اقتباس : منہاج القاصدین (امام عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمة اللہ)
اردو ترجمہ: محمد سلیمان کیلانی
معلوم ہونا چاہیے کہ اچھے علوم دو قسم کے ہیں :
پہلا :
وہ ہے جو اپنی انتہا تک اچھا ہی اچھا ہے اور جتنا زیادہ ہو اتنا ہی اچھا ہے اور یہ علم ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات ، اس کے افعال اور دنیا پر آخرت کو مرتب کرنے کی حکمت کا علم۔
یہ علم اور اس کے ذریعے سے آخرت کی سعادت کا حصول مقصود بالذات ہے اور یہ وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کی انتہا نہیں۔ اس کے گرد پھرنے والے عموماً اس کی گہرائی کے بجائے اس کے ساحل اور اطراف پر اپنی ہمت کے مطابق پھرتے ہیں۔
دوسرا:
وہ علم ہے جس کی ایک خاص مقدار بھی محمود ہے۔ اور یہ وہی علوم ہیں جن کو ہم 'فرض کفایہ' کہتے ہیں۔ ان علوم میں ادنیٰ ، درمیانہ اور انتہائی تینوں مراتب ہیں۔
تم دو آدمیوں میں سے ایک بن جاؤ۔
لیکن خبردار ! اپنے نفس کی اصلاح سے پہلے دوسروں کی اصلاح میں مشغول نہ ہونا۔ تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے نفس کو بری صفات سے پاک کرنے میں مشغول ہو جاؤ ، جیسے : حرص، حسد ، ریا اور غرور وغیرہ سے۔
اس کے بعد اپنے ظاہر کی اصلاح کرو۔ یہ بات ضروری ہے کہ جب تک تم اس سے فارغ نہ ہوں تب تک فرض کفایہ کی طرف توجہ نہ کرو ، کیونکہ مخلوقات میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ فرض ادا کر رہے ہیں۔
پھر جب تم اپنے نفس اور اس کی تطہیر سے فارغ ہو جاؤ ۔۔۔ اور یہ کتنی مشکل بات ہے ۔۔۔۔ تو فرائض کفایہ میں مشغول ہو جاؤ اور ان میں بھی مراتب کا خیال رکھو !
پہلے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے شروع کرو ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر توجہ کرو ، پھر قرآنی علوم ، تفسیر ، ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ وغیرہ کو دیکھو۔
اسی طرح حدیث میں بھی تفکر کرنا چاہیے۔ پھر فروعات شروع کرو اور اصول فقہ دیکھو اور باقی علوم کے حصول میں کوشاں ہو جاؤ اور جس قدر بھی عمر اور وقت اجازت دے انہیں حاصل کرو۔ ایک ہی فن کی انتہا تک پہنچنے میں اپنی عمر برباد نہ کر دو کہ علوم تو بےشمار ہیں جبکہ عمر بہت تھوڑی ہے۔
پھر یہ بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ علوم محض آلات ہیں مقصود کچھ اور ہے اور ہر وہ چیز جو دوسروں کی توجہ سے مطلوب ہو اس کا یہ حق نہیں کہ اس میں آدمی اپنا مقصد ہی بھول جائے !
اردو ترجمہ: محمد سلیمان کیلانی
علم کے فوائد
معلوم ہونا چاہیے کہ اچھے علوم دو قسم کے ہیں :
پہلا :
وہ ہے جو اپنی انتہا تک اچھا ہی اچھا ہے اور جتنا زیادہ ہو اتنا ہی اچھا ہے اور یہ علم ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات ، اس کے افعال اور دنیا پر آخرت کو مرتب کرنے کی حکمت کا علم۔
یہ علم اور اس کے ذریعے سے آخرت کی سعادت کا حصول مقصود بالذات ہے اور یہ وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کی انتہا نہیں۔ اس کے گرد پھرنے والے عموماً اس کی گہرائی کے بجائے اس کے ساحل اور اطراف پر اپنی ہمت کے مطابق پھرتے ہیں۔
دوسرا:
وہ علم ہے جس کی ایک خاص مقدار بھی محمود ہے۔ اور یہ وہی علوم ہیں جن کو ہم 'فرض کفایہ' کہتے ہیں۔ ان علوم میں ادنیٰ ، درمیانہ اور انتہائی تینوں مراتب ہیں۔
تم دو آدمیوں میں سے ایک بن جاؤ۔
- یا تو اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول رہو
- یا اپنے نفس کی اصلاح سے فارغ ہو کر دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرو
لیکن خبردار ! اپنے نفس کی اصلاح سے پہلے دوسروں کی اصلاح میں مشغول نہ ہونا۔ تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے نفس کو بری صفات سے پاک کرنے میں مشغول ہو جاؤ ، جیسے : حرص، حسد ، ریا اور غرور وغیرہ سے۔
اس کے بعد اپنے ظاہر کی اصلاح کرو۔ یہ بات ضروری ہے کہ جب تک تم اس سے فارغ نہ ہوں تب تک فرض کفایہ کی طرف توجہ نہ کرو ، کیونکہ مخلوقات میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ فرض ادا کر رہے ہیں۔
جو اپنے آپ کو ہلاک کرے اور دوسرے کی اصلاح چاہے ، وہ بےوقوف ہے !
اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے کپڑوں میں بچھو داخل ہو جائیں اور وہ اس کی طرف سے غافل رہ کر دوسروں کی مکھیاں اڑا رہا ہو۔
اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے کپڑوں میں بچھو داخل ہو جائیں اور وہ اس کی طرف سے غافل رہ کر دوسروں کی مکھیاں اڑا رہا ہو۔
پھر جب تم اپنے نفس اور اس کی تطہیر سے فارغ ہو جاؤ ۔۔۔ اور یہ کتنی مشکل بات ہے ۔۔۔۔ تو فرائض کفایہ میں مشغول ہو جاؤ اور ان میں بھی مراتب کا خیال رکھو !
پہلے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے شروع کرو ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر توجہ کرو ، پھر قرآنی علوم ، تفسیر ، ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ وغیرہ کو دیکھو۔
اسی طرح حدیث میں بھی تفکر کرنا چاہیے۔ پھر فروعات شروع کرو اور اصول فقہ دیکھو اور باقی علوم کے حصول میں کوشاں ہو جاؤ اور جس قدر بھی عمر اور وقت اجازت دے انہیں حاصل کرو۔ ایک ہی فن کی انتہا تک پہنچنے میں اپنی عمر برباد نہ کر دو کہ علوم تو بےشمار ہیں جبکہ عمر بہت تھوڑی ہے۔
پھر یہ بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ علوم محض آلات ہیں مقصود کچھ اور ہے اور ہر وہ چیز جو دوسروں کی توجہ سے مطلوب ہو اس کا یہ حق نہیں کہ اس میں آدمی اپنا مقصد ہی بھول جائے !
Comment