تعدد ازدواج کے اثرات و نتائج
یہ ایک مسلم امر ہےکہ تعدد ازدواج کو اسلام میں ایک باوقار ادارے اور رسم کی حیثیت حاصل ہے- اس لیے مسلمان عورت کا اس کے بارے میں منفی رد عمل غیر مناسب اور غیر معقول ہے- اس لفظ سے چڑنے کی ضرورت ہے نہ اس کے جواز پر ناک بھوں چڑھانا چاہیے- جب اسے ایک معاشرتی، دینی، اور خاندانی تقاضے کے طور پر اختیار کرنا ہی پڑتا ہے تو ہمیں اس کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور لوازمات کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر پورا کرنا چاہیے- ذیل میں دیے گئے چارٹ میں ہم تعدد ازدواج کے بنیادی اجزاء اور ان سے پیدا ہونے والے جذبات اور اثرات کا جائزہ پیش کررہی ہیں- ان شاءاللہ
نمبر شمارہ | تعدد ازدواج | نتائج و اثرات |
1 | شوہر کی ذات میں شرکت گوارا نہیں | ناکافی توجہ ملنا، کشیدگی پیدا ہونا، بیگانگی اجنبیت کا احساس جنم لینا، بے وفائی و دھوکے کا احساس ہونا اور رنج و غم محسوس کرنا |
2 | وقت کی تقسیم | رفاقت میں کمی، وقت=محبت، توجہ حاصل کرنے کی طلب بڑھ جانا |
3 | محبت کی تقسیم | غصہ آنا، ناپسندیدہ سوچيں پیدا ہوجانا، وہم اور وسوسوں کا ہجوم، دھوکہ کھاجانے کا احساس اور جذبات مجروح ہونا |
4 | جنس کی تقسیم | خود غرضی، قربت کی اشد ضرورت محسوس کرنا اور جذبہ مسابقت میں شدت آجانا |
5 | بچوں کی تقسیم | یہ خوف کہ دوسری کے بچے میرے بچوں سے زیادہ سمارٹ یا خوبصورت ہوں گے، محبت اور وقت کے ضائع ہوجانے کا احساس اور جنس کو بہت بڑی حقیقت سمجھنے لگنا |
6 | اخراجات و مصارف میں شرکت | زیادہ رقم ملنے کی خواہش اور اس میں کمی پر تشویش |
7 | نصب العین میں شرکت | خود کو خطرے میں سمجھنا، اپنی رائے کے بے وقعت ہوجانے کا احساس اور حالات کی تبدیلی کے لیے نئی عورت کو ذمہ دار ٹھہرانا |
اب ہم نمبر کے حساب سے ان نتائج پر تبصرہ کریں گے۔ ان شاءاللہ
1۔ نئی بیوی کے آجانے پر ہوسکتا ہے شوہر پہلی بیوی کو کو کچھ عرصہ نظر انداز کردے کیونکہ نئے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اسے وہاں زیادہ وقت گزارنا پڑے گا اور پرانے تعلقات کی آبیاری میں کوتاہی ہونے لگے- وہ محسوس کرتی ہے کہ میں اپنے شوہر کے نئے احساسات یا اس کی زندگی کا حصہ نہیں رہی- وہ اس کی توجہ میں کمی اور بیگانگی کو کئی طریقوں سے محسوس کرسکتی ہے- یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کن کیفیات میں سے گزر رہی ہے- بہت سی عورتیں یہ سمجھ لیتی ہیں کہ شوہر نے بے وفائی اور دھوکہ کیا ہے- جو محبت اس کے لیے مخصوص تھی وہ اب کسی اور کو مل رہی ہے- رنج و غم کو تعدّد ازدواج کے آغاز کا مدرتی حصہ سمجھا جاتا ہے، اس دوراں میں اسے اپنی زندگی میں جس تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اس سے اس کے مطابق ڈھلنا پڑتا ہے-
2- جب وقت کی تقسیم عمل میں آتی ہے تو رفاقت میں کمی آجانا یقینی امر ہوتا ہے- کیونکہ انہوں نے جو عادات مشترکہ طور پر اختیار کی تھیں، وہ اب مشترک نہیں رہیں، جنسی تعلقات، ہنسی مزاح اور کھیل کود وغیرہ جس کے وہ دونوں عادی تھے، اب کچھ عرصہ کے لیے معطل ہوگیا ہے- اس خانے میں ہم نے وقت =محبت کی جو مساوات ظاہر کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹائم تقسیم ہونے سے محب بھی منقسم ہوگئی یعنی ادھوری رہ گئی ہے- اس لیے اس کے دل میں اس ٹائم کے ہر سیکنڈ کو واپس لانے کی خواہش بڑھ جائے گی، اور اس کی کوشش ہوگی کہ اسے یہ ٹائم برابر یا مناسب طور پر واپس ملے-
3- محمبت کی تقسیم، بہت سی عورتوں میں شدید رد عمل کا باعث بنتی ہے- غصہ احساس فریب اور جذباتی وحم کا بہمی تعامل، پر مردگی یا افسردگی (ڈپریشن) کو جنم دیتا ہے- بعض عورتیں کئی قسم کے وسوسوں کا شکار ہوجاتی ہیں- انہین شکایت ہوجاتی ہے کہ وہ میرے ساتھ کہیں آتا جاتا نہیں، فون پر بھی بات نہیں کرتا، شدید جھنجھلاہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے اور حواس جواب دے جاتے ہیں- انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں، کیا نہ کریں؟
4- جنس اور جنسی جذبے کے بٹ جانے سے اکٹر متضاد احساسات جنم لیتے ہیں- بعض عورتیں خود غرض ہوتی ہیں اور کسی قیمت پر شوہر کی جنسی توجہ کی تقسیم نہیں چاہتیں- یہاں کہا جاسکتا ہے کہ "جنس=محبت" کے فارمولے کا اطلاق ہوجاتا ہے- وہ سخت مسابقت پر اتر آتی ہیں- بیڈ روم کے معاملے میں پنی سوکن سے ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتیں اور چاہتی ہیں کہ انہیں خاوند کا لمس اور چاہت حاصل رہنے کی بار بار یقین دہائی کرائی جاتی رہے-
5- بچوں کی تقسیم سے مراد یہ ہے کہ شوہر کی ایک سے زائد بیویاں اپنے بچوں کو جنم دیں گی تو ان میں سے ہر ایک کی خواہش یہ ہوگی کہ میرے بچے زیادہ ذہین اور لائق ہونے چاہییں اور ساتھ ہی یہ خوف بھی ہوگا کہ دوسری کے بچے زیادہ سمارٹ اور زیادہ خوبصورت ہوئے تو اس کو اور اس کے بچوں کو زیادہ محبت ملے گی- میں اور میرے بچے کم محبت پائيں گے- مجھے ملنے والا وقت بھی کم ہوجائے گا اور میں نظر انداز کردی جاؤں گی- میں اس حال کو اس لیے پہنچی ہوں کہ میری جنسی کشش اسے متاثر نہ کرسکی-
