حاضر و ناظر صرف اللہ کی ذات ہے ۔ حاضر و ناظر کسی نبی، یا رسول کی صفت نہیں ہے
حاضر و ناظر کی تعریف سب سے پہلے
ان دونوں الفاظ کا مطلب ہے " موجود " اور "دیکھنے والا" جب دونوں کو ملا کر استعمال کیا جائے گا تو مراد ہو گی وہ ذات جو ساری کائنات کو بیک وقت محیط کیئے ہوئے ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ ، ایک ایک چیز ، تمام حالات اول تا آخر اسکی نظر میں ہیں اور یہ صفت صرف ایک ذات کی ہے وہ ذات پاک صرف اللہ تعالٰی ہے ۔
--- حضرت ابراہیم علیہ السلام حاضر ناظر نہ تھے ---
1- Surah Hud 69,70
وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ 69 فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھناہوا بچھڑا لے آئے ۔اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے (١) انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں (٢)۔
غور کرنے کی بات: اگر ابراہیم علیہ السلام اگر حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں پتا ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں اور ان کےلیے بچھڑا بھون کر نا لاتے۔ اور پھر انہیں خوف کیوں محسوس ہوا ؟؟؟ جب فرشتوں نے انہیں بتایا کہ ہم فرشتے ہیں تب حضرت ابراہیم کو پتا چلا ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599
حضرت ابراہیم جب اپنے خاندان کو اللہ کے حکم پر مکہ میں چھوڑ کر چلے گئے اور بہت عرصہ گرزنے کے بعد جب انہیں یاد ستائی اور حضرت ابراہیم اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے تشریف لائے ( اس اوقت تک حضرت اسماعیل کا نکاح ہو چکا تھا) ، تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں ۔۔۔۔
سوال- اگر حضرت ابراہیم حاضر و ناظر تھے تو شام سے مکہ کوئی ایک ہزار میل کی مسافت طے کر کے بار بار کیوں آتے رے اپنے لخت جگر سے ملنے؟ وہ بار بار کیوں آ کر خیریت دریافت کرتے رہے ،اگر حاضر ناظر تھے تو وہیں ملک شام میں بیٹھ کر تمام حالات معلوم کر لیتے ، جب حضرت اسماعیل گھر نہ ملے تو پوچھنے کی کیا ضرورت انہیں کہ کدھر گئے ہیں حاضر ناظر تھے تو صرف گھر ہی کیوں آئے ملنے ادھر ہی کیوں نہ چلے گئے جدھر حضرت اسماعیل گئے ہوئے تھے ؟
حضرت لوط علیہ السلام بھی حاضر ناظر نہ تھے
Surah Hud 77
وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ 7 وَجَاۗءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ ۭ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ78
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بہت مشکل کا دن ہے
اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣)
سوال ۔ اگر حضرت لوط علیہ السلام حاضر و ناظر تھے اور علم غیب رکھتے تھے تو انہیں معلوم نہ ہوا کہ یہ تو فرشتے ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ انہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا اگر وہ حاضر ناظر تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور فلاں فلاں جگہ سے ہو کر آئے ہیں ۔ انہوں نے کیوں نکاح کے لیے بیٹیوں کو سامنے رکھا کہ یہ میرے مہمان ہیں ہیں انہیں چھوڑ دو؟
--- حضرت یعقوب علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے ---
Surah Yousaf 8-14
اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ
Ďښاقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا
يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ
Ḍقَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ
10 قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ 11 اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ 13 قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ
جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالوں یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائیگی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے۔ ان میں سے ایک کہتے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو) ۔ (یہ مشورہ کرکے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ ابا جان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اسکے خیر خواہ ہیں؟.کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اسکے نگہبان ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جداہو جائے) اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہو جاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے ۔وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں اسے بھیڑ یا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑ گے ۔
سوال۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہ منصوبے بنا رہے تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو پتا کیوں نہ چلا ؟؟ اگر پتا تھا پھر بھی بھیج دیا ؟ اور یہ بھی کہا کہ مجھے خوف ہے،ڈر ہے؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ کیا حضرت یعقوب علیہ السلام کوئی ڈرامہ کر رہے تھے یہ سب بول کر ؟؟؟؟؟
فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 15 وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ 16ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ 17 وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ
غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اسکو گہرے کنوئیں میں ڈال دیں تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کو اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور انکو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی ۔ (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (اور) کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو دوڑ نے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔ تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے ۔ اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا حقیقت الحال یوں نہیں تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر اور وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے۔
سوال ۔جی کیا اس حرکت کا پتا نہ چلا انھیں؟؟؟ انہوں نے جا کر حضرت یوسف علیہ السلا م کو جا کر کنویں سے نکال کیوں نہ لیا اور 40 سال روتے رہے؟؟؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ بریلوی عقیدے کے مطابق تو بھر حضرت یعقوب ڈرامہ رتے رہے رو کر جبکہ انہیں پتا بھی تھا ؟؟ انہوں نے کیوں کنویں میں چھوڑ دیا اپنے لختِ جگر کو؟؟؟؟ جب وہ مصر میں چلے گئے تب کیوں نہ انہیں پتا چلا؟؟؟
۔۔۔حضرت موسٰی علیہ السلام بھی حاضر و ناطر نہ تھے ۔۔۔
سورۃ کہف آیت نمبر 60-64
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا
60فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا
61فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ۡ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا 62قَالَ اَرَءَيْتَ اِذْ اَوَيْنَآ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّىْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ ۡ
وَمَآ اَنْسٰنِيْهُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِڰ عَجَبًا 63قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ڰ فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِهِمَا قَصَصًا ۙ
اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں۔ پھر جب وہ دونوں پہنچ گئے ان دونوں دریاؤں کے سنگم پر، تو وہ بھول گئے اپنی مچھلی کو، اور اس نے دریا میں ایک سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا،۔ جب آگے چلے تو (موسی نے) اپنے خادم سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہو گئی ہے۔ خادم نے عرض کیا (اوہو!) دیکھا آپ نے (حضرت، یہ کیا ہوا) کہ جب ہم ٹھہرے تھے اس چٹان کے پاس تو میں بھول گیا مچھلی (کے معاملہ) کو، اور شیطان نے مجھے ایسا بھلا دیا کہ میں (آپ سے) اس کا ذکر بھی نہ کر سکا، اور (قصہ اس کا یہ ہوا کہ) وہ (زندہ ہو کر) دریا میں چلی گئی ایک عجیب سا (سرنگ نما) راستہ بناتی ہوئی،۔ (موسی نے) کہا یہی تو وہ (مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 123
عبداللہ بن محمد السندی، سفیان، عمرو، سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ جو خضر سے ہم نشین ہوئے تھے، بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں تھے، وہ کوئی دوسرے موسیٰ ہیں، تو ابن عباس نے کہا کہ (وہ) خدا کا دشمن جھوٹ بولتا ہے، ہم سے ابی بن کعب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ موسیٰ (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ جاننے والا کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ زیادہ جاننے والا میں ہوں، لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کردیا، پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ جاننے والا ہے، موسیٰ کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کیسے ملاقات ہوگی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو اور مجمع البحرین کی طرف چل پڑو، جب اس مچھلی کو نہ پاؤ تو سمجھ لینا کہ وہ بندہ وہیں ہے، موسیٰ علیہ السلام چلے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون علیہ السلام کو بھی لے لیا، اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی، یہاں تک کہ جب پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (اس پر) رکھ لئے اور سوگئے، مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا، بعد میں (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں گئے، جس کا حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی، ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی، تب انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کا واقعہ کہنا بھول گیا، موسیٰ نے کہا یہی وہ (مقام) ہے، جس کی تلاش کرتے تھے، پھر وہ دونوں اپنے قدموں پر لوٹ گئے، پس جب اس پتھر تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا اوڑھ لیا تھا، بیٹھا ہوا ہے موسیٰ نے سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا اس مقام میں سلام کہاں ؟ موسیٰ نے کہا میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں میں) موسی ٰہوں، خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسی؟