اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے۔ اس میں کسی قسم کی کمی و زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اسلام کے نام پرآئے دن ایک ایک چیزیں ایجاد کی جارہی ہیں جن کو بدعت کے نام سے جانتے ہیں ۔حالانکہ قرآن و آحادیث کے اندر بدعت کی بہت زیادہ مذمت بیان کی گئی ہے۔
علماء کرام نے بدعت کی مختلف تعریفیں کی ہیں ان سب تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ: بدعت ایجاد و احداث فی الدین کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐ کے مخالف ہو ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بدعت کی تعریف کی ہے البدعۃ:ماخالفۃ الکتاب والسنۃ اواجماع سلف الامۃ من الاعتقادات والاعمال''بدعت کہتے ہیں :جو کتاب وسنت اور اجماع سلف امت کے مخالف ہو۔چاہے وہ اعتقادات میں سے ہو یا اعمال میں سے ہو۔
قرآن و حدیث میں بدعت کی مذمت
اللہ رب العالمین فرماتا ہے
(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیناً)
''آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا۔اور میںنے تمہارے اوپر اپنی نعمت کو پورا کردیا۔اور میں نے تمہارے لئے بطور دین اسلام کو پسند کیا۔
(المائدۃ:۳)
اس آیت کریمہ کے اندر اللہ نے یہ بتلایا کہ دین مکمل ہو گیا ہے اس میں کمی اور زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے
اس میں کمی اور زیادتی کرنا بدعت ہے۔
اور ایک دوسری جگہ فرمایا
(وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )
''اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے۔سو اس راہ پر چلواور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کے راستے سے جدا کردیں گی۔اس کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔
(الانعام ۱۵۳)
امام شوکانی ؒ : اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ'' صراطی مستقیما'' سے مراددین اسلام کا راستہ مراد ہے۔اور مستقیم ایسے سیدھے راستے کو کہتے ہیں جس میں کچھ ٹیڑھا پن نہ ہو۔یعنی تم ایسے راستے کی اتباع کرو۔اور'' سبل ''سے مراد وہ مختلف راستے مراد ہیں جو تم کو فرقوں میں بایٹ دیں گے اور تم کو اللہ کے سیدھے راستے سے پھیر دیں گے۔اور وہ راستے اہل بدعت،یہود ونصاریٰ اورمجوسیوں کا راستہ ہے۔آحادیث کے اندر بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ؐ نے فرمایا
((مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیہِ، فَہُوَ رَدٌّ))
''جس نے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے''(صحیح البخاری:۲۶۹۷)اور اسی معنی کی ایک دوسری روایت مسلم شریف کی ہے
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ))
''جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ مردود ہے''
(صحیح مسلم:۱۷۱۸)
دین کے اندرہر قسم کی بدعت مردودباطل اور ناقابل قبول ہے۔بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
((کُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار )
دین میں ہر نئی چیزبدعت ہے۔اورہر بدعت گمراہی ہے۔اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
(سنن النسائی:۱۵۷۸)
(۱)
لغت عرب سے ناواقفیت
جہاںکے لوگ عربی زبان کو نہیں جانتے ہیں وہاں بدعتیں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔عوام کے سامنے علماء قرآنی آیات وآحادیث کا غلط مفہوم بیان کرتے ہیں۔ اور عوام اس چیز پر بہت جلد عمل کرنے لگتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہاں کی عوام عربی زبان کو نہیں جانتی ہے۔قرآن وحدیث میں صحیح سمجھ حاصل کرنے کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری ہے۔کیونکہ قرآن کا نزول عربی زبان میں ہوا ہے۔اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے عربی کا جانناضروری ہے۔
(إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ)
''یقینا ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو''
(۲)
علوم دین سے نا واقفیت
جہاں کے لوگ علوم دین کتاب وسنت سے ناواقف ہوتے ہیں صحیح اور ضعیف حدیثوں کے درمیان فرق نہیں جانتے ایسی جگہوں پر بدعتیں پھیلتی ہیں۔ اور اہل بدعت کا طریقہ ہے کہ وہ ضعیف موضوع اور واہی قسم کی حدیثوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیںعوام لا علمی میں ان کی باتوں کو مان لیتی ہے اور آنکھ بند کرکے اس کی باتوں پر عمل کرنا شروع کردیتی ہے۔اور اہل بدعت کے سامنے اگر کوئی صحیح حدیث بھی آتی ہے جو ان کے خواہشات کے مخالف ہوتی ہے تو اس صحیح حدیث سے اعراض کرتے ہوئے ضعیف حدیث کو لے لیتے ہیں۔نبی ؐ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا
(( وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) جس نے جان بوجھ کر مجھ پرجھوٹ باندھا تو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے
(صحیح البخاری:۱۱۰)
(۳)
خواہشات کی اتباع کرنا
بدعت کے پھیلنے کا ایک سبب خواہشات کی اتباع کرنا ہے ۔انسان کا دل جو چاہے اس کو اختیار کرلے گرچہ اس کا وہ عمل قرآن و حدیث کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔یعنی وہ خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنالے ۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا
((أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ وَأَضَلَّہُ اللَّہُ عَلَی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَی بَصَرِہِ غِشَاوَۃً فَمَنْ یَہْدِیہِ مِنْ بَعْدِ اللَّہِ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ )
''کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟جس نے اپنے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے۔اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے ۔اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے ۔اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے ۔اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے ۔کیااب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے ''(الجاثیۃ:۲۳)خواہشات کی اتباع کرنے والوںکی اللہ نے بہت زیادہ مذمت بیان کی ہے۔
(َلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ إِنَّ الَّذِینَ یَضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَاب)
''اور تم اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو۔ ورنہ وہ اللہ کی راہ سے تمہیں بھٹکا دے گی''
(ص:۲۶)
(وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِنَ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ )''اوراس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے؟بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔''
(القصص:۵۰)
(۴)
متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑجانا
اہل بدعت کا طریقہ ہے کہ وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑ کر اس کی تاویل کرتے ہیں۔ اور محکم آیتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد فتنہ پھیلانا اور لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے متشابہ آیتوں کی اتباع کرتے ہیں۔
(فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاء َ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاء َ تَأْوِیلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلَّا اللَّہُ )
''پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے،حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا''
(اٰل عمران:۷)
(۵)
بغیر علم کے کوئی بات کہنا اور بغیر علم کے کسی کی بات کو مان لینا
جہاں کے لوگ علم نہیں رکھتے ہیں وہاں پر بدعتیں پھیلتی ہیں ۔اگر کوئی تھوڑا بہت علم رکھتا ہے اگر وہ کسی چیز کا فتویٰ دیتا ہے گرچہ شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ۔عوام اس پربہت جلد عمل کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہوتی کی انکے پاس علم نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بغیر علم کے باتیں بھی کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی غلط بات بھی شریعت کے نام پر بتاتا ہے تو وہ اس کو مان بھی لیتے ہیں۔ اللہ نے بغیر علم کے بات کرنے سے منع کیا ہے۔ اور یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ کم علم لوگ رائے اور قیاس سے فتویٰ دینے لگیں گے۔
(وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا )
''جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ای سے پوچھا جائے گا
(الاسرائ:۳۶)
( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوا بِاللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَی اللَّہِ مَا لَا تَعْلَمُون)
َ''آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوںکو جو علانیہ ہیں ۔اور جو پوشیدہ ہیں ۔اور گناہ کی بات کو۔اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو ۔اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہ کی ہو۔اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ذمہ کوئی ایسی بات لگادو جس کو تم نہیں جانتے۔''(الاعراف:۳۴)اور نبی ؐ نے فرمایا
( إِنَّ اللہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ النَّاسِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یَتْرُکْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ رب العالمین علم کو لوگوں سے بیکوقت چھین کر قبض نہیں کرے گا۔بلکہ علماء کو قبض کرکے علم کو قبض کرے گا۔یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں بچے گاتو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے ۔ان سے سوال کیا جائے گاتو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو وہ خود گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(صحیح مسلم:۲۰۵۸)
(۶)
شخصیات کے بارے میں غلو سے کام لینا
انبیاء کے علاوہ کسی امام یا پیر کو معصوم عن الخطاء سمجھنا، یا کسی امام یا بزرگ کی تقلید کرنا،یا اسے مقام الوہیت عطاء کرنا یہی ہے شخصیات کے بارے میں غلو سے کام لیناہے۔ اہل بدعت خصوصی طور پر یہ کام انجام دیتے ہیں کہ وہ شخصیات کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں ۔اللہ رب العالمین غلو کرنے سے منع کیا ہے
(یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَی اللَّہِ إِلَّا الْحَقَّ )
''اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ۔اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔
(النساء :۱۷۱)
عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا
(( لاَ تُطْرُونِی، کَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّہِ، وَرَسُولُہُ )
تم میرے بارے میں غلو سے کام مت لینا جیسا کہ نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں غلو سے کام لیا۔
(صحیح البخاری:۳۴۴۵)
(۷)
حق بات کو چھپانا
اہل بدعت کاطریقہ ہے کہ وہ حق بات کوسچ جانتے ہوئے بھی حق بات کو چھپاتے ہیں۔ اور بدعت کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔اللہ ربالعالمین فرماتا ہے
(إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولَئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللَّہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَیَّنُوا فَأُولَئِکَ أَتُوبُ عَلَیْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ )
''جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں ۔ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں ۔اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہوں ۔
(البقرۃ۱۵۹۔۱۶۰)
(۸)
کفار کی مشابہت اختیار کرنا
بہت سارے لوگ ایک دوسرے کا دیکھا دیکھی میں بہت سارے تیوہار مناتے ہیں جس سے کفار کی مشابہت ہوتی ہے۔ مثلا غیر مسلم دیوپاولی مناتے ہیں ۔اور اس موقع پر خوب لائٹنگ کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت مسلمان بھی عید میلاد کے موقع پر لائٹنگ کرتے ہیں۔ اس میں گویا کی ایک طرح کی مشابہت پائی جاتی ہے ۔نبی ؐ نے فرمایا
(مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ )
جو کسی قو م کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ اسی میں سے ہے۔
(سنن ابی داؤد)
(۹)
آباء واجداد کی تقلید کرنا
جہا ں کے لوگ اپنے آباء واجدا کے طور طریقے پر چلتے ہیں ۔ان کی تقلید کرتے ہیں ۔وہاں پر بدعتیں بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی ہیں۔ اور یہ چیز گذشتہ قوموں کے اندر بھی پائی جاتی تھیں۔اللہ نے اس سے منع کیاہے۔
(وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْہِ آبَاء َنَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا وَلَا یَہْتَدُونَ )
''اور ان سے جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو۔ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باب داداؤں کو پایا۔گو ان کے باپ دادا بے عقل اور گم کردہ راہ ہوں۔
(البقرۃ:۱۷۰)
(۱)
بدعت گمراہی کا سبب ہے
جب ایک انسان بدعت میں ملوث ہوتا ہے تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعت اس کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے اور اعمال صالحہ سے اس کو دور کردیتی ہے۔(إِنَّ أَحْسَنَ الحَدِیثِ کِتَابُ اللَّہِ، وَأَحْسَنَ الہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا)بیشک سب سے بہترین بات اللہ کے کتاب کی ہے ۔اور سب سے بہترین ہدایت نبی ؐ کی ہدایت ہے اور سب سے برا امر دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے۔
(صحیح البخاری:۷۲۷۷)
(۲)
بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے
جب ایک انسان بدعتوں کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے (وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضلالۃفی النَّارِ)ہر نئی چیز بدعت ہے ہربدعت گمراہی ہے ۔اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
(سنن النسائی:۱۵۷۸)
(۳)
بدعت انسان کے سارے اعمال کو بربا د کردیتی ۔ے۔ اور اس کا کوئی عمل اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہے۔(مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدّ ٌ)جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ مردود ہے۔
(صحیح مسلم:۱۷۱۸)
(۴)
بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اس سے خالص توبہ کرلے اور اس سے رک جائے ۔(إِنَّ اللَّہَ احْتَجَرَ التَّوْبَۃَ عَلَی کُلِّ َاحب بِدعۃ )اللہ رب العالمین نے ہر بدعتی کے توبہ کو روک رکھا ہے۔
(لاحادیث المختارۃ: المستخرج من الاحادیث المختارہ:۵۴۲۰)
(۵)
بدعت کرنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی کے چہرے کالے ہونگے جس سے ان کو پہچان لیا جائے گا کہ یہ دنیا کے اندر بدعتیں کیا کرتے تھے۔ اللہ رب العالمین فرماتا ہے۔(یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأَمَّا الَّذِینَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ) ''جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ ۔سیاہ چہرے وا لوں سے کہا جائے گا کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟اب اپنے کفر کا عذاب چکھو'' (آل عمران: ۱۰۶)مفسرین اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ جن کے چہرے روشن ہونگے وہ اہل ایمان ہونگے ۔اور جن کے چہرے کالے ہونگے وہ کافر مشرک اور بدعتی لوگ ہونگے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو بدعت سے محفوظ رکھے اور عمل صالح کر نے والا بنائے، آمین۔