6- اخراجات اور مالی وظیفے کی تقسیم ایک اور مساوات کو سامنے لے آتی ہے " وظیفے کی رقم/ اشیاء صرفف= محبت" پہلی بیوی کا انداز فکریہ ہوتا ہے کہ رقم کی مقدار یا اشیاء کی تعداد جو خاوند اپنی نئی بیوی کو دیتا ہے وہ اس کے لیے اس کے شوہر کی محبت و خواہش کی مظہر ہے- اس سے وہ اس سوچ میں پڑجاتی ہے کہ اسے اور اس کے بچوں کو اس کے مقابلے میں کیا کچھ ملتا ہے-
7- مشترکہ مقاصد کے حوالے سے عورت خود کو کافی خطرے میں پاتی ہے – یہ وہ مقاصد ہیں جن کے بارے میں میاں بیوی کے درمیان پہلے تبادلہ خیال ہوچکا ہوتا ہے- نئی بیوی آنے سے وہ خطرہ میں پڑجاتے ہیں- اسے یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ شوہر آئندہ خاندانی مقاصد کا فیصلہ کرنے وقت میری رائے کو کوئی اہمیت نہیں دے گا- یہ خوف بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ نئی بیوی، خاندان میں بڑی بڑی تبدیلیاں لائے گی جس سے خاوند کے رویے اور _جنسی، مالیاتی اور غذائی) عادات میں اہم موڑ آجائيں گے- ہوسکتا ہے کہ وہ میری مرضی کے بالکل برعکس ہوں-
یہاں تک ہم نے عورت کی فطرت کا تحقیق و مطالعہ پیش کیا ہے اور تعددازدواج کے مختلف پہلوؤں اور ان سے وابستہ جذبات اور اقدامات کا تجزیہ کرکے ایک واضح تصویر کھنچ دی ہے تاکہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں عورت کا منفی رد عمل سامنے آنے کے اسباب پر روشنی پڑسکے- عورت کا منفی رویہ اگر دوسری شادی نہ کرنے کا معقول جواز فراہم نہیں کرتا، تاہم دعددازدواج کے بارے میں اس کے تصورات میں اس کی فطرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے- اب مزید آگے بڑھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنے منفی رویے اور احساسات سے کب اور کیسے بالاتر ہوکر سوچے گی؟
تعداد ازواج کے بارے میں رد عمل کو سمجھنے کے لیے عورتوں کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے- بعض رویوں اور احساسات کا خاص طور پر عورتوں پر اطلاق ہوتا ہے- قرآن مجید، اجادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دنیاوی علوم میں خواتین کی ان مخصوص صفات کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے- غالبا عورت کی فطرت کو یہ حدیث بڑی صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہے-
"اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کرو وہ پسلی س ےپیدا کی گئی ہیں، پسلی کا سب سے زیادہ مڑا ہوا حصہ اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے- اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے توڑ دے گا ، اگر اسی طرح چھوڑے گا تو یہ ٹیڑھا ہی رہے گا- لہذا ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو"-
(صحیح بخاری، احادیث الانبیاء، باب خلق آدم و ذریت، حدیث:3331)
اس حدیث کے بارے میں محمد الجبالی کہتے ہیں:
" اس حدیث میں پسلی کےاوپر والے حصہ کا جو حوالہ دیا گیا ہے، غالبا اس کا اشارہ سر کی طرف ہے، جہاں پر انسان کی اہم صلاحیت مرتکز ہوتی ہے- (قوت بصارت اور قوت سماعت) اور وہاں زبان بھی ہے جو بولنے کا فعل انجام دیتی ہے- سر جسم کا وہ حھہ ہے جہاں سوچ بچار کا عمل انجام پاتا ہے"-
حافظ ابن حجر رح نے فتح الباری میں حدیث 5186 کی توضیح کرتے ہوئے کہا ہے:
" ہوسکتا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال عورت کے جسم کے انتہائی اوپر والے حصہ کے لیے دی ہو کیونکہ اس کا اوپر والا حصہ، اس کا سر ہے، اس میں اس کی زبان ہوتی ہے جو نقصان پہنچا سکتی ہے-"
اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان فرق و اختلاف مسائل سے نمٹنے کے طریق کار کا ہے- طریق کار کا مختلف ہونا ان کی الگ الگ سوچوں اور محسوس کرنے کے مختلف انداز کا نتیجہ ہوتا ہے، جبکہ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کا جذباتی رد عمل (ہنسنا، طعن و تشنیع اور جھوٹ بولنا وغیرہ) بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتا ہے-
(محمد الجبالی"------------------" آرلنگٹن: الکتاب والسنہ پبلشنگ 2000ء، ص:43)
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"اور اپنے میں سے دو مردون کو گواہ بنالو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے-"
(البقرہ: 2/282)
ذیل کی حدیث میں اس نکتے کی مزید وضاحت ملتی ہے کہ ایک بار عیدالاضحی یا عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
" اے عورتو! صدقات دیتی رہا کرو کیونکہ مین نے دوزخیوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی ہے- عورتوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں ہے؟ آپ نے جواب دیا: اس لیے کہ تم بہت زیادہ لعن طعن کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو- مین نے ذہانت اور دین کے بارے میں تم سے زیادہ ناقص کسی کو نہیں پایا- (لیکن اس کے باوجود) تم میں سے بعض اچھے خاصے محتاط اور سوجھ بوجھ والے مرد کی عقل کوبھی لے جاتی ہیں- عورتوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری ذہانت اور ہمارے دین میں کیا خامی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: یا ذہانت کی کمی ہے- کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ حیض کے دنوں میں عورت نماز پرھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: یہ اس کے دین میں کمی ہے-"
