بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ملالہ ڈرامے کی آڑ میں عالمی صلیبی جنگ کو سہارا دینےکی ناکام کوشش کے محرکات ومضمرات
تجزیہ: انصار اللہ اردو
ملالہ ڈرامے کی آڑ میں عالمی صلیبی جنگ کو سہارا دینےکی ناکام کوشش کے محرکات ومضمرات
تجزیہ: انصار اللہ اردو
سوات سے تعلق رکھنے والی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ڈرامے کا روپ دھار چکا ہے بلکہ اس معاملے میں ابھی تک جو اطلاعات آرہی ہیں ان کا ماخذ بنیادی طور پر برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اردو ہے جو مغرب کی ترجمانی کرنے اور رافضیوں وقبوریوں کے نقطہ نظر کو عوامی موقف بناکر پیش کرنے میں بڑی شہرت رکھتا ہے۔
ملالہ یوسف زئی پر حملہ کیوں اور کس نے کیا؟ کیا اس حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا کوئی کردار تھا کہ نہیں؟
ان سوالات کے جوابات خود تحریک طالبان پاکستان کا شعبہ میڈیا یا ان کے بیانات کو نشر کرنے کے ذمہ دار جہادی میڈیا کے ادارے ’’عالمی اسلامی میڈیا محاذ‘‘ اور ’’مرکز الفجر برائے میڈیا‘‘ دے سکتے ہیں۔ مگر اب تک ان تینوں ذرائع سے جہادی میڈیا پر کوئی بیان جاری نہیں ہوا اور نہ ہی ان تینوں میں سے کسی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان، احسان اللہ احسان نے قبول کی ہے کہ نہیں؟۔
اس لیے اس حملے کا ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ یہ ناانصافی، بددیانتی اور حملے کے اصل اسباب اور وجوہات سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا۔ نیز عالمی ومقامی ذرائع ابلاغ میں طالبان کی طرف جتنے بھی بیانات منسوب کرکے نشر ہوتے ہیں، ان تمام بیانات کو صحیح اور درست نہیں مانا جاسکتا اور نہ ہی ان کی بنیاد پر کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ معاملہ صرف طالبان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں موجود جہادی تنظیموں کے ساتھ بھی خاص ہے۔
عالمی اور مقامی میڈیا کا مجاہدین کے بیانات میں ردوبدل کرکے صرف چند عبارتوں کو نشر کرنا اور استعماری طاقتوں کے مفادات کی خاطر مجاہدین پر جھوٹے الزامات لگانا اور ان کے کردار وافعال کی منفی کوریج کرنے کی وجہ سے یہ ذرائع ابلاغ اپنی سچائی، امانتداری اور اعتماد کو کھوچکے ہیں۔ عالمی ومقامی میڈیا کے گھناؤنے کردار کی وجہ سے جہادی میڈیا وجود میں آیا اور عالمی جہادی تحریک سے وابستہ تمام اسلامی تنظیموں نے یہ اعلان کردیا کہ جو بیانات جہادی میڈیا کے ادارے ’’عالمی اسلامی میڈیا محاذ‘‘ اور ’’مرکز الفجر برائے میڈیا‘‘ کی طرف سے جاری ہو، صرف انہیں ہی صحیح اور تنظیم کا بیان مانا جائے۔ اس کے سوا کسی بھی میڈیا کے ادارے یا ویب سائٹ یا اخبار میں کوئی بیان یا خبر شائع ہوتو اسے ہمارا بیان نہ سمجھا جائے اور اس کو اس وقت تک صحیح اور درست نہیں ماناجائے جب تک جہادی میڈیا کے ادارے اس کی تصدیق نہیں کردیتے۔
اس لیے ملالہ پر حملے کا ذمہ دارطالبان کو قراردینا، یہ قبل ازوقت ہوگا اور واقعے کے فرضی زاویوں پر بات کرکے اپنی توانائی بیکار ضائع کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اصل ایشو یہ نہیں ہے کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے کہ نہیں؟ بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا؟ ملالہ پر حملے کے اسباب و وجوہات اور محرکات ومضمرات کیا ہے؟ ملالہ پر حملے کو مقامی وعالمی میڈیا میں ڈرامائی انداز میں کوریج دینے اور عالمی صلیبی جنگ میں اس کا سہارا لیکر اسلام ومجاہدین کیخلاف جاری میڈیا وار کرنے کے پیچھے کون سے مقاصد واہداف پوشیدہ ہیں؟
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے سے پہلے ملالہ کی شخصیت اور اس کے کردار کے بارے میں جاننابیحد ضروری ہے۔ سوات آپریشن کے وقت ملالہ کے گھر میں نیویارک ٹائمز کا ایک یہودی فلم میکر ایڈم ایلائیک رہائش پذیر رہا جو سی آئی اے کا بھی ایجنٹ تھا۔ ملا لہ یوسف زئی اور اس کے والد نے پاکستان میں امریکی سفیر، پاکستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک اور امریکی وزیر خارجہ اور اعلی امریکی فوجی افسران سے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ سوات میں فوجی آپریشن کو یقینی بنائیں تاکہ وہاں سے طالبان کا صفایا کیا جا سکے۔ نیز ملالہ کے حوالے سے خاص طور پر وہ ڈائری سامنے آئی ہے جس میں اس نے کہا کہ اسے برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون۔ اس کے علاوہ ڈائری میں ۲۰۰۹ میں سوات پر طالبان مجاہدین کے قبضے اور ان کے خلاف ناپاک فوج کی مکارانہ اور سفاکانہ فوجی کاروائی کے دوران ہونے والے حالات اور واقعات کو مغربی خیالات کے مطابق ڈھالتے ہوئے بی بی سی اردو ویب سائٹ پر بیان کیا ہے۔ ہم یہاں ملالہ ڈائری سے پیدا ہونے والی تمام صورتحال اور اس کے آنے والے مضمرات پر روشنی ڈالیں گے جو کہ اہلِ پاکستان اور اہلِ اسلام کے کے لئے اسلام کے خلاف جاری عالمی کفری جنگ میں جاننا کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
