Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم قرآن مجید میں کس جگہ ہے؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم قرآن مجید میں کس جگہ ہے؟


    بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم قرآن مجید میں کس جگہ ہے؟

    منکرین حدیث سے سوال

    اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ

    وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗوَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

    (سورة البقرة، آیت نمبر ۱۴۳)

    ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔ اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے

    آیت مزکورہ بالا میں اللہ رب العزت نے دو اہم باتوں کی طرف رہنمای فرمای ہے پہلی بات یہ سمجھای کہ ہم نے تم کو امت وسط (امت معتدل یا بہترین امت) بنایا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی وجہ بھی واضح کر دی کہ تم لوگوں پر گواہ بن سکو اور رسول تم پر گواہی دے سکیں۔ دوسری بات یہ سمجھای کہ بیت اللہ یعنی کعبتہ اللہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھنے کے حکم سے پہلے بیت المقدس کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ہم ہی نے تمیں دیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی وجہ بھی واضح کر دی گی کہ ہم یہ چیک کرنا چاہتے تھے کہ کون ہے جو تحویل قبلہ کے اس حکم کے نازل ہونے کے بعد اپنی خواہش اور آبای روایات کی پیروی چھوڑ کر ہمارے بھیجے ہوے رسول(ص) کی اطاعت کرتا ہے اور کون ہے جو اتباع سنت رسول اختیار نہ کرتے ہوے کفر و ارتداد والی روش اپنا کر اپنی ایڑیوں کے بل پھرجاتا ہے۔

    ا
    امت وسط کا مطلب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے

    مزکورہ آیت کے پہلے حصے پر اگر غور فرمایں تو فقط آیت کے الفاظ میں بہت زیادہ تشنگی بای جاتی ہے۔ مثلا ہم نے آپ کو امت وسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاو اور رسول تم پر گواہ ہو جایں"مزکورہ فرمان میں "لوگوں" سے کون سے لوگ مراد ہیں۔ لیکن جب ہم اس بات کی تفسیر و تشریح کے لیے حدیث رسول(ص) کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معاملہ صاف اور واضح ہو جاتا ہے اور بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔

    سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

    قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ، أَىْ رَبِّ‏.‏ فَيَقُولُ لأُمَّتِهِ هَلْ بَلَّغَكُمْ فَيَقُولُونَ لاَ، مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ‏.‏ فَيَقُولُ لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَأُمَّتُهُ، فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، وَهْوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ ‏{‏وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ‏}‏ وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ ‏"‏‏
    حوالہ : بخاری شریف ، کتاب احادیث الانبیاء، ،ـ باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ‏}‏،
    حدیث نمبر , 3374

    ترجمہ: قیامت کے دن نوح علیہ والسلام بارگاہ الہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالی ان سے سوال کریں گے کہ کیا میرا پیغام آپ نے اپنی امت تک پہنچا دیا تھا ؟جناب نوح علیہ والسلام عرض کریں گے: جی ہاں ! اے میرے پروردگار ! میں نے آپ کا پیغام پپنچا دیا تھا۔ (اس کے بعد ) اللہ تعالی ان کی امت سے دریافت کریں گے کہ کیا میرے رسول( نوح(ع) نے میرا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا؟ قوم نوح کے افراد(صاف جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوے) جواب دیں گے کہ نہیں! ہمارے پاس تو (تیرا) کوی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ رب العزت جناب نوح (ع) سے استفسار کریں گے کہ کیا آپ کی طرف اپ کے حق میں کوی گواہی دے سکتا ہے؟ جناب نوح عرض کریں گے :جی ہاں! میری طرف سے محمد(ص) اور ان کی امت گواہی دے گی۔ چنانچہ اس وقت ہم اس بات کی گواہی دیں گے کہ اول الرسل اور آدم ثانی جناب
    نوح علیہ والسلام نے پیغام الہی اپنی امت تک پینچا دیا تھا۔ یہی مفہوم اور مطلب ہے اللہ جل زکرہ کا یہ اس فرمان کا {‏وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ‏} ، (یعنی ہم نے تمھیں سب سے بہترین امت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہی دے سکو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہی دے سکیں) الوسط کے معنی العدل کے ہیں یعنی معتدل اور منصف مزاج۔

