Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کیا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے

    کیا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے۔؟

    وساوس

    مسلمانوں اور ہندوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان کعبہ کی۔

    کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بھی بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے ۔

    ایک پتھر کے گرد چکر لگانے اور اسے چومنے چاٹنے میں اور کرشن بھگوان اور گائے ماتا کے آگے سرنگوں ہونے میں کیا فرق ہے؟

    جواب :

    یہ غلطی فہمی جس کو مختلف وساوس کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے 146ہندوستان میں مسلمانوں کے قبضہ اور اقتدار کے پہلے دور سے چلی آرہی ہے۔ ہندوؤں کی طرف سے پیدا کیے گئے ان وساوس کا جواب اسی دور کے علما نے دے دیا تھا، لیکن دینی علم اور علما سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے ابھی بھی لوگ اس وسوسہ کا شکار ہے اور کچھ لوگ جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں وہ اس کو باقاعدہ اسلام کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔

    اس وسوسہ کے جواب کے لیے ان چند پوائنٹس پر غور کر لیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

    1. اسلام میں اصل اہمیت اللہ کے حکم کی ہے۔ وہ جو چاہیے، جیسے چاہے اپنی حکمت کے مطابق انسانوں کے لیے مقرر کردے، میں اس کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں

    پہلی مثال :

    ہجرت مدینہ سے سولہ سترہ مہینے تک مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اسی کی طرف رخ کرنا عبادت ہوگیا۔ قرآن میں دوسرے سپارے کی پہلی آیات میں تحویل قبلہ کا ذکر ہے۔

    "بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے کہہ دو مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔" (سورۃ البقرہ، آیت 142،143)

    حکمت خداوندی واضح ہے کہ قبلہ کی حیثیت محض ایک سمت کی ہے اصل چیز تو حکم خداوندی ہے146 ۔ اسی کا اللہ نے اوپر آیت میں ذکر بھی کیا کہ سب سمتیں خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب اللہ ہی کی ملک ہیں ، اسے اختیار ہے جس سمت کو چاہے مقرر فرمادے۔ ہم دیکھیں گے کہ کون ہمارے حکم کی پیروی کرتا اور پیغمبر کے تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔

    دوسری مثال :

    حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا :

    میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا ۔

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا " (اے پتھر!) اگر تجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا " اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں تعظیم پتھر کی نہیں بلکہ نبی کے فرمان کی ہورہی ہے۔ یہی بات شیطان کو سمجھ نہ آئی اور راندہ درگاہ ہوا۔

    2. استقبال قبلہ کا ایک راز یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ان کے زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک نقطہ کی طرف متوجہ کیا گیا اور ایک مرکزی نقطہ پر اکٹھا کرکے ان کے درمیان فکری وحدت پیدا کر دی گئی ہے, ان کے معاشرتی رشتوں کو یکجا کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا. ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں عبادت کی روح146 دلجمعی اور یکسوئی ہے ، مطلب دلجمعی اور یکسوئی کے بغیر عبادت کی صورت ہی رہ جاتی ہے، اس میں روح نہیں پائی جاتی ، اب اگر نماز میں ایک خاص جہت/سمت مقرر نہ ہوتی تو کوئی کسی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا ، کوئی کسی طرف، اس اختلاف جہات و ہیئات سے تفرق قلب ہوتا ۔ اس خاص سمت کو مقررکرنے نے اس فساد اور تفریق کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا اور مسلمانوں کو ایک اللہ ، ایک قرآن کے ساتھ ایک کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے پر جمع کردیا ہے۔

    3. کسی کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ کعبہ ہی کو سمت کے لیے کیوں مقرر کی گیا کسی اور کو کیوں نہیں ؟ اسکی اور بہت سی جغرافیائی وجوہات کے علاوہ ایک طالب علم کے لیے کعبہ ہی کے تعین کے پیچھے یہ ہے کہ تجلیات الہی روح کعبہ اور حقیقت کعبہ ہیں۔ اللہ کی توجہ کعبہ کی طرف ذیادہ ہے یعنی اللہ نے اپنی تجلیات کا مرکز کعبہ کو بنا کرخود انسانوں کو اس طرف رخ کرکے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ آسان الفاظ میں حقیقت میں مسلمان کعبہ کی دیواروں کا استقبال نہیں کرتے ، بلکہ تجلی الہی کا استقبال کرتے ہیں ۔ اگر کعبہ کی دیواروں کا استقبال، طواف ، عبادت ہوتی تو کعبہ کی چھت پر نماز جائز نہ ہوتی ۔

    4. مسلمان خود کعبہ کی معبودیت کی نفی کرتے ہیں ،کوئی بت پرست اپنے معبود کی معبودیت کی نفی نہیں کیا کرتا۔

    5. بت پرست اپنی عبادت میں بت کی طرف متوجہ رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو نماز کے دورا ن کعبہ کی عبادت کا خیال بھی نہیں آتا۔

    6. بت پرست بت کے بغیر عبادت نہیں کرتا، جبکہ مسلمانوں پر نماز کعبہ کے بغیر بھی فرض رہے گی ، نماز کے ٹائم اس طرف منہ کرلیا جائے گا، مطلب مسلمان پتھر یا اینٹ کو نہیں پوجتے ورنہ انہدام کعبہ کے بعد نماز موقوف ہوجاتی ،۔

    7. مسلمان کعبے کے اوپر چڑھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں ، جبکہ پت پرستوں کے ہاں ایسے عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہ گستاخی اور بے ادبی ہے۔

    ان پوائنٹس سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کا اللہ کی عبادت کے لیے کعبہ کی طرف رخ کرنے نماز پڑھنا اور کسی بت پرست کی بت کی پوجا آپس میں کسی قسم کی کوئی مماثلت نہیں رکھتے ۔ اللہ ہمیں شرح صدر عطا فرمادے۔

Working...
X