، انہوں نے کہا ہاں، موسیٰ نے کہا کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ رہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے، مجھے بھی سکھلا دو، انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، اے موسی! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (حاوی) ہوں کہ تم اسے نہیں جانتے وہ خدا نے مجھے سکھایا ہے اور تم ایسے علم پر حاوی ہو جو خدا نے تمہیں تلقین کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا، موسیٰ نے کہا انشاء اللہ! تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے، اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، پھر وہ دونوں دریا کے کنارے کنارے چلے ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گذری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، خضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہچان لئے گئے اور کشتی والوں نے انہیں بے اجرت بٹھا لیا پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی، اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں، خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ میرے علم اور تمہارے علم نے خدا کے علم سے اس چڑیا کی چونچ کی بقدر بھی کم نہیں کیا ہے، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا، موسیٰ کہنے لگے، ان لوگوں نے ہم کو بے کرایہ (لئے ہوئے) بٹھا لیا اور تم نے ان کی کشتی کے ساتھ برائی کا) قصد کیا، اسے توڑ دیا، تاکہ اسکے لوگوں کو غرق کر دو، خضر علیہ السلام نے کہا کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے، موسیٰ نے کہا جو میں بھول گیا، اس کا مواخدہ مجھ سے نہ کرو اور میرے کام میں مجھ پر تنگی نہ کرو، راوی کہتا ہے کہ پہلی بار موسیٰ سے بھول کر یہ بات اعتراض کی ہوگئی، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر چلے، تو ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ ایک بے گناہ بچے کو بے وجہ قتل کردیا، خضر علیہ السلام نے کہا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے، وہاں کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا مانگا، ان لوگوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو گرنے کے قریب تھی، خضر نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کردیا، موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے، خضر بولے کہ (بس اب) یہی ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے، ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ صبر کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کا (پورا) قصہ ہم سے بیان فرماتا۔
اس پورے واقعے میں غور کرنے کی باتیں:
1- اگر موسٰی علیہ السلام حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں پتا ہوتا کہ حضرت خضر علیہ السلام کس جگہ ہیں!
2-انہیں 'مجمع البحرین' دریاؤں کے ملنے کی جگہ کا بھی پتا ہوتا۔!
3- جب مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی گئی تھی تب بھی پتا چل جانا چاہیے تھا کہ مچھلی کہاں گئی۔
4-اگر معلوم بھی ہو گیا تا اتنی آگے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟
5-پھر واپس بھی قدموں کے نشانوں پر چلتے آئے! جو حاضر و ناظر ہو اور علمِ غیب رکھتا ہو اور وہ قدموں کے نشانات دیکھتا ہو واپس جائے ؟ صریح البطلان بات ہے۔
6-پھر حضرت موسٰی کا بار بار حضرت خضر سے اعتراض کرنا کہ یہ کیوں کیا اور وہ کیوں کیا ؟؟؟؟
ثابت ہوا کہ حضرت موسٰی حاضر و ناظر تھے نہ علمِ غیب رکھتے تھے!
--- حضرت سلیمان علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے---
Surah Namal 20,21,22
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ ڮ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ
20لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ 21فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ
آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟ (١)یقیناً میں اسے سزا دونگا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے۔کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں، (١) میں سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں۔
Surah Namal 27,28
قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ 27اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ 28
(سلیمان نے) کہا (اچھا) ہم دیکھیں گے تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے. یہ میرا خط لے جا اور اسے انکی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.
سوال۔ جی حضرت سلیمان علیہ السلام حاضر ناظر تھے؟ اگر تھے تو انہوں نے ہد ہد کا کیوں پوچھا کہ وہ کدھر ہے؟؟کیوں کہا کہ وہ میرے پاس صحیح وجہ بیان کرے اپنے غیر حاضر ہونے کی؟؟ کیا حاضر و ناظر کی نظر سے کوئی چیز اوجھل ہوتی ہے؟؟حتٰی کے ہد ہد نے بھی کہ دیا کہ میں ایسی خبر لایا ہوں جسے آپؑ بھی نہیں جانتے! حضرت سلیمان اگر ہر جگہ حاضر ناظر ہوتے یا علم غیب رکھتے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ملکہ سبا کون ہے اور کدھر ہے؟انہوں نے ہد ہد و دوبارہ بھی بھیجا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا یہ کیوں کیا انہوں نے؟ انہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا کہ یہ سچا ہے۔!
