Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ

    حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ

    مولانا مفتی عبدالواحد قریشی

    اہل السنۃ والجماعۃ کے بہت سارے عقائدہیں ۔جیسے توحید،رسالت،معاد وغیرہ، انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ'' حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم'' ہے۔اس عقیدہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ نبی علیہ السلام دنیا میں تشریف فرماہونے کے بعد جب موت کا ذائقہ چکھتے ہیں تو اس کے بعد قبر مبارک میں نبی علیہ السلام کو زندگی عطاء کی جاتی ہے ۔یہ زندگی روح اور جسم عنصری کے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اسی کی وجہ سے قبر مبارک پر پڑھے جانے والے صلوۃ وسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس سنتے ہیں ۔یہ عقیدہ امت مسلمہ میں اجماعی رہا ہے۔ احناف،شوافع،مالکیہ اور حنابلہ جو اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ،ان میں سے کوئی بھی اس عقیدے کا منکر نہیں اور یہ عقیدہ ان کو قرآن وحدیث واجماع سے ملا ہے۔اس دور میں اہل حق علماء دیوبند کا بھی یہی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ انہیں توارث سے ملا ہے۔

    یہ عقیدہ قرآن مجید ،تفاسیر،احادیث ،شروح احادیث،کتب عقائد وکلام اور رسائل صوفیاء کرام میں ملتا ہے۔تمام کا احصاء تو اس مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتااس لیے صرف قرآن مجید کی تفاسیر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

    وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ

    (البقرۃ:154)

    کی تفسیر میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

    فلیس الشہید باولٰی من النبی وان نبی اللہ حی یرزق فی قبرہ کماورد فی الحدیث

    (احکام القرآن تھانوی ج1ص92)

    یعنی شہید نبی سے تو بہتر نہیں اور بالیقین اللہ کے نبی قبر میں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا

    (الاحزاب :53)

    کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

    قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان.

    (تفسیر مظہری ج7ص408)

    یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔

    اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو جہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں 133133اور دوسری وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔

    (تفسیر معارف القرآن ج7ص203)

    وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

    (آل عمران :169)

    اس کی تفسیر میں سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کی ارواح کا ان کے ابدان مقدسہ کے ساتھ قائم رہنا اور قبر پر جاکر سلام کرنے والے کے سلام کو سننا اور اس کا جواب دینا(ثابت)ہے۔

    (تفسیر کشف الرحمن ج1ص114)

    یاد رہے کہ اس تفسیر پر مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ،شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ،مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ ،حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہانپوری رحمہ اللہ کی تقاریظ ثبت ہیں اور یہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی نگرانی میں طبع ہوئی۔

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

    (الاحزاب :45)

    اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام انبیاء کرام علیہم السلام خصوصا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔

    (معارف القرآن ج7ص177)

    مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

    )الاحزاب:40)

    اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ

    (روح المعانی ج22ص36)

    یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔پھر آگے مزید لکھتے ہیں:

    والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف

    (ایضاًج22ص37)

    جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔لیکن اس کاتعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔مزید ارقام فرماتے ہیں:

    وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار

    ( ایضاًج22ص 38)

    یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :

    ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔

    ( ایضاًج22ص 38)

    جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔

    فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا

    (الکہف :11)

    کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:

    اما ابوبکرفمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''

    (مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)

    یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہاگیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آوازدینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔

    وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ،

    (النساء :64)

    اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

    عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک

    (الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)

    یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ" نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔

    مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے133133 اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔

    (معارف القرآن ج2ص459،460)

    اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔

    (تفسیر ابن کثیر ج2ص315)

    وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا

    (الزخرف:45)

    کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

    یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء

    (مشکلات القرآن ص234)

    یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔

    وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا

    )الاحزاب:53)