صلیبی جنگ کے لیے ملالہ ایک ڈھال؟
ملالہ کی موجودہ عمر تقریباً ۱۴ سال بتائی جارہی ہے۔ اس اندازے کے مطابق، ۲۰۰۹ء میں اس کی عمر تقریباً ۱۰ سے ۱۱ سال کے لگ بھگ ہوگی۔ اس عمر کے بچے موجودہ تعلیمی نظام میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں چاہے وہ کتنا ہی جدید کیوں نہ ہو، ۱۰ سے ۱۱ سال کی عمر کے بچوں کی تعلیمی قابلیت اور ذہنی و نفسیاتی صلاحیت ایسی نہیں ہوتی جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ ان میں علاقائی، بین الاقوامی، معاشی و معاشرتی مسائل پر کوئی سنجیدہ رائے اور سوچ پائی جاتی ہو۔ پھر سوات جیسے علاقے میں جو ترقی کے پیمانے پر درمیانے درجے پر ہو اور وہاں بھی سرکاری سکولوں میں جو پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ریاستی عدم توجہی اور بدعنوانی کی وجہ سے معیار میں اتنا گرا ہوا ہو، ان میں سے ایک ایسی بچی کا نکل کر آنا اور انٹرنیٹ جیسی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ کے ذریعے روز مرہ کے حالات و واقعات کو اپنے معاشرے، خاندان برادری اور سماج کے نقطہ نظر کی بجائے مغرب اور دشمنان اسلام کی سوچ کی ترجمانی کرتے ہوئے اس طرح زیرِ تحریر لانا کہ جیسے کہ یہ کسی میڈیا وار کے نفسیاتی ماہر کی سنجیدہ سوچ اور رائے کی پیداوار ہو، ہمیں کچھ اور سوچنے کی طرف دعوت دیتی ہے۔
یہ معاملہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی (اللہ ان کو رہائی دے) پر الزامات کی طرح ہی مضحکہ خیز ہے جس پر پاکستان کے لبرل فسطائی طبقے نے نہ صرف یقین کیا بلکہ اس کو انصاف کے اصولوں کے عین مطابق قرار دیا۔ ملالہ کے حوالے سے بھی یہ باور کروایا گیا کہ یہ کم عمر بچی اتنی بڑی ادبی تجزیہ نگار شخصیت تھی کہ اس نے ایسے موضوعات پر عین جنگ کے دوران دنیا کو ان حالات سے آگاہ کیا جو پاکستانی صحافیوں کی پہنچ سے بھی دور تھے۔ ان ڈائریوں میں لکھی گئی تحریروں سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی بڑی عمر کے شخص کی راہنمائی میں لکھی گئیں اور پھر بی بی سی اردو کے پینل نے اس کی اصلاح کر کے اس کو نشر کیا۔ مزیدبرآں اس بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ حالات وواقعات کو بیان کرنے میں تحریف سے بھی کام لیا گیا ہے۔
’’تحریف‘‘ اسلام کے خلاف موجودہ عالمی جنگ کے ابلاغی محاذ کا ایک اہم حربہ اور ہتھیار ہے، جس میں مجاہدین اور علماء کے بیانات کو اصل موقع محل سے ہٹا کر جزئیات میں ردوبدل کرکے اسے مغربی تشریحات اور استعماری تصورات کے مفروضوں میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مجاہدین کی دعوت سے متنفر کیا جاسکے اور مسلم عوام اور مجاہدین کے مابین فاصلے مزید بڑھادیئے جائیں تاکہ استعماری طاقتوں کے مقابلے میں ان کی عالمی جہاد کو بڑھتی ہوئی عوامی حمایت وتائید کو کم کیا جاسکے۔
اس ڈائری کے بعد ملالہ کو مقامی مرتد حکومت اور لبرل فسطائی طبقے کی جانب سے خوب پذیرائی دی گئی۔ مقامی وعالمی سطح پر اس کو ایک امن اور لڑکیوں کی تعلیم کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا جس میں اصل حقائق کو مسخ کر کے جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیا گیا تاکہ مسلم عوام کو مزید گمراہ کیا جائے اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کیخلاف صلیبی جنگ پوری شدت کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ ناپاک فوج اور حکومت کی اسلام کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت اور اس کے اتحادی بن کر قبائلی مسلمانوں کا قتل عام کرنے جیسے جنگی جرائم پر پردہ ڈالا جاسکے۔ نیز دہشت گردی کے نام پر جاری مسلمانوں کیخلاف صلیبی جنگ کو امن وانسانیت کی جنگ قراردینے اور اس کے لیے مغرب سے لیکر مشرق تک عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جذبات واحساسات سے کھلواڑ کرنے والی من گھڑت فرضی کہانیاں گھڑنے اور ذرائع ابلاغ سے لگاتار نفسیاتی فکری وار کو مسلسل جاری رکھ کر برین واش کرنے کے لیے ملالہ کا ڈرامہ میڈیا پر پورے زوروشور سے رچایا گیا۔