علماء کرام نے بدعت کی مختلف تعریفیں کی ہیں ان سب تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ: بدعت ایجاد و احداث فی الدین کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐ کے مخالف ہو ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بدعت کی تعریف کی ہے البدعۃ:ماخالفۃ الکتاب والسنۃ اواجماع سلف الامۃ من الاعتقادات والاعمال''بدعت کہتے ہیں :جو کتاب وسنت اور اجماع سلف امت کے مخالف ہو۔چاہے وہ اعتقادات میں سے ہو یا اعمال میں سے ہو۔
قرآن و حدیث میں بدعت کی مذمت
اللہ رب العالمین فرماتا ہے
(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیناً)
''آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا۔اور میںنے تمہارے اوپر اپنی نعمت کو پورا کردیا۔اور میں نے تمہارے لئے بطور دین اسلام کو پسند کیا۔
(المائدۃ:۳)
اس آیت کریمہ کے اندر اللہ نے یہ بتلایا کہ دین مکمل ہو گیا ہے اس میں کمی اور زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے
اس میں کمی اور زیادتی کرنا بدعت ہے۔
اور ایک دوسری جگہ فرمایا
(وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )
''اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے۔سو اس راہ پر چلواور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کے راستے سے جدا کردیں گی۔اس کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔
(الانعام ۱۵۳)
امام شوکانی ؒ : اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ'' صراطی مستقیما'' سے مراددین اسلام کا راستہ مراد ہے۔اور مستقیم ایسے سیدھے راستے کو کہتے ہیں جس میں کچھ ٹیڑھا پن نہ ہو۔یعنی تم ایسے راستے کی اتباع کرو۔اور'' سبل ''سے مراد وہ مختلف راستے مراد ہیں جو تم کو فرقوں میں بایٹ دیں گے اور تم کو اللہ کے سیدھے راستے سے پھیر دیں گے۔اور وہ راستے اہل بدعت،یہود ونصاریٰ اورمجوسیوں کا راستہ ہے۔آحادیث کے اندر بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ؐ نے فرمایا
((مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیہِ، فَہُوَ رَدٌّ))
''جس نے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے''(صحیح البخاری:۲۶۹۷)اور اسی معنی کی ایک دوسری روایت مسلم شریف کی ہے
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ))
''جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ مردود ہے''
(صحیح مسلم:۱۷۱۸)
بدعت کا حکم
دین کے اندرہر قسم کی بدعت مردودباطل اور ناقابل قبول ہے۔بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
((کُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار )
دین میں ہر نئی چیزبدعت ہے۔اورہر بدعت گمراہی ہے۔اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
(سنن النسائی:۱۵۷۸)
بدعت کے پھیلنے کے اسباب
(۱)
لغت عرب سے ناواقفیت
جہاںکے لوگ عربی زبان کو نہیں جانتے ہیں وہاں بدعتیں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔عوام کے سامنے علماء قرآنی آیات وآحادیث کا غلط مفہوم بیان کرتے ہیں۔ اور عوام اس چیز پر بہت جلد عمل کرنے لگتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہاں کی عوام عربی زبان کو نہیں جانتی ہے۔قرآن وحدیث میں صحیح سمجھ حاصل کرنے کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری ہے۔کیونکہ قرآن کا نزول عربی زبان میں ہوا ہے۔اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے عربی کا جانناضروری ہے۔
(إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ)
''یقینا ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو''
(۲)
علوم دین سے نا واقفیت
جہاں کے لوگ علوم دین کتاب وسنت سے ناواقف ہوتے ہیں صحیح اور ضعیف حدیثوں کے درمیان فرق نہیں جانتے ایسی جگہوں پر بدعتیں پھیلتی ہیں۔ اور اہل بدعت کا طریقہ ہے کہ وہ ضعیف موضوع اور واہی قسم کی حدیثوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیںعوام لا علمی میں ان کی باتوں کو مان لیتی ہے اور آنکھ بند کرکے اس کی باتوں پر عمل کرنا شروع کردیتی ہے۔اور اہل بدعت کے سامنے اگر کوئی صحیح حدیث بھی آتی ہے جو ان کے خواہشات کے مخالف ہوتی ہے تو اس صحیح حدیث سے اعراض کرتے ہوئے ضعیف حدیث کو لے لیتے ہیں۔نبی ؐ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا
(( وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) جس نے جان بوجھ کر مجھ پرجھوٹ باندھا تو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے
(صحیح البخاری:۱۱۰)
(۳)
خواہشات کی اتباع کرنا
بدعت کے پھیلنے کا ایک سبب خواہشات کی اتباع کرنا ہے ۔انسان کا دل جو چاہے اس کو اختیار کرلے گرچہ اس کا وہ عمل قرآن و حدیث کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔یعنی وہ خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنالے ۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا
((أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ وَأَضَلَّہُ اللَّہُ عَلَی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَی بَصَرِہِ غِشَاوَۃً فَمَنْ یَہْدِیہِ مِنْ بَعْدِ اللَّہِ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ )
''کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟جس نے اپنے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے۔اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے ۔اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے ۔اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے ۔اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے ۔کیااب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے ''(الجاثیۃ:۲۳)خواہشات کی اتباع کرنے والوںکی اللہ نے بہت زیادہ مذمت بیان کی ہے۔
(َلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ إِنَّ الَّذِینَ یَضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَاب)
''اور تم اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو۔ ورنہ وہ اللہ کی راہ سے تمہیں بھٹکا دے گی''
(ص:۲۶)
(وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِنَ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ )''اوراس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے؟بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔''
(القصص:۵۰)
(۴)
متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑجانا
اہل بدعت کا طریقہ ہے کہ وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑ کر اس کی تاویل کرتے ہیں۔ اور محکم آیتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد فتنہ پھیلانا اور لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے متشابہ آیتوں کی اتباع کرتے ہیں۔
(فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاء َ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاء َ تَأْوِیلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلَّا اللَّہُ )
''پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے،حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا''
(اٰل عمران:۷)
(۵)
بغیر علم کے کوئی بات کہنا اور بغیر علم کے کسی کی بات کو مان لینا
جہاں کے لوگ علم نہیں رکھتے ہیں وہاں پر بدعتیں پھیلتی ہیں ۔اگر کوئی تھوڑا بہت علم رکھتا ہے اگر وہ کسی چیز کا فتویٰ دیتا ہے گرچہ شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ۔عوام اس پربہت جلد عمل کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہوتی کی انکے پاس علم نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بغیر علم کے باتیں بھی کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی غلط بات بھی شریعت کے نام پر بتاتا ہے تو وہ اس کو مان بھی لیتے ہیں۔ اللہ نے بغیر علم کے بات کرنے سے منع کیا ہے۔ اور یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ کم علم لوگ رائے اور قیاس سے فتویٰ دینے لگیں گے۔
(وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا )
''جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ای سے پوچھا جائے گا
(الاسرائ:۳۶)
( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوا بِاللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَی اللَّہِ مَا لَا تَعْلَمُون)
َ''آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوںکو جو علانیہ ہیں ۔اور جو پوشیدہ ہیں ۔اور گناہ کی بات کو۔اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو ۔اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہ کی ہو۔اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ذمہ کوئی ایسی بات لگادو جس کو تم نہیں جانتے۔''(الاعراف:۳۴)اور نبی ؐ نے فرمایا
( إِنَّ اللہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ النَّاسِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یَتْرُکْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ رب العالمین علم کو لوگوں سے بیکوقت چھین کر قبض نہیں کرے گا۔بلکہ علماء کو قبض کرکے علم کو قبض کرے گا۔یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں بچے گاتو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے ۔ان سے سوال کیا جائے گاتو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو وہ خود گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(صحیح مسلم:۲۰۵۸)
(۶)
شخصیات کے بارے میں غلو سے کام لینا
انبیاء کے علاوہ کسی امام یا پیر کو معصوم عن الخطاء سمجھنا، یا کسی امام یا بزرگ کی تقلید کرنا،یا اسے مقام الوہیت عطاء کرنا یہی ہے شخصیات کے بارے میں غلو سے کام لیناہے۔ اہل بدعت خصوصی طور پر یہ کام انجام دیتے ہیں کہ وہ شخصیات کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں ۔اللہ رب العالمین غلو کرنے سے منع کیا ہے
(یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَی اللَّہِ إِلَّا الْحَقَّ )
''اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ۔اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔
(النساء :۱۷۱)
عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا
(( لاَ تُطْرُونِی، کَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّہِ، وَرَسُولُہُ )
تم میرے بارے میں غلو سے کام مت لینا جیسا کہ نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں غلو سے کام لیا۔
(صحیح البخاری:۳۴۴۵)
(۷)
حق بات کو چھپانا
اہل بدعت کاطریقہ ہے کہ وہ حق بات کوسچ جانتے ہوئے بھی حق بات کو چھپاتے ہیں۔ اور بدعت کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔اللہ ربالعالمین فرماتا ہے
(إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولَئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللَّہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَیَّنُوا فَأُولَئِکَ أَتُوبُ عَلَیْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ )
''جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں ۔ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں ۔اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہوں ۔
(البقرۃ۱۵۹۔۱۶۰)
(۸)
کفار کی مشابہت اختیار کرنا
بہت سارے لوگ ایک دوسرے کا دیکھا دیکھی میں بہت سارے تیوہار مناتے ہیں جس سے کفار کی مشابہت ہوتی ہے۔ مثلا غیر مسلم دیوپاولی مناتے ہیں ۔اور اس موقع پر خوب لائٹنگ کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت مسلمان بھی عید میلاد کے موقع پر لائٹنگ کرتے ہیں۔ اس میں گویا کی ایک طرح کی مشابہت پائی جاتی ہے ۔نبی ؐ نے فرمایا
(مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ )
جو کسی قو م کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ اسی میں سے ہے۔
(سنن ابی داؤد)
(۹)
آباء واجداد کی تقلید کرنا
جہا ں کے لوگ اپنے آباء واجدا کے طور طریقے پر چلتے ہیں ۔ان کی تقلید کرتے ہیں ۔وہاں پر بدعتیں بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی ہیں۔ اور یہ چیز گذشتہ قوموں کے اندر بھی پائی جاتی تھیں۔اللہ نے اس سے منع کیاہے۔
(وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْہِ آبَاء َنَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ شَیْئًا وَلَا یَہْتَدُونَ )
''اور ان سے جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو۔ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باب داداؤں کو پایا۔گو ان کے باپ دادا بے عقل اور گم کردہ راہ ہوں۔
(البقرۃ:۱۷۰)
بدعت کے نقصانات
(۱)
بدعت گمراہی کا سبب ہے
جب ایک انسان بدعت میں ملوث ہوتا ہے تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعت اس کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے اور اعمال صالحہ سے اس کو دور کردیتی ہے۔(إِنَّ أَحْسَنَ الحَدِیثِ کِتَابُ اللَّہِ، وَأَحْسَنَ الہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا)بیشک سب سے بہترین بات اللہ کے کتاب کی ہے ۔اور سب سے بہترین ہدایت نبی ؐ کی ہدایت ہے اور سب سے برا امر دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے۔
(صحیح البخاری:۷۲۷۷)
(۲)
بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے
جب ایک انسان بدعتوں کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے (وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضلالۃفی النَّارِ)ہر نئی چیز بدعت ہے ہربدعت گمراہی ہے ۔اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
(سنن النسائی:۱۵۷۸)
(۳)
بدعت انسان کے سارے اعمال کو بربا د کردیتی ۔ے۔ اور اس کا کوئی عمل اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہے۔(مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدّ ٌ)جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ مردود ہے۔
(صحیح مسلم:۱۷۱۸)
(۴)
بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اس سے خالص توبہ کرلے اور اس سے رک جائے ۔(إِنَّ اللَّہَ احْتَجَرَ التَّوْبَۃَ عَلَی کُلِّ َاحب بِدعۃ )اللہ رب العالمین نے ہر بدعتی کے توبہ کو روک رکھا ہے۔
(لاحادیث المختارۃ: المستخرج من الاحادیث المختارہ:۵۴۲۰)
(۵)
بدعت کرنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی کے چہرے کالے ہونگے جس سے ان کو پہچان لیا جائے گا کہ یہ دنیا کے اندر بدعتیں کیا کرتے تھے۔ اللہ رب العالمین فرماتا ہے۔(یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأَمَّا الَّذِینَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ) ''جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ ۔سیاہ چہرے وا لوں سے کہا جائے گا کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟اب اپنے کفر کا عذاب چکھو'' (آل عمران: ۱۰۶)مفسرین اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ جن کے چہرے روشن ہونگے وہ اہل ایمان ہونگے ۔اور جن کے چہرے کالے ہونگے وہ کافر مشرک اور بدعتی لوگ ہونگے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم سب کو بدعت سے محفوظ رکھے اور عمل صالح کر نے والا بنائے، آمین۔
Comment