بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا آپ انڈونیشی خادمہ جُمانہ کو جانتے ہیں؟
مندرجہ ذیل قصہ ایک عرب خاتون کے ذاتی مشاہدے اور محسوسات پر مبنی ہے، اُسی کی زبانی سنیئے
جُمانہ میری ایک سہیلی کے گھر کام کرنے والی انڈونیشی خادمہ کا نام ہے جو ایک گھر یلو ملازم ڈرائیور کی بیوی ہے۔ میں ہمیشہ اُسے اپنی سہیلی کے گھر میں کام کرتے دیکھتی تھی۔ جب بھی جاتی تو بچوں سے بھرپور گھر میں کام کرتے ہوئے اُس کے چہرے پر تھکن کے آثار ہی پاتی۔ آخر ایسا کیوں کر نہ ہوتا، بیچاری کی عمر بھی تو پچپن سال ہو چلی تھی اور اوپر سے شوگر جیسے مرض میں بھی مُبتلا تھی۔
ایک دِن میں نے اپنی سہیلی سے پوچھ ہی ڈالا کہ ابھی اسکی عمر آرام کرنے کی ہےکیا؟ میری سہیلی نے جواب دیا؛ ہاں کہتی تو ٹھیک ہو مگر بیچاری کے بچے ابھی سکول اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں اور یہ خود ہی مزید کام کرنا چاہتی ہے، اللہ اَس کے حال پر رحم فرمائے۔ آخری بار جب میں اپنی سہیلی کے گھر گئی تو جُمانہ کی جگہ پر کسی اور نوکرانی کو کام کرتے پایا، میں نے حیرت سے پوچھا جُمانہ کدھر ہے؟ میری سہیلی نے مسکراتے ہوئے ہوئے کہا، جُمانہ واپس اپنے مُلک چلی گئی ہے بیچاری نے بڑی کٹھن زندگی گُزاری تھی مگر اب اُس نے اپنے سارے مقاصد اور ساری دلی خواہشات پوری کر لی ہیں لہٰذا اب وہ آرام کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب کُچھ بتاتے ہوئے میری سہیلی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اُتر آئی تھی اور چہرے پر آئی گہری مسکراہٹ کو نظر انداز کرنا میرے لئیے ناممکن تھا۔ میں نے اپنی سہیلی سے پوچھا، کیا بات ہے؟ کُچھ چھپا تو نہیں رہی ہو؟ اُس نے کہا نہیں تو! جُمانہ نے اپنی زندگی کے سارے مقاصد حاصل کر لئیے تو اُسے مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی، اس لیئے وہ کام سے جواب دیکر واپس چلی گئی ہے اور اطمینان سے اپنے گھر رہ رہی ہے۔ میرا سہیلی کا یہ جواب بھی لگ بھگ پہلے جواب جیسا تھا، بات واضح نہیں ہو رہی تھی، میں نے دوبارہ پوچھا؛ کیا مقاصد تھے جُمانہ کے؟ بچوں کی تعلیم؟ کر لی ہو گی نا یونیورسٹی سے گریجوایشن اُس کے بچوں نے؟
میری سہیلی اُٹھ کر گئی اور الماری کی دراز میں سے ایک مسجد کی تصویر اُٹھا لائی۔ ایک چھوٹی سی مگر انتہائی خوبصورت مسجد، اور تصویر میں مسجد کے داخلی دروازے کے پاس سفید
سنگ مرمر کی ایک تختی پر کالے رنگ سے لکھا ہوا تھا
’مسجد جُمانہ‘۔
میں نے پوچھا؛ یہ کیا ہے؟ میری سہیلی نے کہا؛ یہ ہے جُمانہ کی زندگی کا مقصد جو اُس نے اِس مسجد کو تعمیر کر کے اب حاصل کر لیا ہے۔ اتنی کٹھن اور پُرمشقت زندگی گزار کر، اپنے خون اور پسینے کی کمائی کو اکٹھا کر کے وہ ایک مسجد بنانا چاہتی تھی تاکہ یہ مسجد اُسکی زندگی میں برکت اور اُسکی موت کے بعد ایک صدقہ جاریہ کے طور پر قائم رہے۔ یہ سب کُچھ سُننے کے بعد یکا یک مُجھے اپنی ساری دُنیا داری نظر آ گئی اور میں اپنی نظروں میں گرتی ہی چلی گئی۔ میرے سامنے ایک پُروقار اور عظیم عورت کا نقشہ آ گیا جس کے سامنے میری حیثیت ایک پستہ قد بونی کی سی تھی اور یہ شخصیت کسی اور کی نہیں ایک نوکرانی کی تھی جسکا نام تھا جُمانہ، انڈونیشی خادمہ جُمانہ۔