اس حوالے سے مغربی این جی اوز، لبرل غیر حکومتی تنظیموں اور صحافیوں سے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس درجے گرجائیں گے کہ اس صلیبی جنگ کو جاری رکھنے کےلیے جواز تلاش کرنے اور اپنے موقف کا دلائل اور عقل کی روشنی میں دفاع کرنے کے بجائے ایک کم سن بچی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے اور اس سے وہ کچھ کہلوائیں گے جو ان کو خود کہنے کی ہمت نہیں۔ لیکن ناپاک فوج جو جدید اسلحے سمیت ہر قسم کے ہتھیار سے لیس ہے اور اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی ساتویں فوج سمجھتی ہے، اس کی جانب سے یہ حرکت اس کی بچگانہ غلامانہ سوچ، بزدل پن، ڈرپوک پن، گھٹیا پن اور ذہنی پس ماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے ناپاک افواج کے شاہی ہندی دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب کہ انہوں نے تاجِ برطانیہ کے لئے جنگوں میں بغیر کسی مضبوط عقلی اور اخلاقی جواز کے جانوں کے "نذرانے" پیش کئے اور خلافتِ عثمانیہ کے انہدام میں ہر محاذ پر کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پست سوچ کا اظہار موجودہ کٹھ پتلی ناپاک فوجی قیادت نے بریگیڈیئر علی خان جیسے کلمہ حق کہنے والے اعلٰی فوجی افسر پر لگائے گئے الزامات سے ہی کردیا تھا۔ ان پر ایک الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ ایف ۱۶ کے ذریعے جی ایچ کیو میں جاری فوجی اجلاس پر بمباری کرنا چاہتے تھے۔ تاہم بعد ازاں اس الزام کو واپس لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ ۲۰۰۱ء سے جاری اسلام کے خلاف جنگ میں شمولیت اور مجاہدین اور ان کے خاندانوں کے قتل عام اور کفار کے حوالے کرنے کے دلائل اور جواز کو پرکھا جائے تو یہ انتہائی بودے اور بچگانہ لگیں گے جس کی آڑ میں ناپاک فوج کے لالچی اور بزدل ٹولے میں نہ صرف اپنے لئے مراعات حاصل کیں، بلکہ مجاہدین کے ہاتھوں اپنے فوجی بھی مروائے۔
جذبات کا کھیل
ملالہ کے واقعہ پر عوام کی طرف سے اظہارِ ہمدردی فطری تھا لیکن اس معاملے کو جس انداز میں اچھالا گیا اور عالمی منظر نامے پر ابھارا گیا، اس کے پیچھے کچھ اور ہی مذموم مقاصد کی تکمیل مطلوب لگتی ہے۔ پاکستان میں روزانہ ایسے واقعات ہوجاتے ہیں جس کا نشانہ لڑکیاں اور خواتین بنتی ہیں۔ چند سال پہلے بلوچستان میں کچھ عورتوں کو جاہلانہ قبائلی روایات کی بنیاد پر زندہ دفن کردیا گیا۔ اس پر شور اٹھا لیکن لادین سیکولر جماعت کے ارکان کی جانب سے جب قبائلی روایات کا جواز پیش کیا گیا تو اس پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔ کوئی واویلا نہیں ہوا، کوئی مذمتی بیانات امریکی محکمہ خارجہ، افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر، ناپاک فوج کے سربراہ کی جانب سے سامنے نہیں آئے۔
ملالہ کے معاملے میں ایک اور مضحکہ خیز بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس کی عیادت کرنے کے لئے لال مسجد و جامعہ حفصہؓ میں ملالہ سے بھی چھوٹی معصوم بچیوں کو قتل کرنے، ان کو فاسفورس سے جلانے کے مرکزی منصوبہ ساز، کٹھ پتلی کیانی نے بھی دورہ کیا اور مذمتی بیان دیا جیسے کہ یہ کسی فوجی آپریشن میں زخمی ہونے والی فوجی اہلکار تھی۔ اتنا اعزاز تو پچھلے دس سالوں میں مرنے والے کسی ناپاک فوج کے اعلیٰ ترین افسر کو بھی نہیں دیا گیا۔ پریڈ لین، جی ایچ کیو میں مجاہدین کی کاروائی کے دوران کئی اعلٰی فوجی افسران مارے گئے تھے، ان کی عیادت کے لئے تو کیانی نے اتنا واویلا نہیں کیا۔ یہ وہی کیانی ہے جس نے سوات میں مجاہدین کے ساتھ امن ڈرامہ رچا کر ان کو پھنسانے کی کوشش کی اور پھر کئی ماہ کی ٹال مٹول کے بعد معاہدے کا جھانسا دے کر ایک ہفتے کے اندر اندر سوات پر پاکستانی فوجی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی اور کمانڈو آپریشن کیا۔ اس کے نتیجے میں کیانی کے اپنے دعوے کے مطابق مرنے والے ناپاک فوج کے درندوں میں افسروں کا تناسب پاکستانی فوجی تاریخ میں سب سے ذیادہ رہا۔ آپریشن کے بعد مجاہدین سے ہمدردی کے شبے میں جس طرح ۱۴، ۱۵ اور ۱۷ سال کے نو عمر لڑکوں کر پکڑ پکڑ کر ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اس کی جھلک سوات کی اس ویڈیو سے ملتی ہے جس میں نہتے لڑکوں کو لائن میں کھڑا کرکے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ یہ وہی کیانی ہے جس نے سوات پر حملے کے جواز کے لئے ایک غیر مستند ویڈیو کو جواز بنایا جو بعد میں جعلی ثابت ہوئی۔ ان تمام واقعات سے پہلے لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کو جس انداز میں گھیرا گیا اور ان کی سادہ لوحی کو جس طرح بڑھا چڑھا کر ابلاغ میں بیٹھے لبرل کفر کے فسادیوں نے جواز بناکر ان کو پوری قوم کے سامنے واجب القتل ٹھہرایا، ان کے پردے اور داڑھی کو تضحیک کا نشانہ بنایا، علماء کی توہین کی گئی۔ موجودہ واقعہ بھی اسی قسم کی گھناؤنے منصوبے کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے جس میں اب شمالی وزیرستان نشانہ بننے جارہا ہے۔ مرتد حکومت، فوج اور لبرل فسطائی طبقے کا اس واقعے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی گھٹیا حرکت اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ مختلف قومی معاملات میں جیسے امریکہ کی پاکستان میں مداخلات، بلیک واٹر جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کی ملک میں درآمد اور مسلمانوں کے بازاروں اور مساجد میں بمباری، ڈرون حملوں میں مجاہدین سمیت معصوم بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی شہادت، ناپاک فوج کے قبائل اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں فوجی کاروائیاں اور ان پر جیٹ طیاروں اور بھاری توپخانے سے بمباری میں معصوم خواتین، بچوں اور بزرگوں کی شہادت پر جب ناپاک فوج، لبرل فسطائیت کے علمبرداروں کے پاس عقلی اور اخلاقی دلائل ناپید ہوگئے تو انہوں نے انتہائی منافقت کا ثبوت دیتے ہوئے جذبات کا کھیل شروع کرکے حمایت حاصل کرنے کی گھناؤنی حرکت کی ہے۔ اس معاملے میں یہ امر انتہائی غور طلب ہے کہ ملالہ کے طبی آپریشن کی صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ خبر اور ناپاک فوج کے ترجمان کی جانب سے باقاعدہ بریفنگ اس انداز میں دی جارہی ہے جیسے کہ یہ کوئی فوجی آپریشن ہو۔ یہ حرکتیں نہ صرف ان کے خبثِ باطن کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ اس کے پیچھے شمالی وزیرستان پر حملے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا ہی اصل ہدف معلوم ہوتا ہے۔
لبرل فسطائی کفر کی منافقت اور دوغلا پن
اس واقعہ نے پاکستان میں لبرل فسطائی کفر کی منافقت اور ان کے اصل چہرے کو مزید بے نقاب کیا ہے اور اب اسلام کے خلاف عالمی و مقامی گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے جو مختلف پردوں میں عوام سے چھپے بیٹھے تھے لیکن مجاہدین کئی سالوں سے ان سے واقف تھے۔ اب ان طبقات کی بھی نشاندہی ہوگئی ہے جو یا تو پاکستان کے اسلامی تشخص کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں یا لبرل کفر کی طرف۔ پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے اس میں تقسیم مزید واضح ہوگئی ہے۔ اس نے لبرل کفر کی منافقت اور اسلام دشمنی کو مزید واضح کیا ہے۔ جہاں پاکستان کا لبرل فسطائی طبقہ ملک میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے باقاعدہ فحاشی و بدکاری کو اشتہارات، ڈراموں، موسیقی اور فیشن شوز کے نام پر پھیلا رہا ہے، وہیں یہ پاکستان میں چند سیاسی شخصیات کی جانب سے امریکہ کی مخالفت، اسلامی تشخص اور پاکستانی معاشرے میں دین سے وابستہ سوچ کے پھیلاؤ سے کافی پریشان ہے۔ پاکستانی عوام کا امریکہ وناپاک فوج کے اتحادی جمہوری سیاسی ومذہبی تنظیموں اور ان کے جھوٹے وعدوں اور خیالی پلاؤ سے بیزار ہونے اور اپنی تمام ترامیدیں مجاہدین سے وابستہ کرکے ان کے پشت پناہ بنتے چلے جانا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
ان حالات میں ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی جیسی سیکولر اسلام دشمن قوتیں ہمیں ایک صف میں نظر آتے ہیں اور ملالہ جیسے واقعات میں ان کی اسلام دشمنی اور مجاہدین کے خلاف زہر افشائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس درندہ صفت طبقے کی اپنی تاریخ جھوٹ، منافقت، دوغلے پن کا کھلا ثبوت ہے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف جنگ میں ناپاک فوج اور امریکہ کی غیر مشروط حمایت کی، ان کی مدد سے ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے سیاسی مفاہمت کے نام پر سودے بازی کی اور پاکستان میں امریکی جنگ کو سیاسی وعوامی حمایت دلوانے کے لئے ضمانتیں بھی