رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث لکھنے کی ممانعت
منکرین حدیث کی جانب سے ایک اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا اس بناپر موجودہ کتب حدیث عجمی سازش کا نتیجہ ہیں-
"میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-"
(صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004)
کیا منکریں حدیث کو اپنے عقیدے کی رو سےبطور دلیل حدیث پیش کرنا جائز ہے؟ کیا وہ اپنے اس فعل پر شرم محسوس نہیں کرتے؟ اپنی مقصد برآری کے لیے حدیث پیش کرنا جائز لیکن اتباع رسول میں حدیث کی طرف رجوع ناجائز- آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟
تاہم واضح رہے کہ کتابت حدیث کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ احادیث تاکہ احادیث کا مضمون قرآن کریم کے مصامین سے خلط ملط نہ ہوجائے- چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات قلمبند کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتشریف لائے، دریافت فرمایا: " تم کیا لکھ رہے ہو؟" ہم نے عرض کیا وہی کچھ جو ہم آپ سے سنتے ہیں-
آپ نے فرمایا
" کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ ایک اور کتاب بھی لکھی جارہی ہے اللہ کی کتاب کو علحیدہ کرلو اور اسے خالص رکھو-"
(مسند احمد: 3/12، حدیث:11092)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو ایک ساتھ لکھنے کی ممانعت تھی تاکہ احادیث قرآن سے خلط ملط نہ ہوجائيں- جب یہ خطرہ ٹل گیا تو ممانعت بھی ختم ہوگئی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور آپ کی وفات کے بعد احادیث تحریر کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے عرض ہوچکا ہے-
پھر اس حدیث کے آگے یہ الفاظ بھی ہیں
[ تحدّثو عنّی ولا حرج]
"مجھ سے احادیث بیان کرو اس میں چنداں حرج نہیں-"
اس جملے سے واضح ہوا کہ حدیث کو قرآن کے ساتھ مخلوط کرنے سے روکا جارہا تھا، حدیث بیان کرنے سے منع نہیں کیا جارہا تھا بلکہ احادیث بیان کرنے کا حکم دیا جارہا تھا، اب یہ کہاں کی دیانت اور قرآنی اتباع ہے کہ ایک ہی روایت کا وہ حصہ تو بیان کردیا جائے جس سے اپنا مطلب برآمد ہو اور باقی حصہ اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ ان کے باطل عقیدے کی نفی کرتا ہے-
باقی موجود کتب حدیث پر عجمی سازش کی پھبتی بھی خوب ہے! صدیوں کے بعدان حضرات نے اس سازش کا سراغ لگایا ہے لیکن یہ سازش کہاں تیار ہوئی؟ کس نے تیار کی؟ اس بارے میں یہ لوگ کوئی مدلل بات نہیں بتاتے-
بتا بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ من گھڑت بات ہے، اسی لیے اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے- شاید یہ حصرات خود کسی سازش کا شکار ہیں-
منکرین حدیث کی جانب سے ایک اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا اس بناپر موجودہ کتب حدیث عجمی سازش کا نتیجہ ہیں-
جواب:
بلاشبہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-"
(صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004)
کیا منکریں حدیث کو اپنے عقیدے کی رو سےبطور دلیل حدیث پیش کرنا جائز ہے؟ کیا وہ اپنے اس فعل پر شرم محسوس نہیں کرتے؟ اپنی مقصد برآری کے لیے حدیث پیش کرنا جائز لیکن اتباع رسول میں حدیث کی طرف رجوع ناجائز- آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟
تاہم واضح رہے کہ کتابت حدیث کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ احادیث تاکہ احادیث کا مضمون قرآن کریم کے مصامین سے خلط ملط نہ ہوجائے- چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات قلمبند کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتشریف لائے، دریافت فرمایا: " تم کیا لکھ رہے ہو؟" ہم نے عرض کیا وہی کچھ جو ہم آپ سے سنتے ہیں-
آپ نے فرمایا
" کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ ایک اور کتاب بھی لکھی جارہی ہے اللہ کی کتاب کو علحیدہ کرلو اور اسے خالص رکھو-"
(مسند احمد: 3/12، حدیث:11092)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو ایک ساتھ لکھنے کی ممانعت تھی تاکہ احادیث قرآن سے خلط ملط نہ ہوجائيں- جب یہ خطرہ ٹل گیا تو ممانعت بھی ختم ہوگئی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جم غفیر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور آپ کی وفات کے بعد احادیث تحریر کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے عرض ہوچکا ہے-
پھر اس حدیث کے آگے یہ الفاظ بھی ہیں
[ تحدّثو عنّی ولا حرج]
"مجھ سے احادیث بیان کرو اس میں چنداں حرج نہیں-"
اس جملے سے واضح ہوا کہ حدیث کو قرآن کے ساتھ مخلوط کرنے سے روکا جارہا تھا، حدیث بیان کرنے سے منع نہیں کیا جارہا تھا بلکہ احادیث بیان کرنے کا حکم دیا جارہا تھا، اب یہ کہاں کی دیانت اور قرآنی اتباع ہے کہ ایک ہی روایت کا وہ حصہ تو بیان کردیا جائے جس سے اپنا مطلب برآمد ہو اور باقی حصہ اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ ان کے باطل عقیدے کی نفی کرتا ہے-
باقی موجود کتب حدیث پر عجمی سازش کی پھبتی بھی خوب ہے! صدیوں کے بعدان حضرات نے اس سازش کا سراغ لگایا ہے لیکن یہ سازش کہاں تیار ہوئی؟ کس نے تیار کی؟ اس بارے میں یہ لوگ کوئی مدلل بات نہیں بتاتے-
بتا بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ من گھڑت بات ہے، اسی لیے اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے- شاید یہ حصرات خود کسی سازش کا شکار ہیں-
Comment