وسیلہ کونیہ ‘ وسیلہ شرعیہ
وسیلہ کونیہہر اس طبعی وقدرتی سبب کو کہتے ہیں جو اپنی اس خلقت کی وجہ سے مقصود تک پہنچائے جس پر اﷲنے اس کو پیدا کیا ہے اور اس فطرت کے ذریعہ جو اﷲنے اس کے لئے مقرر کی ہے مطلوب حاصل کرادے ۔اور یہ وسیلہ بلا تفریق مومن وکافر سب کے درمیان مشترک ہے ۔جیسے پانی جو انسان کی پیاس بجھانے کا وسیلہ ہے ‘اور کھانا جو اس کے آسودہ ہونے کا ذریعہ ہے ‘اور لباس جو سردی اور گرمی سے بچانے کا ذریعہ ہے ‘اور گاڑی جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا ذریعہ ہے ‘وغیرہ
وسیلہ شرعیہ
ہر اس سبب کو کہتے ہیں جو اس طریقہ سے مقصود تک پہنچائے جسے اﷲنے مشروع فرمایا ہے اور جس کو اپنی کتاب اوراپنے رسول کی سُنّت میں بیان کردیا ہے ‘اور یہ وسیلہ صرف اس مومن کے ساتھ خاص ہے جو اﷲاور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے ۔
اس وسیلہ کی چند مثالیں یہ ہیں ۔
اخلاص اور فہم کے ساتھ توحید وردسالت کی شہادت دینا ۔یہ وسیلہ ہے جنت میں داخل ہونے کا اور جہنم میں ہمیشہ رہنے سے نجات پانے کا ۔ اور برائی کے بعد نیکی کرنا وسیلہ ہے گناہوں کی معافی کا‘ ا ور اذان کے بعد دعا ماثورہ کا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پانے کا وسیلہ ہے ۔اور صلہ رحمی طول عمر اور وسعت رزق کا وسیلہ ہے ۔وغیرہ۔
یہ اور اس جیسے امور کی بابت ہم کو معلوم ہوگیا کہ یہ مقاصد اور غایات صرف شرعی طریقہ پر پورے کئے جاتے ہیں۔سائنس یا تجربہ یا حواس سے ان کا کچھ تعلق نہیں ۔یہ بات کہ صلہ رحمی عمر کو بڑھاتا ہے اور روزی میں
وسعت پیدا کرتا ہے ہمیں اس کا علم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوا۔
مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ فِیْ رِزْقِہٖ وَ اَنْ یُّنْشَأَ لَہٗ فِیْ اِثْرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ o
(رواہ الشیخان)
ترجمہ: ’’جس کو یہ پسند ہوکہ اس کی روزی اور عمر بڑھادی جائے اس کو چاہئے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک کرے۔‘
‘(رواہ الشیخان)
ترجمہ: ’’جس کو یہ پسند ہوکہ اس کی روزی اور عمر بڑھادی جائے اس کو چاہئے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک کرے۔‘
اور اکثر لوگ ان دونوں ہی قسم کے وسیلوں کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اور بہت ہی خراب تہمات کا شکار ہیں ‘اور سبب کونی بس اسی کو سمجھتے ہیں جو کسی معینہ مقصد کو حاصل کرادے جب کہ معاملہ ان کے ظن کے خلاف ہوتا ہے ۔اس طرح کبھی کسی شرعی سبب کو محض اس لئے شرعی سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی شرعی مقصد حل ہوجاتا ہے حالانکہ حق ان کے معتقدات کے خلاف ہوتا ہے ۔
ان وسائل باطلہ کی مثال جو بیک وقت شرعی اور کونی دونوں ہیں ‘وہ ہے جس کو دمشق کی ’’شارع النصر‘‘پرگذرنے والا اکثر دیکھا کرتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے سامنے چھوٹے چھوٹے ٹیبل رکھے رہتے ہیں اور اس پر ایک چھوٹا جانور جو بڑے چوہے کی طرح ہوتا ہے‘بیٹھا رہتا ہے اور اس کے آس پاس چھوٹے کارڈ پڑے رہتے ہیں جن میں لوگوں کے نصیبوں کی امیدوں سے متعلق عبارتیں لکھی رہتی ہیں جن کو جانور کا مالک لکھے رہتا ہے یا کچھ لوگ اپنے جہل اور خواہش کے مطابق لکھائے رہتے ہیں اور راستہ سے گذرتے ہوئے گہرے دوست آپس میں کہتے ہیں آؤ ذرا اپنی قسمت ملاحظہ کریں ۔پھر وہ چند پیسے اس آدمی کو دیتے ہیں اور وہ اس جانور کو دھکیلتا ہے کہ کوئی کارڈ اُٹھا لائے ۔جانور ایک ایک کارڈ اُٹھا کر ان کو دیتا ہے اور یہ اس کو پڑھ کر اپنے خیال کے مطابق اپنی قسمت کا مطالعہ کرلیتے ہیں ۔
