اسلامی فکر اور تخیلقی شعور
وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے اسلام کی ذاتی فلسفیانہ فکر کو متعین کیا جا سکے ؟ اور اُن مباحث میں جواب مسلنمانوں کی میراث بن چکے ہیں اور ان کے ادراک اور شعور کی نشان دہی کی جا سکے؟ امت اسلامی فلسفے پر بحث و نظر کرنے والے جدید علما نے بحث ونظر کے جو طریقے اختیار کئے ہیں ان میں غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض مسلمان مفکروں اور مسشر قین نے مسلمانوں کے ذاتی تفکر اور اختراعی شعور سے یکسر انکار کیا ہے اُن کے خیال میں اسلامی فلسفہ یونای اور لاطینی فلسفے سے کوئی علیحدہ حیثیت نہیں رکھتا۔وہ اپنی جزئی تفصیلات کے ساتھ سر بہ سر لاطینی اور یونانی فلسفے ہی سے عبارت ہے۔
برخلاف اس کے بعض دوسرے اصحاب مسلمانوں کی فکری جدت اور علمی انفرادیت کے قائل ہیں۔اس قبیل کے چند اہل الرائے یہ رائے رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی فلسفیانہ ژرف نگہی، بالغ النظری اور مجتۃدانہ عظمت کو مسلمانوں کے فلسفہ کے بجائے متکلمین اور علمائے اصول و عقائد کی مجلدات میں تلاش کرنا چاہیے۔۔عصر جدید کے مشہور فاضل مصطفیٰ عبدالرزاق نے اپنی کتاب ‘‘ تہمید فی تاریخ الفلسفہ اسلامہ ’’ میں ایک نیا طریق بحث اختار کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ مسلنمانوں کی زاتی فکر کو اسلامی عولم و معارف کے اس ذخیرے میں ڈھونڈنا چاہیے جو فلسفہ یونان کی اشاعت سے پہلے ہی فراہم کر لیا گیا تھا۔ کیون کہ اسلامی حلقوں میں فلسفہ یونان کے شائع ہو جانے کے بعد تو مسلمان مفکرین نے اسلامی فکر و ثقافت اور اس نووارد و اجنبی فلسفے کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی تھجی۔۔
مدراجہ بالا رائے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہم م مسلمانوں کی ایک تخیلقی فکر بھی تھی جس کا اغاز خود اننہوں نے ہی کیا تھا۔۔نیز یہ ان کی فکر میں ایک ایسی تنظیم تھی جو موجدانہ و مجتۃدانہ شعور کے بغیر ممکن نہیں۔۔ٍفاضل موصوف نے اپنے اس طریق بحث و نظر کے ذریعے غور ع فکر کا ایک نیا رخ متعین کیا ے ایک نیا رخ، ایک نئی سمت جو ثقافت اسلامی کی مکمل تعبیر ہے ایسی تعبیر جو اسلامی ثقافت کے ایک خاص اور امتیاز آفریں مزاج کو نمایاں کرتی ہے اور وہ ہے علم اصول فقہ۔
اسلامی فلسفے کے اصلی رخ کو جاننے کے لیے ان نظامات فکر کو سامنے لانا ضروری ہے جن کو مسلمانوں میں ‘‘ دائرہ معارف ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے وہ نظامات فکر ہپ ہین
مشائیت
جو نوفلاطونیت سے کافی متاثر ہو گئی تھی مسلمان ارباب فلسفہ نے مشائیت ہی کو منضبط و منظم کرنے کا فرض انجام دیا تھا اور اسی کی روشنی میں یونان کے مختلف مکاتب کا باہم متحد و متفق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی حالان کے یہ کوشش رائگاں گئی
تصوف
یونان کے مختلف ملے جلے فلسفیانہ نظریات، مشرقی افکار نوفلاطونی خیالا اور صابی عقائد پر مشتمل ہے ۔بعد کو اس میں مسیحی اور اسلامی عقائد و خیالات بھی شامل ہو گئے
علم الکلام
مذہب کو عقل سے ثابت کرنے کا علم ہے
علم اصول فقہ
ان قواعد کے علم کو کہتے ہیں جن کے ذریعے تفصیلی دلائل کے ساتھ احکام شرعی کا اسنباط کیا جا سکے