( صحیح بخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، حدیث: 304)
آپ نے یہ بھی فرمایا"
"جس قوم نے عورت کو اپنا سربراہ بنایا، وہ کامیاب نہیں ہوگی-"
(صحیح البخاری، المغازی، باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کلی کسری و قیصر، حدیث:4425)
مندرجہ بالاارشادات اس وقت زیادہ قابل فہم بن جاتے ہیں جب ہم محتلف اوقات میں عورتوں کے جسم میں رونما ہونے والی بعض طبعی اور نفسیاتی تبدیلیوں پر غور کریں- ان میں ماہواری، دورانیہ حمل، انقطاع حیض، بانجھ پن اور اسقاط حمل وغیرہ شامل ہیں-
ماہواری شروع ہونے سے قبل اور اس کے دوران میں عورتوں میں کئی طعبی او رجذباتی تبدیلیوں کے عمل سے کزرتی ہیں- طبعی تبدیلیوں کی علامات میں سانس پھولنا، تھکاوٹ، دردسر، اینٹھن کمر دردر اور چھاتیاں دکھنا شامل ہیں- جبکہ جذباتی تبدیلیوں کی علامت میں تنگ مزاجی ذودرنجی، افسردگی و درماندگی (ڈپریشن) بے چینی، عدم تحفظ کا احساس، سستی، تنہائی کا احساس، بات بات پر آنسو امنڈ آنا اور موڈ کا اتار چڑھاؤ شامل ہے-
تقریبا 80 فیصد عورتیں ان میں سے کچھ علامات سے دوچار ہوجاتی ہیں اور 40 فیصد ان سے خاصی حد تک پریشان ہوجاتی ہیں، جبکہ 10 فیصد ان کی وجہ سے جسمانی قوت سے محروم ہوجاتی ہیں- دوران حمل جو نفسیاتی تبدیلیاں آتی ہیں ان میں قبل وضع حمل اور بعد وضح عمل افسردگی (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) اور اردو زبان میں ہم کہ سکتے ہیں کہ ان وجوہ کی بنا پر عورتوں میں غنودگی، یادداشت میں کمی، اضطراب اور ذہنی انتشار وغیرہ کا شکار ہوتی ہیں – حیض کی بندش کا زمانہ شروع ہونے سے پہلے اور اس کے دوران میں جو عوارض پیدا ہوتے ہیں ، ان میں یکایک طیش میں آجانا، بے خوابی، مزاج میں تبدیلی، نسیان جھنجھلاہت، آدھے یا پورے سر کا درد، بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہونا اور موٹاپا طاری ہوجانا شامل ہے-
بھانجھ پن اور اسقاط حمل کے بھی ان پر زبردست نفسیاتی طور پر اثرات ہوتے ہیں- یہ سب عوارض صرف عورتوں کو لاحق ہوتے ہیں اور کسی عورت پر کسی بھی وقت وارد ہوسکتے ہین- یہ بیماریں ہلکی بھی ہوتی ہیں اور شدید نوعیت بھی اختیار کرلیتی ہیں-"
( Enstrual Health in women,s lives ed. Alice J.Dan and Linda L.Lews- Urbana: university of illinois Press, 1992)
آگے بڑھنے سے پہلے حضرت انس رض کی یہ روایت بھی پرھ لیجیے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر پر جارہے تھے انجشہ نامی ایک غلام اونٹوں کو تیز بھگانے کے لیے حدی خوانی کررہا تھا- آپ نے اسے کہا:
{ ویحک یاانجشہ! رویدک سوقا بالقواریر}
"اے انجشہ! شیشے کے برتنوں والے اونٹوں کو آہستہ چلاؤ"
ابو قلابہ کا کہنا ہے کہ شیشے ک ےبرتنوں سے آپ کی مراد اونٹوں پر سوار خواتین تھیں-
(صحیح البخاری، الادب، باب مایجوز من الشعر و الرجزو الحداء وما یکوہ منہ، حدیث:6149)
متعدد محدثين بشمول اما م بخاری، امام قرطبی اور عسقلانی رح کا خیال ہے کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دو چيزيں ہوسکتی ہیں-
1/ خواتین نازک فطرت اور کمزور ساخت کی حامل ہوتی ہیں، اونٹوں کو تیز بھگانے سے ان کے گرپڑنے کا یا انہیں کوئی اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا-
2/ خواتین جذباتی فطرت رکھتی ہیں، موسیقی اور شاعری انہیں متاثر کرسکتی ہیں اور وہ مبتلائے فتنہ ہوسکتی ہیں-
(محمد الجبالی"------------------" آرلنگٹن: الکتاب والسنہ پبلشنگ 2000ء، ص:41)
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:
" مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں- پس جو صالح عورتیں ہیں، وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کی غیر موجودگی میں بہ حفاظت الہی ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں-"
(النساء: 4/34)
اسی طرح حصرت اسامہ بن زید رض ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
{ما ترکت بعدی فتنۃاضرا علی الرجال من النساء}
" میں نے اپنے پیچھے مردوں کو نقصان پہنچانے والی عورتوں سے بڑھ کر کوئی آزمائش نہیں چھوڑی-"
(صحیح البخاری، النکاح، باب یتقی من شؤم المراۃ، حدیث:5096)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافط صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
"اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے وجود کے حسن و جمال کو مردوں کے لیے تمام فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ قرار دیا ہے، جس کا مشاہدہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے-"
(امام ابو زکریا یحی بن النوی، ریاض الصالحین، دارالسلام، 1998ء، جلد 1، ص: 279)