  • #2
    Re: حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ

    محترم ساحل صاحب .
    قرآن نے اس آیات سے قبل ہی یہ فرما دیا ہے کے نبی صلی الله علیھ وسلم کی ازواج مومنوں کی ماں ہیں تو حرمت تو الله نے وہی ثابت کردی ہے اور اپ نے جتنے علما کے حوالے دیے ہیں وہ سب ١٠٠ سال سے زیادہ کے نہیں ہیں جبکہ اپ اس کو اجماع امت کہ رہے ہیں اگر یہ اجماع امت ہے تو سب سے پہلے اپ کو اس پر احادیث نبوی صلی الله علیھ وسلم پیش کرنی چاہیے تھی اس کے بعد صحابہ کرام رضی الله عنھم کے اقوال اور پھر ١٠٠ ہجری کے بعد سے لے کر کے آئمہ محدثین کے اقوال نقل کرتے مگر اپ نے ایسا کچھ نہیں لکھا ہے اور صرف چند ضیف احادیث جو کچھ کتب تفسیر میں درج ہیں وہ نقل کر دیں ہیں جبکہ احناف کی عقائد پر سب سے متبر اور مستند کتاب میں کیا لکھا ہے میں اپ کے لئے نقل کر رہا ہوں
    ''الارواح فی البرزخ ان الارواح فی البرزخ متفاوتہ اعظم تفاوت فمنھا: ارواح فی علی علین فی الملاء الاعلی وھی الاروح الانبیاء وھم متفاوتوں فی منازلھم ،ومنھاارواح فی حواصل طیر خضر وھی ارواح بعض الشھداء لاکلھم (شرح العقیدہ الطحاویہ باب بعذاب القبر و سوال منکر نکیر ص ٤٥٦-٤٥٤)''ارواح برزخ میں ہیں جہاں ان کے دو بڑی تقسیم ہے جو اعلی علین میں ہیں ان میں ایک الملاء اعلی میں انبیاء کی ارواح ہیں اور دوسرے جو ارواح سبز پرندوں کے سینوں میں ہیں وہ شہداء کی ارواح ہیں'' اس کے بعد آخر میں وہی روایت نقل کی ہے ''
    حرم علی الارض ان تاکل اجساد انبیائ'' مگر اس کے بعد انبیاء کی قبر میں حیات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اکابراحناف بھی انبیاء کی اراوح کے جنت کے اعلی مقام میں ہونے کہ قائل ہیں نہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں حیات دونیاوی کے ساتھ ہیں
    تو اگر اپ اس کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو یہ لنک دیکھ لیں
    http://www.pegham.com/ikhlaqiyaat/82...%AE%DB%8C.html

    Comment


    • #3
      Re: حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ



      اکابراحناف بھی انبیاء کی اراوح کے جنت کے اعلی مقام میں ہونے کہ قائل ہیں نہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں حیات دونیاوی کے ساتھ ہیںاور اکابر احناف نے بھی انبیاء سے مدد طلب کرنے یا ان کو ندا دینے کے قائل نہیں ہیںحتیٰ کہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف تو اس بات کے بھی قائل نہیں تھے کہ اللہ کو مخلوق کے وسیلہ سے پکارا جائے چنانچہ پاکستان کی اکثریت حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں اسی وجہ سے میں ان کے یہ ا قوال نقل کررہا ہوں امام ابو حنیفہ فرماتے

      ہیں
      لا ینبغی ِلاَحدِِ
      اَنْ یدعوا اللہ الا بہ

      (شرح الکرخی باب الکراہت)

      کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کسی کا واسطہ دے کر اللہ کو پکارے'' امام ابو حنیفہ کا یہ قول متعدد ائمہ نے نقل کیا ہے جس فقہ کے بانی کسی وسیلہ سے اللہ کو پکارنا جائز نہیں سمجھتے وہ کس طرح اللہ کے علاوہ کسی کو ندا دینا یا مدد طلب کرنا جائز قرار دے سکتے ہیں اور ان کے ماننے والے آج ان ہی کی تعلیمات سے اس قدر ناآشنا ہیں کہ

      وہ انبیاء کو ندادینا جائز سمجھتے ہیں جبکہ ان کے مسلک کے امام کا عقیدہ ہی کچھ اور ہے
      Attached Files

      Comment


      • #4
        Re: حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ


        اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن اس بارے میں

        کیا کہتا ہے






        Comment


        • #5
          Re: حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ

          عقل سے پیدل دکھایی دینے ہیں موصوف

          Comment


          • #6
            Re: حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آیات قرآنیہ

            Originally posted by drsahil View Post
            عقل سے پیدل دکھایی دینے ہیں موصوف

            شکر ہے کہ آپ نے اپنا تعارف کروا دیا

            Comment

            Working...
            X