صبر کے بغیر دین متصور نہیں
صبر ان صفاتِ حمیدہ میں سے ہے جن پر اللہ نے اپنی معیت کا وعدہ کیا ہے۔ صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یا ایھا الذین اٰمنوا استعینوا لصبر و لصلوٰۃ ، ان اللہ مع الصابرین ۔ اے ایمان والوں اللہ کی مدد حاصل کرو صبر اور نماز کے ذریعہ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ ساتھ ہے یعنی اللہ کی ذات ساتھ ہے ، مع صفات کے۔ اللہ کی ذات دکھائی نہیں دیتی مگر اللہ اپنی لامحدود طاقت و قوت کے ساتھ اور اپنی پوری قدرت کے ساتھ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اتنا عظیم وعدہ معیت اس لئے کیا گیا ہے کہ صبر کے ساتھ ہی آدمی پورا دیندار بنتا ہے۔ صبر کے بغیر نہ اوامر کو پورا کیا جاسکتا ہے نہ ہی نواہی سے بچا جاسکتا ہے اور نہ ہی ابتلاعات میں آدمی دین پر ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ ناگوار حالات آدمی کو اگر صابر نہ ہو تو دین سے ہٹا دیتے ہیں اور دنیا میں ناگوار حالات کا آنا ناگذیر ہے۔
خود اللہ ہی اس کی خبر دے رہا ہے۔ ولنبلونکم بشیئٍ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس واثمرات ج وبشر الصابرین الذین اذا مااصا بتھم مصیبۃ قالوا انا اللہ ،و انا الیہ راجعون ج اولائک علیھم صلوٰۃ من ربھم و رحمۃ ط و اولائک ھم المھتدون ۔ ترجمہ : ہم ضرور آزمائینگے کسی چیز میں سے جیسے خوف، بھوک، جانوں، مالوں یا پھلوں میں کمی سے اور بشارت ہے صبر کرنے والوں کے لئے۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جب ان پر مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہے اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہے جن پر ان کے رب کی طرف سے خصوصی رحمتیں ہیں اور عمومی بھی۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ بھی ہیں۔
ان آیات میں جہاں ابتلاعات کی خبر دی گئی ہے ، وہیں صبر کرنے والوں کو خوش خبریاں بھی دی گئی ہیں۔ ایک خوش خبری تو ہے اللہ کی عمومی اور خصوصی رحمتوں کی اور دوسری خوش خبری ہے ہدایت کی۔ یہ ہدایت تو وہ بنیادی ضرورت ہے کہ اسی کے لئے تمام انبیاء کی بعثت ہوئی ہے اور اسی کے لئے رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی ہے او اس کے لئے آپ نے خود بھی زندگی بھر اللہ سے مانگا اور اپنے ہر امتی کو اس کے مانگنے میں لگایا ہے ، چنانچہ ہر مسلمان نبی ہو یا صحابی، ولی ہو یا ایک عام مسلمان ہر ایک نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور اس میں ہر ایک اہدنا الصراط المستقیم پڑھتا ہے۔ جس کو سیدھے راستہ کی ہدایت مل گئی اس کو اللہ مل گیا کہ اللہ تو سیدھے راستہ پر ہی ملے گا۔ ان ربی علی صراط المستقیم ۔ بے شک میرا رب سیدھے راستہ پر ہے۔ یہ جو مصائب پر صبر کرنے والے ہوتے ہیں، یہی طاعات پر بھی صبر کرتے ہیں۔ طاعات کے لئے بھی صفت صبر لازمی ہے۔ کیونکہ عموماً اللہ کے احکامات نفس کے خلاف ہوتے ہیں جب تک نفس کو صبر کے ذریعہ عادی نہ بنایا جائے نفس پر بڑا مجاہدہ پڑتا ہے۔ مثلاً لوگوں کو معاف کرنا یہ کوئی آسان حکم نہیں ہے۔ انسان کو جب کوئی ستاتا ہے اور بلاوجہ ستاتا ہے ، ظلم کرتا ہے اور یہ ایک امر طبعی ہے کہ اس کو غصہ آئیگا نفس اس سے انتقام کو چاہیگا کم از کم بے بس آدمی بھی بددعا تو کرہی دیتا ہے۔ مگر حکم ہے کہ صبر کرو یہ کوئی آسان کام ہے؟ اور ہر ایک سے تقاضا ہے ، حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ سے بھی کہا جارہا ہے کہ واصبر کما صبر اولو العزم من الرسل ۔ آپ ایسے صبر کیجئے جیسا کہ اولاالعزم یعنی عالی ہمت رسولوں نے کیا۔ اور صبر کرنے والوں کی تعریف بھی کی جارہی ہے ولمن صبر وغفر ان ذالک من عزم الامور ۔ اور جس نے صبر کیا اور معاف کیا تو بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ دشمنوں کی طرف سے ایذاؤں پر صبر کرنے سے تقویٰ کی بھی بشارت سنائی جارہی ہے اور یہ بھی اطمینان دلایا جارہا ہے کہ انکا مکر وفریب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ و ان تصبرواو تتقو الا یضرکم کید ھم شیئا ۔ ترجمہ : اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کا مکر تمہیں مضرت نہیں پہنچا سکتا ۔ ایسے ہی اللہ کا ہر حکم صبر کا متقاضی ہے۔ نماز پڑھنا ہے تو صبر کرو۔ پانچوں وقت کی نمازیں ایسی ہیں کہ ہر وقت کا صبر الگ الگ قسم ہے ۔
فجر کا وقت نیند کے غلبہ کا وقت ہے اگر سردی کا موسم ہے تو سردی کو برداشت کرو اگر صبر کا مادہ ہے تو فجر کی نماز ہوسکتی ہے ورنہ نہیں۔ ظہر کا وقت گرمی کے زمانہ میں دھوپ اور گرمی کو برداشت کرنا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد نفس آرام کا تقاضا کرتا ہے اب صبر کرو تو ظہر کی نماز ہوسکتی ہے۔ ورنہ نہیں۔ عصر اور مغرب کا وقت تو سب کے لئے مشاغل کے ہجوم کاوقت ہے۔ دوسرے تقاضوں کو دبا کر صبر کئے بغیر یہ دونوں نمازیں بھی ممکن نہیں۔عشاء کی نماز بھی دن بھر کی تھکان کے بعد نفس کے لئے آرام طلبی کا وقت ہے۔ غرض کہ پانچوں نمازیں جو طاعات میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں صبر کا تقاضا کرتی ہیں۔
اور روزہ تو عین صبر ہے۔ کھانا پانی سب موجود ہے صرف اللہ کے حکم کی وجہ سے بندہ صبر کرتا ہے اور حضور ﷺ نے تو پورے ماہ رمضان ہی کو صبر کا مہینہ قرار دیا ہے۔ فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اب دوسرے موضوع پر آیئے کہ صبر کے بغیر نواہی سے رکنا بھی ممکن نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ برائیوں کی طرف تیزی سے چلتا ہے۔
قرآن پاک میں یوسف علیہ السلام کی بات نقل کی گئی ہے وما ابری نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الامن رحم ربی ۔ کہ میں اپنے نفس سے بری نہیںہوں نفس تو برائی کی طرف ہی لیجاتا ہے۔
یہ ایک عمومی مسئلہ ہے ۔ مثلاً اللہ نے منع کیا ہے غیر محرم پر نظر ڈالنے سے ، فرمایا قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فرو جھم و قل لمومنات یغضضن من ابصار ھن و یحفظن فروجھن ۔ ایمان والے مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظرین نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور ایمان والی عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرین۔ نفس کے تقاضے کے باوجود اپنی نظروں کو روکے رکھنا یہ صبر ہی کا کام ہے۔
خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ عریانیت کا ماحول ہے۔ اب مسئلہ بے پردگی کا نہیں ہے۔ بلکہ عریانیت ہے ہر طرف نیم برہنہ عورتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ فلموں کے پوسٹرس ہر طرف دعوت نظارہ دے رہے ہیں بلکہ ہر مال اور ہر چیز کے اشتہار کے لئے نیم برہنہ عورتوں کی تصویروں کو ہی استعمال کیا جارہا ہے۔
T.V. پر نظر ڈالیں تو وہی عریانیت ہے۔ ان حالات میں اگر انسان صابر نہ ہو تو کوئی طاقت بد نظری سے نہیں روک سکتی۔ میوزک کا وہ دور دورہ ہے کہ مسجد یں اور مدرسہ بھی محفوظ نہیں ، موبائل فون کے واسطے سے جیبوں میں music بج رہا ہے۔ صبر ہی اس موسیقی سے بچنے کا بھی راستہ ہے۔
ماحول ایسے گندہ ہے کہ اس کا علاج تو دیر طلب ہے ہاں اپنے نفس کا علاج کیا جاسکتا ہے اس کو صبر کا عادی بنائیں اور یہ صبر کہا ملے گا، صبر نتیجہ ہے ایمان کا اور اللہ اور اس کے رسول کی خبروں پر پکے یقین کا۔