جاری ہے
وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے اسلام کی ذاتی فلسفیانہ فکر کو متعین کیا جا سکے ؟ اور اُن مباحث میں جواب مسلنمانوں کی میراث بن چکے ہیں اور ان کے ادراک اور شعور کی نشان دہی کی جا سکے؟ امت اسلامی فلسفے پر بحث و نظر کرنے والے جدید علما نے بحث ونظر کے جو طریقے اختیار کئے ہیں ان میں غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض مسلمان مفکروں اور مسشر قین نے مسلمانوں کے ذاتی تفکر اور اختراعی شعور سے یکسر انکار کیا ہے اُن کے خیال میں اسلامی فلسفہ یونای اور لاطینی فلسفے سے کوئی علیحدہ حیثیت نہیں رکھتا۔وہ اپنی جزئی تفصیلات کے ساتھ سر بہ سر لاطینی اور یونانی فلسفے ہی سے عبارت ہے۔
برخلاف اس کے بعض دوسرے اصحاب مسلمانوں کی فکری جدت اور علمی انفرادیت کے قائل ہیں۔اس قبیل کے چند اہل الرائے یہ رائے رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی فلسفیانہ ژرف نگہی، بالغ النظری اور مجتۃدانہ عظمت کو مسلمانوں کے فلسفہ کے بجائے متکلمین اور علمائے اصول و عقائد کی مجلدات میں تلاش کرنا چاہیے۔۔عصر جدید کے مشہور فاضل مصطفیٰ عبدالرزاق نے اپنی کتاب ‘‘ تہمید فی تاریخ الفلسفہ اسلامہ ’’ میں ایک نیا طریق بحث اختار کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ مسلنمانوں کی زاتی فکر کو اسلامی عولم و معارف کے اس ذخیرے میں ڈھونڈنا چاہیے جو فلسفہ یونان کی اشاعت سے پہلے ہی فراہم کر لیا گیا تھا۔ کیون کہ اسلامی حلقوں میں فلسفہ یونان کے شائع ہو جانے کے بعد تو مسلمان مفکرین نے اسلامی فکر و ثقافت اور اس نووارد و اجنبی فلسفے کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی تھجی۔۔
مدراجہ بالا رائے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہم م مسلمانوں کی ایک تخیلقی فکر بھی تھی جس کا اغاز خود اننہوں نے ہی کیا تھا۔۔نیز یہ ان کی فکر میں ایک ایسی تنظیم تھی جو موجدانہ و مجتۃدانہ شعور کے بغیر ممکن نہیں۔۔ٍفاضل موصوف نے اپنے اس طریق بحث و نظر کے ذریعے غور ع فکر کا ایک نیا رخ متعین کیا ے ایک نیا رخ، ایک نئی سمت جو ثقافت اسلامی کی مکمل تعبیر ہے ایسی تعبیر جو اسلامی ثقافت کے ایک خاص اور امتیاز آفریں مزاج کو نمایاں کرتی ہے اور وہ ہے علم اصول فقہ۔
اسلامی فلسفے کے اصلی رخ کو جاننے کے لیے ان نظامات فکر کو سامنے لانا ضروری ہے جن کو مسلمانوں میں ‘‘ دائرہ معارف ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے وہ نظامات فکر ہپ ہین
مشائیت
جو نوفلاطونیت سے کافی متاثر ہو گئی تھی مسلمان ارباب فلسفہ نے مشائیت ہی کو منضبط و منظم کرنے کا فرض انجام دیا تھا اور اسی کی روشنی میں یونان کے مختلف مکاتب کا باہم متحد و متفق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی حالان کے یہ کوشش رائگاں گئی
تصوف
یونان کے مختلف ملے جلے فلسفیانہ نظریات، مشرقی افکار نوفلاطونی خیالا اور صابی عقائد پر مشتمل ہے ۔بعد کو اس میں مسیحی اور اسلامی عقائد و خیالات بھی شامل ہو گئے
علم الکلام
مذہب کو عقل سے ثابت کرنے کا علم ہے
علم اصول فقہ
ان قواعد کے علم کو کہتے ہیں جن کے ذریعے تفصیلی دلائل کے ساتھ احکام شرعی کا اسنباط کیا جا سکے
جاری ہے
Comment