آپ اس آدمی کی عقل رسائی دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک جانور کو اپنا معلم سمجھ رہا ہے اور وہ جانور اس کو اپنی قسمت بتارہا ہے اور اس کی اپنی حیثیت جو ا س کی نگاہ اور علم سے غائب تھی اس کو یہ جانور بتارہا ہے ’’اگر حقیقۃً وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ جانور غیب جانتا ہے تو پھر جانور اس سے بہتر ہوا ۔اور اگر وہ اس پر عقیدہ نہیں رکھتا تو اس کا یہ سب فعل بیہودہ مذاق اور وقت اور مال کی بربادی ہے جس سے سمجھ دار لوگوں کو بچنا چاہئے ۔خود اس دھندے کو کرنا ہی فریب دہی ‘گمراہی اور لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے۔
بلاشبہ لوگوں کا اس حیوان کے پاس غیب جاننے کے لئے جانا ان کے نزدیک وسیلہ کونیہ ہے حالانکہ یہ سراسر غلط اور باطل ہے جس کو تجربہ نے غلط ثابت کردیا ہے اور نظر سلیم اس کو رد کرتی ہے ۔یہ وسیلہ کونیہ نہیں وسیلہ خرافیہ ہے جو جہل اور دجل کی پیداوارہے اور یہ شرعی اعتبار سے بھی باطل ہے ۔کتاب و سُنّت اور اجماع اس کے خلاف ہے۔اس کی مخالفت کے لئے تو بس اﷲکا یہ قول ہی کافی ہے جس میں اﷲ نے اپنی ثناء بیان کی ہے۔
عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ غَیْبِہٖ اَحَدً ا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ o
(الجن:۲۶)
ترجمہ: ’’وہی غیب کا جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو اپنے غیب کی باتیں بتادیتا ہے۔‘‘(الجن:۲۶)
اور موہوم کونی اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی شخص بدھ کے دِن سفر کرتا یا شادی کرتا ہے تو سفر میں محروم رہتا ہے اور شادی میں ناکام ۔اور ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ جو شخص کوئی اہم کام شروع کرے اور کسی اندھے کو دیکھ لے یا کسی مصیبت زدہ پر نظر پڑ جائے تو اس کا کام نہ تو پورا ہوتا ہے نہ ہی وہ کامیاب ہوتا ہے ۔اور انہیں سب اسباب سے آج کے اکثر مسلمان اور عرب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اپنی بڑی تعداد سے اپنے یہودی اور سامراجی دشمنوں پر فتح پالیں گے اور وہ اپنی موجودہ وضع اور طور طریقے ہی سے یہودیوں کو سمندر میں پھینک دیں گے ‘اور تجربات نے اس قسم کے خیالات کے بطلان کو ثابت کردیا ہے ۔حالانکہ یہ مسئلہ اس سطحی طریقہ علاج سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
ان موہوم شرعی اسباب میں سے کچھ ایسے اسباب ہیں جن کو لوگوں نے اختیار کررکھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ اسباب ان کو اﷲکے قریب کردیں گے ۔حالانکہ وہ حقیقت میں ان کو اﷲسے دور کرتے ہیں اور اﷲکی ناراضگی اور غضب بلکہ لعنت اور عذاب کا باعث بنتے ہیں ۔مثلاً مردہ مدفون اولیاء و صالحین سے استغاثہ کرنا ۔وہ ان کی ایسی ضروریات پوری کردیں کہ جن کو اﷲکے سوا کوئی پوری نہیں کرسکتا ۔جیسے کہ وہ ان اصحاب قبور سے اپنی تکلیف دور کرنے اوربیماری سے شفاء پانے کی درخواست کرتے ہیں ‘انہیں سے روزی مانگتے ہیں ۔بانجھ پن دُور کرنے کی فریادیں کرتے ہیں اور ان سے دشمن پر غلبہ چاہتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ۔