اِس خادمہ نے اپنی زندگی کا ایک مقصد مقرر کیا تھا، اپنی آخرت کیلئے ایک عظیم و نبیل مقصد۔ جو محض خواب نہیں تھا جس کی صرف تمنا کی جا سکے۔ یہ ایک مشکل مقصد ضرور تھا مگر اُس نے اسکے حصول کیلئے جانفشانی، مستقل مزاجی، لگن اور ہمت و جذبے کے ساتھ کام کیا تھا۔
اس خبر نے تو مُجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گئی تھی کہ اگر یہ ایک ان پڑھ اور عجمی عورت کا مقصدِ حیات ہو سکتا ہے تو! ہم عربوں کی زندگی کے کیا مقاصد ہیں جو قرآن پڑھنے کی مہارت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ علم و ادب کی ابتداء اور منبع ہی ہم ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دُنیا جہان کی نعمتوں کی فراوانی اور رحمت کی بارش جس طرح ہم پر برسائی ہے شاید ہی اسکی مثال کہیں اور ملے۔ تو پھر آخر ہم نے اپنی زندگی کے مقاصدکیا بنا رکھے ہیں؟ یہی ناں کہ
میرا گھر میرے بھائی کے گھر سے بڑا بن جائے؟
ہماری کار بھائی کی کار سے زیادہ قیمتی ہونی چاہیئے؟
ہماری تجارت دن بدن پھیلتی جائے؟
میں اپنے بچوں کو ڈاکٹری یا انجیئرنگ کی تعلیم دلا دوں تاکہ ڈاکٹر یا انجینئر کی ماں کہلا سکوں؟اور کُچھ نہیں تو گھر میں بیٹھ کر اپنی سہیلیوں، ہمسائیوں، دور و قریب کے رشتہ داروں کی خانہ خرابیوں کے پلان بنانا، اور یہ ثابت کر کے رہنا کہ وہ لوگ ایک ناکام زندگی گزار رہے ہیں اور میں اُن سب سے زیادہ کامیاب اور خوش و خرم رہ رہی ہوں؟
فی الحال تو میرا مقصد اپنی ایک عزیزہ کی شادی میں شرکت کے موقع پر سب سے اچھا اور منفرد لباس زیب تن کرنا اور سب سے قیمتی جواہرات کا سیٹ پہننا ہے۔ اس سے کم پر سمجھوتا تو ہرگز ہو ہی نہیں سکتا تاکہ سارے حاضرین ایک بار تو یہ ضرور کہہ اُٹھیں کہ میں سب سے منفرد لگ رہی تھی! وغیرہ وغیرہ۔مقاصد پر غور و فکر کرنے کیلئے کون فارغ ہے؟ نوکرانی رکھو، بیٹھ کر چیونگم چباؤ، ٹیلیفون پر گپیں ہانکو، نیٹ گردی کرو، اور ہو سکے تو وقتاً فوقتاً جمانہ جیسی نوکرانیوں پر پورے دبدبے اور رعب کے ساتھ اپنی دھونس جماؤ، اُن کی توہین اور بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نا پائے، ایسے ہی تو تسکین ہو سکے گی مجھ جیسے فارغ اور نفسیاتی مریض ذہن کی۔مانا کہ ہمارے متعفن اور بدبو دار، جراثیموں کی کثافت سے لتھڑے ہوئے دماغ اس سے زیادہ سوچ تو نہیں سکتے، مگر یقین کیجئے جمانہ کے قصے نے میرے دماغ پر پڑے ہوئے پردے کو ہٹایا ہے، میں اس قصے کو کسی اور سمت سے دیکھ رہی ہوں۔ میرے ذہن میں ایک میزان سا قائم ہو گیا ہے جس پر بہتر اور کمتر کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ پتہ تو چلے کون کس سے زیادہ بہتر ہے؟ یا پھر دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ: کون گھاٹے میں ہے اور کون فائدے میں ہے؟
