Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ

    فاَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ، بِسمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ :
    هَلْ جَزَاء ُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ .
    صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْمْ .

    دین اسلام حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیتا ہے،دوسروں کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آنے کی ہدایت دیتا ہے،اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دینے اور اپنے محسنوں اور کرم نوازوں کا شکر ادا کرنے کا درس دیتا ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    هَلْ جَزَاء ُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ .
    ترجمہ:کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا ‘بھی کچھ ہوسکتا ہے؟۔

    (سورۃ الرحمن۔60)

    یعنی احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔


    کوئی کسی مصیبت زدہ و تنگدست شخص کی اعانت کرکے احسان کرتا ہے تو کوئی کسی نادار وخستہ حال کی امداد کرکے احسان کرتا ہے،کوئی کسی غمزدہ کے ساتھ غمخواری کرکے احسان کرتا ہے تو کوئی کسی پریشان حال وشکستہ دل کے ساتھ ہمدردی کرکے احسان کرتا ہے،کوئی کسی بے سہارا کو سہارا دیکر احسان کرتا ہے تو کوئی کسی خوف زدہ شخص کے لئے مونس بن کر احسان کرتا ہے اورکوئی کسی مریض کا علاج کرواکر احسان کرتا ہے تو کوئی کسی بیوہ ویتیم کا تعاون کرکے احسان کرتا ہے۔

    اس طرح کے احسانات کرنے والا ہمارا محسن تو ہے لیکن اس کا یہ احسان سب سے بڑا احسان نہیں ،کیونکہ مال ودولت خرچ کرکے کسی کی جان بچانا یہ اتنا عظیم احسان نہیں بلکہ اپنی انتھک محنتوں اور مخلصانہ کاوشوں کے ذریعہ کسی کا ایمان بچاناسب سے بڑا احسان ہے۔


    غور کرنا چاہئے کہ جب دین اسلام نے دنیوی احسان کرنے والے محسن کے احسان ماننے اور اس کی شکر گزاری کا اس طرح حکم دیا ہے تو پھر اس محسن کے احسان پر ہمیں کس درجہ شکر گزاری کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ جس نے ہمیں نہ صرف دنیوی زندگی کے اصول سکھائے بلکہ دین وایمان ہم تک پہنچایا ،جس نے ہمیں زندگی کا سلیقہ اور بندگی کا طریقہ سکھایا،اصول معیشت سے آگہی بخشی اور آداب معاشرت سے روشناس فرمایا اور حسن اخلاق،پاکیزہ عادات،عالی اقدار اوربلندیٔ کردار کی تعلیم دی۔

    وہ ذات عالی وقار محسن امت ،غواص بحر معرفت ،امام الاولیاء ،قدوۃ الاصفیاء ، سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین سجزی غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ہے،جنہوں نے ہندوستان کی سرزمین پر اسلام کی شمع کو روشن کیا، حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے مصطفوی اخلاق کا وہ نمونہ پیش کیا کہ آپ کے اخلاق کی پاکیزگی اور کردارکی بلندی دیکھ کر لوگ تنہا تنہا اور جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔

    حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے باشندگانِ ہند کو دولت اسلام اور نعمت ہدایت دے کر جو احسان فرمایا،اس کی احسان مندی اور شکر گزاری کرتے ہوئے آپ کا تذکرہ کرنا ، اہل ہند کا فرض ہے اور ان پر قرض بھی۔

    جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے:

    مَنْ لَمْ يَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْکُرِ اللَّهَ .

    ترجمہ:جس نے لوگوں کا شکرادا نہیں کیا وہ اللہ کا شکر گزار نہیں ہوسکتا۔

    (جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الشکر لمن أحسن إلیک. حدیث نمبر۔2082)


    سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے گراں قدر وعظیم احسانات کا ہم کوئی بدلہ تو نہیں چکا سکتے بلکہ آپ کا ذکر خیر کرکے تحفۂ غلامی پیش کرتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ،اور یہ مبارک تذکرہ ہمارے گناہوں کا کفارہ قرار پاتا ہے،جیساکہ جامع الاحادیث ،جامع کبیر اور کنز العمال میں روایت ہے:

    ذِکْرُ الْأَنْبِيَاءِ مِنَ الْعِبَادَةِ وَذِکْرُ الصَّالِحِيْنَ کَفَّارَةُ الذُّنُوْبْ .