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حسن عورت کا بڑا کارگر ہتھیار ہے- اس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا، اس کے بل بوتے پر وہ مرد کو جدھر چاہیں موڑ سکتی ہیں اور مرد بڑی آسانی سے اللہ تعالی کی نافرمانی پر اکسالیتی ہیں-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمزید فرمایا:
{الا واستوصو بالنساء خیرا، فانما ھن عوان عندکم}
"عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کے مانند ہیں-"
(جامع ترمذی، الرضاع، باب ماجاء فی الحق المراۃ علی زوجھا، حدیث:1163)
مسلمان خاتون کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے رضاکارانہ طور پر شوھر کی قید قبول کر رکھی ہے- وہ اس کی اطاعت اور خدمت اپنی دینی ذمہ داری سمجھتی ہے- اللہ نے اسے فطری رجحان کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور اسے شوہر کی تابع رہنے کا حکم دیا ہے-
محمد الجبالی نے "دی مسلم فیملی" کے عنوان سے اپنے سلسلہ کتب میں عورت کی فطرت پر اظہار خیال کرتے ہوئے مزید لکھا ہے:
"جب عورت سے کوئی غلطی سرزرد ہوجائے تو اس کے شوہر کو صبر و تحمل اور شفقت سے کام لینا چاہیے ۔ اسے یوں سوچنا چاہیے کہ جو کچھ اس سے ہوا ہے بظاہر ایک غلط ہے، مگر ہوسکتا ہے کہ اصل میں ایسا نہ ہو- عورت کی فطرت، مرد کی مطرت سے مختلف نوعیت رکھتی ہے جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے وہ مرد سے مختلف اقدام کرے- اس طرح اس کی فطرت، مرد کی فطرت سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہوگی- ملاپ کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعتوں کے مابین ایک گریز پایا جاتا ہےجو ہمیشہ برقرار رہتا ہے-"
(محمد الجبالی"------------------" آرلنگٹن: الکتاب والسنہ پبلشنگ 2000ء، ص:42)
آج کے جدید فکر کے بعض علمبدار یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق و امتیاز، ایک اکتسابی طرز عمل (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ہے جو تہذیبی اور ثقافتی قوتوں کے دباءکہ نتیجہ ہے لیکن انہی میں سے کچھ دوسرے محققین اعتراف کرتے ہین کہ ایسا ہرگز نہیں ہے- مرد و زن میں فرق اتنا واضح اور اتنا وسیع ہے کہ کہ اسے محض تہذیبی قوتوں کی کارفرمائی کا اثر قرار دینا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے- ایک تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے ہے کہ مردوں اور عورتوں کی ساخت اتنی مختلف ہے کہ وہ ان کے انگ انگ سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہے- وہ مزاج کے لحاظ سے بھی قابل شناخت ہیں، رویوں اور جذباتی مظاہر (۔۔۔۔۔۔۔۔۔) سے بھی پہچانے جاتے ہیں-
(Kerste, Lawrence K.Love without fear: a path through pain to peace, chapter 11)
چند مختصر تحقیقی مقالوں، تصانیف اور ویب سائٹس نے اس مسئلے کا نہایت گہرائی سے جائزہ لیا ہے- ان میں سے اس بات پر عمومی اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ ذیل کے جذبات اور روّیے صرف اور صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں:
٭ عورتیں محبت، باہمی بات چیت، خوبصورتی اور روابط کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں-
٭ عورتیں وصول شدہ تحائف کا باقائدہ یکساں حساب رکھتی ہیں خواہ ان کا سائز مختلف ہی کیوں نہ ہو-
٭ وہ اس امر کی ضرورت محسوس کرتی ہیں کہ کوئی ان کا خیال رکھے-
٭ عورتیں مردوں سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان کے احساسات میں اپنی دلجسپی کا اظہار کریں اور ان کی بہبود کو اہمیت دیں-
٭ عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کی بات سنی جائے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے-
٭ عورتیں اس بات کی متمنی ہوتی ہیں کہ ان کے خاوند ان کے گرویدہ اور وفادار ہوں اور انہیں اپنے لیے "مخصوص" سمجھتے رہیں-
٭ عورتیں با ر بار اس امر کی حقین دہانی چاہتی ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائےگا، عزت کی جائے گی اور ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی او ریہ تقاضا بھی کرتی ہیں ہیں کہ ان کی دلجوئی کا عملا مظاہار کیا جائے-
٭ وہ جذباتی گرم جوشی پر مبنی جنسی تسکین کی ممتنی ہوتی ہین، نہ کہ محض جنسی فعل کی-
٭ تعلقات کے قیام کے لیے مکالمہ و گفتگو کو ذریعہ بناتی ہیں-
٭ عورتیں بے اعتنائی اور ترک رفاقت سے بے حد خوفزدہ ہوتی ہیں-
٭ رابطے اور تعلق کے تسلسل کے لیے کوشاں رہتی ہیں-
یہ تمام حو غیر دینی یعنی سکیولر تحقیق سے حاصل ہوئے ہیں، اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت زیادہ جھباتی رجحانات رکھتی ہیں- تعدد ازدواج کے بارے میں ان کے رد عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم عورت کی فطرت کو صحیح طور پر سمجھیں- مزید معلومات حاصل کرنے ک ےلیے تعددّ ازدواج کے مختلف پہلوؤں یا اجزا کا ہمیں الگ الگ جائزہ لینا ہوگا تاکہ یہ بات سامنے آجائے کہ اس سلسلے میں عورت کے رد عمل میں شدت کیوں پیدا ہوتی ہے؟
