Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عاق نامہ کی شرعی حیثیت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عاق نامہ کی شرعی حیثیت

    عاق نامہ کی شرعی حیثیت


    ہم آئے دن اخبارات میں ’’عاق نامہ‘‘ کا اشتہار پڑھتے ہیں۔ کیا والد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے نافرمان بیٹے کو اپنی وراثت سے محروم کر دے؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقۂ کار اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے، اس میں کسی کو ترمیم و اضافے کا حق نہیں ہے۔

    جو حضرات قانونِ وراثت کو پامال کرتے ہوئے آئے دن اخبارات میں اپنی اولاد میں سے کسی کے متعلق ’’عاق نامہ‘‘ کے اشتہارات دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑے خوفناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کہیں تو عورتوں کو مستقل طور پر وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور کہیں دوسرے بچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف بڑے لڑکے ہی کو وراثت کا حق دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ضابطۂ وراثت کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔

    ارشادِ باری تعالیٰ ہے

    ترجمہ

    مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں، باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ، اس میں ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔

    النساء 7:4


    اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین وراثت نے ان وجوہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جو وراثت سے محرومی کا باعث ہیں، ان میں والدین کا نافرمان ہونا کوئی شرعی مانع نہیں ہے جس کی بنا پر بیٹے یا بیٹی کو وراثت سے محروم کر دیا جائے، اس لیے بلاوجہ شرعی عذر کسی وارث کو محروم نہیں کرنا چاہیے۔

    مختصر یہ کہ اگر بیٹا نافرمان ہے تو وہ اس نافرمانی کی سزا اللہ کے ہاں ضرور پائے گا، لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی جائیداد سے محروم کر دے۔ بعض لوگ محض ڈرانے دھمکانے کے لیے ایسا کرتے ہیں، لیکن ایسا کرنا بھی بعض اوقات کئی قباحتوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر رائج الوقت ’’عاق نامہ‘‘ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔


Working...
X