    ترجمہ:انبیاء کرام کا ذکر کرنا عبادت ہے اور اولیاء وصالحین کا ذکر کرنا گناہوں کا کفارہ ہے۔

    (جامع الأحادیث ،حرف الذال،حدیث نمبر۔12503۔
    الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الذال، حدیث نمبر۔ 12685۔
    کنز العمال،کتاب الفضائل من قسم الأفعال،حدیث نمبر۔32247 )

    مبلغین وداعیان اسلام کے لئے حضرت غریب نواز کا اسلوب مشعل راہ
    خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیمات اسلامیہ کی ترویج واشاعت نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دی ، جنہیں آج تک کسی نے فراموش کیا ہے نہ کوئی ان کی عالی خدمات کو نظر انداز کرسکتاہے ، جب آپ نے پرچم حق بلند کیا تو مخالفین نے مخالفت کی‘دشمنوں نے عداوتوں کے مظاہرے کئے‘ہرطرف مکروفریب کے جال بچھائے جانے لگے ‘ایسے وقت اگر آپ چاہتے تولشکر وسپاہ کے ذریعہ دشمنوں سے انتقام لے سکتے تھے اور اُنہیں دندان شکن جواب دے سکتے تھے‘ لیکن آپ نے ہرگز ایسا نہیں کیا‘ بلکہ حکمت ونصیحت کے اسلوب کو اختیار کیا ، جس کی برکت اسطرح ظاہر ہوئی کہ لوگ آپ کے صدق وصفا کو دیکھ کر صداقت شعار وباصفا ہوگئے، آپ کے حلم وبردباری، جود وسخاوت اوربلند اخلاق سے متاثرہوکر لوگ عمدہ اخلاق کے حامل اور پاکیزہ صفات کے پیکر ہوگئے، آپ کے محض دہلی سے اجمیر تک سفر کے دوران نودلاکھ 90,00,000) افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔

    آج کے اس پر فتن دور میں تعلیمات اسلامیہ عام کرنے اور اشاعت دین کے لئے نصیحت و موعظت کا اسلوب اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام کا پیام باہم محبت و الفت کا فروغ اور امن و سلامتی کی اشاعت ہے، ہمیں اسلاف کرام و صالحین عظام کے اسلوبِ تبلیغ کو اپنانا چاہئے ۔ خواجۂ ہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے ہندوستان میں شمع اسلام کو روشن کیا اور اسلام کے پیغام کو عام کیا جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو اپنے ساتھ لشکر جرار ،تیر و تلوار لے کر نہیں آئے بلکہ اخلاقِ احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم‘ بلندکردار اور اسلامی اقدارلے کر آئے، حضرت سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نصیحت فرماتے تو آیات قرآنیہ احادیث نبویہ اور بزرگان دین کے اقوال واعمال کا ذکر فرماکر لوگوں کی اصلاح فرماتے ‘جس کا یہ اثرہوتاکہ لوگ بے دینی سے توبہ کرکے آپ کے عقیدتمندوں میں شامل ہوجاتے، آپ کی مبارک مجالس میں شریعت وطریقت اور حقیقت ومعرفت کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جاتااور فرائض وسنن کی ادائیگی،ریاضت ومجاہدہ ،پاکیزگی وخلوص ،طہارت ونفاست ،صدق وصفا،خوف خدااور مخلوق خدا کی خدمت کی تعلیم دی جاتی ۔ حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلفاء کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اشاعت اسلام کی ذمہ داری دیکر روانہ فرمایا۔

    آپ ہی کااحسان ہے کہ دیار ہند کے ہر گوشہ میں اسلام کاپیا م عام ہوگیا۔اس سنہرے انقلاب سے متعلق سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت سید محمد بن مبارک کرمانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت کی اور کرامت یہ ہے کہ ہندوستان کی مملکت میں مشرق کے آخری سرے تک ہرطرف کفر وبت پرستی کا دور دَورہ تھا،لوگ دین اور شرائع دین سے غافل تھے،خدا اور رسولِ خدا سے بے خبر تھے، اہل یقین کے اس آفتاب عالمتاب کے قدوم میمنت لزوم سے اس سرزمین میں کفر کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور ہر ُسواسلام کا اجالا پھیل گیا، آپ واقعۃً دین کے معین ہیں ‘اس سرزمین پرجو شخص بھی مسلمان ہوا اور لوگ آئندہ مسلمان ہوتے رہیں گے تا قیامت ان کا ثواب شیخ الاسلام خواجہ حسن سجزی رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچتا رہے گا۔ (سیر الاولیاء ۔57)

    ولادت مبارک ونسب عالی
    ایران کے صوبہ سجستان میں واقع مقام سجز میں 14رجب المرجب 536ھ بروز دوشنبہ صبح صادق کے وقت آپ کی ولادت ہوئی ، آپ بواسطۂ والد گرامی حسینی اور بذریعہ والدہ محترمہ حسنی سادات سے ہیں ۔ سلسلہ پدری بارہ واسطوں اور سلسلہ مادری گیارہ واسطوں سے حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔

    سادات گھرانے کے چشم وچراغ ہونے کی حیثیت سے آپ پر سعادت کے آثارنمایاں تھے ، والدہ محترمہ کا نام ’’ام الورع‘‘تھا ،آپ کی والدۂ ماجدہ اپنے نام کے مطابق تقوی وپرہیز گاری کا سرچشمہ تھیں ، والدماجد کا نام’’سید غیاث الدین حسن الحسینی‘‘ تھا، جو تہجد گزار،شب زندہ دار بزرگ تھے۔(ملخص از اقتباس الانوار ، ص 346 )
Working...
X