یہاں سے بھی بات نکھر کر سامنے آگئی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے ۔۔
انشاء اللہ جلد ہی اور دلائل پیش کروں گا کہ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہ تھے " ۔۔
دعاؤں میں یاد رکھیں ۔۔ اللہ نگہبان
ان دونوں الفاظ کا مطلب ہے " موجود " اور "دیکھنے والا" جب دونوں کو ملا کر استعمال کیا جائے گا تو مراد ہو گی وہ ذات جو ساری کائنات کو بیک وقت محیط کیئے ہوئے ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ ، ایک ایک چیز ، تمام حالات اول تا آخر اسکی نظر میں ہیں اور یہ صفت صرف ایک ذات کی ہے وہ ذات پاک صرف اللہ تعالٰی ہے ۔
--- حضرت ابراہیم علیہ السلام حاضر ناظر نہ تھے ---
1- Surah Hud 69,70
وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ 69 فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھناہوا بچھڑا لے آئے ۔اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے (١) انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں (٢)۔
غور کرنے کی بات: اگر ابراہیم علیہ السلام اگر حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں پتا ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں اور ان کےلیے بچھڑا بھون کر نا لاتے۔ اور پھر انہیں خوف کیوں محسوس ہوا ؟؟؟ جب فرشتوں نے انہیں بتایا کہ ہم فرشتے ہیں تب حضرت ابراہیم کو پتا چلا ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599
حضرت ابراہیم جب اپنے خاندان کو اللہ کے حکم پر مکہ میں چھوڑ کر چلے گئے اور بہت عرصہ گرزنے کے بعد جب انہیں یاد ستائی اور حضرت ابراہیم اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے تشریف لائے ( اس اوقت تک حضرت اسماعیل کا نکاح ہو چکا تھا) ، تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں ۔۔۔۔
سوال- اگر حضرت ابراہیم حاضر و ناظر تھے تو شام سے مکہ کوئی ایک ہزار میل کی مسافت طے کر کے بار بار کیوں آتے رے اپنے لخت جگر سے ملنے؟ وہ بار بار کیوں آ کر خیریت دریافت کرتے رہے ،اگر حاضر ناظر تھے تو وہیں ملک شام میں بیٹھ کر تمام حالات معلوم کر لیتے ، جب حضرت اسماعیل گھر نہ ملے تو پوچھنے کی کیا ضرورت انہیں کہ کدھر گئے ہیں حاضر ناظر تھے تو صرف گھر ہی کیوں آئے ملنے ادھر ہی کیوں نہ چلے گئے جدھر حضرت اسماعیل گئے ہوئے تھے ؟
حضرت لوط علیہ السلام بھی حاضر ناظر نہ تھے
Surah Hud 77
وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ 7 وَجَاۗءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ ۭ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ78
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بہت مشکل کا دن ہے
اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣)
سوال ۔ اگر حضرت لوط علیہ السلام حاضر و ناظر تھے اور علم غیب رکھتے تھے تو انہیں معلوم نہ ہوا کہ یہ تو فرشتے ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ انہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا اگر وہ حاضر ناظر تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور فلاں فلاں جگہ سے ہو کر آئے ہیں ۔ انہوں نے کیوں نکاح کے لیے بیٹیوں کو سامنے رکھا کہ یہ میرے مہمان ہیں ہیں انہیں چھوڑ دو؟
--- حضرت یعقوب علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے ---
Surah Yousaf 8-14
اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ
Ďښاقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا
يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ
Ḍقَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ
10 قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ 11 اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ 13 قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ
جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالوں یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائیگی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے۔ ان میں سے ایک کہتے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو) ۔ (یہ مشورہ کرکے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ ابا جان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اسکے خیر خواہ ہیں؟.کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اسکے نگہبان ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جداہو جائے) اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہو جاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے ۔وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں اسے بھیڑ یا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑ گے ۔
سوال۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہ منصوبے بنا رہے تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو پتا کیوں نہ چلا ؟؟ اگر پتا تھا پھر بھی بھیج دیا ؟ اور یہ بھی کہا کہ مجھے خوف ہے،ڈر ہے؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ کیا حضرت یعقوب علیہ السلام کوئی ڈرامہ کر رہے تھے یہ سب بول کر ؟؟؟؟؟
فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 15 وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ 16ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ 17 وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ
غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اسکو گہرے کنوئیں میں ڈال دیں تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کو اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور انکو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی ۔ (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (اور) کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو دوڑ نے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔ تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے ۔ اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا حقیقت الحال یوں نہیں تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر اور وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے۔
سوال ۔جی کیا اس حرکت کا پتا نہ چلا انھیں؟؟؟ انہوں نے جا کر حضرت یوسف علیہ السلا م کو جا کر کنویں سے نکال کیوں نہ لیا اور 40 سال روتے رہے؟؟؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ بریلوی عقیدے کے مطابق تو بھر حضرت یعقوب ڈرامہ رتے رہے رو کر جبکہ انہیں پتا بھی تھا ؟؟ انہوں نے کیوں کنویں میں چھوڑ دیا اپنے لختِ جگر کو؟؟؟؟ جب وہ مصر میں چلے گئے تب کیوں نہ انہیں پتا چلا؟؟؟
۔۔۔حضرت موسٰی علیہ السلام بھی حاضر و ناطر نہ تھے ۔۔۔
سورۃ کہف آیت نمبر 60-64
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا
60فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا
61فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ۡ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا 62قَالَ اَرَءَيْتَ اِذْ اَوَيْنَآ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّىْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ ۡ
وَمَآ اَنْسٰنِيْهُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيْلَهٗ فِي الْبَحْرِڰ عَجَبًا 63قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ڰ فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِهِمَا قَصَصًا ۙ
اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں۔ پھر جب وہ دونوں پہنچ گئے ان دونوں دریاؤں کے سنگم پر، تو وہ بھول گئے اپنی مچھلی کو، اور اس نے دریا میں ایک سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا،۔ جب آگے چلے تو (موسی نے) اپنے خادم سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہو گئی ہے۔ خادم نے عرض کیا (اوہو!) دیکھا آپ نے (حضرت، یہ کیا ہوا) کہ جب ہم ٹھہرے تھے اس چٹان کے پاس تو میں بھول گیا مچھلی (کے معاملہ) کو، اور شیطان نے مجھے ایسا بھلا دیا کہ میں (آپ سے) اس کا ذکر بھی نہ کر سکا، اور (قصہ اس کا یہ ہوا کہ) وہ (زندہ ہو کر) دریا میں چلی گئی ایک عجیب سا (سرنگ نما) راستہ بناتی ہوئی،۔ (موسی نے) کہا یہی تو وہ (مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 123
عبداللہ بن محمد السندی، سفیان، عمرو، سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ جو خضر سے ہم نشین ہوئے تھے، بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں تھے، وہ کوئی دوسرے موسیٰ ہیں، تو ابن عباس نے کہا کہ (وہ) خدا کا دشمن جھوٹ بولتا ہے، ہم سے ابی بن کعب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ موسیٰ (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ جاننے والا کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ زیادہ جاننے والا میں ہوں، لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کردیا، پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ جاننے والا ہے، موسیٰ کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کیسے ملاقات ہوگی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو اور مجمع البحرین کی طرف چل پڑو، جب اس مچھلی کو نہ پاؤ تو سمجھ لینا کہ وہ بندہ وہیں ہے، موسیٰ علیہ السلام چلے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون علیہ السلام کو بھی لے لیا، اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی، یہاں تک کہ جب پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (اس پر) رکھ لئے اور سوگئے، مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا، بعد میں (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں گئے، جس کا حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی، ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی، تب انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کا واقعہ کہنا بھول گیا، موسیٰ نے کہا یہی وہ (مقام) ہے، جس کی تلاش کرتے تھے، پھر وہ دونوں اپنے قدموں پر لوٹ گئے، پس جب اس پتھر تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا اوڑھ لیا تھا، بیٹھا ہوا ہے موسیٰ نے سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا اس مقام میں سلام کہاں ؟ موسیٰ نے کہا میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں میں) موسی ٰہوں، خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسی؟، انہوں نے کہا ہاں، موسیٰ نے کہا کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ رہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے، مجھے بھی سکھلا دو، انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، اے موسی! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (حاوی) ہوں کہ تم اسے نہیں جانتے وہ خدا نے مجھے سکھایا ہے اور تم ایسے علم پر حاوی ہو جو خدا نے تمہیں تلقین کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا، موسیٰ نے کہا انشاء اللہ! تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے، اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، پھر وہ دونوں دریا کے کنارے کنارے چلے ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گذری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، خضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہچان لئے گئے اور کشتی والوں نے انہیں بے اجرت بٹھا لیا پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی، اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں، خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ میرے علم اور تمہارے علم نے خدا کے علم سے اس چڑیا کی چونچ کی بقدر بھی کم نہیں کیا ہے، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا، موسیٰ کہنے لگے، ان لوگوں نے ہم کو بے کرایہ (لئے ہوئے) بٹھا لیا اور تم نے ان کی کشتی کے ساتھ برائی کا) قصد کیا، اسے توڑ دیا، تاکہ اسکے لوگوں کو غرق کر دو، خضر علیہ السلام نے کہا کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے، موسیٰ نے کہا جو میں بھول گیا، اس کا مواخدہ مجھ سے نہ کرو اور میرے کام میں مجھ پر تنگی نہ کرو، راوی کہتا ہے کہ پہلی بار موسیٰ سے بھول کر یہ بات اعتراض کی ہوگئی، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر چلے، تو ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ ایک بے گناہ بچے کو بے وجہ قتل کردیا، خضر علیہ السلام نے کہا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے، وہاں کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا مانگا، ان لوگوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو گرنے کے قریب تھی، خضر نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کردیا، موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے، خضر بولے کہ (بس اب) یہی ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے، ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ صبر کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کا (پورا) قصہ ہم سے بیان فرماتا۔
اس پورے واقعے میں غور کرنے کی باتیں:
1- اگر موسٰی علیہ السلام حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں پتا ہوتا کہ حضرت خضر علیہ السلام کس جگہ ہیں!
2-انہیں 'مجمع البحرین' دریاؤں کے ملنے کی جگہ کا بھی پتا ہوتا۔!
3- جب مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی گئی تھی تب بھی پتا چل جانا چاہیے تھا کہ مچھلی کہاں گئی۔
4-اگر معلوم بھی ہو گیا تا اتنی آگے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟
5-پھر واپس بھی قدموں کے نشانوں پر چلتے آئے! جو حاضر و ناظر ہو اور علمِ غیب رکھتا ہو اور وہ قدموں کے نشانات دیکھتا ہو واپس جائے ؟ صریح البطلان بات ہے۔
6-پھر حضرت موسٰی کا بار بار حضرت خضر سے اعتراض کرنا کہ یہ کیوں کیا اور وہ کیوں کیا ؟؟؟؟
ثابت ہوا کہ حضرت موسٰی حاضر و ناظر تھے نہ علمِ غیب رکھتے تھے!
--- حضرت سلیمان علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے---
Surah Namal 20,21,22
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ ڮ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ
20لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ 21فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ
آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟ (١)یقیناً میں اسے سزا دونگا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے۔کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں، (١) میں سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں۔
Surah Namal 27,28
قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ 27اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ 28
(سلیمان نے) کہا (اچھا) ہم دیکھیں گے تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے. یہ میرا خط لے جا اور اسے انکی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.
سوال۔ جی حضرت سلیمان علیہ السلام حاضر ناظر تھے؟ اگر تھے تو انہوں نے ہد ہد کا کیوں پوچھا کہ وہ کدھر ہے؟؟کیوں کہا کہ وہ میرے پاس صحیح وجہ بیان کرے اپنے غیر حاضر ہونے کی؟؟ کیا حاضر و ناظر کی نظر سے کوئی چیز اوجھل ہوتی ہے؟؟حتٰی کے ہد ہد نے بھی کہ دیا کہ میں ایسی خبر لایا ہوں جسے آپؑ بھی نہیں جانتے! حضرت سلیمان اگر ہر جگہ حاضر ناظر ہوتے یا علم غیب رکھتے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ملکہ سبا کون ہے اور کدھر ہے؟انہوں نے ہد ہد و دوبارہ بھی بھیجا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا یہ کیوں کیا انہوں نے؟ انہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا کہ یہ سچا ہے۔!
یہاں سے بھی بات نکھر کر سامنے آگئی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے ۔۔
انشاء اللہ جلد ہی اور دلائل پیش کروں گا کہ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہ تھے " ۔۔
دعاؤں میں یاد رکھیں ۔۔ اللہ نگہبان
Comment