رویہ
رویہ اور سلوک ایسی چیز ہے جس سے انسان معزز بھی بنتا ہے اور قابل نفرت بھی مختلف دلوں کو جیت تا بھی ہے اور انکے اندر اپنے خلاف نفرت کا بیج بھی بوتا ہے ۔مختلف نفوس میں اپنے لیئے محبت بھرے نظریات بھی پیدا کرتا ہے اور انکے اندر اپنے لیئے کدوت کے کھردرے درخت بھی اگاتا ہے ۔ اسی رویہ سے اپنے حلقہ یاراں کو وسیع بھی کرسکتا ہے اور اس حلقہ کو اتنا تنگ بھی کرسکتا ہے کہ جس کے اندر بسنے والا صرف وہ ہی ہو ۔جس کی موجودگی سے مجلسوں کو معطر تصور کیا جاتا ہے ایسا بھی بن سکتا ہے اور ایسا بھی بن سکتا ہے کہ جس کے وجود سے کفت محسوس کی جائے
اپنی عدم موجودگی میں اپنے بارے میں اچھے کلمات کہنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی کرسکتا ہے اور ایسے بھی بن سکتا ہے کہ اسکی غیر موجودگی کو ہی اپنے لیئے عافیت تصور کیا جائے ۔دنیا سے جاتے وقت، میت چار پائی پر سوتے وقت اپنے مادح بھی چھوڑ سکتا ہے اور سکھ کی سانس لینے والے بھی ، اس سفر کے پر نکلتے وقت کئی دلوں کو ویران کئی حسین صبح اور شاموں کو بے آباد اور کئی آنکھوں کو آنسوں کا تحفہ بھی دے سکتا ہے اور کئی آنکھوں کے لیئے اس موقعہ کو راحت و خوشی کا باعث بنا سکتا ہے۔
اب انسان کی مرضی ہے کے جونسا راستہ اختیار کرے کوئی سا بھی رویہ اپنا لے ان دونوں میں کسی بھی کردار کا غازی بن جائے اپنے اچھے رویہ سے دنیا والوں کے دلوں میں محبت کے باغ اگھاتا جائے یا پھر اپنے ترش رویہ کی بنا پر لوگوں کو اپنی موت کا منتظر وطالب بنا ڈالے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے بارے میں فرمایا تھا "مستریح او مستراح منہ " یا تو یہ میت دنیا کی تکالیف ومصیبتوں سے جان چھڑاکر جا رہی ہے یا پھر اس سے لوگ کی جان چھوٹ گئی ۔
رویہ ایسی چیز ہے کہ انسان کسی ادارے کے اندر دسیوں بیسیوں سال کیوں نہ گذاردے تب بھی اس رویے سے متنفر ہوکر اس ادارے کو خیر باد کہہ دیتا ہے جس کو پرواں چڑہانے میں اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کردیا ہمہ وقت اس ادارے کی ترقی کے لیئے سوچ وفکر میں رہتا تھا جس کی کامیابی کو وہ اپنی کامیابی تصور کرتا تھا صرف اس ناروا سلوک نے اسکو اس انداز سے الگ کردیا جس طرح ایک باغ کے مالھی کے کو اسکے باغ کے تیار ہوکر پھل دینے کے موقعے پر الگ کردیا جائے کیا گذرے گی اس مالھی پر کیا سوچے گا وہ مالھی ۔ کتنی افسوس کی بات ہے
یہی رویہ ہے جو باادب شاگرد کو استاد سے متنفر کردیتا ہے جو استاد اس سے غلط رویہ سے پیش آئے تو استاد کے سامنے نظر اونچی کرنے کو گستاخی تصور کرنے والا بھی ایک دم باغی بن جاتا ہے اس میں اس شاگرد کا قصور نہیں بلکہ سارا عمل دخل رویہ کا ہے ۔
یہی رویہ ہے جو ایک آقا سے محبت کرنے والے غلام کو ( جس نے اپنی زندگی کا مقصد اپنے آقا کی حفاظت کو بنا لیا ) اس آقا کا جاں لیوا دشمن بنادیتا ہے
