Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر کئے جانے والے اعتراض کا تحقیقی جائزہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر کئے جانے والے اعتراض کا تحقیقی جائزہ

    امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر کئے جانے والے اعتراض کا تحقیقی جائزہ

    (ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ)

    ہمارے زمانے کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فقہ حنفی کسی ایک شخص کے اخذ کردہ مسائل کا نام ہے، جب کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،
    فقہ حنفی، فقہاءِ احناف کے قرآن و حدیث سے اخذ کردہ اُن مسائل کا نام ہے جو مفتیٰ بہ ہیں(یعنی جن مسائل پر فتویٰ دیا گیا ہے) اور فقہاء احناف کے درخشندہ ستاروں میں امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد بن حسن ، امام زفراور امام حسن بن زیاد رحمھم اللہ تعالیٰ ہیں۔
    اب جب فقہ حنفی کسی ایک شخصیت کا نام نہیں تو کسی ایک حنفی کی بات کو پوری فقۂ حنفی کی طرف منسوب کردینا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود لوگ تواتر کیساتھ اس قسم کے لغو اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔
    مذکورہ بالا بات اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لی جائے تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہوسکیں گے۔



    امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر کئے جانے والے اعتراضات
    امام اعظم رحمہ اللہ پر بہت اعتراضات کئے گئے ہیں، جن میں سے چند بظاہروزنی نظر آنے والے اعتراضات مع اُنکے جوابات کے زینتِ قرطاس کئے جاتے ہیں،

    (۱)امام اعظم رحمہ اللہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے، اُن کی روایات صحاح ستّہ(حدیث کی چھ مشہور کتابوں) میں موجود نہیں ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ائمہ ستّہ کے نزدیک قابل استدلال نہیں تھے۔
    یہ ایک انتہائی سطحی اور عامیانہ اعتراض ہے، اِن ائمہ حضرات کا کسی جلیل القدر امام سے روایات کو اپنی کتاب میں درج نہ کرنا ، اُس امام کے ضعیف ہونے کو لازم نہیں،
    کھلی ہوئی بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کی بھی کوئی روایت نہیں لی ہے، بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جو امام بخاری کے استاذ ہیں، اور امام بخاری نے جنکی صحبت اٹھائی ہے، اُن کی بھی پوری صحیح بخاری میں صرف دو روایتیں ہیں ، ایک روایت تعلیقاً منقول ہے اور دوسری روایت امام بخاری نے کسی واسطہ سے نقل کی ہے،
    اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں امام بخاری سے کوئی روایت نقل نہیں کی ،حالانکہ وہ اُنکے استاذ ہیں ،
    نیز امام احمدرحمہ اللہ نے اپنی مسند میں امام مالک کی صرف تین روایات ذکر کی ہیں ، حالانکہ امام مالک کی سند اصحّ الاسانید شمار کی جاتی ہے ،
    اب کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمدرحمہم اللہ تینوں ضعیف ہیں؟؟؟
    اس معاملہ میں حقیقت وہ ہے جو علامہ زاہد الکوثری نے ’’ شروط الائمۃ الخمسۃ للحازمی‘‘ کے حاشیہ پر لکھی ہے کہ در حقیقت ائمہ حدیث کے پیشِ نظر یہ بات تھی کہ وہ اُن احادیث کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کر جائیں، جن کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا، بخلاف امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدرحمہم اللہ جیسے حضرات کہ اِن کے تلامذہ اور مقلدین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اُن کی روایات کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ تھا، اس لئے انہوں نے اس کی حفاظت کی زیادہ ضرورت محسوس نہ کی۔
    ١ امام ابو حنیفہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ میزان الاعتدال فی اسماء الرجال‘‘ میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ اِن الفاظ میں کیا ہے،



    ’’النعمان بن ثابت الکوفی امام اھل الرائ ضعفہ النسائی وابن عدی والدار قطنی واٰخرون‘‘
    ترجمہ: نعمان بن ثابت کوفی (رحمہ اللہ) اہل رائے کے امام ہیں ،جنہیں امام نسائی، ابن عدی ، دار قطنی اور دوسرے حضرات نے ضعیف قرار دیا ہے۔


    میزان الاعتدال میں یہ عبارت بلاشبہ الحاقی ہے یعنی مصنف نے خود نہیں لکھی ، بلکہ کسی اور شخص نے اِسے حاشیہ پر لکھا اور بعد میں یہ متن میں شامل ہوگئی یا تو کسی کاتب کی غلطی سے یا جان بوجھ کر داخل کی گئی، اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
    ١ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال کے مقدمہ میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ اِس کتاب میں اُن بڑے بڑے ائمہ کا تذکرہ نہیں کروں گا ،جن کی جلالتِ قدر حدّتواتر کو پہنچی ہوئی ہے، خواہ اُن کے بارے میں کسی شخص نے کوئی کلام بھی کیا ہو ،