چناچہ ہم نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے ایسی متعدد مسمل خواتین کے انٹرویو کیے اور ان سے سوالات پوچھے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طریقے سے تعددّ ازدواج کا ہوا تھا- ہم نے تقریبا 75 خواتین کے جذبات اور نفسیاتی تاثرات معلوم کیے جن میں سے بعض اس تجربے سے گذر چکی تھیں اور بعض گذر رہی ہیں- ہم نے ان کے تجربے کے آغاز سے پہلے کے مراحل کی بھی جانچ پڑتال کی تاکہ ہماری تحقیق کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے- اس طرح ڈھیر سا مواد جمع کرنے کے بعد جب ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس نتیجے پر پہچيں کہ اوسطا تمام عورتوں کا جذباتی رد عمل کم و بیش ایک ہی نقشہ پیش کرتا ہے اور خانگی حالات کی تبدیلی پر وہ تقریبا یکساں رد عمل کا اظہار کرتی ہیں-
1۔ نئی بیوی کے آجانے پر ہوسکتا ہے شوہر پہلی بیوی کو کو کچھ عرصہ نظر انداز کردے کیونکہ نئے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اسے وہاں زیادہ وقت گزارنا پڑے گا اور پرانے تعلقات کی آبیاری میں کوتاہی ہونے لگے- وہ محسوس کرتی ہے کہ میں اپنے شوہر کے نئے احساسات یا اس کی زندگی کا حصہ نہیں رہی- وہ اس کی توجہ میں کمی اور بیگانگی کو کئی طریقوں سے محسوس کرسکتی ہے- یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کن کیفیات میں سے گزر رہی ہے- بہت سی عورتیں یہ سمجھ لیتی ہیں کہ شوہر نے بے وفائی اور دھوکہ کیا ہے- جو محبت اس کے لیے مخصوص تھی وہ اب کسی اور کو مل رہی ہے- رنج و غم کو تعدّد ازدواج کے آغاز کا مدرتی حصہ سمجھا جاتا ہے، اس دوراں میں اسے اپنی زندگی میں جس تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اس سے اس کے مطابق ڈھلنا پڑتا ہے-
2- جب وقت کی تقسیم عمل میں آتی ہے تو رفاقت میں کمی آجانا یقینی امر ہوتا ہے- کیونکہ انہوں نے جو عادات مشترکہ طور پر اختیار کی تھیں، وہ اب مشترک نہیں رہیں، جنسی تعلقات، ہنسی مزاح اور کھیل کود وغیرہ جس کے وہ دونوں عادی تھے، اب کچھ عرصہ کے لیے معطل ہوگیا ہے- اس خانے میں ہم نے وقت =محبت کی جو مساوات ظاہر کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹائم تقسیم ہونے سے محب بھی منقسم ہوگئی یعنی ادھوری رہ گئی ہے- اس لیے اس کے دل میں اس ٹائم کے ہر سیکنڈ کو واپس لانے کی خواہش بڑھ جائے گی، اور اس کی کوشش ہوگی کہ اسے یہ ٹائم برابر یا مناسب طور پر واپس ملے-
3- محمبت کی تقسیم، بہت سی عورتوں میں شدید رد عمل کا باعث بنتی ہے- غصہ احساس فریب اور جذباتی وحم کا بہمی تعامل، پر مردگی یا افسردگی (ڈپریشن) کو جنم دیتا ہے- بعض عورتیں کئی قسم کے وسوسوں کا شکار ہوجاتی ہیں- انہین شکایت ہوجاتی ہے کہ وہ میرے ساتھ کہیں آتا جاتا نہیں، فون پر بھی بات نہیں کرتا، شدید جھنجھلاہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے اور حواس جواب دے جاتے ہیں- انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں، کیا نہ کریں؟
4- جنس اور جنسی جذبے کے بٹ جانے سے اکٹر متضاد احساسات جنم لیتے ہیں- بعض عورتیں خود غرض ہوتی ہیں اور کسی قیمت پر شوہر کی جنسی توجہ کی تقسیم نہیں چاہتیں- یہاں کہا جاسکتا ہے کہ "جنس=محبت" کے فارمولے کا اطلاق ہوجاتا ہے- وہ سخت مسابقت پر اتر آتی ہیں- بیڈ روم کے معاملے میں پنی سوکن سے ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتیں اور چاہتی ہیں کہ انہیں خاوند کا لمس اور چاہت حاصل رہنے کی بار بار یقین دہائی کرائی جاتی رہے-
5- بچوں کی تقسیم سے مراد یہ ہے کہ شوہر کی ایک سے زائد بیویاں اپنے بچوں کو جنم دیں گی تو ان میں سے ہر ایک کی خواہش یہ ہوگی کہ میرے بچے زیادہ ذہین اور لائق ہونے چاہییں اور ساتھ ہی یہ خوف بھی ہوگا کہ دوسری کے بچے زیادہ سمارٹ اور زیادہ خوبصورت ہوئے تو اس کو اور اس کے بچوں کو زیادہ محبت ملے گی- میں اور میرے بچے کم محبت پائيں گے- مجھے ملنے والا وقت بھی کم ہوجائے گا اور میں نظر انداز کردی جاؤں گی- میں اس حال کو اس لیے پہنچی ہوں کہ میری جنسی کشش اسے متاثر نہ کرسکی-
6- اخراجات اور مالی وظیفے کی تقسیم ایک اور مساوات کو سامنے لے آتی ہے " وظیفے کی رقم/ اشیاء صرفف= محبت" پہلی بیوی کا انداز فکریہ ہوتا ہے کہ رقم کی مقدار یا اشیاء کی تعداد جو خاوند اپنی نئی بیوی کو دیتا ہے وہ اس کے لیے اس کے شوہر کی محبت و خواہش کی مظہر ہے- اس سے وہ اس سوچ میں پڑجاتی ہے کہ اسے اور اس کے بچوں کو اس کے مقابلے میں کیا کچھ ملتا ہے-
7- مشترکہ مقاصد کے حوالے سے عورت خود کو کافی خطرے میں پاتی ہے – یہ وہ مقاصد ہیں جن کے بارے میں میاں بیوی کے درمیان پہلے تبادلہ خیال ہوچکا ہوتا ہے- نئی بیوی آنے سے وہ خطرہ میں پڑجاتے ہیں- اسے یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ شوہر آئندہ خاندانی مقاصد کا فیصلہ کرنے وقت میری رائے کو کوئی اہمیت نہیں دے گا- یہ خوف بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ نئی بیوی، خاندان میں بڑی بڑی تبدیلیاں لائے گی جس سے خاوند کے رویے اور _جنسی، مالیاتی اور غذائی) عادات میں اہم موڑ آجائيں گے- ہوسکتا ہے کہ وہ میری مرضی کے بالکل برعکس ہوں-
