سلف رضوان اﷲ علیہم ان لوگوں کی شدید مذمت کرتے تھے جو اپنی آراء یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے احادیث کا انکار کرتے ہیں بلکہ سلف تو ایسے لوگوں سے تعلق ہی ختم کردیتے تھے حدیث کی تعظیم وتوقیر کی خاطرجیسا کہ مسلم میں سالم بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا))
’’اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب و ہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ’’اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے‘‘ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟‘‘
بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیاہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔
بخاری میں زبیر بن عربی رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں :ایک شخص نے ابن عمررضی اﷲ عنہ سے سوال کیا حجر اسود کو چھونے کا ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس کو ہاتھ لگاتے تھے اوربوسہ دیتے تھے اس شخص نے کہا اگر بھیڑ ہو اور مجھے موقع نہ مل سکے تو ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا یہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابن حجر رحمہ اﷲ ’فتح الباری ‘میں کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو یہ جو کہا کہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو تو یہ اس لیے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو اس شخص کی باتوں سے حدیث سے اعراض کا پتہ چل رہاتھا اس لیے ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس شخص کو حکم دیا کہ جب حدیث سن لو تو اسے اپناؤ اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا کرو ۔ابن عباس رضی اﷲعنہ نے ایک مرتبہ حدیث سنائی تو لوگوں نے ابوبکررضی اﷲ عنہ اورعمر رضی اﷲ عنہ کا قول اس حدیث کے خلاف پیش کردیا ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ تم باز نہیں آتے جب تک کہ اﷲ تم پر عذاب نہ نازل کردے؟میں تمہیں رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟
علامہ سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ جب ابن عباس رضی اﷲعنہ ابوبکروعمررضی اﷲ عنہما جیسے اشخاص کے قول کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں تو پھر اس شخص کوکیا کہا جائے گا جو اپنے امام کے قول کی وجہ سے یا اپنے مذہب کی بناپر حدیث کو چھوڑ رہا ہو امام کے قول کو حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرکھنے کے لئے معیار بنارہا ہو جو حدیث امام کے قول کے موافق ہو اسے لے رہا ہو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ رہا ہو ؟ایسے شخص کے بارے میں ہم اﷲ کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں۔
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ
(التوبۃ:۳۱)
’’ان لوگوں نے اپنے علماءاور درویشوں کو رب بنالیا ہے اﷲ کو چھوڑ کر‘‘۔
(تیسیرالعزیزالحمید:۵ ۴۴،۵۴۵)
ابوالسائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا)کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے(چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲکے لئے وقف ہے) اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟(مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ ا ﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے ۔ابوالسائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔
(جامع الترمذی :۳/۲۵۰،والفقیہ والمتفقہ۱/۱۴۹)
آج کے دور میں بہت سے لوگ ہیں جو قید کیے جانے کے قابل ہیں ۔اس لیے کہ جب انہیں حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سنائی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس طرح کہا ہے ،فلاں نے یہ فتوی دیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک افراد ہی شریعت کے ماخذہیں ) جو لوگ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر افراد واشخاص کے اقوال پیش کرتے ہیں ان کو قید کردینا چاہئے جب تک کہ وہ اپنی روش سے توبہ نہ کرلیں ۔
ابویعلی رحمہ اﷲ نے( طبقات الحنابلہ :۱/۲۵۱) میں فضل بن زیاد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ کو خبر ملی کہ امام مالک رحمہ اﷲ’’البیعان بالخیار‘‘والی حدیث نہیں لیتے ،تو ابن ابی ذئب رحمہ اﷲنے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کی گردن کاٹ دی جائے (امام مالک رحمہ اﷲ نے حدیث رد نہیں کی تھی بلکہ ا س کی تاویل کرکے دوسرا مطلب لیتے تھے) سلف صالحین رحمہم اﷲ حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی اس طرح مذمت کرتے تھے چاہے یہ مخالفت قیاس کی بناپر ہوتی یا استحسان واستصواب کے نام پر یا کسی عالم کے قول وفتوی کی وجہ سے ہوتی سلف رحمہم اللہ ایسے لوگوں سے ترک تعلق کرتے تھے جب تک کہ ایسے لوگ اپنے عمل سے رجوع نہ کرلیں ،حدیث کومکمل طور پر تسلیم کرکے اس کی پیروی نہ شروع کردیتے وہ اس شخص کو بھی ناپسند کرتے تھے جو اس بنا پر حدیث کو لیتے ہیں جب وہ قیاس کے موافق ہو یا کسی امام یا عالم کے قول وفتوی کے موافق ہووہ تو اﷲ کے اس فرمان پر عمل پیرا تھے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
(احزاب:۳۶)
’’جب اﷲ اور اس کارسول (صلی اﷲ علیہ وسلم)کسی امر کا حکم دیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو اپنے معاملہ کا کوئی اختیارنہیں رہتا‘‘۔
دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے ۔
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(النساء:۶۵)
’’تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ۔جب تک تجھے (اے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم) اپنے تنازعات میں فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں‘‘۔
مگر ہم اب ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کسی سے کہاجاتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو وہ کہتا ہے کس نے کہا ہے ؟یعنی یہ جاننا ہی نہیں چاہتا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے خود کو بے خبر رکھ کر حدیث کی مخالفت یا اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے آپ سے مخلص ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا اس طرح انجان بن کر حدیث پر عمل نہ کرنا باطل کی طرف جاتا ہے ۔ اعلام الموقعین میں کسی عالم کا قول مذکور ہے جس نے کہا تھا کہ ہم حدیثِ رسول پر اس وقت تک عمل نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس حدیث پر ہم سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اگر کسی کے پاس حدیث پہنچ گئی مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہے (یا نہیں ) تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