دنیا داری کا موازنہ محسوس کیا جا سکتا ہے، دیکھا جا سکتا ہے، پرکھا جا سکتا ہے۔ مگر آخرت کیلئے کیئے گئے کاموں کا موازنہ تو ایمانی ہوتا ہے، گویا ایک غیبی یا نا نظر آنے والا فائدہ۔ تو پھر کون بتائے گا کہ گھاٹے میں کون رہا اور فائدے میں کون رہا؟
آئیے چند ایک مثالیں دیکھتے ہیں شاید بات سمجھ میں آ جائے اور گھاٹے اور فائدے میں رہنے والوں کا فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔
سمیہ اُم عمار کو ابو جہل اذیتیں دے دے کر مار ڈالتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں؛ آل یاسر صبر کرو، تمہارا ٹھکانہ جنت میں ہے۔صہیب بن سنان نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اُٹھا کر قریش کو دیدی تاکہ وہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہجرت کر کے جانے دیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ملتے ہیں تو فرماتے ہیں: ابو یحیٰ منافع کا سودا کر کے آئے ہو۔
ابن ملحان کو پیچھے سے کمر میں تیر آ کر لگتا ہے جو سامنے سے سینے کو پھاڑتا ہوا باہر نکل جاتا ہے اور وہ ہیں کہ خوشی سے چلا چلا کر کہہ رہے ہیں؛ رب کعبہ کی قسم، میں جیت گیا۔
مشہور جلیل صحابی ذوالبجادین (عبداللہ المزنی) سے اُسکے چچا نے سارا مال متاب چھین کر بھگا دیا۔ اور جب انہوں نے وفات پائی تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود اُس کی قبر میں اُترے اور دُعا فرمائی؛ اے اللہ میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔ ابنِ مسعود کہتے ہیں اے کاش اُس قبر میں ذوالبجادین کی جگہ میں پڑا ہوتا۔
ہو سکتا ہے اھلِ دُنیا کی نظروں میں یہ سب لوگ گھاٹے میں رہے ہوں! لیکن آخرت کی ترازو پر انہوں نے بہشتِ بریں کو جیتا ہے۔
دُنیا میں حاصل کئیے ہوئے فوائد آخرت میں گھاٹے کا سبب بھی بنتے ہیں۔، جس طرح کہ حرام کی ہر کمائی اور اُس کمائی کے فوائد آخرت کیلئے خسارہ ہیں۔ یہاں پر میں بادشاہ، اُسکے جادوگر اور ایک لڑکے (اصحاب الاخدود) کے مشہور قصے کا حوالہ دینا چاہونگی؛ آپ لوگ جانتے ہیں کہ کس طرح خود لڑکے کے کہنے پر بادشاہ نے ’بسم رب الغلام‘ کہہ کر تیر چلایا تو لڑکے کی جان چلی گئی ورنہ تو اُسے مارنا ممکن ہی نہ رہا تھا۔ لڑکا کیا مرا لوگوں نے بآواز بلند اقرار کر دیا کہ ہم بھی لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ہیں۔ بظاہر لڑکے کے مر جانے سے بادشاہ جیت گیا، مگر اُسکی یہ جیت آخرت کے بڑے خسارے سے پہلے ہی گھاٹا اور خسارہ بن گئی، بادشاہ کو اپنی حکومت، اپنی رعایا اور اپنے مال و متاب کا بھی گھاٹا اُٹھانا پڑا۔ گویا حقیقت میں یہ لڑکے کی جیت تھی۔
آئیے دوبارہ جُمانہ کے قصے کی طر ف لوٹتے ہیں؛ اس فانی دنیا میں جمانہ نے گھاٹے ہی گھاٹے اُٹھائے۔ اپنی صحت کا خسارہ اور گھاٹا اُٹھا کر اپنی جمع پونجی خرچ کر کے ایک مسجد بنا ڈالی، جس سے اس دُنیا میں تو نہ کوئی مفاد حاصل ہوگا اور نہ ہی اُسے اِس سے کوئی روزی روٹی ملے گی۔ مگر آخرت کے میزان میں جمانہ نے بڑے منافع کا بندوبست کیا ہے، اُس نے مسجد بنا کر اپنے لئے ایک صدقہ جاریہ کا اہتمام کر ڈالا ہے، ایک نہ ختم ہونے والے فائدے کا سلسلہ۔ مسجد قائم رہی تو انشاءاللہ اللہ کا ذکر ہوتا رہے گا اور اگر اللہ کا ذکر اور نام بُلند ہوتا رہا تو فائدہ در فائدہ ملتا رہے گا۔