یہاں تک ہم نے عورت کی فطرت کا تحقیق و مطالعہ پیش کیا ہے اور تعددازدواج کے مختلف پہلوؤں اور ان سے وابستہ جذبات اور اقدامات کا تجزیہ کرکے ایک واضح تصویر کھنچ دی ہے تاکہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں عورت کا منفی رد عمل سامنے آنے کے اسباب پر روشنی پڑسکے- عورت کا منفی رویہ اگر دوسری شادی نہ کرنے کا معقول جواز فراہم نہیں کرتا، تاہم دعددازدواج کے بارے میں اس کے تصورات میں اس کی فطرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے- اب مزید آگے بڑھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنے منفی رویے اور احساسات سے کب اور کیسے بالاتر ہوکر سوچے گی؟
عورتوں کے ذہنی اجزائے ترکیبی
تعداد ازواج کے بارے میں رد عمل کو سمجھنے کے لیے عورتوں کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے- بعض رویوں اور احساسات کا خاص طور پر عورتوں پر اطلاق ہوتا ہے- قرآن مجید، اجادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دنیاوی علوم میں خواتین کی ان مخصوص صفات کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے- غالبا عورت کی فطرت کو یہ حدیث بڑی صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہے-
"اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کرو وہ پسلی س ےپیدا کی گئی ہیں، پسلی کا سب سے زیادہ مڑا ہوا حصہ اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے- اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے توڑ دے گا ، اگر اسی طرح چھوڑے گا تو یہ ٹیڑھا ہی رہے گا- لہذا ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو"-
(صحیح بخاری، احادیث الانبیاء، باب خلق آدم و ذریت، حدیث:3331)
اس حدیث کے بارے میں محمد الجبالی کہتے ہیں:
" اس حدیث میں پسلی کےاوپر والے حصہ کا جو حوالہ دیا گیا ہے، غالبا اس کا اشارہ سر کی طرف ہے، جہاں پر انسان کی اہم صلاحیت مرتکز ہوتی ہے- (قوت بصارت اور قوت سماعت) اور وہاں زبان بھی ہے جو بولنے کا فعل انجام دیتی ہے- سر جسم کا وہ حھہ ہے جہاں سوچ بچار کا عمل انجام پاتا ہے"-
حافظ ابن حجر رح نے فتح الباری میں حدیث 5186 کی توضیح کرتے ہوئے کہا ہے:
" ہوسکتا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال عورت کے جسم کے انتہائی اوپر والے حصہ کے لیے دی ہو کیونکہ اس کا اوپر والا حصہ، اس کا سر ہے، اس میں اس کی زبان ہوتی ہے جو نقصان پہنچا سکتی ہے-"
اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان فرق و اختلاف مسائل سے نمٹنے کے طریق کار کا ہے- طریق کار کا مختلف ہونا ان کی الگ الگ سوچوں اور محسوس کرنے کے مختلف انداز کا نتیجہ ہوتا ہے، جبکہ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کا جذباتی رد عمل (ہنسنا، طعن و تشنیع اور جھوٹ بولنا وغیرہ) بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتا ہے-
(محمد الجبالی"------------------" آرلنگٹن: الکتاب والسنہ پبلشنگ 2000ء، ص:43)
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"اور اپنے میں سے دو مردون کو گواہ بنالو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے-"
(البقرہ: 2/282)
ذیل کی حدیث میں اس نکتے کی مزید وضاحت ملتی ہے کہ ایک بار عیدالاضحی یا عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
" اے عورتو! صدقات دیتی رہا کرو کیونکہ مین نے دوزخیوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی ہے- عورتوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں ہے؟ آپ نے جواب دیا: اس لیے کہ تم بہت زیادہ لعن طعن کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو- مین نے ذہانت اور دین کے بارے میں تم سے زیادہ ناقص کسی کو نہیں پایا- (لیکن اس کے باوجود) تم میں سے بعض اچھے خاصے محتاط اور سوجھ بوجھ والے مرد کی عقل کوبھی لے جاتی ہیں- عورتوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری ذہانت اور ہمارے دین میں کیا خامی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: یا ذہانت کی کمی ہے- کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ حیض کے دنوں میں عورت نماز پرھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: یہ اس کے دین میں کمی ہے-"
( صحیح بخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، حدیث: 304)
آپ نے یہ بھی فرمایا"
"جس قوم نے عورت کو اپنا سربراہ بنایا، وہ کامیاب نہیں ہوگی-"
(صحیح البخاری، المغازی، باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کلی کسری و قیصر، حدیث:4425)
مندرجہ بالاارشادات اس وقت زیادہ قابل فہم بن جاتے ہیں جب ہم محتلف اوقات میں عورتوں کے جسم میں رونما ہونے والی بعض طبعی اور نفسیاتی تبدیلیوں پر غور کریں- ان میں ماہواری، دورانیہ حمل، انقطاع حیض، بانجھ پن اور اسقاط حمل وغیرہ شامل ہیں-
