منکرین حیاتُ النبی صلی الله علیہ وسلم کی ابتداء
1956 میں تقریبا جامعہ خیرالمدارس ملتان کے سالانہ جلسہ میں عنایت الله شاه بخاری رح نے عقیده حیات النبی صلی الله علیہ وسلم کے انکار کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا ، عام مسلمانوں کو گمراهی سے بچانے کے لیئے ، حضرت مولانا خیرمحمد جالندهری رح نے حضرت مولانا محمد علی جالندهری رح کو حکم دیا کہ وه اپنی تقریر میں بخاری صاحب کو نشانہ بنائے بغیر اس عقیده حقہ کی وضاحت کریں ، لهذا انهوں نے بڑے اچهے انداز اس کی وضاحت کی ، اور فرمایا کہ اسلاف دیوبند کثرهم الله سوادهم انبیا ء علیهم السلام کو ان کی قبور مبارکہ میں روح مع الجسد زنده تسلیم کرتے هیں ، اور عند القبر سماع صلاة و سلام کا عقیده رکهتے هیں ، اور 1400 سال سے پوری امت مسلمہ کا یہی عقیده تها اور آئنده بهی رهے گا ،
اس پرعنایت الله شاه صاحب نے برهمی کا اظهار کیا ، اسی موقع پر علماء کی ایک محفل رکهی گئ ، تاکہ شاه صاحب کو مسلک حق مسلک دیوبند سمجهایا جائے ، لیکن شاه صاحب نے مسلک حق کو قبول کرنے کے بجائے ، اس مسئلہ کو پورے ملک میں اپنی تقریر کا مستقل موضوع بنا لیا ۰
اس کے بعد علما ء کرام نے مختلف اوقات میں مصا لحت کی بڑی کو ششیں کیں ،لیکن خاطرخواه کامیابی نہ هوئ ، پهراس کے بعد ان اکابر نے مصالحت کی تمام مساعی ترک کرکے مسلک حق کو شکوک سے بچانے کے خاطر جمیعت علماء اسلام کا ایک اجلاس طلب کیا ، جس میں محدث کبیر حضرت مولانا یوسف بنوری رح کی تحریک اور دیگر اکابر علماء کی تائید سے امام اهل سنت حضرت مولانا سرفرازخان صفدر رح کو منتخب کیاگیا ، کہ وه قرآن وسنت اور اجماع امت کی روشنی میں دلائل کے ساتهہ مسلک دیوبند کی ترجمانی کرتے هوئے اس عقیده حیاتُ النبی صلی الله علیہ وسلم کو واضح کریں ، لهذا حضرت نے
تسکینُ الصُدور فی تحقیقِ احوالِ الموتی فی البرزخ والقبور ) کے نام ایک عظیم کتاب لکهی اور تحقیق کا پوراحق ادا کردیا)
اور اس کتاب پر اس وقت کے تمام قابل ذکر اکابر نے تصدیقات لکهیں ۰
منکرین حیات النبی صلی الله علیہ وسلم کی پوری حقیقت واصلیت جا ننے کے لیئے ، اور عقیده حیات ُالنبی صلی الله علیہ وسلم اهمیت اور حقانیت جا ننے کے لیئے ( تسکینُ الصدور ) کا ضرور مطالعہ کریں ۰
1 . انبیاء علیہم السلام کی ارواح مبارکہ کا ان کے اجسام عنصری اصلی دنیوی کے ساتهہ تعلق هے ، اوراس تعلق کی وجہ سے اجسام دنیویہ عنصریہ اصلیہ کی حیات کا عقیده متفق علیہ هے .