دیں۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو نے لال مسجد و جامعہ حفصہ ؓ میں ناپاک فوج کی جانب سے بچیوں کے قتلِ عام پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کے واقعات میں یہ سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم نے ہر مرتبہ مجاہدین اور اہلِ اسلام کے خلاف ناپاک فوج کو اکسایا اور اسلام، علماء، مدارس اور اسلامی قوانین کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ان غنڈوں نے پاکستان کے معاشی مرکز کراچی کو جس طرح ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے غیر محفوظ کیا ہے، اس کی جانب لبرل فسطائیت کی جانب سے کوئی مذمتی بیان یا فوجی کاروائی کا مطالبہ سامنے نہیں آتا، حالانکہ کراچی میں سالانہ مرنے والوں کی تعداد امریکی ڈرون حملوں میں شہداء کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ بلوچستان میں ناپاک فوج کی جانب سے بلوچ قوم پرستوں کے خلاف جو کاروائیاں کی جا رہی ہیں، اس طبقے کی جانب سے کبھی بھی اس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بناکر پیش نہیں کیا جاتا، حالانکہ وہاں علیحدگی کےامکانات، قبائل کی نسبت کہیں زیادہ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نواز یہ ٹولہ اپنے نظام زندگی میں ہر اس پہلو کو مرکزی حیثیت دیتا ہے جس کو اللہ کی کتاب میں کفر اور حرام ٹھہرایا گیا ہے، جیسے، حاکمیت میں قانونی شرک یعنی غیر اللہ کے قانون کا نفاذ اور فیصلے کروانا، ایسی ثقافت جس میں غیر اللہ سے مانگنے کے رجحان کو تحفظ اور تقویت ملے، زنا و بدکاری، فحاشی، شراب، جوئے کا فروغ، سود ی کاروبار، غلامانہ بینکاری نظام کا تحفظ اور قومی ولسانی بنیادوں پر قتلِ ناحق کے لئے تعصبات کو ابھارنا۔ یہ لادین طبقہ مسلم معاشرے کے اجتماعی شعور میں سائنس و مذہب، ریاست و اسلام اورایمان و عقل کے مصنوعی تضادات کو ابھارتا ہے تاکہ سیاسی و معاشرتی دھارے میں اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کو غیر مؤثر کر کے انفرادیت کے قید تنہائی میں بند کردیا جائے اور جہاد و شریعت ایک جرم کی حیثیت اختیار کرلیں۔
اسلام اور مجاہدین کی دعوت کو معاشرے میں غیر مؤثر کرنے کے لئے عمومی طور پر لبرل جمہوری نظام کفر دو طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ پہلا یہ کہ عوام کے معمولات میں ان چیزوں کو فروغ دیا جائے جن کی نوعیت تفریح کے نام پر سوائے شور شرابے کے کچھ نہ ہو، جیسے موسیقی، ڈرامے، کھیل تماشے، فیشن شوز، رقص و سرود، حیا باختہ قصے کہانیاں، ہیجان انگیز اخباری رپورٹیں، غیر تصدیق شدہ پراپیگنڈے، اہلِ اسلام کی تضحیک، شعائرِ اسلام کو مزاح اور تنقید کا نشانہ بنانا وغیرہ۔
اگر عوام کا ایک طبقہ دین کی جانب متوجہ بھی ہونا چاہے تو انہیں دین کا شرک و بدعات سے آلودہ پیکج دیا جائے جس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب من گھڑت اور غیر مستند قصے کہانیاں اور اعمال کی تشہیر اور ترغیب دی جاتی ہو تاکہ عوام اصل قرآن و سنت کی جانب متوجہ ہی نہ ہو سکیں، ان پر دین کے اصل تقاضے کھل کر سامنے نہ آسکیں اور وہ سیدھے راستے کو اختیارکرتے ہوئے مغربی طریقے کی بجائے اسلامی طریقے کے مطابق جدوجہد کرنا شروع نہ کردیں۔ نیز انہیں اپنے مقاصد کو پانے کے لیے صحیح طریقےکار اور اصل ذرائع ومؤثر وسائل سے جدوجہد کرنے کی بجائے فرضی طریقےکار اور جعلی ذرائع وبے فائدہ وسائل سے جدوجہد کرنے پر لگادیا جائے تاکہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجائیں کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ ان کو ان کی منزلوں تک لے جائے گا جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ راستہ دن بدن انہیں اپنی منزل سے مزید دور کرتا چلا جاتا ہے۔
یہ نکات پاکستان میں جاری عالمی و مقامی لبرل کفر کی اس ابلاغی یلغار میں کافی نمایاں نظر آتے ہیں جس کا شکار اہلِ اسلام ہیں۔
شمالی وزیرستان میں ممکنہ جنگ کے خدوخال
اسلام کے خلاف موجودہ عالمی کفری یلغار اپنے مرکز میں تمام آسمانی ہدایات، اللہ تعالی، انبیاء اور ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی تمام تہذیبوں کے انکار سے شروع ہوتی ہے اور صلیبیت اور صیہونیت کی آڑ میں عیسائی و یہودی عوام کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہوئی پھیل جاتی ہے۔ یہ اس کفری تہذیب کی توسیع کی جنگ ہے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتی ہے اور نہ آخرت پر، انبیاء اور آسمانی کتابوں کی توہین کرتی ہے اور قانونی و دستوری سطح پر اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہیں جانتی۔