ماہواری شروع ہونے سے قبل اور اس کے دوران میں عورتوں میں کئی طعبی او رجذباتی تبدیلیوں کے عمل سے کزرتی ہیں- طبعی تبدیلیوں کی علامات میں سانس پھولنا، تھکاوٹ، دردسر، اینٹھن کمر دردر اور چھاتیاں دکھنا شامل ہیں- جبکہ جذباتی تبدیلیوں کی علامت میں تنگ مزاجی ذودرنجی، افسردگی و درماندگی (ڈپریشن) بے چینی، عدم تحفظ کا احساس، سستی، تنہائی کا احساس، بات بات پر آنسو امنڈ آنا اور موڈ کا اتار چڑھاؤ شامل ہے-
تقریبا 80 فیصد عورتیں ان میں سے کچھ علامات سے دوچار ہوجاتی ہیں اور 40 فیصد ان سے خاصی حد تک پریشان ہوجاتی ہیں، جبکہ 10 فیصد ان کی وجہ سے جسمانی قوت سے محروم ہوجاتی ہیں- دوران حمل جو نفسیاتی تبدیلیاں آتی ہیں ان میں قبل وضع حمل اور بعد وضح عمل افسردگی (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) اور اردو زبان میں ہم کہ سکتے ہیں کہ ان وجوہ کی بنا پر عورتوں میں غنودگی، یادداشت میں کمی، اضطراب اور ذہنی انتشار وغیرہ کا شکار ہوتی ہیں – حیض کی بندش کا زمانہ شروع ہونے سے پہلے اور اس کے دوران میں جو عوارض پیدا ہوتے ہیں ، ان میں یکایک طیش میں آجانا، بے خوابی، مزاج میں تبدیلی، نسیان جھنجھلاہت، آدھے یا پورے سر کا درد، بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہونا اور موٹاپا طاری ہوجانا شامل ہے-
بھانجھ پن اور اسقاط حمل کے بھی ان پر زبردست نفسیاتی طور پر اثرات ہوتے ہیں- یہ سب عوارض صرف عورتوں کو لاحق ہوتے ہیں اور کسی عورت پر کسی بھی وقت وارد ہوسکتے ہین- یہ بیماریں ہلکی بھی ہوتی ہیں اور شدید نوعیت بھی اختیار کرلیتی ہیں-"
( Enstrual Health in women,s lives ed. Alice J.Dan and Linda L.Lews- Urbana: university of illinois Press, 1992)
آگے بڑھنے سے پہلے حضرت انس رض کی یہ روایت بھی پرھ لیجیے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر پر جارہے تھے انجشہ نامی ایک غلام اونٹوں کو تیز بھگانے کے لیے حدی خوانی کررہا تھا- آپ نے اسے کہا:
{ ویحک یاانجشہ! رویدک سوقا بالقواریر}
"اے انجشہ! شیشے کے برتنوں والے اونٹوں کو آہستہ چلاؤ"
ابو قلابہ کا کہنا ہے کہ شیشے ک ےبرتنوں سے آپ کی مراد اونٹوں پر سوار خواتین تھیں-
(صحیح البخاری، الادب، باب مایجوز من الشعر و الرجزو الحداء وما یکوہ منہ، حدیث:6149)
متعدد محدثين بشمول اما م بخاری، امام قرطبی اور عسقلانی رح کا خیال ہے کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دو چيزيں ہوسکتی ہیں-
1/ خواتین نازک فطرت اور کمزور ساخت کی حامل ہوتی ہیں، اونٹوں کو تیز بھگانے سے ان کے گرپڑنے کا یا انہیں کوئی اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا-
2/ خواتین جذباتی فطرت رکھتی ہیں، موسیقی اور شاعری انہیں متاثر کرسکتی ہیں اور وہ مبتلائے فتنہ ہوسکتی ہیں-
(محمد الجبالی"------------------" آرلنگٹن: الکتاب والسنہ پبلشنگ 2000ء، ص:41)
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:
" مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں- پس جو صالح عورتیں ہیں، وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کی غیر موجودگی میں بہ حفاظت الہی ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں-"
(النساء: 4/34)
اسی طرح حصرت اسامہ بن زید رض ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
{ما ترکت بعدی فتنۃاضرا علی الرجال من النساء}
" میں نے اپنے پیچھے مردوں کو نقصان پہنچانے والی عورتوں سے بڑھ کر کوئی آزمائش نہیں چھوڑی-"
(صحیح البخاری، النکاح، باب یتقی من شؤم المراۃ، حدیث:5096)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافط صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
"اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے وجود کے حسن و جمال کو مردوں کے لیے تمام فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ قرار دیا ہے، جس کا مشاہدہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے-"
(امام ابو زکریا یحی بن النوی، ریاض الصالحین، دارالسلام، 1998ء، جلد 1، ص: 279)
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حسن عورت کا بڑا کارگر ہتھیار ہے- اس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا، اس کے بل بوتے پر وہ مرد کو جدھر چاہیں موڑ سکتی ہیں اور مرد بڑی آسانی سے اللہ تعالی کی نافرمانی پر اکسالیتی ہیں-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمزید فرمایا:
{الا واستوصو بالنساء خیرا، فانما ھن عوان عندکم}
"عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کے مانند ہیں-"
(جامع ترمذی، الرضاع، باب ماجاء فی الحق المراۃ علی زوجھا، حدیث:1163)
مسلمان خاتون کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے رضاکارانہ طور پر شوھر کی قید قبول کر رکھی ہے- وہ اس کی اطاعت اور خدمت اپنی دینی ذمہ داری سمجھتی ہے- اللہ نے اسے فطری رجحان کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور اسے شوہر کی تابع رہنے کا حکم دیا ہے-