یہی رویہ ہے جو ایک بچے کو اپنے خاندان سے باغی بنادیا کرتا ہے جب اسکے ساتھ امتیازی سلوک برتا جائے اسکو کوئی اھمیت نہ دی جائے اور اسی کے طبقے کے اور بچوں کو اس پر فوقیت دی جائے تو یہ اس نامناسب رویہ کے بنا پر اپنے والدین کا باغی بن جاتا ہے اپنے مان باپ کے گھر کو (جہاں اسکی پرورش ہوئی ) الوداع کہہ کر فٹ پاٹھ کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے کتنی دکھ کی بات ہے
یہی رویہ ہے جو میاں بیوی کے درمیاں طلاق واقع کروادیا کرتا ہے بسا اوقات بیوی اس ناروا سلوک سے بد ظن ہوکر خودکشی جیسا بھیانک جرم کر گذرتی ہے
دوسری طرف یہی رویہ ہے جو انتھائی مخالف کو آپکے قریب کردیتا ہے ایسا مخالف جو کچھ دیر پہلے آپ کے خون کا پیاسی تھا لیکن آپ کے رویہ نے اسکو آپ کا جگری دوست بنا دیا ۔ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو کس چیز نے موم بنا دیا حالانکہ کچھ دیر قبل اسکے کیا تبصرے تھے اسلام کے بارے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاندار رویہ نے اس پر ایسا اثر کیا کہ اسکے نظریات یکا یک چینج ہوکر رہ گئے ،
معلوم ہوا کہ یہ رویہ ہے جو انسان کو اتنا متنفر کرتا ہے کہ مشرق و مغرب کی سی دوری ڈالدیا کرتا ہے اور یہی رویہ ہے جو مشرق و مغرب کی دوری کو یکایک ختم کردیتا ہے ۔
لھذا اکابرین ، وذمہ داران کو سوچنا چاھیئے کہ کہیں انکے رویہ سے کوئی بدظن تو نہیں ہو رہا کہیں انکا رویہ خطرناک ثابت ہونے تو نہیں جارہا
ہاں یہ بات تو مسلم ہے کہ کوتاہی تو ہرایک سے ممکن ہے لیکن پھر ذمہ دار اور بڑے کو چاہیئے کے اپنی انا پرستی کو شکست دیتے ہوئے اچھا رویہ اپنا تے ہوئے معاملے کو احسن انداز سے حل کرلے ۔
اللہ رب العالمین نے اپنے پیارے نبی کو یہی فرمایا کہ اللہ کی رحمت کی وجہ سے آپ کا رویہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا رہا اور اگر آپ سخت دل ہوتے تو ان صحابہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہ ہوتا سب آپ کے رویہ کی وجہ سے آپ کو چھوڑ جاتے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم شخصیت کو یہ کہا جارہا ہے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں ؟
اور اگر بڑے، ذمہ دار اپنی انا پر قائم رہے اپنے رویہ میں تبدیلی نہ لائی تو وہ دن دور نہیں کہ ایک اچھا خاصہ چلتا ہواادارہ اجڑ جائے گا ایک آباد گھرانہ ویران ہوکر رہ جاے گا میاں بیوی کی محبتیں نفرتوں میں تبدیل ہوجائیں گی ایک ہنستہ مسکراتا خاندان ماتم و سوگ کی کیفیت سے دوچار ہوجائے گا پھر اس وقت کا پچھتاوا کسی کام کا نہ ہوگا لھذا ہمیں جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کے بجا*ء کچھ دو کچھ لو والی پالیسی اپنانا ہوگی کیونکہ جارحانہ پالیسی اختیار کرنے والا دور جاچکا