    پھر اُن بڑے بڑے ائمہ کی مثال میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام بھی انھوں نے صراحۃً ذکر کیا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے اِس کتاب میں امام صاحب کا ذکر کیا ہو۔
    ۲پھر جن بڑے بڑے ائمہ کا تذکرہ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں نہیں کیا ، اُن حضرات کے تذکرہ کیلئے انہوذں نے ایک مستقل کتاب ’’ تذکرۃ الحفاظ ‘‘ لکھی ہے ، اور اس کتاب میں امام اعظم ابو حنیفہ کا نہ صرف تذکرہ موجود ہے، بلکہ انکی بڑی مدح و توصیف بیان کی گئی ہے، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ تذکرۃ الحفاظ ‘‘کی جلد اول، صفحہ۱۹۵ پر اپنی سند سے سفیان بن عیینہ کا قول ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں،
    ’’ لم یکن فی زمان ابی حنیفۃ بالکوفۃ رجل افضل منہ واورع ولا افقہ عنہ‘‘
    (یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے زمانے میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا، جو اُن سے زیادہ فضیلت وتقویٰ والا ہو، اور اس وقت اُن جیسا کوئی فقیہ بھی نہیں تھا۔)
    اور حافظ ذہبی ہی نے صفحہ ۱۶۰ پر امام ابو داؤد رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا ہے کہ



    ’’ ان ابا حنیفة کان اماما‘‘
    (یعنی ابو حنیفہ رحمہ اللہ،وہ تو امام تھے۔)
    ﴿۳﴾حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ لسان المیزان‘‘ کو میزان الاعتدال پر ہی مبنی کیا ہے، یعنی جن رجال کا تذکرہ میزان الاعتدال میں نہیں ہے، اُن کا تذکرہ لسان المیزان میں بھی نہیں ہے، سوائے چند ایک کے اور لسان المیزان میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ، یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں یہ عبارت اصل میزان الاعتدال میں بھی نہیں تھی بعد میں بڑھا دی گئی۔
    ۴ شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ الحلبی رحمہ اللہ نے ’’الرفع و التکمیل‘‘ کے حاشیہ کے صفحہ ۱۰۱ پر لکھا ہے کہ ’’ میں نے دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں میزان الاعتدال کا ایک نسخہ دیکھا ہے (تحت الرقم ۳۶۸حدیث) جو پورا کا پورا حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد علامہ شرف الدین الوانی کے قلم سے لکھا ہوا ہے اور اس میں یہ تصریح ہے کہ میں نے یہ نسخہ اپنے استاد حافظ ذہبی کے سامنے تین مرتبہ پڑھااور ان کے مسودہ سے اس کا مقابلہ کیا ، اس نسخہ میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے ۔
    اسی طرح حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دام ظلکم العالی نے فرمایا کہ میں نے مراکش کے دار الحکومت رباط کے مشہور کتب خانہ ’’ الخزانة العامرہ‘‘ میں ۱۳۹ ق نمبر کے تحت ’’میزان الاعتدال ‘‘ کا ایک قلمی نسخہ دیکھا ، جس پر حافظ ذہبی کے بہت سے شاگردوں کے پڑھنے کی تاریخیں درج ہیں اور اس میں یہ بھی تصریح ہے کہ کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد نے اُن کے سامنے اُن کی وفات سے صرف ایک سال پہلے اسے پڑھا تھا، اس نسخہ میں بھی امام ابو حنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں، یہ اس بات کا دستاویزی ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ کے بارے میںیہ عبارت کسی نے بعد میں بڑھائی ہے ، اصل نسخہ میں موجود نہیں تھی ، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ حافظ ذہبی کا دامن امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف اور تنقیص کے الزام سے بالکل پاک ہے۔
    حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایسی بات لکھ بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ خود انہوں نے ایک مستقل کتاب امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب پر لکھی ہے۔
    پھر جہاں تک حافظ ابن عدی کا تعلق ہے، بے شک وہ شروع میں امام ابو حنیفہ کے مخالف تھے،لیکن بعد میں جب وہ امام طحاوی رحمہ اللہ کے شاگرد بنے توامام اعظم کی عظمت اور جلالتِ قدر کا احساس ہوا، چنانچہ انہوں نے اپنے سابقہ خیالات کی تلافی کیلئے مسندِ ابی حنیفہ تحریر فرمائی، لہٰذا اُن کے سابقہ قول کو امام صاحب کے خلاف حجت میں پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔
    (فائدہ)مسند ابی حنیفہ کے نام سے سترہ یا اس زائد کتابیں لکھی گئیں، جن کو بعد میں علامہ ابن خسرو رحمہ اللہ نے ’’ جامع مسانید الامام الاعظم ‘‘ کے نام سے جمع کردی ہیں۔
    (۳)امام اعظم رحمہ اللہ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ امام نسائی نے اپنی کتاب ’’ الضعفاء‘‘ میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ



    ’’ نعمان بن ثابت ابو حنیفہ لیس بالقوی فی الحدیث ‘‘ (یعنی نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث کے معاملہ میں قوی نہیں تھے۔)
    اس کا جواب یہ ہے کہ علماء نے جرح و تعدیل کے کچھ قاعدے مقرر کئے ہیں ، اور کسی راوی کے بارے میں جرح و تعدیل کا فیصلہ کرتے ہوئے اُن قواعد کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے ورنہ کسی بڑے سے بڑے محدث کی بھی عدالت و ثقاہت ثابت نہ ہو سکے گی ، کیونکہ تمام بڑے بڑے ائمہ پر کسی نہ کسی کی جرح ضرور موجود ہے ،
    چنانچہ امام شافعی پر یحییٰ بن معین نے ، امام احمد پر امام کرابیسی نے ، امام بخاری پر ذہلی نے اور امام اوزاعی پر امام احمد نے جرح کی ہے ، اگر اِن تمام اقوال کا اعتبار کیا جائے تو ان میں سے کوئی بھی ثقہ قرار نہیں پاسکتا ، انتہاء یہ ہے کہ ابن حزم نے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ جیسے حضرات کو مجہول کہا ہے ،اور خود امام نسائی پر اتنے ہی علماء نے تشیّع(شیعہ) کا الزام کیا ہے اور اسی بناء پر انہیں مجروح کہا ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ علماء نے جرح و تعدیل میں کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں ، اِ ن میں سے پہلا اصول یہ ہے کہ جس شخص کی امامت و عدالت حدّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہو، اُس کے بارے میں ایک دو افراد کی جرح معتبر نہیں ، اورامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عدالت و امامت بھی حدّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے ، بڑے بڑے ائمہ حدیث نے آپ کے علم و تقویٰ کو خراج تحسین پیش کیا ہے ، اس لئے امام صاحب پر بھی آحاد کی جرح ہرگز معتبر نہیں۔
    اس جواب پر ہمارے زمانے کے بعض جہلاء یہ اعتراض کرتے ہیں کہ محدثین کا معروف قاعدہ ہے کہ ’’ الجرح مقدم علی التعدیل‘‘ (یعنی جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے) لہٰذا جب امام صاحب کے بارے میں جرح و تعدیل دونوں منقول ہیں تو جرح راجح ہوگی ،
    لیکن یہ اعتراض جرح و تعدیل کے اصول سے ناواقفیت پر مبنی ہے کیونکہ ائمہ حدیث نے اِس بات کی تصریح کی ہے کہ’’ الجرح مقدم علی التعدیل‘‘ کا قاعدہ مطلق نہیں ، بلکہ چند شرائط کے ساتھ مقید ہے،
    اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل کے اقوال متعارض ہوں ،ان میں ترجیح کے لئے علماء نے اوّلاً دو طریقے اختیار کئے ہیں،
    پہلا طریقہ جو کہ جرح و تعدیل کے دوسرے اصول کی حیثیت رکھتا ہے ،اُسے خطیب بغدادی نے ’’الکفایۃ فی اصول الحدیث والروایۃ‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ
    ’’ ایسے مواقع پر یہ دیکھا جائے گا کہ جارحین کی تعداد زیادہ ہے یا معدلین کی، جس کی طرف تعداد زیادہ ہوگی ، اُسی جانب کو اختیار کیا جائے گا ۔‘‘
    شافعیہ میں سے علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ،
    اگر یہ طریقِ کار اختیار کیا جائے تب بھی امام ابو حنیفہ کی تعدیل میں کوئی شبہ نہیں رہتا ، کیونکہ امام صاحب پر جرح کرنے والے صرف معدودے چند افراد ہیں ،جن میں ایک نام حافظ ابن عدی رحمہ اللہ کا ہے،اور یہ تحریر کیا جا چکا کہ ابن عدی امام طحاوی کے شاگرد بننے کے بعد امام اعظم کی عظمت کے قائل ہوچکے تھے۔
    اور دوسری طرف امام صاحب کے مادّحین اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اُن کو گِنا بھی نہیں جاسکتا، نمونہ کے طور پر ہم چند اقوال پیش کرتے ہیں،
    علمِ جرح و تعدیل کے سب سے پہلے عالم، جنہوں نے سب سے پہلے رجال پرباقاعدہ کلام کیا ،وہ امام شعبہ ابن الحجاج رحمہ اللہ ہیں ، جو امیر المؤمنین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہیں، وہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ کان واﷲ ثقة ثقة‘‘ (یعنی میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ وہ ثقہ تھے)
    جرح و تعدیل کے دوسرے بڑے امام یحییٰ بن سعید القطّان ہیں ، یہ خود امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ، اور حافظ ذہبی نے ’’ تذکرۃ الحفاظ ‘‘ میں اور حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’ الانتقاء‘‘ میں نقل کیا ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کے اقوال پر فتویٰ دیا کرتے تھے،
    اور جیسا کہ تاریخ بغداد، ج۱۳، ص۳۵۲ میں اُن کا مقولہ ہے،
    ’’جالسنا واﷲابا حنیفة و سمعنا منہ فکنت کلما نظرت الیہ عرفت وجھہ انہ یتقی اﷲ عزوجل‘‘
    (یعنی اللہ کی قسم ہم نے امام اعظم کی مجلس اختیار کی، اور اُن سے سماع کیا، اور میں نے جب بھی ان کی جانب نظر کی ،تو اُن کے چہرہ کو اس طرح پایا کہ بلاشبہ وہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔)
    امام یحییٰ بن سعید القطّان کا دوسرا مقولہ علامہ سندھی کی ’’کتاب التعلیم‘‘ کے مقدمہ میں منقول ہے ’’انہ لأعلم ھذہ الامۃ بماجاء عن اﷲ و رسولہ صلی اﷲعلیہ و سلم‘‘(یعنی بلاشبہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے آنے والے احکام کو اس امت میں سب سے بہتر جاننے والے امام اعظم تھے۔)
    جرح و تعدیل کے تیسرے بڑے امام یحییٰ بن سعید القطّان کے شاگرد یحییٰ بن معین ہیں، وہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں ،
    ’’ کان ثقة حافظاً ،لا یحدث الا بما یحفظ ما سمعت احداً یجرحہ‘‘



