Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سماع موتیٰ : کیا مردے سنتے ہیں ؟!

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سماع موتیٰ : کیا مردے سنتے ہیں ؟!


    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    ذیل کی ساری تحریر علامہ البانی کے مقدمہ سے ماخوذ ہے ، اور یہ مقدمہ جس کتاب میں موجود ہے اس کی تفصیل یہاں پیش کی جا چکی ہے ، کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک یہاں

    ڈاؤن لوڈ : الآيات البينات في عدم سماع الأموات ...

    مواد کا اردو ترجمہ حافظ شیخ محمد صالح محمد یونس نے کیا ، جس کی تنقیح و نظر ثانی کا کام حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے انجام دیا ہے۔
    (کچھ الفاظ / جملوں کی ترتیب قارئین کی آسانی کے لیے میں* نے تبدیل بھی کی ہے)

    ***
    قلیب بدر کا واقعہ خاص واقعہ ہے ، جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مُردے ہر وقت سنتے ہیں اور ہر بات سنتے ہیں۔ اسی طرح یہ واقعہ اس پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ دوسرے مُردے بھی سنتے ہیں۔
    جن صحابہ نے صراحتاً اس عقیدہ کا اظہار کیا تھا کہ

    مُردے کیسے سن سکتے ہیں؟

    اُس کی وضاحت حضرت انس کی روایت میں پائی جاتی ہے جسے امام احمد نے بیان کیا ہے

    مسند احمد کی حدیث کا آن لائن لنک

    ...... فسمع عمر صوته فقال يا رسول الله أتناديهم بعد ثلاث وهل يسمعون يقول الله عز وجل إنك لا تسمع الموتى فقال والذي نفسي بيده ما أنتم بأسمع منهم ولكنهم لا يستطيعون أن يجيبوا‏.‏‏

    جب حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مُردوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا

    اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ تین دنوں کے بعد ان کو آواز دے رہے ہیں، کیا یہ سنتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے

    إنك لا تسمع الموتى

    (آپ مُردوں کو سنا نہیں سکتے)

    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان سے زیادہ تم میری بات کو نہیں سن رہے ہو لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔

    [ شیخ البانی اور شیخ ارناوؤط سے اس حدیث کو صحیح کہا ہے]

    دیکھ لیجئے کہ اس حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے صراحت کے ساتھ یہ ذکر کیا کہ

    ان کے اس سوال کی بنیاد مذکورہ آیت ہے
    اور اس آیت سے تمام صحابہ نے ایک عام مفہوم مراد لیا ہے جس میں قلیبِ بدر کے مُردے بھی داخل ہیں ، اس لیے انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دو ٹوک باتیں کیں تاکہ کوئی اشکال باقی نہ رہ جائے!

    اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ

    صحابہ نے آیت کا جو مفہوم مراد لیا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو صحیح قرار دیا۔

    وہ اس طرح کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس مفہوم کا انکار کیا اور نہ ہی ان سے یہ کہا کہ

    تم نے آیت کا مفہوم غلط لیا ہے ، یہ آیت تمام مُردوں کو شامل نہیں۔

    ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اتنی وضاحت ضرور کر دی کہ ان مُردوں کا معاملہ جداگانہ ہے ، یہ آیت اس سے مستثنیٰ ہے۔

    ایک بات کا ذکر کر دینا بہتر ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت سے جو استدلال کیا تھا بعینہ وہی استدلال حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا بھی تھا۔
    لہذا حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو آج خطاوار ٹھہرانا صحیح نہیں ہے، خاص طور سے اس وقت جبکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی تائید کی۔

    یہ اور بات ہے کہ حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب اس قصہ کو بیان کیا تو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے اُن کی تردید کی۔

    حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) اور دوسرے صحابہ کرام کی روایات کو جمع کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) ہی سے وہم ہوا ہے۔

    لیکن ۔۔۔ ان تمام روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ آیت سے استدلال کرنے میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس قصہ کی حقیقت ان سے پوشیدہ تھی۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ان کا موقف بھی وہی ہوتا جو تمام صحابہ کا موقف تھا۔

    لہذا صحیح موقف یہی ہے کہ یہ قصہ آیت سے مستثنٰی ہے۔

    ایک بات قابلِ توجہ یہ ہے کہ

    مسائل کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے ان امور کی رعایت بھی ضروری ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بطورِ اقرار ثابت ہوں۔ ورنہ احادیث کے سمجھنے میں بسا اوقات غلطی ہو سکتی ہے۔