    مسند احمد (۳۔۳۲) میں امام احمد ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے ان الفاظ کا اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

    ترجمہ: تم کو گواہی کے لیے بلایا جاے گا تو تم نوح علیہ والسلام کے بارے میں پیغام الہی پہنچانے کی گواہی دو گے۔ جب کہ میں تمھاری گواہی دوںگا( کہ واقعتا یہ درست کہہ رہے ہیں) ( یاد رہے کہ مزکورہ حدیث میں سوال و جواب والی مکمل کاروای محض اتمام حجت کے طور پر ہوگی ورنہ اللہ تعالی تو ہر چیز سے باخبر اور آگاہ ہے)

    مزکورہ بالا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ساری بات واضح ہو جاتی ہے کہ (الناس) سے کون سے لوگ مراد ہیں اور (امتہ وسطا) کا اصل مفہوم و معنی کیا ہے؟ آیت کے اس حصہ کے بارے میں گزشتہ گزارشات سر راہ زیر بحث آگیں ۔ جب کہ ہمارے مضمون اور اصل گفتگو کے لیے محل استدلال آیت کا دوسرا حصہ ہے ۔ جس میں تبدیلی قبلہ کا بیان ہے۔

    تحویل قبلہ اور اس کی حکمتیں اور مصلحتیں

    سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۴۳ کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں

    وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

    ترجمہ: اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے

    آیت مزکورہ کے اس دوسرے حصہ سے تحویل قبلہ کے واقعہ سے درج ذیل حکمتیں اور مصلحتیں معلوم ہوئیں


    نمبر ایک: بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ نمازیں

    اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان عالی میں یہ بتایا ہے کہ آپ جس قبلہ پر پہلے سے کاربند چلے آرہے ہیں اس کو قبلہ ہم ہی نے مقرر کیا تھا۔ اس قبلہ سے کونسا قبلہ مراد ہے؟ احادیث میں اس قبلہ کے نام کی وضاحت موجود ہے کہ اس قبلہ سے مراد"بیت المقدس" ہے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

    قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ ـ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ ـ شَهْرًا، ثُمَّ صَرَفَهُ نَحْوَ الْقِبْلَةِ‏.(حوالہ: صحیح البخاری ، کتاب التفسیر، باب ‏{‏وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ، فَاسْتَبِقُوا حدیث نمبر 4533.)

    کتاب میں حوالہ دیکھنے کے لیے : صحیح البخاری، کتاب التفسیر ، باب ‏{‏وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ، ، حدیث نمبر ۴۴۹۲، صحیح مسلم، کتاب المساجد، ومواقع الصلوتہ: باب تحویل القبلتہ من القدس الی الکعبتہ: حدیث نمبر ۵۲۵)۔

    ترجمہ: ہم نے نبی کریم (ص) کے ساتھ سولہ(۱۶) مہینے یا سترہ(۱۷) مہینے تک بیت المقدس (مسجد اقصی) کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالی نے ہمارے لیے اس قبلہ (کی سمت) کو پھیر دیا اور ہمارا قبلہ بیت اللہ (یعنی کعبتہ اللہ) متعین کر دیا "۔

    نمبر دو: تحویل قبلہ پر مخالفین کا شوروغوغا:۔

    منافقین اور یہود مدینہ ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ مسلمانوں کو زچ کرنے کا کوی موقع ہاتھ آے تو ہم اس سے خوب فایدہ اٹھایں۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ تحویل قبلہ کو بھی یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے خوب استعمال کیا۔ رسول اکرم (ص) جب مکہ سے مدینہ کی طرف تشریف لے گے تو سولہ ماہ بیت المقدس کی طرف اپنا چہرہ انور کر کے نماز ادا کیا کرتے رہے۔ جب کہ آپ کی دلی خواہش تھی کہ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ہی نماز ادا کی جاے۔ جو "قبلہ ابراہیمی" ہے۔ اس کے لیے آپ دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نگاہ بھی اٹھاتے تا آنکہ اللہ تعالی نے تبدیلی قبلہ کا حکم نازل فرما دیا۔ جس پر یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے خوب شور مچایا کہ یہ دین کیسا دین ہے؟ یہ نبی کیسا نبی ہے؟ کبھی کوی قبلہ تو کبھی کوی قبلہ؟ اس دین اور نبی کا کیا اعتبار ہے؟؟ وغیرہ وغیرہ۔

    اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے جو پہلے بیت المقدس قبلہ مقرر کیا تھا اس کا مطلب ہی یہ تھا کہ ہم دیکھیں کون میرے رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اپنی ضد اور انانیت کا شکار ہوجاتا ہے؟

    نمبر تین: اہمیت اتباع و فرمانبرداری کی ہے نا کہ جہت و سمت کی:۔

    نماز ایک عبادت ہے ۔ عبادت کرتے وقت عابد تو پابند ہوتا ہے جس طرح اس کو عبادت کا معبود کی طرف سے حکم دیا جاے وہ اسی طرح عبادت کرتا ہے۔ جس جس وقت اس کو عبادت کا حکم دیا جاے وہ اسی اسی وقت عبادت کے اعمال بجا لاتا ہے اور جس سمت اور جہت کی طرف عبادت کرنے کا حکم ہو وہ سر تسلیم خم کرتا ہوا اسی سمت اور جہت کو اختیار کرلیتا ہے۔ کیوں کہ عبادت خالق کاینات ،مالک حقیقی اور شہنشاہ کون و مکان اللہ رب العزت کی بات ماننے ہی کا نام ہے۔ لہزا جس طرف پھر نے کا حکم ملا تھا اسی طرح پھر جانا ضروری تھا۔ گویا اہم طیز اطاعت و فرمابرداری ہے نہ کہ جہت و سمت علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت مقصود ہے۔ مغرب و مشرق ، شمال و جنوب سب اسی کی قایم کی ہوی جہتیں ہیں۔ اس لیے جہتوں کی کوی اہمیت نہیں۔ ہر جہت میں اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے۔ صرف اتنی شرط ہے کہ اس جہت کو اختیاد کرنے کا حکم اللہ تعای نے دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر سے کچھ ہی پہلے آیا اور اس کے بعد جب نماز عصر کا وقت ہوا تو سب سے پہلی نماز"نماز عصر" خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گی۔

    نمبر چار: بیت المقدس عارضی قبلہ تھا:۔

    تحویل قبلہ کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم عارضی اور وقتی تھا۔ تمام امم سابقہ اور امم مسلمہ کے لیے مستقل قبلہ خانہ کعبہ ہی تھا۔ ابو البشر جناب آدم علیہ والسلام نے جب اسے بار اول تعمیر کیا تھا تو بھی یہی قبلہ تھا ۔ امام الحنفاء، جد النبیاء جناب ابرہیم علیہ والسلام نے جب اس کی تعمیر نو کی تھی تو بھی یہی قبلہ تھا۔ مگر جب سلیمان بن داود علیہ السلام نے "ہیکل سلیمانی" تعمیر کیا تو تابوت سکینت چونکہ صخرہ پر پڑا رہتا تھا۔(یہ وہ تابوت سکینت ہے جس کا تزکرہ سورتہ البقرہ کی آیت نمبر ۲۴۸ میں موجود ہےاور صخرہ، بیت المقدس کے قریب ہی ایک مقدس جگہ کا نام ہے) لہزا بنی اسرایل بیت المقدس کی طرف چہرہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انھوں نے اسے ہی مستقل قبلہ بنا لیا چونکہ اللہ تعالی نے اس پر کوی گرفت اور وعید نازل نہ فرمای تھی۔ جس کی بنا پر اس کا شرعا بھی درست سجھا گیا مگر یہ قبلہ صرف بنی اسرایل ہی کا قبلہ تھا۔ یہاں تک کے مشرکین مکہ نے بھی بیت المقدس کو اپنا قبلہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ کعبہ ہی کی طرف رخ کر کے عبادت کرتے تھے۔