پھر وہ قبروں کی آہنی جالیاں اور ان کے پتھرکو چھوتے ‘سہلاتے ہیں اور ان کو پکڑ کر ہلاتے ہیں ‘اور کاغذ پرلکھ کر ایسی درخواستیں لٹکاتے ہیں جن میں ان کی مرادیں اور خواہشات لکھی رہتی ہیں ۔بس ان کی نگاہ میں یہی سب شرعی وسیلے ہیں جب کہ حقیقت میں یہ سب باطل ہیں اور اِس عظیم اسلام کے مخالف ہیں جن کی بنیاد ہی صرف اﷲواحد کی بندگی ہے اور عبادت کے تمام انواع وفروع میں صرف اﷲہی کو خالص کرنا اس کی بنیادی تعلیم ہے۔
اور انہیں لغویات میں سے یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس خبر کو سچ سمجھ لیتے ہیں جس کو بیان کرتے وقت بیان کرنے والے کویاحاضرین میں سے کسی کو چھینک آجائے u
انہیں فاسد عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ جب کوئی دوست یا رشتہ دار ان کا ذکر خیر کر تا ہے تو ان کا کان بجنےv لگتا ہے
اور یہ عقیدہ بھی کہ جب لوگ رات میں ناخن تراشیں یا سنیچر اور اتوار کو یا جب رات میں گھر صاف کریں تو ان پر بلائیں نازل ہوتی ہیں ۔
اور یہ عقیدہ بھی wکہ جب لوگ کسی پتھر کے ساتھ بھی حسن ظن کرلیں اور اس پر عقیدہ رکھ لیں تو وہ ان کو نفع پہنچاتا ہے ۔
اور یہ اس قسم کے فاسد عقائد جو خرافات اور ظنون واوہام ہیں جن کے متعلق اﷲنے کوئی دلیل نہیں نازل کی بلکہ ان کی اصل موضوع اور جھوٹی حدیثیں ہیں جن کے گھڑنے والوں پر اﷲلعنت کرے اور ان کو ذلیل کرے۔
وسائل کونیہ میں سے کچھ مباح ہیں جن کی اجازت اﷲنے دی ہے اور کچھ حرام ہیں جن سے اﷲنے منع فرمایا ہے۔پچھلے صفحات میں ان دونوں انواع کے وسائل کا ذکر میں نے کردیا ہے جن کو لوگ مباح اور مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔اور اب میں بعض مشروع اور غیر مشروع کونی وسائل کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
شاید اس عقیدہ کی بنیاد یہ حدیث ہو ’’مَنْ حَدَّثَ حَدِیْثًا فَعَطِسَ عِنْدَہٗ فَھُوَ حَقٌ‘‘ حالانکہ یہ حدیث باطل ہے ۔علامہ شوکانی نے ’’الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘‘میں اس کو بھی بیان کیا ہے اور میری کتاب ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ‘‘میں ۱۳۶ کے تحت اس کا مفصل بیان ملے گا۔
اس گمراہ عقیدہ کی بنیاد یہ موضوع حدیث ہے ’’جب تم میں سے کسی کا کان بجے تو مجھ پر درود بھیجو اور کہو اﷲاس کو بھلائی سے یاد کرے جس نے مجھ کو یاد کیا۔
(الفوائد المجموعۃ للشوکانی ص ۲۲۴)
اس گمراہ کن عقیدہ کی بنیاد یہ ہے ’’لَوْ اَحْسَنَ اَحَدَکُمْ ظَنَّہٗ بِحَجَرٍ لَنَفَعَہٗ اﷲُ بِہٗ ‘‘ حافظ عجلونی نے اس کو’’ کشف الخفاء ‘‘۲/۱۵۲ میں ذکر کیا ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲعلیہ نے اس کو ’’کذب‘‘کہا ہے ‘اور حافظ ابن حجر رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ‘اور صاحب المقاصد کابیان ہے کہ ’’یہ روایت صحیح نہیں ‘‘اور علامہ ابن القیم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ’’یہ ان بت پرستوں کا کلام ہے جو پتھروں کے ساتھ حسن عقیدت رکھتے ہیں ۔‘‘
وسیلہ کونیہ مشروعیہ کی ایک مثال ’’کسب اور حصول رزق کے لئے بیع وشراء اور تجارت وزراعت‘‘وغیرہ بھی ہے ۔
اور وسیلہ کونیہ محرمہ کی مثال حصول رزق کے سودی قرض دینا بیع عینہ ذخیرہ اندوزی ‘خیانت ‘چوری ‘جوا ‘شراب اور مورتیوں کی تجارت ہے جس کی دلیل اﷲکا اِرشاد ’’اَحَلَّ اﷲُ الْبَیْعَ وَ حَرَّنَ الرِّبٰوا ‘‘(اور اﷲنے تجارت حلال کی اور سود کو حرام کیا ۔سورۃ بقرہ: آیت ۲۱۵) ہے۔
تجارت اور سود دونوں ہی حصول رزق کے لئے سبب کونی ہیں لیکن اﷲنے اول کو حلال کیا اور دوسرے کو حرام ۔
Comment