اس جنگ کے ابلاغی پہلو پر تو ہم نے غور کیا کہ کس طرح عالمی کفر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل اور معصوم مسلمانوں کے خون کے ہاتھ رنگنے کے بعد ملالہ جیسے واقعہ کو مجاہدینِ اسلام اور علماء کے خلاف استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتی اور ایک جنگی ہیجان پیدا کرتی ہے تاکہ مسلم عوام کے سامنے دھول جھونکا جائے اور مسئلے کی جڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے ظلم و فساد کو مزید وسعت دی جائے۔ اب ہم آتے ہیں اسلام کے خلاف جنگ کے عسکری پہلو کی جانب۔
اس جنگ کے عسکری پہلو کے نتائج کا زیادہ تر انحصار زمینی صورتحال، طاقت کے توازن اور عسکری حقائق پر ہوتا ہے جس کی عوام کو نہ تو رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی مکمل سمجھ۔ فوج کے درمیانے اور نچلے طبقات بھی ان پالیسی معاملات سے نابلد ہی ہوتے ہیں۔ ملالہ جیسے واقعات کو ابلاغی محاذ پر صرف صحیح وقت پر جواز اور عوامی حمایت کے لئے معاون کا درجہ حاصل ہوتا ہے، جو کہ دور رس نتائج رکھتا ہے۔ باقی فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں مجاہدین کے ہاتھوں نقصان اور خمیازہ ناپاک فوج ہی بھگتتی ہے اور اسی کے قیمتی اثاثے ضائع ہوتے ہیں۔ اگر ہم پچھلے اا سالوں میں ناپاک فوج کی فوجی کارروائیوں اور ابلاغی وعسکری پہلوؤں کے آپس کے ربط کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناپاک فوج کی جانب سے اس جنگ کے اخلاقی اور عقلی جواز کے کمزور ہونے کے سبب ابلاغی محاذ پر بالآخر مجاہدین کا وزن بھاری ہی رہتا ہے۔ لبرل کفری ذرائع ابلاغ آپریشن کے دنوں میں عوام کو گمراہ تو کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن ناپاک فوج کو ہونے والے فوجی اور نفسیاتی نقصانات اور ان کی صفوں میں نظریاتی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اس کا تاثر بہت جلد زائل ہو جاتا ہے اور جواب میں مجاہدین کی جانب سے مزید بہتر اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیتی کاروائیاں ناپاک فوج کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیتی ہیں۔ ناپاک فوج نے ۲۰۰۴ء سے القاعدہ و طالبان مجاہدین کو "نیست و نابود" کرنے کے جو مبالغہ آمیز دعوے کئے ہیں، ان کی قلعی چند مہینوں میں ہی کھل جاتی ہے جب کہ مجاہدین پہلے سے بہتر قوت کے ساتھ عوام میں اپنے موقف کو لےکر آتے ہیں اور ناپاک فوج اور امریکہ کے مشترکہ عسکری مفادات کو نشانہ بنا کر ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جس سے جہادِ افغانستان کی پشت مزید محفوظ ہوتی ہے اور دشمنان اسلام شدید نقصانات سے دوچار ہوتے ہیں۔
ناپاک فوج اور فضائیہ شمالی وزیرستان میں پہلے ہی ایک جنگ چھیڑے ہوئے ہیں لیکن اس کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔ انھوں نے رواں سال میں رمضان المبارک کے فوراً بعد امریکہ کے جاسوسی تعاون سے شمالی وزیرستان پر بھر پور فضائی بمباری کے ذریعے، تحریکِ طالبان پاکستان کو خصوصی طور پر "صفحہ ہستی سے مٹانے" کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کاروائی میں غالباً ایف ۱۶ اور جے ایف ۱۷ طیارے استعمال ہونے تھے اور زمینی جاسوسی اور اہداف کی نشاندہی کے لئے جاسوسی کے آلات سے لیس ساب ۲۰۰۰ طیارے استعمال ہونے کا بھی امکان تھا۔ جب ۲۷ رمضان المبارک کو کامرہ ائر بیس پر مجاہدین کی خصوصی کاروائی میں ایک ساب ۲۰۰۰ طیارہ تباہ کیا گیا اور مجاہدین کی جانب سے ناپاک فوج کو خبردار کیا گیا کہ ان کو شمالی وزیرستان پر حملے کی تاریخ اور نوعیت کی معلومات ان کے اندرونی ذرائع سے مہیا ہوچکی ہیں، تو فوراً آپریشن کے حق میں اٹھتی آوازیں تھم گئیں۔ اس نوعیت کے حملے جو ناپاک فوج کی اسلام کے خلاف جنگ میں عسکری و جاسوسی صلاحیت کو زک پہنچاتے ہوں، نہ صرف مجاہدین کی عوام میں وقعت اور وقار میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ فوج میں ہیبت بھی طاری کرتے ہیں جس سے ان کا مورال مزید گرتا ہے اور ان کو امریکہ کی جنگ کا حصہ بنتے ہوئے فائدے کی جگہ نقصان نظر آتا ہے۔ یعنی ان کی "سلامتی کی شماریات" میں طاقت کا توازن مجاہدین کے حق میں چلاجاتا ہے۔ اس سے ان کی پاکستانی عوام میں بھی سبکی ہوتی ہے اوراسلام کے خلاف جنگ میں عوامی حمایت بھی مخالف سمت بہنا شروع ہوجاتی ہے۔