محمد الجبالی نے "دی مسلم فیملی" کے عنوان سے اپنے سلسلہ کتب میں عورت کی فطرت پر اظہار خیال کرتے ہوئے مزید لکھا ہے:
"جب عورت سے کوئی غلطی سرزرد ہوجائے تو اس کے شوہر کو صبر و تحمل اور شفقت سے کام لینا چاہیے ۔ اسے یوں سوچنا چاہیے کہ جو کچھ اس سے ہوا ہے بظاہر ایک غلط ہے، مگر ہوسکتا ہے کہ اصل میں ایسا نہ ہو- عورت کی فطرت، مرد کی مطرت سے مختلف نوعیت رکھتی ہے جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے وہ مرد سے مختلف اقدام کرے- اس طرح اس کی فطرت، مرد کی فطرت سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہوگی- ملاپ کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعتوں کے مابین ایک گریز پایا جاتا ہےجو ہمیشہ برقرار رہتا ہے-"
(محمد الجبالی"------------------" آرلنگٹن: الکتاب والسنہ پبلشنگ 2000ء، ص:42)
آج کے جدید فکر کے بعض علمبدار یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق و امتیاز، ایک اکتسابی طرز عمل (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ہے جو تہذیبی اور ثقافتی قوتوں کے دباءکہ نتیجہ ہے لیکن انہی میں سے کچھ دوسرے محققین اعتراف کرتے ہین کہ ایسا ہرگز نہیں ہے- مرد و زن میں فرق اتنا واضح اور اتنا وسیع ہے کہ کہ اسے محض تہذیبی قوتوں کی کارفرمائی کا اثر قرار دینا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے- ایک تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے ہے کہ مردوں اور عورتوں کی ساخت اتنی مختلف ہے کہ وہ ان کے انگ انگ سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہے- وہ مزاج کے لحاظ سے بھی قابل شناخت ہیں، رویوں اور جذباتی مظاہر (۔۔۔۔۔۔۔۔۔) سے بھی پہچانے جاتے ہیں-
(Kerste, Lawrence K.Love without fear: a path through pain to peace, chapter 11)
چند مختصر تحقیقی مقالوں، تصانیف اور ویب سائٹس نے اس مسئلے کا نہایت گہرائی سے جائزہ لیا ہے- ان میں سے اس بات پر عمومی اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ ذیل کے جذبات اور روّیے صرف اور صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں:
٭ عورتیں محبت، باہمی بات چیت، خوبصورتی اور روابط کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں-
٭ عورتیں وصول شدہ تحائف کا باقائدہ یکساں حساب رکھتی ہیں خواہ ان کا سائز مختلف ہی کیوں نہ ہو-
٭ وہ اس امر کی ضرورت محسوس کرتی ہیں کہ کوئی ان کا خیال رکھے-
٭ عورتیں مردوں سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان کے احساسات میں اپنی دلجسپی کا اظہار کریں اور ان کی بہبود کو اہمیت دیں-
٭ عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کی بات سنی جائے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے-
٭ عورتیں اس بات کی متمنی ہوتی ہیں کہ ان کے خاوند ان کے گرویدہ اور وفادار ہوں اور انہیں اپنے لیے "مخصوص" سمجھتے رہیں-
٭ عورتیں با ر بار اس امر کی حقین دہانی چاہتی ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائےگا، عزت کی جائے گی اور ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی او ریہ تقاضا بھی کرتی ہیں ہیں کہ ان کی دلجوئی کا عملا مظاہار کیا جائے-
٭ وہ جذباتی گرم جوشی پر مبنی جنسی تسکین کی ممتنی ہوتی ہین، نہ کہ محض جنسی فعل کی-
٭ تعلقات کے قیام کے لیے مکالمہ و گفتگو کو ذریعہ بناتی ہیں-
٭ عورتیں بے اعتنائی اور ترک رفاقت سے بے حد خوفزدہ ہوتی ہیں-
٭ رابطے اور تعلق کے تسلسل کے لیے کوشاں رہتی ہیں-
یہ تمام حو غیر دینی یعنی سکیولر تحقیق سے حاصل ہوئے ہیں، اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت زیادہ جھباتی رجحانات رکھتی ہیں- تعدد ازدواج کے بارے میں ان کے رد عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم عورت کی فطرت کو صحیح طور پر سمجھیں- مزید معلومات حاصل کرنے ک ےلیے تعددّ ازدواج کے مختلف پہلوؤں یا اجزا کا ہمیں الگ الگ جائزہ لینا ہوگا تاکہ یہ بات سامنے آجائے کہ اس سلسلے میں عورت کے رد عمل میں شدت کیوں پیدا ہوتی ہے؟
چناچہ ہم نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے ایسی متعدد مسمل خواتین کے انٹرویو کیے اور ان سے سوالات پوچھے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طریقے سے تعددّ ازدواج کا ہوا تھا- ہم نے تقریبا 75 خواتین کے جذبات اور نفسیاتی تاثرات معلوم کیے جن میں سے بعض اس تجربے سے گذر چکی تھیں اور بعض گذر رہی ہیں- ہم نے ان کے تجربے کے آغاز سے پہلے کے مراحل کی بھی جانچ پڑتال کی تاکہ ہماری تحقیق کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے- اس طرح ڈھیر سا مواد جمع کرنے کے بعد جب ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس نتیجے پر پہچيں کہ اوسطا تمام عورتوں کا جذباتی رد عمل کم و بیش ایک ہی نقشہ پیش کرتا ہے اور خانگی حالات کی تبدیلی پر وہ تقریبا یکساں رد عمل کا اظہار کرتی ہیں-
اقتباس: شادی سے شادیوں تک
از: ام عبدالرحمن ہرش فیلڈر
(امریکی نو مسلم خاتون)
از: ام عبدالرحمن ہرش فیلڈر
(امریکی نو مسلم خاتون)