    جیسا کہ اسی ضمن میں دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

    مثال نمبر:1

    صحیح مسلم کی حدیث کا آن لائن ربط

    حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کی حدیث ام مبشر (رضی اللہ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ ۔۔۔
    انہوں نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ

    لا يدخل النار ان شاء الله من اصحاب الشجرة احد ‏.‏

    ان شاءاللہ جو لوگ بیعتِ رضوان میں شریک تھے ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔

    حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا : کیوں نہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)؟

    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُن کو ڈانٹا ، پھر حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا

    اللہ نے فرمایا ہے

    {‏ وان منكم الا واردها‏}

    تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پر وارد نہ ہو۔
    رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا ، اللہ یہ بھی کہتا ہے

    ‏{‏ ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا‏}‏

    ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

    حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت سے یہ استدلال کیا تھا کہ : جہنم میں ہر شخص داخل ہوگا خواہ وہ نیک ہو یا بد ، اسی لیے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کہا : بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا ، تو اُن کو اشکال ہوا اور یہ آیت پیش کی۔ لہذا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کا یہ اشکال اس طرح دور کیا کہ ان کو پوری آیت پڑھ کر سنائی۔

    لہذا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت کا جو مفہوم سمجھا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ ۔۔۔۔ آیت کے اندر اس سے کون لوگ مراد ہیں اور حدیث کے اندر کون ہیں ، اس کی وضاحت کر دی ۔۔۔۔ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ

    حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں کو عذاب نہیں ہوگا ، ہاں جہنم سے گزرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگ جہنم سے گزریں گے ، کچھ لوگ تو اس کے عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اس سے محفوظ رہ کر جنت میں چلے جائیں گے۔


    مثال نمبر:2

    صحیح بخاری کی حدیث کا آن لائن ربط

    ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے پاس آئے ، اس وقت انصار کی دو لڑکیاں منیٰ کے دنوں میں دف بجا کر انصار کے کے اُن کارناموں کو بیان کر رہی تھیں جو انہوں نے جنگِ بعاث میں انجام دئے تھے، یہ لڑکیاں گانے والی نہیں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنا رُخِ انور دوسری طرف کر کے لیٹ گئے۔ اسی دوران حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے اوپر کپڑا ڈھانکے ہوئے تھے۔

    حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ شیطانوں کی بانسری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں؟

    نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا چہرۂ مبارک کھولا اور ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : ابوبکر ! رہنے دو ، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے ، آج ہماری عید کا دن ہے۔

    حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ذرا ان لڑکیوں کی طرف سے غافل ہوئے تو میں نے اُن کو اشارہ کیا اور وہ واپس چلی گئیں۔

    اس حدیث کے اندر آپ دیکھئے گا کہ ۔۔۔۔۔

    رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ ۔۔۔

    مزمارة الشيطان

    (گانا بجانا شیطان کا فعل ہے)

    اور نہ ہی جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے ڈانٹا تو اس کو برا سمجھا ، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی دونوں باتوں کو برقرار رکھا ، لہذا معلوم ہوا کہ یہ چیز درست ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
    لیکن دیکھنے کی مزید بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔

    حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے یہ بات کیسے کہی کہ : یہ شیطان کا فعل ہے؟؟

    ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اس چیز کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی سے حاصل کیا تھا ، جیسا کہ گانے بجانے کے متعلق بےشمار احادیث موجود ہیں۔

    اگر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو پہلے سے اس کا علم نہ ہوتا اور اس موقف میں وہ حق پر نہ ہوتے تو کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے اس قسم کی جراءت نہ کرتے۔

    ہاں حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو یہ نہیں معلوم تھا کہ

    عید اور خوشی کے موقع پر اس نوعیت کا گانا بجانا درست ہے جس کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اشارہ کیا۔

    لہذا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا انکار اپنی جگہ مسلم تھا ، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے برقرار رکھا لیکن اس سے یہ مستثنیٰ کر دیا کہ عید کے موقع پر اس
    نوعیت کا گانا بجانا جائز ہے۔


    خلاصہ

    چنانچہ معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے انکار کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بیان کیا کہ جس نوعیت کا گانا بجانا یہ لڑکیاں کر رہی تھیں ، عید کے موقع پر اتنا جائز ہے ۔۔۔۔
    بالکل اسی طرح ۔۔۔۔

    قلیب بدر کی حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے انکار کو برقرار رکھا اور ایک خاص حکم بیان کیا کہ تمہاری بات صحیح ہے کہ مُردے سنا نہیں کرتے لیکن یہ مُردے اِس وقت سن رہے ہیں !!
Working...
X