گھاٹے میں تو وہ لوگ رہیں گے جو جمانہ اور جمانہ جیسی دیگر خادماؤں کو حقارت و اہانت کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں، ظلم و تشدد کی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اُنکے راحت و آرام کو غارت کرنے کی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے، بلکہ بس چلے تو اُنکے حقوق دبا لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایسے لوگ سراسر گھاٹے میں ہیں چاہے معاملہ کسی نوکرانی کے حقوق غصب کرنے کا ہو یا ہاتھوں میں آئے لاکھوں کروڑوں روپوں کو خُرد و بُرد کرنے کا۔ یہ سب کُچھ اُن کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں دے گا چاہے یہ خاسر کوئی بھی ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کو اُسکی سوجھ کے مطابق قائم خدائی یہاں پانی میں غرق ہونے سے نہ بچا سکی اور نہ وہاں آخرت میں جہنم برد ہونے سے، بلکہ رہتی دُنیا تک بنی نوع آدم کیلئے بنا عبرت کا نشان یہ فرعون آج بھی موجود ہے۔ قارون کے خزانوں کا حساب تو نہیں ہے مگر خزانوں کی چابیوں کو اُٹھانے کیلئے جو لاؤ و لشکر چاہیئے ہوتا تھا اس سب کُچھ کو ، اُسکے خزانے اور اُسکی بنائی ہوئی جنت بے نظیر سمیت زمین میں دھنسا کر عبرت کا نشان بنایا گیا۔
یاد رکھیئے روزِ قیامت مال و متاب اور آل و نسب کسی کام نہیں آئیں گے (جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکا گا اور نہ بیٹے ۔ ہاں جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا)) ۔ اور یہ پاک دِل یقیناً وہ دِل ہوتا ہے جو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنے لئے ایک منزل اور ایک مقصد مقرر کرے، یہ منزل اور مقصد اللہ کی خاطر ہو اور مفاد آخرت کیلئے۔
جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دیں گے۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے۔ اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا
(٢الشوری ۔ آیت 20٠)
تو پھر کس کھیتی کو پسند کیا جائے؟ دُنیا کی یا آخرت کی؟ صحابہ کرام نہایت ہی حیرت سے ساتھ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے؛ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایسے لوگ موجود رہیں گے جو دُنیا کی کھیتی کی خواہش کریں گے۔
دیکھ لیجیئے؛ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنا راستہ اور اپنا مقصدِ حیات مقرر کر لیں۔ سیدھا راستہ اور صحیح مقصد تو یہی ہے کہ اللہ کی طرف لوٹا جائے۔ ہمارا ہر کام اُس کی رضا کا حصول ہو تاکہ ہمیں آخرت میں فلاح اور کامیابی نصیب ہو۔ اگر مقصد اللہ کے سوا کُچھ اور ہوا تو ہماری نمازیں، روزے، صدقہ اور خیرات صرف سراب اور دھوکہ سے زیادہ کُچھ نہیں ہونگے۔
اللہ ہم سب کو دُنیا اور آخرت میں کامیابی اور بھلائی عطا فرمائے- آمین یا رب!