    چونکہ مشرکین مکہ کے بجاے رسول اکرم (ص) اہل کتاب کو بہترین سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ رومیوں اور ایرانیوں کی لڑای کے وقت رسول اللہ(ص) نے جزبات اہل کتاب ہونے کی وجہ سے رومیوں کے حق میں تھے۔ لہزا جب تک مکہ میں تھے اس وقت تک تو دونوں رکنوں(رکن یمانی اور رکن شامی) کے درمیان کھڑے ہو کر آپ نماز ادا کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور بیت وقت بیت اللہ کی طرف ہو جاتا اور بیت المقدس کی طرف بھی ۔ مگر مدینہ ہجرت کر جانے کے باعث دونوں طرف رخ کرنا ممکن نہ تھا کیوں کہ مدینہ میں رہتے ہوے دونوں قبلے متضاد سمتوں میں پڑتے تھے۔ لہزا رسول اکرم(ص) نے اہل کتاب کی طرف اپنے میلان کی بنا پر کعبہ کی بجاے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دیا تا کہ مشرکین مکہ سے امتیاز ہو سکے۔ مگر دلی خواہش اوراصلی تمنا یہی تھی کہ کعبتہ اللہ ہی ہمارا قبلہ قرار پاے۔ تقریبا سولہ یا سترہ ماہ بعد اس تمنا کو اللہ رب العالمین کی طرف سے عملی جامہ پہنادیا گیا۔

    نمبر پانچ: متبعین سنت رسول کی آزمایش:۔

    بیت المقدس کو عارضی قبلہ کیوں بنایا گیا؟ اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ کسی قوم کے قبلہ کو تسلیم کر لینا دراصل اس قوم کی قیادت، سیادت اور امامت و تسلیم کر لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہزا یغمبر اسلام، سیدل دو عالم جناب محمد رسول اللہ(ص) نے ابتدای دور میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کفر وشرک کی بناپر مشرکین مکہ کی مخالفت پیش نظر تھی۔ دوسری وجہ وہ تھی جس کی اللہ تعالی نے بھی وضاحت فرمای ہے کہ اس سے خارستان کفر کو خیر باد کہہ کر گلستان اسلام میں جدید وارد ہونے والے مسلمانوں کا امتحان مقصود تھا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے

    لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ

    (سورة البقرة، آیت نمبر ۱۴۳)

    ترجمہ: (آپ کے لیے بیت القدس کو قبلہ محض اس لیے بنایا تھا) تا کہ ہم جان لیں کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں پر پھر جاتا ہے۔

    وہ امتحان یہی تھا کہ ہر قوم اپنے مزہبی اور دینی شعار سے انتہا درجہ کی محبت رکھتی ہے۔ مکہ مں اسلام لانے والی اکثر و بیشتر چونکہ مشکرین مکہ میں سے ہوتے تھے۔ اس لیےفی الحقیقت ان کا اس بات میں بڑا کڑا امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کس قدر اتشال امر الہی اور اتباع سنت رسول کا فراخدلانہ مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اپنا آبای قبلہ بیت اللہ چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں یا پھر اسی آبای قبلہ پر اڑے رہتے ہیں؟

    اب اگلا سوال یہ ہے کہ دوبارہ بیت اللہ ہی کو مستقل قبلہ قرار دینے میں اور رسول اللہ(ص) کے بار بار آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے میں کونسی حکمت بالغہ یپہاں تھی؟ ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ پہینچے تو صورت حال اب بلکل ہی بدل چکی تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی اسلامی ریاست معرض وجود میں آچکی تھی، اب بیت المقدس کو قبلہ بناے رکھنا گویا زپنی چور پر یہود کی قیادت و سیادت قبول کر لینے کے مترادف تھا۔ لہزا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے اور اسی لیے بار بار بارگاہ الہی میں التجا کرتے تھے کہ تمام امم سابقہ کے قبلہ:خانہ کعبہ: ہی کو امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کے لیے مستقل قبلہ قرار دے دیا جائے۔

    نمبر چھ: صحابہ کرام رضوان اللہ علہہم اجمعین کی طرف سے اتباع سنت رسول کا بے مثال نمونہ:۔