2 . اوریہ حیات ان کو اپنی قبورمبارکہ میں حاصل هے ، اور چونکہ قبر عالم برزخ کا ایک حصہ هے اس لیئے اس کو حیات برزخی بهی کها جاتا هے ، اور چونکہ قبرمیں وهی اصلی دنیوی جسم زنده هے اس لیئے اس حیات کو حیات دنیوی یا اس کے مشابہ یا حِسی سے بهی تعبیر کیا جاتا هے ۰
اس پرعنایت الله شاه صاحب نے برهمی کا اظهار کیا ، اسی موقع پر علماء کی ایک محفل رکهی گئ ، تاکہ شاه صاحب کو مسلک حق مسلک دیوبند سمجهایا جائے ، لیکن شاه صاحب نے مسلک حق کو قبول کرنے کے بجائے ، اس مسئلہ کو پورے ملک میں اپنی تقریر کا مستقل موضوع بنا لیا ۰
اس کے بعد علما ء کرام نے مختلف اوقات میں مصا لحت کی بڑی کو ششیں کیں ،لیکن خاطرخواه کامیابی نہ هوئ ، پهراس کے بعد ان اکابر نے مصالحت کی تمام مساعی ترک کرکے مسلک حق کو شکوک سے بچانے کے خاطر جمیعت علماء اسلام کا ایک اجلاس طلب کیا ، جس میں محدث کبیر حضرت مولانا یوسف بنوری رح کی تحریک اور دیگر اکابر علماء کی تائید سے امام اهل سنت حضرت مولانا سرفرازخان صفدر رح کو منتخب کیاگیا ، کہ وه قرآن وسنت اور اجماع امت کی روشنی میں دلائل کے ساتهہ مسلک دیوبند کی ترجمانی کرتے هوئے اس عقیده حیاتُ النبی صلی الله علیہ وسلم کو واضح کریں ، لهذا حضرت نے
تسکینُ الصُدور فی تحقیقِ احوالِ الموتی فی البرزخ والقبور ) کے نام ایک عظیم کتاب لکهی اور تحقیق کا پوراحق ادا کردیا)
اور اس کتاب پر اس وقت کے تمام قابل ذکر اکابر نے تصدیقات لکهیں ۰
منکرین حیات النبی صلی الله علیہ وسلم کی پوری حقیقت واصلیت جا ننے کے لیئے ، اور عقیده حیات ُالنبی صلی الله علیہ وسلم اهمیت اور حقانیت جا ننے کے لیئے ( تسکینُ الصدور ) کا ضرور مطالعہ کریں ۰
1 . انبیاء علیہم السلام کی ارواح مبارکہ کا ان کے اجسام عنصری اصلی دنیوی کے ساتهہ تعلق هے ، اوراس تعلق کی وجہ سے اجسام دنیویہ عنصریہ اصلیہ کی حیات کا عقیده متفق علیہ هے .
2 . اوریہ حیات ان کو اپنی قبورمبارکہ میں حاصل هے ، اور چونکہ قبر عالم برزخ کا ایک حصہ هے اس لیئے اس کو حیات برزخی بهی کها جاتا هے ، اور چونکہ قبرمیں وهی اصلی دنیوی جسم زنده هے اس لیئے اس حیات کو حیات دنیوی یا اس کے مشابہ یا حِسی سے بهی تعبیر کیا جاتا هے ۰
3 اور انبیاء علیهم السلام کی حیات فی القبرکا عقیده قرآن مجید کی آیات شهداء کے دلالتُ النص اور احادیث مبارکہ کے عبارتُ النص سے ثابت هے.
4 . . اور خود لفظ نبی کو دیکهہ لیا جائے تو وه بهی حیات فی القبر کا تقاضہ کرتی هے ، کیونکہ وصف نبوت نبی کے لیئے ثابت هوتا هے ، اورزنده کے لیئے نہ کہ مرده کے لیئے لهذا جس طرح وه اپنی دنیوی تکلیفی زندگی میں وصف نبوت کے مُتّصف تهے اسی طرح بعد الموت بهی متصف هوں گے ، جس طرح دنیا کی زندگی میں ان پر ایمان لانا فرض هے اسی طرح اب بهی ان پر ایمان لانا فرض هے ، اور یہ جب هی هو سکتا هے کہ ان کے حیات فی القبر کو تسلیم کیا جائے .
5 . حیات فی القبر کے اوپر صحابہ کرام رضی الله عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ، اور جمیع امت مسلمہ کا اجماع هے ، اور کسی بهی مسئلہ پر پوری امت کا اجماع واتفاق هو تو وه کسی ایک آدمی یا جماعت کے انکار سے نهیں ختم هو سکتا ، بلکہ انکار خود اس اجماع کے انکار کی وجہ سے دائره اهل سنت سے دور هوجاتا هے
Comment