نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےنعلین مبارک اورشرعی حیثیت
رضا ورائٹی ہاؤس لاہور کی طرف سے ایک کارڈ شائع کیا گیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی 6 عدد تصاویر ہیں ، کیا یہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر ہیں ، ان کے نیچے کچھ فضائل درج کئے گئے ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ، ان تصاویر کے اوپر اور نیچے ” صلی اللہ علیہ وسلم “ کے الفاظ درج ہیں ، کیا یہ درود کی بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے ، کیا ایسے کارڈ پر کوئی دعوت نامہ بنوا کر تقسیم کرنا اور اس کارڈ کو عام کرنا درست ہے ، ایک عالم دین نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور وہ اسے کار ثواب خیال کرتے ہیں ، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی حیثیت واضح کریں ۔
( محمد یونس حیدری ۔ بیگم کوٹ لاہور )
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ، عصا ، پیالہ ، انگوٹھی اور ان تمام چیزوں کا بیان جنہیں آپ کے بعد آپ کے خلفاءنے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ، اسی طرح آپ کے موئے مبارک ، نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں ۔ “
( کتاب فرض الخمس باب نمبر5 )
اس کے بعد آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے بالوں کے بغیر چمڑے کی دو پرانی جوتیاں پیش کیں جن پر دو پٹیاں تھیں پھر فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک ہیں ۔
( صحیح بخاری ، فرض الخمس : 3107 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جوتے کی بناوٹ موجودہ دور کی ہوائی چپل سے ملتی جلتی ہے اس میں چمڑے کا ایک ٹکڑا انگلیوں کے درمیان ہوتا تھا ، اس کا ایک سرا جوتی کے تلے میں اور دوسرا سرا زمام سے بندھا ہوتا تھا ، اس زمام کو قبال بھی کہتے ہیں ، ایک جوتے میں دو پٹیاں ( قبال ) ہوتیں اور ہر قبال چمڑے کے دو تسموں پر مشتمل تھا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کی دو پٹیاں تھیں جن کے تسمے دہرے ہوتے تھے ۔ “
( ابن ماجہ ، اللباس : 3614 )
اس قسم کے جوتے میں پاؤں کا اکثر حصہ کھلا رہتا ہے چنانچہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں یا جرابوں پر مسح کرتے وقت اپنے پاؤں جوتوں سے نہیں نکالتے تھے بلکہ جوتوں سمیت مسح کر لیتے تھے ۔ ( سنن ابن ماجہ : الطہارہ : 559 ) بلکہ جوتے اتارے بغیر پاؤں بھی دھو لیتے تھے ۔
( صحیح بخاری ، الوضوء: 166 )
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر آپ کا جوتا ہمارے ہاں ہوائی چپل کی طرح ہوتا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نبوت 23 سال پر محیط ہے ، اس دوران آپ نے کئی جوتے استعمال کئے ہوں گے چنانچہ احادیث میں مختلف جوتوں کی تفصیل ملتی ہے لیکن جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے وہ یہی ہے جو ہوائی چپل کی طرح تھا چنانچہ حضرت قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کیسے تھے تو انہوں نے ایک پرانا جوتا نکال کر دکھایا جس کے اوپر دو پٹیاں تھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جوتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری ، اللباس : 5858 ) بعض روایات میں ہے کہ وہ گائے کے چمڑے کے تھے اور انہیں پیوند لگا ہوا تھا ۔ ( مسند امام احمد ص 6ج 5 ) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوران نماز اتار دیا ، سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوران نماز بتایا کہ انہیں گندگی لگی ہوئی ہے لہٰذا میں نے انہیں اتار دیا ۔ ( مستدرک حاکم ص 260 ج 1 ) بہرحال یہ نعلین سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں اور انہیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا گیا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصہ میں دمشق چلے گئے تھے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہوگئیں ، احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی ذاتی اشیاءبہت کم تعداد میں موجود تھیں ، امام بخاری نے اپنے عنوان میں جن ذاتی اشیاءکا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں زرہ ، عصا ، تلوار ، پیالہ ، انگوٹھی ، موئے مبارک ، نعلین اور چند ایک برتن ، پھر جو احادیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہیں ان میں صرف پانچ چیزوں کا ذکر ہے پہلی میں انگوٹھی ، دوسری میں نعلین ، تیسری میں چادر چوتھی میں پیالہ پانچویں میں تلوار ، باقی اشیاءیعنی زرہ ، موئے مبارک ، چھڑی اور عصا کے متعلق دوسرے مقامات پر احادیث ذکر کی ہیں ، ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاءاور آثار شریفہ بابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے
لیکن اس تبرک کیلئے دو شرائط ہیں
1
تبرک لینے والا شرعی عقیدہ اور اچھے کردار کا حامل ہو ، جو شخص عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے اچھا مسلمان نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے ۔
2
جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثار میں سے کوئی شئی حاصل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے محض دیکھ لینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ، لیکن ہم یہ بات بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے آثار شریفہ اور تبرکات معدوم ہو گئے یا جنگوں اور فتنوں کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے ۔
( الف )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا رکھی تھی جسے آپ پہننے تھے ، آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے استعمال کیا ، ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی بالآخر بئر اریس میں گر گئی اور تلاش بسیار کے باوجود وہ نہ مل سکی ۔
( صحیح بخاری ، اللباس : 5879 )
( ب )
عباسی دور کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداءمبارک اور چھڑی جس سے آپ کھجلی کیا کرتے تھے ، ہنگاموں میں ضائع ہوگئیں ، یہ سن 656 کے واقعات ہیں ۔
( ج )
دمشق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک بھی نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ۔
( د ) آپ کے آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی تھی اس نے وصیت کر دی کہ اسے قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر تیار کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی ۔ آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے زیب تن فرمایا ، لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ آپ کا کفن ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر مانگ لی ۔ بالآخر وہ چادر ان کا کفن بنی ۔ ( صحیح بخاری ، الجنائز : 1277 ) اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنایا گیا ، اسے بھی بطور کفن قبر میں دفن کر دیا گیا ۔
( صحیح بخاری ، الجنائز : 1270 )
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس چند موئے مبارک تھے ، آپ نے ان کے متعلق وصیت کر دی تھی کہ انہیں قبر میں ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ ( سیر ا¿علام النبلاءص 337 ج11 ) ان حقائق کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں ، بالوں اور نعلین میں سے کچھ باقی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہے کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر یہ ثابت کر سکے کہ فلاں چیز واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کردہ ہے پھر جب صورت حال یہ ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ دور حاضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر کہاں سے برآمد کی گئی ہیں ، یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاءبابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا بہت بڑی خوش قسمتی اور باعث عزت ہے لیکن ان اشیاءکی تصاویر کو اس مقصد کیلئے استعمال کرنا خلاف شرع ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اکثر دوکانوں اور بسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین کی تصاویر کے کارڈ لئے پھرتے ہیں اور ان کی اشاعت باعث برکت خیال کرتے ہیں ، پھر ان تصاویر کو اپنے سینہ اور پگڑی پر آویزاں کرتے ہیں ، ان تصاویر کے متعلق لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اسے گھر ، دوکان یا دفتر میں رکھنے سے ہر قسم کی مصیبت اور بلا ٹل جاتی ہے ، تنگ دست کی تنگ دستی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے ۔ یہ سب جذباتی باتیں خلاف شریعت ہیں ، تصویر سے اگر اصل چیز کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے تو پھر گھر میں بیت اللہ کی تصویر رکھ کر اس کا طواف کیا جا سکتا ہے اور وہاں نماز پڑھ کر ایک لاکھ نماز کا ثواب بھی لیا جا سکتا ہے ، حجر اسود کی تصویر رکھ کر اس کا بوسہ لیا جائے تا کہ مکہ مکرمہ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے ، ہمیں سوال کے ہمراہ جو کارڈ موصول ہوا ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارکین کے چھ عدد تصاویر ہیں ، اس کا عنوان یہ ہے ۔ ” نقش نعلین مبارک سلطان دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ “
پھر اس نقش نعل کے متعلق لکھا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھنے والے کو مندرجہ ذیل برکات حاصل ہوں گی ۔
1
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی ۔
2
اس کو اپنے پاس رکھنے سے شیطان کے شر سے حفاظت ہو گی ۔
3
اس کو آنکھوں پر رکھنے سے امراض چشم سے نجات حاصل ہوگی ۔
