عن أم سلمة ترفعه قال إذا دخل العشر وعنده أضحية يريد أن يضحي فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور اس کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو اور وہ اس کی قربانی بھی کرنا چاہتا ہو تو وہ اپنے بالوں کو نہ کٹوائے اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو ترشوائے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: حدیث نمبر 621
صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ
عن أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو روکے رکھے۔
ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں
جو شخص قربانی کا ارادہ کرلے اُس کے لیے جائز نہیں ہے کہ
وہ اپنے بال اور اپنے ناخن اور چمڑے (جسم) سے کچھ بھی کاٹے
جبکہ ماہ ذوالحجہ شروع ہوچکا ہو حتٰی کہ وہ قربانی کرلے۔
فتاوٰی اسلامیہ
(2/317)
لہٰذا یہ صفائی ستھرائی والا کام آپ ذی الحج کا چاند نظر آنے سے پہلے کر لیں
جو قربانی کا ارداہ نہ رکھتا ہواُس کے لیے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت کسی صحیح
حدیث سے ثابت نہیں ہاں ایسا شخص اگر قربانی کا اجر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے
چاہیے کہ عید کے روزاپنے بال اور ناخن تراش لے، مونچھیں کاٹ لے اور زیر ناف بال مونڈھ لے
جیسا کہ ایک حدیث میں ہےکہ
عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلی الله عليه وسلم قال أمرت بيوم الأضحی عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثی أفأضحي بها قال لا ولکن تأخذ من شعرک وأظفارک وتقص شاربک وتحلق عانتک فتلک تمام أضحيتک عند الله عز وجل
سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے اضحی کے دن عید منانے کا حکم ہوا ہے (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) جس کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے عید قرار دیا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر میرے پاس محض مونث دودھ دینے والی بکری ہو تو کیا مجھ پر اس کی قربانی بھی واجب ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں! بلکہ تو صرف اپنے بال اور ناخن کتر لے اور مونچھیں کم کرا دے اور زیر ناف کے بال مونڈ لے۔ بس اللہ کے نزدیک یہی تیری قربانی ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1023 کتاب الضحایا ،نسائی
(4377)
ابن حبان(1043)حاکم(4/223) اگرچہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ روایت حسن درجہ کی ہے
بحوالہ فقه الحدیث
( امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب الدرر البھیہ)
(کا ترجمہ وتشریح بمعہ تخریج و تحقیق )
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور اس کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو اور وہ اس کی قربانی بھی کرنا چاہتا ہو تو وہ اپنے بالوں کو نہ کٹوائے اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو ترشوائے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: حدیث نمبر 621
صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ
عن أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو روکے رکھے۔
ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں
جو شخص قربانی کا ارادہ کرلے اُس کے لیے جائز نہیں ہے کہ
وہ اپنے بال اور اپنے ناخن اور چمڑے (جسم) سے کچھ بھی کاٹے
جبکہ ماہ ذوالحجہ شروع ہوچکا ہو حتٰی کہ وہ قربانی کرلے۔
فتاوٰی اسلامیہ
(2/317)
لہٰذا یہ صفائی ستھرائی والا کام آپ ذی الحج کا چاند نظر آنے سے پہلے کر لیں
جو قربانی کا ارداہ نہ رکھتا ہواُس کے لیے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت کسی صحیح
حدیث سے ثابت نہیں ہاں ایسا شخص اگر قربانی کا اجر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے
چاہیے کہ عید کے روزاپنے بال اور ناخن تراش لے، مونچھیں کاٹ لے اور زیر ناف بال مونڈھ لے
جیسا کہ ایک حدیث میں ہےکہ
عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلی الله عليه وسلم قال أمرت بيوم الأضحی عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثی أفأضحي بها قال لا ولکن تأخذ من شعرک وأظفارک وتقص شاربک وتحلق عانتک فتلک تمام أضحيتک عند الله عز وجل
سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے اضحی کے دن عید منانے کا حکم ہوا ہے (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) جس کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے عید قرار دیا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر میرے پاس محض مونث دودھ دینے والی بکری ہو تو کیا مجھ پر اس کی قربانی بھی واجب ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں! بلکہ تو صرف اپنے بال اور ناخن کتر لے اور مونچھیں کم کرا دے اور زیر ناف کے بال مونڈ لے۔ بس اللہ کے نزدیک یہی تیری قربانی ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1023 کتاب الضحایا ،نسائی
(4377)
ابن حبان(1043)حاکم(4/223) اگرچہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ روایت حسن درجہ کی ہے
بحوالہ فقه الحدیث
( امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب الدرر البھیہ)
(کا ترجمہ وتشریح بمعہ تخریج و تحقیق )