    دیگر مواقع اور معاملات کی طرح واقعہ تحویل قبلہ میں بھی صحابہ کرام (رض) نے سنت رسول اور حدیث رسول کی اتباع کا کمال مظاہرہ کیا۔ سنت رسول اور حدیث رسول (ص) کی پیروی کے وہ عملی نمونے پیش کیے کہ جو کسی بھی نبی اور رسول کے ماننے والے اس نیلے آسمان کے نیچے اور خاکی زمین کے اپر پیش نہ کر سکے۔ جو شخص بھی وادی کفر کو چھوڑ کر چمن اسلام میں داخل ہوتا جاتا تھا رسول اللہ(ص) کی سنت فعلی اور حدیث فعلی پر عمل پیرا ہوتا جاتا تھا اور بیت المقدس کی طرف اپنا رخ کر کے نماز پڑھنے لگ جاتا تھا۔ صحابہ کرام (رض) میں اتباع حدیث و سنت کے حوالے سے ایسی تربیت ہوچکی تھی کہ جب بیت المقدس سے رخ پھیر کر بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم جناب جبریل علیہ والسلام لے کر تشریف لاے تو اس وقت بھی کسی نے چوں و چرا کیے بغیر فورا سر تسلیم خم کر دیا۔

    صحیح البخاری میں دو واقعات تو ایسے ملتے ہیں کہ حلت نماز ہی میں جب انھیں یہ پتا چل گیا کہ رسول(ص) نے اب مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی ہے اور اللہ کی طرف سے بیت اللہ کو قبلہ مقرر کر دیا گیا ہے تو انھوں نے حالت نماز ہی میں اپنے رخ بیت المقدس سے مسجد حرام کی طرف پھیر لیے۔


    پہلا واقعہ، مسجد قبلتین میں تحویل قبلہ:۔

    سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔

    أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ أَوَّلَ مَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ عَلَى أَجْدَادِهِ ـ أَوْ قَالَ أَخْوَالِهِ ـ مِنَ الأَنْصَارِ، وَأَنَّهُ صَلَّى قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَأَنَّهُ صَلَّى أَوَّلَ صَلاَةٍ صَلاَّهَا صَلاَةَ الْعَصْرِ، وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ صَلَّى مَعَهُ، فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ مَسْجِدٍ، وَهُمْ رَاكِعُونَ فَقَالَ أَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قِبَلَ مَكَّةَ، فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَكَانَتِ الْيَهُودُ قَدْ أَعْجَبَهُمْ إِذْ كَانَ يُصَلِّي قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَأَهْلُ الْكِتَابِ، فَلَمَّا وَلَّى وَجْهَهُ قِبَلَ الْبَيْتِ أَنْكَرُوا ذَلِكَ‏.‏ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَاءِ فِي حَدِيثِهِ هَذَا أَنَّهُ مَاتَ عَلَى الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ رِجَالٌ وَقُتِلُوا، فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ‏}‏

    (دیکھیں صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب الصَّلاَةُ مِنَ الإِيمَانِ ، حدیث نمبر 40)

    ترجمہ: نبی کریم (ص) جب مدینہ تشریف لاے تو پہلے اپنے ننھیال کے ہاں ٹہرے جو انصار مدینہ تھے۔ (آپ کی والدہ کا تعلق مدینہ الرسول سے تھا) وہاں آپ (ص) نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو۔ بیت اللہ کی طرف چہرہ(کر کے نماز پڑھنے کا حکم نازل ہو گیا تو) سب سے پہلی نماز جو آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف چہرہ کر کے ادا فرمای وہ نماز عصر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیگر لوگوں(یعنی صحابہ کرام) نے بھی نماز پڑھی، آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک صحابی (نماز پڑھ کر)وہاں سے چلا اور اس کا مسجد (بنی حارثہ) کی طرف سے گزر ہوا تو اس وقت وہاں کے نمازی حالت رکوع میں تھے۔ وہ شخص جس نے آُپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر ادا فرمای تھی(سیدنا عباد بن بشر رضی اللہ عنہ تھا) وہ با آواز بلند کہنے لگا: میں اللہ کے نام کے ساتھ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ(ص) کے ساتھ مکہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ (یہ سن کر) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گے۔

