ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ طاغوتی طاقتیں اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت اسے فہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کے لئے صف آراء ہو رہی ہیں۔ آج قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ کے فرزندوں میں نسلی اور لسانی تعصبات کو ہوا دے کر ان کی ملّی وحدت کے عظیم الشان قصر میں نقب لگانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ علاقائی عصبیتوں کو اچھال اچھال کر انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جا رہا ہے۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمارے اوجِ ثریا سے قعرِ مذلت تک پہنچنے کے کیا اسباب ہیں؟ ہم جو کبھی رہروانِ قافلۂ حجاز تھے اب بھٹکے ہوئے آہو کی طرح مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے تاریخِ عالم پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ تو ڈالیے۔ ہمیں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ جو قومیں تشکک و افتراق کا شکار ہو گئیں، ان کی عظمت کا سورج گہنا گیا، محکومی ان کی قسمت میں لکھ دی گئی اور زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ خلافتِ عباسیہ کا شیرازہ منتشر ہونے کی دیر تھی کہ ہلاکو خاں نے اس کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔ مغلیہ سلطنت میں انتشار کی ہوا کیا چلی، برطانوی سامراج نے اسے اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ کر تیموری جاہ و جلال کی ٹمٹماتی ہوئی شمع ہی گُل کر دی؛۔
لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمانانِ عالم تاریخ کے ان عبرت انگیز مرقعوں سے کوئی سبق نہیں لے رہے۔ ان کی موجودہ پستی اور بے بسی کا سبب یہی ہے کہ وہ اس سرمدی پیغام کو بھول رہے ہیں جس نے انہیں محبت و اخوت کے ابدی رشتوں میں جکڑ دیا تھا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی صورت میں پرو دیا تھا۔ چشمِ فلک گواہ ہے کہ چودہ سو برس قبل صحرائے عرب کی تپتی ہوئی ریت سے ایک قوم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کا سرمدی پیغام لے کر بگولے کی طرح اُٹھی اور طوفان بن کر پوری دنیا پر چھا گئی۔ وہ جہالت کی اتھاہ تاریکیوں سے نکل کر تہذیب و تمدن کے جگمگاتے ایوانوں میں جا پہنچی اور دنیا میں علم و ادب کی شمع بردار بن گئی۔ اس کے ہاں بندہ و آقا کی تمیز بے معنی ہو گئی۔ رنگ و نسل اور حسب و نسب کا امتیاز مٹ گیا۔ عزت و وقار کا معیار تقوےٰ اور صرف تقوےٰ قرار پایا۔ ؎
نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم! چمن زادیم و ازیک شاخساریم
تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
آج جب ہم عالمِ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ احساس کی لہریں مجسم سوال بن کر پوچھتی ہیں کہ ’’کیا ہم اسی قوم کے فرزند ہیں جسے ’’خیر الامت‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا گیا تھا؟ آج ہماری غیرت و حمیت کو کیا ہوا کہ دوسروں کی دریوزہ گری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں؟ دوسروں کی ذہنی غلامی کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر جب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو اقبالؔ کی روح متاعِ کارواں کے لُٹ جانے پر ماتم کناں نظر آتی ہے اور جب اس لُٹ جانے پر بھی ’’کچھ نہ کھویا‘‘ والی حالت طاری ہرتی ہے تو تڑپ اُٹھتی ہے، آہ ؎ تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم میں احساسِ زیاں پیدا ہو۔ ہم اپنی لٹی ہوئی متاعِ عزیز کو حاصل کرنے کے لئے سعیٔ پیہم کریں اور اپنی عظمتِ گم گشتہ کے دھندلائے نگینوں کو جلا بخشیں۔ مگر یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے اختلافات کی آگ کو محبت و اخوت کے ٹھنڈے چشموں سے بجھا کر ایک ہو جائیں۔ ہمارے جسم اگرچہ جدا جدا ہوں مگر روح ایک ہو۔ ہمارے دل ہم آہنگ ہو کر دھڑکنے لگیں اور دھڑکنوں کے ساز سے ایک ہی نغمے کی لَے پھوٹے کہ ؎ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تبانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی، نہ تورانی، نہ افغانی!
اور ہم اس نغمے کی بازگشت میں شاہراہِ حیات پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں تا آں کہ کامیابیاں ہمارے قدم چومنے لگیں۔ نہ ایرانی رہے باقی، نہ تورانی، نہ افغانی!
اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکا کہ اگر کرۂ ارض پر بسنے والے سر کروڑ مسلمانوں کے دلوں میں وحدتِ ملّی کا احساس اجاگر کر دیا جائے تو وہ آج بھی باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں کہ ان سے ٹکرانے والی قوتیں پاش پاش ہو جائیں۔ اگر آج بھی شمعِ توحید کے پروانے لَا اِلٰهَ کا عقیدہ پختہ کر لیں اور ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘‘ اپنے تمام اختلافات کو دفن کر کے محبت و اخوت کے پھریرے لہراتے ہوئے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں تو دنیا کی کسی قوم میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ہم پر مسلط ہو جائے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہمارے آستانوں پر جُبّہ سائی کرنے پر مجبور ہوں گی۔ پھر یہودیوں کی کیا مجال کہ وہ آنکھ اُٹھا کر بھی مصر کی طرف دیکھیں! بھارت میں کہاں جرأت کہ ہماری سرحدوں کے پاس بھی پھٹک جائے، اسرائیلیوں کا کیا حوصلہ کہ وہ بیت المقدس کو اپنے ناپاک قدموں تلے روندیں۔
آج جب کہ مسجد اقصےٰ سے اُٹھنے والے دھوئیں نے مسلمانوں کی آہوں میں آگ بھر دی ہے۔ بیت المقدس کی سرزمین حرم کے پاسبانوں کو پکار رہی ہے کہ اے اہلِ وفا! تم کہاں ہو؟ آؤ اور میری حرمت کو پامال کرنے والوں کو نیست و نابود کر دو۔ تو دنیائے اسلام کو وقت کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت کی راہ پر گامزن ہو جانا چاہئے اور حرم کے دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے۔