4
گنبد خضراءکی حاضری نصیب ہوگی ۔
5
اس کو اپنے پاس رکھنے سے ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل ہوگی ۔
6
اس کے واسطہ سے دعا مانگی جائے تو پوری ہوگی ۔
7
ہر قسم کے جادو ٹونے سے حفاظت ہوگی ۔
8
اس کو اپنے پاس رکھنے سے ہرحاسد کے حسد و نظر بد سے حفاظت ہو گی ۔
9
جس کشتی میں ہو وہ نہ ڈوبے اور جس گھر میں ہو چوری سے محفوظ ہے ۔
نوٹ : یہ فضائل اس صورت میں حاصل ہوں گے جب نیت درست اور یقین کامل ہو ۔
ہمارے نزدیک نقش نعلین کے مذکورہ فضائل و مناقب خودساختہ اور بناوٹی ہیں ، احادیث میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ جو نعلین کے نگران تھے ، ان سے کچھ بھی منقول نہیں ہے ، بلکہ ہمارے نزدیک یہ تمام نقش ہی جعلی اور بناوٹی ہیں ، خاص طور پر درمیان میں بڑا جوتا جو دور حاضر کی سوفٹی کی شکل پر تیار کیا گیا ہے ، اس کے بناوٹی ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش کی تصویر بنانے میں چنداں حرج نہیں ، اگر کوئی محبت کے پیش نظر ایسا کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ پاپوش کی اصلیت اور حقیقت سے واقف ہو ، لیکن اس نقش سے برکت حاصل کرنا اور اسے باعث فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں البتہ اصلی پاپوش مبارک اگر کہیں موجود ہے تو اس میں خیر و برکت کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی جیسا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے جو انہیں فضل بن ربیع کے کسی لڑکے نے عنایت فرمائے تھے ۔ آپ ان بالوں کو بوسہ دیتے ، آنکھوں پر لگاتے اور پانی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پانی کو نوش کرتے ، جن دنوں آپ پر آزمائش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہوتے تھے ، بعض لوگوں نے آپ کی آستین سے موئے مبارک نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے ۔
( سیر اعلام النبلاءص250ج11 )
آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثار شریفہ سے تبرک حاصل کیا اور آپ کے لعاب دھن کو اپنے چہروں اور جسموں پر ملا ۔ آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا ایسا کرنا جنگی حالات کے پیش نظر انتہائی ضروری تھا مقصد یہ تھا کہ کفار قریش کو ڈرایا جائے اور ان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا جائے کہ مسلمانوں کا اپنے رہبر و راہنما سے تعلق کس قدر مضبوط ہے ، انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر والہانہ عقیدت و محبت ہے وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس انداز سے آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے چھپایا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے حکیمانہ انداز میں اور لطیف اسلوب کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش فرمائی جو اس قسم کے تبرکات کو اختیار کرنے سے کہیں بہتر ہیں ، مندرجہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہماری مکمل راہنمائی کرتی ہے ۔
ابوقراءسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو فرمایا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کر دیا ، آپ نے دریافت فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ بات کرتے ہوئے سچ بولے ، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرے ۔
( الاحادیث الصحیحہ : رقم 2998 )
مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ کی صورت و سیرت کی اتباع کی جائے تو اس دنیا و آخرت کی خیر و برکات سے ہم مشرف ہوں گے ،
اب ہم سوالات کے مختصر جوابات دیتے ہیں ۔
1
کارڈ پر شائع کردہ تصاویر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاپوش مبارک کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے ۔
2
اس میں جو فضائل و مناقب درج کئے گئے ہیں وہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں ، بلکہ یہ خود ساختہ ہیں ، ان سے عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے ۔
3
تصاویر کے اوپر نیچے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا گیا بلکہ ” سلطان دوجہاں “ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا گیا ہے ، کوئی بھی صاحب شعور جوتوں کے اوپر یا نیچے صلی اللہ علیہ وسلم کی جسارت نہیں کر سکتا ۔
4
ایسے کارڈ پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے ۔
5
جس عالم دین نے ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی ہے ، اس کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے ۔ واللہ اعلم
حوالہ
ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 31
جلد نمبر 39 21 رجب تا 27 رجب 1429 ھ 26 جولائی تا 1 اگست 2008 ء
مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد
( میاں چنوں )