    دوسرا واقعہ، مسجد قباء میں تحویل قبلہ:۔

    سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

    بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا‏.‏ وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ‏.‏(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب ‏{‏الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ‏}‏، حدیث نمبر 4532)۔ آن لاین ربط کے لیے کلک کریں

    کتاب میں دیکھنے کے لیے : صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ، ،حدیث نمبر ۴۴۹۱۔ اور صحیح المسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلوتہ: بابا تحویل القبلتہ من القدس الی الکعبتہ، حدیث نمبر ۵۳۲)۔

    ترجمہ: ہوایوں کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز(نماز فجر) ادا کر رہے تھے کہ ایک صحابی رسول(مدینہ سے) آے اور کہینے لگے کہ آج رات رسول اللہ(ص) پر قرآن مجید ( سے کچھ حصہ) نازل ہوا ہے۔ جس میں رسول اللہ(ص) کو یہ کم دیا گیا ہے کہ وہ کعبہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھا کریں۔ لہزا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف پھر جاو، اس وقت(وہ لوگ حالت نماز میں تھے) ان کے چہرے شام کی طرف تھے(یعنی مسجد اقصی کی طرف تھے)) چنانچہ اس ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر سب نمازی کعبہ کی طرف پھر گے۔

    مزکورہ بالا دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ جب اللہ کی طرف سے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا تو اس وقت بھی سنت فعلی اور حدیث فعلی پر عمل یرا ہوتے ہوے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اتناع رسول کا بہتری ثبوت فراہم کیا تھا اور جب بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم نزل ہوا تو اس وقت بھی مجسمہ تسلیم وہ رضابن کر انھوں نے اتباع رسول کا حق ادا کیا تھا

    ونعم قال من قال

    سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آے

    نمبر سات: تحویل قبلہ کے موقعہ پر پروپیگنڈا مہم چلانے والے:۔

    تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو منافقین مدینہ اور یہود مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف زبردست پروپیگنڈا مہم شروع کردی اور اس قدر زہریلا پروپیگنڈا کیا کہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ پروپیگنڈا مہم یہ ہی تو تھی کہ کبھی مسلمان شمال کی طرف چہرہ کرتے ہیں اور کبھی جنوب کی طرف ۔ آخر دال میں کچھ کالاکالا ہے۔ ان لوگوں کے پروپیگنڈا کے باوجود جوراسخ العقیدہ اور پختہ ایمان اہل اسلام تھے ۔ انھوں نے اس پروپیگنڈا کی مطلقا پروانہ کی۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالی اپنے احکام کی حکمت خود ہی بہتر جانتا ہے۔ لہزا انھوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔ ان راسخ العقیدہ اور پختہ ایمان والوں کو دیکھ کر مخالفین کے پروپیگنڈا سے متاثر ہونے والے چند کمزور ایمان والے مسلمان بھی سمبھل گے اور پھسلنے پھسلنے سے بچ گے یہ پروپیگنڈا مہم چلانے والے اور آسمان سر پر اٹھانے والے در حقیقت یہودی اور عیسای ہی تھے۔ کیونکہ تحویل قبلہ کا مطلب گویا بیت المقدس کی مرکزیت کو مسلمانوں کے قلوب وازھان سے ختم کر کے بیت اللہ کی مرکزیت کو بحال کرنا تھا۔ اسی لیے بطور خاص یہودی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اس موقع پر سیخ پا ہوئے۔

    چنانچہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

    وَكَانَتِ الْيَهُودُ قَدْ أَعْجَبَهُمْ إِذْ كَانَ يُصَلِّي قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَأَهْلُ الْكِتَابِ، فَلَمَّا وَلَّى وَجْهَهُ قِبَلَ الْبَيْتِ أَنْكَرُوا ذَلِكَ‏.‏‏

    (دیکھیں صحیح البخاری، کتاب الایمان، بابالصَّلاَةُ مِنَ الإِيمَانِ ، حدیث نمبر 40)