اسی طرح جب پیریڈ لین یا بریگیڈیئروں کو نشانہ بنانے جیسے واقعات ہوتے ہیں تو یہ گیدڑ صفت فوجی، مجاہدین کے حملوں میں غلطی سے معصومین کو پہنچنے والےنقصانات کی آڑ لے کر عسکری نقصانات کو چھپاتے ہیں اور حقائق کو مسخ کرکے مجاہدین پر من گھڑت الزامات لگاتے ہیں کہ یہ "عورتوں، بچوں کے قاتل ہیں" اور "وحشی درندے" ہیں۔ حالانکہ جس بربریت اور درندگی کا مظاہرہ ان پرویزی شکاری کتوں نے جامعہ حفصہؓ، سوات، قبائل اور مالاکنڈ میں کیا تھا ان کو دیکھ کر تو جنرل(ر) جمشید گلزار کیانی بھی بلبلا اٹھا تھا اور اس کو یہ کہنا پڑا کہ اس نے آج تک اپنی زندگی میں اتنی بربریت نہیں دیکھی، اور یہ کہ یہ تو مکھی کو ہتوڑے سے مارنے کے برابر بھی نہیں تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بے شرم فوج کے سر پر اس پورے معاملے کا سرخیل جنرل کیانی مسلط ہوجاتا ہے جو اس فوج کے تمام تر شعبوں کو مجاہدین کے خلاف مزید جنگ میں الجھاتا ہے۔ زید حامد جیسے زر خرید فریبیوں کے ذریعے مجاہدین پر بے بنیاد الزامات لگوائے جاتے ہیں جیسے "خارجی"، "تکفیری" اور "دہشت گرد"، وغیرہ۔ ساتھ ہی پاکستانی محاذ پر مصروف مجاہدین کو افغانستان و پاکستان کے مجموعی محاذ سے صرف اپنے الگ دائرہِ عمل کی بنیاد پر "برے طالبان" کے لقب سے نوازا جاتا ہے تاکہ ان کو نشانہ بنانا ناپاک فوج کے نچلے طبقے کے فوجیوں کے لئے آسان تر ہو۔ مزید یہ کہ مجاہدین کی صفوں میں علاقائی بنیادوں پر تقسیم کو ہوا دینا اور ان کی معاملہ فہم قیادت کو عام مجاہد سے الگ کر کے ان کو اپنے کنٹرول میں لینا اس پالیسی کا حصہ ہے تاکہ مجموعی محاذ پر مجاہدین کی خودمختار عملداری کو روکا جاسکے۔ امارتِ اسلامیہ کے سابق وزیرِ ثقافت، استاد یاسر سمیت افغان محاذ کی آدھی سے زائد طالبان قیادت کو خفیہ ایجنسیوں کی قید میں رکھنے کے پیچھے یہی محرکات تھے۔
امن اور لڑکیوں کی تعلیم، مجاہدین کا موقف
ملالہ پر حملے کے حوالے سے جن نکات کو سب سے زیادہ اچھال کر مجاہدین کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہ ہیں امن اور لڑکیوں کی تعلیم۔ یعنی عوام الناس کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ مجاہدینِ طالبان "امن کے دشمن" ہیں اور "لڑکیوں کی تعلیم" کے خلاف ہیں۔ یہ دونوں الزامات انتہائی مضحکہ خیز ہیں کہ جو مجاہدین اس شریعت پر چلنے والے ہوں جس کے رسولﷺ نے علم کو مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہو اور جس سے منسلک مدارس میں لڑکیوں کے مدارس بھی شامل ہوں، اور جن کے راہنما مجاہدین، افغانستان میں مثالی امن اور انصاف قائم کر کے دکھا چکے ہوں جہاں برطانوی صحافی ’’یووان ریڈلی‘‘ ان کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہونے کے بعد کہتی ہو کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ یہاں امریکہ کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ محفوظ تصور کرتی ہے؛ اور جس کا دورہ کرکے آنے والے سیکولر سوچ کے حامل دانشور ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر اس جیسی دو اور حکومتیں دنیا میں قائم ہوجائیں تو ساری دنیا مسلمان ہو جائے، ایسے مجاہدین کس طرح "امن کے دشمن" ہوسکتے ہیں۔
ملالہ اگر لڑکیوں کی تعلیم کی علامت تھی تو کیا جامعہ حفصہ ؓ کی لڑکیاں تعلیم کی علامت نہیں تھیں؟ کیا وہ قرآن وسنت کی تعلیم حاصل نہیں کر رہی تھیں؟ پاکستان کے ہر شہر میں اور محلے میں لڑکیوں کے جامعات کھلے ہیں، لیکن مجاہدین کی جانب سے تو کبھی ان کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ تو سوات اور قبائل میں لڑکیوں کے سکولوں کو بم سے اڑانے کے قصے اور داستانیں آخر کیا ہیں؟ اس کے کیا محرکات ہیں؟ اس کی کھوج لگانے کے لئے پاکستانی صحافی سلیم شہزاد نے سوات کا دورہ کیا اور وہاں ایک سرکاری اسکول کو تباہ شدہ حالت میں دیکھا جس پر طالبان مجاہدین سے منسوب تعلیم مخالف جملے لکھے تھے۔ مقامی شخص نے صحافی کو جو بتایا اس میں ہمارے لئے کافی جواب موجود ہے۔ پہلے تو اس نے یہ کہا کہ جنگ زدہ علاقوں میں تمام سرکاری اسکول حالات کی خرابی کی وجہ سے کئی عرصے سے بند ہیں، اور چونکہ ان علاقوں میں ناپاک فوج کی باقاعدہ چھاؤنیاں نہیں ہیں، اس لئے انہوں نے زیادہ تر سرکاری اسکولوں پر قبضہ کر کے وہاں پڑاؤ ڈالا ہے اور اس میں لڑکے اور لڑکیوں کے اسکولوں کی کوئی تفریق نہیں۔ اس وجہ سے طالبان مجاہدین اور فوج دونوں کی جانب سے اسکولوں کی عمارتوں کو اس لئے تباہ کیا گیا تاکہ ان کو عسکری مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے۔ مزید یہ کہ اکثر اسکولوں کی دیواروں پر ناپاک فوج نے خود تعلیم مخالف جملے لکھ کر انہیں طالبان کی جانب منسوب کیا۔ اس گھٹیا حرکت کے بعد ناپاک فوج اور لبرل فسطائی ادارے یہ واویلا کرتے ہیں کہ مجاہدینِ طالبان "لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں"۔ انہیں جامعہ حفصہؓ پر ہونے والی سفاکانہ بمباری اور لڑکیوں کا قتلِ عام فوراً بھول جاتا ہے جس کے لئے انہوں نے بھر پور تعاون کیا اور ان بچیوں کو "دہشت گرد" کے روپ میں پیش کر کے عوامی رائے عامہ کو ان کی مخالفت میں ابھارا۔
مجاہدین کی طرف سے لڑکیوں اور لڑکوں، دونوں کی تعلیم کے حوالے سے یہ موقف واضح ہے کہ وہ صرف لادین، سیکولر اور اسلام و دنیاوی علوم میں تفریق کرنے والے نظامِ تعلیم کے مخالف ہیں اور تحریکِ طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے پاکستانی میڈیا اور بی بی سی اردو کو موصول ہونے والے مبینہ پیغام میں بھی اس بات کا واضح انداز میں ذکر ہے۔ چنانچہ ملالہ پر مبینہ حملے کی بابت مقامی و عالمی کفر کی جانب سے واویلا، ایک سوچے سمجھے ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں تاکہ جہاد اورمسلمانوں کیخلاف جاری عالمی امریکی صلیبی جنگ ـــ جو تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اب اسے پاکستان میں جاری رکھنے کے لیے ناپاک فوج کے پاس کوئی جواز یا بہانہ باقی نہیں رہا ہے۔ پاکستانی مسلم عوام بھی اب اس جنگ کی حقیقت کو اچھی طرح جان چکی ہے اور جمہوری سیاسی ومذہبی تنظیموں کے گھناؤنے کردار سے بھی اچھی طرح واقف ہوچکی ہے ــــ کے لیے جواز تلاش کیا جاسکے اور رائے عامہ کو مجاہدین کیخلاف ہموار کیا جاسکے۔ نیزعرب ممالک کی طرح پاکستانی عوام کو اپنے ملک میں حقیقی انقلاب لانے سے کسی طرح روکا جاسکے۔ امریکہ اور ناپاک فوج کی جمہوری سیاسی ومذہبی تنظیموں کی حقیقت سے پاکستانی مسلم عوام اچھی طرح واقف ہوچکی ہے اور ان کا اعتبار اب جہاں حکومت، ایجنسیوں اور ناپاک افواج سے اٹھ چکا ہے، وہاں جمہوری سیاسی ومذہبی تنظیموں سے بھی اٹھ چکا ہے جو ملک کو امریکی غلامی سے آزاد کراکر پاکستان میں حقیقی تبدیلی اور خوشحالی لانے کے لیے جدوجہد کرنے کی بجائے عوام کو دھوکہ دینے اور ان کی توانائی بیکار جگہوں پر لایعنی کاموں میں ضائع کرکے اسلام اور وطن کے دشمن عالمی صلیبی افواج اور اس کے اتحادیوں کی مدد کررہے ہیں اور پاکستان کو مزید تباہی وبربادی کی طرف جان بوجھ کر سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے دھکیل رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور اس کی اتحادی ناپاک فوج ملالہ جیسے ایشوز کو کھڑا کرکے میڈیا میں اس لیے پورے زوروشور سے اچھال رہے ہیں تاکہ کسی طرح شمالی وزیر ستان پر ممکنہ جارحیت کو عوامی حمایت دلوائی جاسکے اور پاکستانی فوج اور پولیس کے اہلکار کی اسلام مخالف جنگ میں شمولیت کے خلاف مزاحمت کو مرحلہ وار کمزور کیا جاسکے۔
اس موقع پر اہلِ پاکستان کو انتہائی ہوش مندی اور صبر کے ساتھ اس صورتحال کو سمجھنا ہوگا اور میڈیا پروپیگنڈوں پردھیان دینے کی بجائے زمینی حقائق اور دہشت گردی کے نام پر کئی برس سے جاری صلیبی جنگ سے پاکستان کو حاصل ہونے والے نتائج پرغور کرنا چاہئے۔ نیز پاکستانی عوام کے ہرطبقے کو اپنی تمام تر توانائی صرف ایک نقطے پر مرکوز کردینی چاہئے کہ وہ کسی بھی طرح پاکستان میں عالمی صلیبی جنگ کی پشت پناہی کرنے والے جمہوری نظام حکومت اور پاکستانی عوام ہی کیخلاف امریکی جنگ لڑنے والی ناپاک فوج اور اس کی ایجنسیوں کا توڑ کرتے ہوئے اس جنگ کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ صلیبی غلامی سے آزاد ہوئے بغیر پاکستان کے کسی بھی طبقے کے عوامی مسائل حل نہیں ہونگے اور پاکستان کبھی بھی خودمختار، خوشحال، ترقی یافتہ، پرامن اور سلامتی والا اسلامی ملک نہیں بن سکے گا۔ نیز دہشت گردی کے نام پر جاری اسلام اور مسلمانوں کیخلاف صلیبی جنگ کو رکوانے کے لیے، مجاہدینِ طالبان کے دفاع اور اسلام کے خلاف جنگ کی بھر پور مخالفت کے لئے رائے عامہ کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ پاکستان و افغانستان میں جاری جہاد کے ثمرات کو چند واقعات کی آڑ میں زائل کرنے کی سازش کو ناکام بنایا جاسکے۔
Source : Bab-ul-Islam
Comment