    (یعنی وہ معتمد علیہ اور حافظ تھے، اور وہی حدیث بیان کرتے تھے، جو انہیں حفظ ہوتی تھی، میں نے کسی کو نہیں سنا، جو اُن کی جرح کررہا ہو۔ )
    جرح و تعدیل کے چوتھے بڑے امام حضرت علی بن المدینی رحمہ اللہ ہیں ، جو کہ امام بخاری کے استاذ اور نقدِ رجال کے بارے میں بہت متشدد ہیں ،جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری کے مقدّمہ میں اس کی صراحت کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
    ’’ابو حنیفة روی عنہ الثوری و ابن المبارک و ھشام و وکیع و عباد بن العوام و جعفر بن عون و ھوثقة لا بأس بہ‘‘
    (یعنی! امام ابو حنیفہ سے امام ثوری، ابن مبارک، ہشام، وکیع ، عبادبن عوام اور جعفر بن عون رحمھم اللہ نے روایت کی ہے، وہ ثقہ ہیں، ان سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں۔)
    نیز حضرت عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
    ’’ لولا اعاننی اﷲ بابی حنیفة و سفیان لکنت کسائر الناس ‘‘
    (اگر اللہ عزوجل امام ابو حنیفہ اورامام سفیان ثوری رحمہما اللہ کے ذریعہ میری اعانت نہ فرماتے تو میں بھی عام لوگوں کی طرح ہوتا۔)
    اور مکی بن ابراہیم کا مقولہ یہ ہے کہ ’’ کان اعلم اھل زمانہ‘‘ (یعنی امام اعظم اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔)
    ان کے علاوہ یزہد بن ھارون ، سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ، اسرائیل بن یونس ، یحییٰ بن آدم، وکیع بن الجراح ، امام شافعی اور فضل بن دکین رحمہم اللہ جیسے ائمہ حدیث سے بھی امام ابو حنیفہ کی توثیق منقول ہے، علم حدیث کے ان بڑے بڑے اساطین کے اقوال کے مقابلہ میں دو تین افراد کی جرح کس طرح قابلِ قبول ہوسکتی ہے، لہٰذا اگر فیصلہ کثرتِ تعداد کی بنیاد ہو تب بھی امام صاحب کی تعدیل بھاری رہے گی۔
    جرح و تعدیل کے تعارض کو رفع کرنے کا دوسرا طریقہ جو کہ جرح و تعدیل کے تیسرے اصول کی حیثیت رکھتا ہے، وہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے مقدمہ میں بیان کیا ہے اور اسے جمہور محدثین کا مذہب قرار دیا ہے،
    ’’وہ یہ کہ اگر جرح مفسَّر نہ ہو، یعنی اس میں سبب جرح بیان نہ کیا گیا ہو تو تعدیل اس میں ہمیشہ راجح ہوگی ، خواہ تعدیل مفسَّر ہو یا مبہم۔‘‘
    اس اصول پر دیکھا جائے تو امام ابو حنیفہ کے خلاف جتنی جرحیں کی گئی ہیں ، وہ سب مبہم ہیں ، اور ایک بھی مفسَّر نہیں ، لہٰذا ان کا اعتبار نہیں اور تعدیلات تمام مفسَّر ہیں ، کیونکہ اس میں ورع اور تقوی اور حافظہ تمام چیزوں کا اثبات کیا گیا ہے ، خاص طور سے اگر تعدیل میں اسباب جرح کی تردید کر دی گئی ہو تو وہ سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے اور امام صاحب کے بارے میں ایسی تعدیلات بھی موجود ہیں ،
    خلاصہ یہ ہے کہ ’’ الجرح مقدم علی التعدیل ‘‘کا قاعدہ اُس وقت معتبر ہوتا ہے جبکہ جرح مفسَّر ہو، اور اس کا سبب بھی معقول ہو اور بعض علماء کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ معدلین کی تعداد جارحین سے زیادہ نہ ہو۔



    (۴) امام اعظم پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حدیث نبوی ﷺ ’’من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ’’ لم یسندہ عن موسیٰ بن ابی عاءشة غیر ابی حنیفة و الحسین بن عمارۃ وھما ضعیفان‘‘(یعنی اس حدیث کو موسی بن ابی عائشہ سے امام ابو حنیفہ اور حسین بن عمارہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، اور یہ دونوں حضرات ضعیف ہیں)
    بلاشبہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام دار قطنی رحمہ اللہ کی جرح ثابت ہے ، لیکن اس کا جواب وہی ہے ، جو امام نسائی کی جرح کا ہے،
    غور کرنے کی بات ہے کہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں امام شعبہ، یحییٰ بن سعید القطان، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، عبد اللہ بن مبارک، سفیان ثوری، وکیع بن الجراح ، مکی بن ابراہیم، اسرائیل بن یونس اور یحییٰ بن آدم جیسے ائمہ حدیث کا قول معتبر ہوگا ، جو امام ابو حنیفہ کے معاصر ہیں یا اُنکے قریب العہد ہیں یا امام دار قطنی کا، جو امام صاحب کے دو سال بعد پیدا ہوئے ، بلکہ یحییٰ بن معین کے قول سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے زمانہ تک کسی شخص نے بھی امام صاحب پر جرح نہیں کی ، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ’’ ما سمعت احداً یجرحہ‘‘



    اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ امام نسائی اور امام دار قطنی جیسے ائمہ حدیث نے امام صاحب کے بارے میں ایسی بے بنیاد بات کیسے کہہ دی؟؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں ان بزرگوں کے اخلاص پر کوئی بد گمانی نہیں ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام بخشا تھا ، اُس کی بناء پر اُن کے حاسدین بے شمار تھے اور انہوں نے امام صاحب کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور کر رکھی تھی، مثلاً یہ پروپیگنڈہ تو عام تھا کہ امام صاحب قیاس کو احادیث پر ترجیح دیتے ہیں ، یہ پروپیگنڈہ اس شدت کیساتھ کیا گیا کہ بعض ایسے اہل علم بھی اس سے متاثر ہوگئے ،جو امام ابو حنیفہ کے حالات سے ذاتی طور پر واقف نہیں تھے ، اِن اہل علم میں سے جن حضرات کو حقیقتِ حال کا علم ہوگیا انہوں نے بعد میں امام صاحب کی مخالفت سے رجوع کرلیا، جیسے حافظ ابنِ عدی ،( جیسا کہ ان کے بارے میں بیان ہوچکا)
    دوسری مثال امام اوزاعی کی ہے،
    علامہ کردری نے صیمری سے اپنی سند سے عبد اللہ بن البارک کا یہ قول ’’مناقب الامام الاعظم‘‘ جلد اول میں صفحہ ۳۹ پر نقل کیا ہے کہ ’’ میں شام آیااور امام اوزاعی سے ملا ، انہوں نے جب یہ سنا کہ میں کوفہ سے آیا ہوں تو مجھ سے پوچھا ،
    ’’من ھٰذا المبتدع الخارج بالکوفة یکنی بابی حنیفة ‘‘
    ٰ(یعنی کوفہ میں یہ بدعتی و خارجی کون ہے؟وہ امام ابو حنیفہ سے کنایہ کررہے تھے۔)
    عبد اللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت اُن کوئی مفصل جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے ٹھکانے پر واپس آگیا ، البتہ بعد میں نے یہ کیا کہ امام ابو حنیفہ کے مستنبط کئے ہوئے فقہی مسائل، جو میرے پاس محفوظ تھے ، تین دن میں اُن کا مجموعہ تیار کیا اور اُن کے شروع میں’’ قال ابو حنیفہ‘‘ (ابو حنیفہ نے فرمایا) کے بجائے ’’قال النعمان بن ثابت ‘‘ لکھ دیا ،
    اور اسے تیسرے دن امام اوزاعی کے پاس لے گیا ، انہوں نے اس کا مطالعہ کیا اور مجھ سے دریافت کیا ’’ من النعمان؟ (کون ہے یہ نعمان؟) ’’قلت ابو حنیفة الذی ذکرتہ ‘‘ (میں نے کہا یہ امام ابو حنیفہ ہیں ، جنکا آپ نے ذکر کیا تھا)
    اس کے بعد میں نے دیکھا کہ امام اوزاعی کی ملاقات ابو حنیفہ سے ہوئی ، دونوں میں انہی مسائل میں گفتگو ہوتی رہی ، جو مسائل میں نے لکھ کر امام اوزاعی کو پیش کئے تھے ، امام اعظم اُن مسائل کو مجھ سے زیادہ کھول کھول کر وضاحت کے ساتھ بیان کرتے رہے ،
    جب امام ابو حنیفہ چلے گئے تو میں نے امام اوزاعی سے دریافت کیا ’’کیف رأیتہ؟ (آپ نے ان کو کیسا پایا؟) تو انہوں نے جواب دیا
    ’’ غبطت الرجل لکثرۃ علمہ و فور عقلہ استغفر اﷲ لقد کنت فی غلط ظاھر الزمہ فانہ بخلاف ما بلغنی عنہ ‘‘
    (مجھے اس شخص پر ، اس کی کثرتِ علم اور بے انتہاء دانائی کی وجہ رشک آتا ہے، میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں ، میں ان الزامات کے بارے میں واضح طور پر غلط تھا، بلاشبہ وہ تو ،ان الزامات کے بالکل برعکس ہیں ،جو مجھ تک پہنچے۔)
    البتہ جن اہل علم کو امام صاحب کے بارے میں حقیقت معلوم نہ ہو سکی وہ اپنے موقف پر قائم رہے ، اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ انشاء اللہ معذور ہیں ، لیکن اُن کے اقوال کو ایسے لوگوں کے مقابلہ میں حجت نہیں بنایا جا سکتا، جو امام اعظم رحمہ اللہ سے حقیقتاً واقف تھے،
    خلاصہ یہ کہ علمِ حدیث میں امام ابو حنیفہ کا مقام نہایت بلند پایہ ہے اور جن حضرات کو اس سے تکدّر ہوا، وہ غلط اطلاعات کی بناء پر ہوا ، یہی وجہ ہے کہ جن حضرات نے انصاف کے ساتھ امام صاحب کے حالات کا مطالعہ کیا ہے ، وہ اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ علمِ حدیث میں بھی امام ابو حنیفہ بلند مقام کے حامل ہیں اور اُن پر اعتراضات درست نہیں۔
    چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ’’ التاج المکلل ‘‘ میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی فقہ اور ورع کی تعریف کرتے ہیں اور آخر میں لکھتے ہیں ’’ ولم یکن یعاب بشیءٍ سویٰ قلّة العربیة‘‘ (یعنی ان میں کوئی عیب نہیں تھا، سوائے قلّتِ عربیت کے)
    یہاں نواب صدیق حسن خان صاحب نے علمِ حدیث کے اعتبار سے امام ابو حنیفہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، البتہ قلّتِ عربیہ کا الزام لگایا ہے اور یہ الزام بھی کسی طرح بھی درست نہیں ،
    دراصل یہ جملہ نواب صاحب نے قاضی ابنِ خلکان کی ’’ وفیات الاعیان ‘‘ سے نقل کیا ہے ، لیکن آگے خود قاضی ابنِ خلکان نے اِس الزام کی جو تردید نقل کی ہے ، اسے نواب صاحب نے نقل نہیں کیا (اب اِس ادھوری بات کے نقل کرنے کو کیا کہا جائے؟؟؟)
    قاضی ابنِ خللکان نے لکھا ہے کہ امام صاحب پر قلّتِ عربیہ کا جو الزام عائد کیا گیا ، اِ س کی بنیاد صرف ایک واقعہ پر ہے ، اور وہ یہ کہ ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ مسجد حرام میں تشریف فرماتھے ، وہاں ایک مشہور نحوی نے اُن سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو پتھر مار کر ہلاک کردے، تو اس پر قصاص آئے گا یا نہیں ؟
    امام صاحب نے فرمایا کہ نہیں، اس پر نحوی نے متعجب ہوکر پوچھا ’’ ولو رماہ بصخرۃ ؟‘‘ (اگرچہ اس نے چٹان سے مارا ہو؟) اس پر امام صاحب نے فرمایا کہ ’’ نعم ولو رماہ بابا قبیس‘‘