    ترجمہ: جب رسول اللہ(ص) بہت المقدس کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہودی اور دیگر اہل الکتاب (یعنی عیسائی) اس پر مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے تھے۔ مگر جب رسول اللہ (ص) نے بیت اللہ کی طرف اپنا رخ زیبا پھیر لیا تو یہ عمل انھیں انتہای ناگوار گزرا۔

    اللہ تبارک وتعالی نے یہود و نصاری اور منافقین مدینہ کی اس پروپیگنڈا مہم کا نہایر خوبصورتی سے دفاع کیا اور بہترین انداز میں جواب دیا

    :قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم

    (سورة البقرة، آیت نمبر ۱۴۲)۔

    ترجمہ: تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، سیدھے رستے پر چلاتا ہے
    اللہ تعالی نے ہمیں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا تھا تو ہم نے اس طرف رخ پھیر لیا تھا۔ اب اگر اللہ تعالی نے ہمیں بیت اللہ کی طرف رخ پھیرنے کا حکم دیا ہے تو ہم نے اس طرف رخ پھیر لیا ہے۔ اللہ کا حکم مان لینا ہی ہدایت والی راہ کو اپنانا ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلا دیتا ہے۔

    نمبر آٹھ: ایک زہنی خلفشار کی تشفی:۔

    بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہو چکے تھے، یا ہم جتنا عرصہ بھی اس طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں تو ان فوت شدگان کی نمازیں اور ہماری نمازیں کیا سب ضایع ہو جاییں گیں۔ یا شاید ان کا اجر وثواب نہیں ملے گا۔

    اللہ تعالی نے اس اشکال کو کافور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا

    وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورة البقرة، آیت نمبر ۱۴۳)۔

    ترجمہ: اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے

    یعنی تمہاری وہ نمازیں ضایع اور بیکار نہیں گیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف چہرہ کر کے پڑھیں ہیں۔ بلکہ تمھیں ان کا پورا پورا ثواب ملے گا۔

    نمبر نو: نماز کے لیے لفظ "ایمان" اور جہاد کے لیے لفظ"دین" کا استعمال:۔

    سورہ بقرتہ کی مزکورہ بالا آیت نمبر :۱۴۳ میں اللہ تعالی نے ارکان اسلام کے ایک رکن اور جز پر"ایمان" کا لفظ استعمال کیا ہے اور جو ایک کلی اور مجموعہ ارکان ہے۔ یہاں نماز کو لفظ'ایمان" سے تعبیر کر کے گویا نماز کی اہمیت و فضیلت کو واضھ کر دیا گیا کہ نماز کے بغیر دین اسلام میں ایمان کی کوی حیثیت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی کبھی کسی خاص رکن اور جزء کی خاص اہمیت کے پیش نظر اس پر"کل" کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے جس کی اہیک مثال تو یہی ہے اور جو اس وقت آیت زیر تفسیر میں ہمارے سامنے ہے کہ نماز جو ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے اس کی خاص اہمیت کی بناپر اس کو لفظ ایمان سے تعبیر کیا گیا ۔ اس کی دوسری مثال رسول اللہ(ص) کی جہاد فی سبیل للہ کے بارے میں مشہور حدیث ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر(رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ(ص) کو یہ فرماتے ہوے سنا

    ترجمہ: جب تم بیع عینہ(کسی چیز کو اس کی اصلی قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھار بیچنا) یعنی سودی کارو بار شروع کر دو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر خوش ہو جاو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالی تم پر زلت مسلط کردے گا اور یہ زلت اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک تم اپنے دین (جہاد) کی طرف نہ پلڑ آو۔

    (حوالہ: صحیح ابو داود ، کتاب البیوع: باب فی النھی عن العینتہ: ۲۹۵۶ ور سلستہ احادیث صحیحتہ ، الحدیث :۱۱)

    مزکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ(ص) نے جہاد فی سبیل اللہ کو دین کہا ہے۔ حلانکہ جہاد فی سبیل للہ کل دین اور مجموعہ دین نہیں ہے، بلکہ اسلام کا ایک جز اور حصہ ہے۔ مگر جہاد فی سبیل للہ کی خاص اہمیت وافضیلت کی بناء پر اس کو لفظ "دین" کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں اس بارے میں اور بھی بہت مثالیں موجود ہیں۔

    نمبر دس: مرتدین کون اور ہدایت یافتہ کون؟

    سورتہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۴۳ سے ایک اہم نکتہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے تحویل قبلہ کی رحمت بالغہ کی وضاحت کرتے ہوے ارشاد فرمایا کہ ہم نے بیت المقدس کو قبیلہ اس لیے مقرر کیا تھا تا کہ پتا چل سکے کہ سنت رسول اور حدیث رسول کی اتباع و اقتدار کون کرتا ہے اور ون ہے کہ جو اپنی ایڑیوں پر پھر جاتا ہے۔ "ایڑیوں پر پھر جانے" کو قرآن وسنت کی محاوراتی زناب میں "ارتداد عن الالسلام " کہا اور سمجھا جاتا ہے"اسرتداد عن الاسلام اور ارتداد عن الدین" کا مطلب ہے کہ دین اسلام سے مرتد ہو جاتا ۔ اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ جو شخص سنت رسول اللہ(ص) اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے۔ وہ سورہ البقرہ کی اس آیت کی رو سے اسلام سے نکل جاتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے۔ جب کہ اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا :اتباع سنت رسول کا عملی ثبوت فراہم کرتے ہوے اپنا قبلہ تبدلیل کرلینا اگرچہ ایک مشکل کام ہے مگر جنھیں اللہ تعالی نے ہدایت سے نوازا ہے، ان کے لیے قطعا مشکل نہیں ہے،

    آیت کے اس آخری حصہ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ اتباع سنت رسول (ص) اور پیروی حدیث رسول(ص) کا عملی ثبوت فراہم کرنے والے ہی دراصل ہدایت پانے والے، صراط مسقیم پر چلنے والے، سیدھی لاین کرنے والے ہدایت یافتہ اور پختہ مسلمان ہیں۔ ان متبعین حدیث رسول کے لیے حدیث و سنت کے پیروی کوی مشکل امر نہیں ہے بلکہ اتباع سنت رسول تو ان کے لیے سرمایہ صد افتخار ہے۔ البتہ بے دینی کی راہ اختیار کرنے والوں،، ٹیڑھی راہ پر چلنے والوں ، لادینیت کے مارے لوگوں ، دنیا اور دنیا کی ٹھاٹ باٹ پر مرنے والوں ، بثظاہر روشن خیال اور کلین شیو قسم کے لوگوں کو اپنا امام و رہبر ماننے والوں ، سنت رسول پر عمل کرنے والوں کا مزاق و تمسخر اڑانے والوں اور اسلام کی مشروع عبادات سے جان چھڑانے والوں کو واقعتا سنت رسول اور حدیث رسول (ص) کی پیروی بہت ہی مشکل ، ناگوار اور گراہ معلوم ہوتی ہے۔

    نمبر گیارہ: بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کیونکر:۔

    علم اصول حدیث کی رو سے سنت اور حدث ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں اور حدیث و سنت کی تین قسمیں ہیں

    پہلی: قولی

    دوسری: فعلی

    تیوری: تقریری

    یعنی

    پہلی: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ"حدیث قولی" کہلاتی ہے۔

    دوسری: جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا وہ "حدیث فعلی" کہلاتی ہے۔

    تیسری: اور جو کام آپ کے سامنے ہوا یا جو بات آپ کے سامنے بیان ہوی اور آہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرمایا وہ "حدیث تقریری یا سنت تقریری" کہلاتی ہے۔

    بیت المقدس کی طرف چہرہ کر کے جتنی بھی نمازیں ادا کی گی وہ سب حدیث فعلی کے تحت تھیں۔ اس کو سنت فعلی بھی کہا جا سکتا ہے۔
    مزید برآں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے رسول کے اس عمل (حدیث فعلی یا سنت عملی) کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں

    ومَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا

Working...
X