(اعلام الموقعین :۴/۲۵۴،۲۴۴)
((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا))
’’اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب و ہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ’’اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے‘‘ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟‘‘
بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیاہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔
بخاری میں زبیر بن عربی رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں :ایک شخص نے ابن عمررضی اﷲ عنہ سے سوال کیا حجر اسود کو چھونے کا ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس کو ہاتھ لگاتے تھے اوربوسہ دیتے تھے اس شخص نے کہا اگر بھیڑ ہو اور مجھے موقع نہ مل سکے تو ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا یہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابن حجر رحمہ اﷲ ’فتح الباری ‘میں کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو یہ جو کہا کہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو تو یہ اس لیے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو اس شخص کی باتوں سے حدیث سے اعراض کا پتہ چل رہاتھا اس لیے ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس شخص کو حکم دیا کہ جب حدیث سن لو تو اسے اپناؤ اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا کرو ۔ابن عباس رضی اﷲعنہ نے ایک مرتبہ حدیث سنائی تو لوگوں نے ابوبکررضی اﷲ عنہ اورعمر رضی اﷲ عنہ کا قول اس حدیث کے خلاف پیش کردیا ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ تم باز نہیں آتے جب تک کہ اﷲ تم پر عذاب نہ نازل کردے؟میں تمہیں رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟
علامہ سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ جب ابن عباس رضی اﷲعنہ ابوبکروعمررضی اﷲ عنہما جیسے اشخاص کے قول کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں تو پھر اس شخص کوکیا کہا جائے گا جو اپنے امام کے قول کی وجہ سے یا اپنے مذہب کی بناپر حدیث کو چھوڑ رہا ہو امام کے قول کو حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرکھنے کے لئے معیار بنارہا ہو جو حدیث امام کے قول کے موافق ہو اسے لے رہا ہو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ رہا ہو ؟ایسے شخص کے بارے میں ہم اﷲ کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں۔
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ
(التوبۃ:۳۱)
’’ان لوگوں نے اپنے علماءاور درویشوں کو رب بنالیا ہے اﷲ کو چھوڑ کر‘‘۔
(تیسیرالعزیزالحمید:۵ ۴۴،۵۴۵)
ابوالسائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا)کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے(چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲکے لئے وقف ہے) اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟(مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ ا ﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے ۔ابوالسائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔
(جامع الترمذی :۳/۲۵۰،والفقیہ والمتفقہ۱/۱۴۹)
آج کے دور میں بہت سے لوگ ہیں جو قید کیے جانے کے قابل ہیں ۔اس لیے کہ جب انہیں حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سنائی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس طرح کہا ہے ،فلاں نے یہ فتوی دیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک افراد ہی شریعت کے ماخذہیں ) جو لوگ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر افراد واشخاص کے اقوال پیش کرتے ہیں ان کو قید کردینا چاہئے جب تک کہ وہ اپنی روش سے توبہ نہ کرلیں ۔
ابویعلی رحمہ اﷲ نے( طبقات الحنابلہ :۱/۲۵۱) میں فضل بن زیاد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ کو خبر ملی کہ امام مالک رحمہ اﷲ’’البیعان بالخیار‘‘والی حدیث نہیں لیتے ،تو ابن ابی ذئب رحمہ اﷲنے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کی گردن کاٹ دی جائے (امام مالک رحمہ اﷲ نے حدیث رد نہیں کی تھی بلکہ ا س کی تاویل کرکے دوسرا مطلب لیتے تھے) سلف صالحین رحمہم اﷲ حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی اس طرح مذمت کرتے تھے چاہے یہ مخالفت قیاس کی بناپر ہوتی یا استحسان واستصواب کے نام پر یا کسی عالم کے قول وفتوی کی وجہ سے ہوتی سلف رحمہم اللہ ایسے لوگوں سے ترک تعلق کرتے تھے جب تک کہ ایسے لوگ اپنے عمل سے رجوع نہ کرلیں ،حدیث کومکمل طور پر تسلیم کرکے اس کی پیروی نہ شروع کردیتے وہ اس شخص کو بھی ناپسند کرتے تھے جو اس بنا پر حدیث کو لیتے ہیں جب وہ قیاس کے موافق ہو یا کسی امام یا عالم کے قول وفتوی کے موافق ہووہ تو اﷲ کے اس فرمان پر عمل پیرا تھے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
(احزاب:۳۶)
’’جب اﷲ اور اس کارسول (صلی اﷲ علیہ وسلم)کسی امر کا حکم دیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو اپنے معاملہ کا کوئی اختیارنہیں رہتا‘‘۔
دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے ۔
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(النساء:۶۵)
’’تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ۔جب تک تجھے (اے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم) اپنے تنازعات میں فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں‘‘۔
مگر ہم اب ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کسی سے کہاجاتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو وہ کہتا ہے کس نے کہا ہے ؟یعنی یہ جاننا ہی نہیں چاہتا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے خود کو بے خبر رکھ کر حدیث کی مخالفت یا اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے آپ سے مخلص ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا اس طرح انجان بن کر حدیث پر عمل نہ کرنا باطل کی طرف جاتا ہے ۔ اعلام الموقعین میں کسی عالم کا قول مذکور ہے جس نے کہا تھا کہ ہم حدیثِ رسول پر اس وقت تک عمل نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس حدیث پر ہم سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اگر کسی کے پاس حدیث پہنچ گئی مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہے (یا نہیں ) تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
(اعلام الموقعین :۴/۲۵۴،۲۴۴)