    اس سے اس نحوی نے یہ مشہور کردیا کہ امام صاحب کو عربیت میں مہارت نہیں ،کیونکہ ’’بابی قبیس‘‘ کہنا چاہیئے تھا ،
    لیکن قاضی ابنِ خلکان لکھتے ہیں کہ امام صاحب پر یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ بعض قبائلِ عرب کی لغت میں اسماء ستّہ مکبّرہ کا اعراب حالتِ جرّی میں بھی الف سے ہوتا ہے، چنانچہ ایک شاعر کا مشہور شعر ہے ع
    ان اباھا و ابا اباھا۔۔۔ قد بلغا فی المجد غایتاھا
    (بلا شبہ اُس کا باپ اور اُس کے باپ کا باپ، دونوں بزرگی کی انتہاء کو پہنچ گئے)
    یہاں قاعدہ کی رُو سے ’’ ابا ابیھا‘‘ ہونا چاہیئے تھا ، لیکن شاعر نے حالتِ جری میں بھی اعراب الف سے ظاہر کیا ، لہٰذا امام ابو حنیفہ کا مذکورہ بالاقول انہی قبائلِ عرب کی لغت کے مطابق تھا، صرف اس واقعہ کو بنیاد کر امام اعظم ابو حنیفہ جیسی شخصیت پر قلّتِ عربیت کا الزام نا انصافی اور شاید حسد کے سوا کچھ نہیں،
    یہاں اِس بحث کا مختصر خلاصہ ذکر کیا گیا ہے ، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ، علامہ ظفر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ کی کتاب ’’انجاء الوطن من الازدراء بامام الزمن‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
    (۵) امام اعظم پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ امام بخاری نے ’’تاریخ صغیر ‘‘میں نعیم ابن حماد کے حوالہ سے روایت کیا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ کی وفات کی خبر سفیان ثوری کی مجلس میں پہنچی، تو انہوں نے فرمایا ’’ الحمد اﷲ کان ینقض الاسلام عروۃ عروۃ ما ولد فی الاسلام اشئم منہ‘‘
    (الحمد للہ! وہ اسلام کو واضح طور پر ڈھانے والا تھا، اس سے نامبارک شخص اسلام میں نہیں آیا)
    اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت بلاشبہ غلط ہے ، اس کے بارے میں امام بخاری کو تو متّہم نہیں کیا جاسکتا ، انہوں نے جیسا سنا ویسا لکھ دیا ، یہ نعیم بن حماد امام ابو حنیفہ کے بارے میں نہایت متعصب ہے، اس لئے اس روایت کی تکذیب کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ نعیم بن حماد سے مروی ہے ، کیونکہ حافظ ابنِ حجر نے ’’تہذیب التہذیب ‘‘ میں کئی ائمہ حدیث سے نقل کیا ہے کہ اگرچہ بعض لوگوں نے نعیم کی توثیق کی ہے ، لیکن وہ امام ابو حنیفہ کے معاملہ میں جھوٹی روایات نقل کرتے ہیں ، حافظ فرماتے ہیں ’’ یروی حکایات فی ثلب ابی حنیفة کلہا کذب ‘‘ (یعنی وہ امام ابو حنیفہ کو عیب دار کرنے کے لئے ایسی حکایات روایت کرتا ہے، جو ساری کی ساری جھوٹی ہیں)
    اس جملہ کے کے بعد اس حکایت کی جواب دہی کی ضرورت نہیں رہتی اورسوچنے کی بات ہے کہ سفیان ثوری ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں ،جبکہ وہ خود امام صاحب کے شاگرد ہیں ، اور تقریباً نوّے فیصد مسائلِ فقہیّہ میں امام ابو حنیفہ کی موافقت کرتے ہیں ،
    اور خود انہی کا واقعہ ہے ، جو غالباً حافظ ابنِ حجر ہی نے نقل کیا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ اُن کے بھائی کی تعزیت کے لئے اُن کے پاس آئے تو سفیان ثوری نے اپنے حلقۂ درس سے کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کیا ، بعض حاضرین نے اس تعظیم پر اعتراض کیا ، تو امام سفیان ثوری نے جواب دیا ،
    ’’ ھٰذا رجل من العلم بمکان فان لم اقم لعلمہ قمت لسنّہ و ان لم اقم لسنّہ قمت لفقھہ و ان لم اقم لفقھہ قمت لورعہ ‘‘
    (یعنی یہ شخص علم کی بناء پر ایسے مقام پر ہے، اگر میں اس کے علم کی وجہ سے کھڑا نہ ہوں، تو اس کی عمر وجہ سے کھڑا ہوں گا، اور اگر میں اس کی عمر وجہ سے کھڑا نہ ہوں تو اس فقاہت کی وجہ سے کھڑا ہوں گا اور اگر اس کی فقاہت کی وجہ سے بھی نہ کھڑا ہوں،تو پھر اس کے تقویٰ کی وجہ سے کھڑا ہوں۔)
    اس سے صاف ظا ہر ہے کہ سفیان ثوری امام ابو حنیفہ کی کتنی عزت کرتے تھے۔
    یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث نے ایسا جھوٹا قصہ کیونکر روایت کردیا؟؟؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے خلاف تعصب رکھنے والوں نے امام بخاری کو امام ابو حنیفہ کے خلاف بہت مکدر کیا ہوا تھا، اس لئے انہیں نعیم بن حماد کی روایات میں کوئی خرابی محسوس ہی نہ ہوسکی،
    حاسدین کی سازشوں کے علاوہ امام بخاری کے تکدر کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ حُمیدی ظاہری المسلک تھے، اور ظاہریہ کو حنفیہ کے خلاف ہمیشہ سے غیظ رہا ہے ، لہٰذا امام بخاری بھی اپنے استاذ کے اثرات سے خالی نہ رہ سکے۔
    شیخ عبد الوہاب شعرانی نے ’’ المیزان الکبریٰ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ شروع میں سفیان ثوری بھی بعض لوگوں کے اس خیال سے متاثر ہوگئے تھے کہ امام صاحب قیاس کو نصوص پر مقدم رکھتے ہیں، چنانچہ ایک دن سفیان ثوری مقاتل بن حیان ، حماد بن سلمہ اور جعفر صادق رحمہ اللہ اُن کے پاس گئے ، اور بہت سے مسائل پر صبح سے ظہر تک گفتگو رہی، جس میں امام صاحب نے اپنے مذہب کے دلائل پیش کئے ، تو آخر میں سب حضرات نے امام صاحب کے ہاتھ چومے اور اُن سے کہا کہ
    ’’ انت سیّد العلماء فاعف عنا فیما مضیٰ منا من وقیعتنا فیک بغیر علم ‘‘
    (آپ تو علماء کے سردار ہیں ، ہم سے آپ کے متعلق لاعلمی میں جو کچھ ہوا، اسے درگزر فرمادیں)

