردید میں بے شمار دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہم صرف دس حوالوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جو امید ہے اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے کافی و شافی ہوں گے۔


    1

    امام ابو داؤد نے باب باندھا:

    "
    باب من لم یر الجھر ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حدیث۷۸۲)

    اس کے بعد امام ابو داؤد نے دوسرا باب باندھا:

    "
    باب من جھر بھا" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حدیث ۷۸۶)

    یعنی امام ابو داؤد نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدمِ جھر (سراً فی الصلٰوة) والا باب لکھا اور بعد میں بسم اللہ بالجھر والا باب باندھا تو کیا حنفی مقلدین تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کا اصول کہاں گیا؟

    نوٹ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہےدیکھئے سنن الترمذی ص ۶۸-۶۷ قبل حدیث ۲۴۴-۲۴۵

    2

    امام ترمذی نے باب باندھا:

    "
    باب ما جاء فی الوتر بثلاث" (سنن الترمذی ص ۱۲۲ قبل حدیث ۴۵۹)

    پھر بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    باب ما جاء فی الوتر برکعة" (سنن الترمذی قبل حدیث ۴۶۱)

    کیا اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟
    !!!

    3

    امام ابنِ ماجہ نے پہلے خانہ کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:

    "
    باب النھي عن استقبال القبلة بالغائط والبول" (سنن ابن ماجہ ص ۴۸ قبل حدیث۳۱۷)

    اور بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    باب الرخصة في ذلک فی الکنیف و إباحتھ دون الصحاری" یعنی صحراء کی بجائے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کے جواز کا بیان (سنن ابن ماجہ ص ۴۹ قبل حدیث ۳۲۲)

    بتائیں کہ کیا وہ اپنے خود ساختہ اصول کی وجہ سے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو منسوخ سمجھتے ہیں؟

    4

    امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے مثلاً:

    "
    باب الذکر فی الرکوع" (سنن النسائی ص ۱۴۴قبل حدیث ۱۰۴۷)

    اور بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    باب الرخصة فی ترک الذکر فی الرکوع" (سنن النسائی ص ۱۴۵قبل حدیث ۱۰۴۵)

    کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟

    5

    امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج زیل الفاظ میں لکھا:

    "
    وضع الیمین علی الشمال" (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۹۰/۱ قبل حدیث ۳۹۳۳)

    اور بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    من کان یرسل یدیھ فی الصلٰوة" (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۱ ص۳۹۱ قبل حدیث۳۹۴۹)

    کیا اپنے تقلیدی اصول کی رو سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں؟

    6

    امام نسائی نے پہلے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت والا باب باندھا:

    "
    النھی عن الصلاة بعد العصر" (سنن النسائی ص ۷۸ قبل حدیث ۵۶۷)

    اور بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    الرخصة فی الصلاة بعد العصر" (سنن النسائی ص ۷۹ قبل حدیث ۵۷۴)

    کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے عصر کے بعد نوافل کی ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟

    7

    امام ابو داؤد نے تین تین دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:

    "
    باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً" (سنن ابی داؤد ص ۲۹ قبل حدیث ۱۳۵)

    اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:

    "
    باب الوضوء مرة مرة" (سنن ابی داؤد ص ۳۰ قبل حدیث ۱۳۸)

    کیا وضو میں تین تین دفعہ اعضاء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو تقلیدی قاعدہ کہاں گیا؟

    8

    امام نسائی نے سجدوں کی دعا کے کئی باب باندھے مثلاً:

    "
    عدد التسبیح فی السجود" (سنن النسائی ص ۱۵۷ قبل حدیث ۱۱۳۶)

    اور بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    باب الرخصة فی ترک الذکر فی السجود" (سنن النسائی ص ۱۵۷ قبل حدیث۱۳۷)

    کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے سجدے کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟

    9

    امام ابن ابی شیبہ نے " من قال: لاجمعة ولا تشریق الا في مصر جامع" کا باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۱۰۲/۲ قبل حدیث ۵۰۵۹

    اور بعد میں یہ باب باندھا:

    "
    من کان یری الجمعة فی القری وغیرھا" یعنی جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے پھر وہ صحیح روایات پیش کیں جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کاثبوت ملتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۱۰۱-۱۰۲ قبل حدیث ۵۰۶۸)

    کیا اپنے نرالے قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے گاؤں میں نماز جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟

    10

    امام ابن ابی شیبہ نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:

    "
    ما قالوا فی التکبیر علی الجنازة من کبّر أربعاً" (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۹۹/۳ قبل حدیث ۱۱۴۱۶)

    اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:

    "
    من کان یکّبر علی الجنازة خمساً" (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۰۲/۳ قبل حدیث۱۱۴۴۷)

    کیا کسی میں جرات ہے کہ وہ اپنے تقلیدی قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟



Working...
X