    Reply With Quote

    04-15-2011 04:26 PM #2
    M_Huzaifa
    Junior Member


    Join DateMar 2011Posts8Thanks0Thanked 0 Times in 0 Posts


    امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی پر کئے جانے والے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

    (۶) امام اعظم پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ ’’ قال مالک بن انس ایذکر ابو حنیفة فی بلادکم قلت نعم فقال ما ینبغی
    لبلادکم ان تسکن ‘‘(ترجمہ) امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا، کیا تمہارے شہروں میں ابو حنیفہ کا تذکرہ ہوتا ہے، میں نے کہا، ہاں! تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ان شہروں میں تمہارا رہنا مناسب نہیں۔
    اس کے جواب میں شیخ عبد الوہاب شعرانی ’’ المیزان الکبریٰ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حافظ مزنی نے فرمایا ہے کہ اس روایت کے راوی ولید بن مسلم ضعیف ہیں ،
    اور اگر بالفرض امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول ثابت بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس شہر میں امام ابوحنیفہ جیسا عالم موجود ہوتو وہاں کسی اور عالم کی ضرورت نہیں۔
    (۷)امام ابو حنیفہ پرسب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ قیاس کو نصوص پر مقدم کرتے ہیں۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات واقعہ کے بالکل خلاف ہے ، اس کے برعکس امام صاحب تو بعض اوقات متکلم فیہ حدیث کی وجہ سے بھی قیاس کو چھوڑ دیتے ہیں، جیسا کہ’’ نقض الوضوء بالقھقھة‘‘ کے مسئلہ میں انہوں نے قیاس کو ترک کر دیا ، حالانکہ اس باب میں احادیث متکلم فیہ ہیں اور دوسرے ائمہ نے اُن کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کیا ہے۔
    اس مسئلہ میں شیخ عبد الوہاب شعرانی نے ،جو خود شافعی المسلک ہیں، اپنی کتاب ’’ المیزانالکبریٰ‘‘ میں ایک مستقل فصل قائم کی ہے ،
    ’’ فصل فی بیان ضعف قول من نسب الامام ابا حنیفة الیٰ انہ یقدّم القیاس علیٰ حدیث رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
    (یعنی یہ فصل اُس شخص کے قول کے ضعیف ہونے کے بیان میں ہے ،جو امام ابو حنیفہ کی طرف اس بات کی نسبت کرتا ہے کہ وہ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہیں)
    ’’ اعلم! ان ھٰذا الکلام صدر من متعصب علی الامام متھور فی دینہ غیر متورع فی مقالہ غافلاً عن قولی تعالٰی ’’ ان السمع و البصر و الفؤاد کل اولٰٓئک کان عنہ مسؤلاً ‘‘ و عن قولہ تعالیٰ ’’ مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید ‘‘
    وقد روی الامام جعفر الشیزاماری (نسبۃ الٰی قریۃ من قری بلخ) بالسند المتصل الی الامام ابی حنیفة رضی اﷲ عنہ‘‘ کذب واﷲ وافتری علینا من یقول عنا اننا نقدم القیاس علی النص وھل یحتاج بعد النص الٰی قیاس وکان رضی اﷲ عنہ یقول نحن لانقیس الا عند الضرورۃ الشدیدۃ وذٰلک اننا ننظر اولا فی دلیل تلک المسءلة من الکتاب والسنة وقضیة الصحابۃ فان لم نجد دلیلا قسنا حینئذ،
    وفی روایة اخری کا یقول ماجاء عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فعلی الرأس والعین بابی ھووامی ولیس لنا مخالفة ولاجائنا عن اصحابہ تخیرنا وماجاء نا عن غیرھم فھم رجال ونحن رجال ‘‘
    (ترجمہ)خوب جان لو، کہ بلاشبہ یہ کلام امام ابو حنیفہ کے خلاف ایسے متعصب سے صادر ہوا، جو اپنے دین سے لاپرواہی کرنے والا اور اپنے کلام میں غیر محتاط ہے اور اللہ رب العزت کے اس فرمان سے غفلت برتنے والا ہے ’’ بلاشبہ کان، آنکھ اور دل، ان سب کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا۔‘‘
    اوروہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی غافل ہے، ’’وہ کوئی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان تیار ہوتا ہے۔‘‘
    تحقیق امام ابو جعفر شیزاماری( شیزاماری بلخ کی بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف نسبت ہے ) نے سندِ متصل سے امام اعظم رضی اللہ عنہ روایت کیا کہ ’’خدا کی قسم !یہ ہم پر جھوٹ اور افتراء ہے ، جو ہمارے بارے میںیہ کہتا ہے کہ ہم قیاس کو نص پر مقدم کرتے ہیں، اور کیا نص کے آنے کے بعد قیاس کی احتیاج ہوسکتی ہے؟؟؟ (یعنی ہرگز نہیں ہوسکتی)
    امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ کہتے تھے کہ ہم صرف ضرورتِ شدیدہ کے وقت ہی قیاس کرتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ ہم اوّلاً ، اس مسئلہ کی دلیل کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قضایا میں دیکھتے ہیں، اور اگر ہم اِن تمام میں کوئی دلیل نہیں پاتے ، تو پھر اُس وقت ہم قیاس کرتے ہیں۔
    اور دوسری روایت میں ہے کہ امام اعظم فرماتے ہیں کہ جو چیز رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ، وہ تو ہمارے سر آنکھوں پر، ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں،اس سے تو کوئی مخالفت نہیں اور جو چیز صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ثابت ہے، اُسے تو ہم اختیار کرتے ہیں ، اور جو چیز ان کے علاوہ اور لوگوں سے ثابت ہے، تو وہ تو لوگ ہیں اور پھر ہم بھی تو لوگ ہیں۔
    اس کے علاوہ شیخ شعرانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں،
    ’’ اعلم یا اخی! انی لم اجب علٰی الامام بالصدر واحسان الظن فقط کما یفعل بعض وانما اجبت عنہ بعد التتبع والفحص فی کتب الادلة و مذھبہ اول المذاھب تدویناً و اٰخرھا انقراضاً کما قال بعض اھل الکشف‘‘
    (ترجمہ)خوب اچھی طرح جان لو میرے بھائی! میں امام ابو حنیفہ کے خلاف ہونے اعتراض کا جواب فقط اپنے دل سے پوچھ کر یا صرف انکے ساتھ حنِ ظن ہی کی وجہ سے نہیں دے دیتا ، جیسا کہ بعض حضرات کرتے ہیں،بلکہ میں دلائل کی کُتب کی خوب چھان پھٹک اور تحقیق کے بعد جواب دیتا ہوں،
    امام اعظم کامذہب(مسلک) وہ پہلا مذہب ہے ، مدوّن ہونے کے اعتبار سے اور آخری مذہب ہے ، مٹ جانے کے اعتبار سے ، جیسا کہ بعض اہلِ کشف نے فرمایا۔
    (۸) امام اعظم پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اُن کے مستدلات علمِ حدیث کی رُو سے ضعیف ہوتے ہیں۔
    اس کا تفصیلی جواب جو تو ہر ہر ایسے مسئلہ کے ذیل میں ہی دینا مناسب ہے ، جس مسئلہ کے مستدل کو لوگوں نے ضعیف کہا ہے،
    البتہ ان کا مجموعی جواب شیخ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے دیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے امام ابو حنیفہ کے ادلّہ پر خوب غور کیا ، اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ امام صاحب کے دلائل یا تو قرآن کریم سے ماخوذ ہیں یا احادیثِ صحیحہ سے یا احادیث سے حسنہ سے، یا ایسی ضعیف احادیث سے جو تعددِ طُرق کی وجہ سے حَسَن کے درجہ میں آگئی ہیں، اس سے نیچے کوئی دلیل نہیں۔



    المصادر و المراجع و التفاصیل

    (۱)انجاء الوطن عن الازدراء بامام الزمن للشیخ ظفر احمد عثمانی نور اﷲ مرقدہ
    (۲)الرفع و التکمیل فی الجرح والتعدیل للامام عبد الحیی اللکھنوی مع تعلیقہ للشیخ عبدالفتاح ابی غدۃ الحلبی رحمہ اﷲ
    (۳)مقدمۃ التعلیق الممجد علی المؤطا للامام محمد للشیخ اللکھنوی
    (۴)الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الائمۃ الفقہاء للحافظ ابن عبد البر الاندلسی
    (۵)تبییض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفۃ لجلال الدین السیوطی



Working...
X