برے اعمال پر جو عذابات اور سزاؤں کی خبریں دی گئیں ہیں ان پر پختہ یقین ہو اور وہ سزائیں اور عذابات مستحضر ہوں اور پھر اپنے نفس سے مخاطب ہو کہ ہے ان سزاؤں کے برداشت کرنے کی ہمت اور طاقت۔ ایسے ہی نیک اعمال پر جو وعدے کئے گئے ہیں ان پر یقین ہو اور ان کا ستحضار ہو کہ جب بھی نفس طاعات میں سستی کرے اور اپنے نفس کو دعوت دے کیا تو ایسی بڑی بڑی نعمتوں کو پسند نہیں کرتا۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا دوام نفس پر پیش کرے کہ یہ لذتیں تھوڑی دیر کی ہیں مگر اس پر ملنے والا عذاب دائمی ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کی صحبت اور ماحول میں رکھے جنہوں نے اپنے نفوس کو صبر کا عادی بنالیا ہے اگر ایسے لوگ مسیر نہ آئیں تویا ہماری رسائی نہ ہو تو ایسے لوگوں کی سوانح حیات پڑھیں ان کے حالات کا پڑھنا بھی اتنی دیر کے لئے گویا ان ہی کی صحبت میں رہنا ہے۔ اور ان اسلاف میں سب سے بہترین لوگ صحابہ کرام ہیں۔ حیاۃ الصحابہ میں ان کی زندگی کے حالات پڑھیں کہ یہ سب کے سب رسول اللہ ﷺ کے صحبت یافتہ ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں تمام امت کے لئے نمونہ عمل قرار دیاہے۔
آپؐ نے فرمایا اصحابی ک النجوم با یھم اقتدیتم اھتد یتم ۔ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔
خود اللہ تعالیٰ نے بھی ان صحابہ کرام سے اور ان کی پیروی کرنے والوں سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا ہے۔ فرمایا السابقون الاولون من المھاجرین والا نصار والذین التبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضو عنہ ۔ ترجمہ : سابقین اولین مھاجرین میں سے اور انصار میں سے بھی اور جونیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
یہ صحابہ کرام وہ مبارک قوم ہیں جن کو اللہ نے اپنے آخری رسول اورحبیب رب العالمین کی مصاحبت کے لئے چنا ہے۔ ان کے اعمال ہمارے لئے علوم ہیں۔ ان کے اعمال کا مطالعہ ہمارے علم کو بڑھائیگا اور یہ علم ہماری رہبری کرے گا کہ طاعات پر کیسے صبر کیا جاتا ہے۔ اور نواہی سے بچے کے لئے صبر کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور مصائب و آلام پرکیسے ثبات قدمی نصیب ہوسکتی ہے۔
دنیا تو ہے ہی حادثات کی جگہ۔ یہ حوادث ہمیں ناشکری اور بے صبری پر آمادہ نہ کریں۔ حضرت معاذ بن جبل کے بیٹے کا انتقال ہوا تو حضور ؐ نے انہیں تعزیتی خط لکھا جس میں لکھا کہ ہماری جان اور مال سب اللہ تعالیٰ کی امانتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ان چیزوں سے ہم کو نفع پہنچاتا ہے اور جب چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی نقصان پر غم ہونا یہ فطری بات ہے لیکن اللہ کے تقدیری فیصلے پر راضی رہنا یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ چاہے بڑے سے بڑی مصیبت آجائے اپنے نفس کو یہ سمجھا ئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ ۔ کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے۔ پھر یہ سمجھا ئے کہ اللہ تو بڑا مہربان بہت رحم کرنے والا ہے اس مصیبت میں بھی ضرور کوئی مصلحت ہوگی جس کو میں نہیں جانتا۔ اس طرح اپنے نفس کو سمجھائے اور اس مصیبت پربھی اجر و ثواب کی بھی پوری امید رکھے۔
حدیث میں ہے کہ مومن کو کانٹا چبھتا ہے تو اس پر اجر دیا جاتا ہے۔ مومن کو بخار آتا ہے تو اس پر بھی گناہ معاف ہوتے ہین۔ کسی گناہ سے رکنے پر نفس تلملا تا ہے اس پر بھی اللہ کی رضا ملتی ہے کسی حکم کو پورا کرنے میں نفس پر جو مشقت پڑتی ہے اس سے بھی آخرت سنورتی ہے۔ صبر چاہے جس قسم کا ہو اس میں نقصان ہے ہی نہیں ، بظاہر تکلیف ہے لیکن حقیقت میں نفع ہی نفع ہے۔ حدیث میں ہے کہ بعض مرتبہ آدمی کے لئے اتنے بلند درجات طے کردیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے عمل سے ان درجات تک نہیں پہنچ سکتا تو اس کو مصائب میں مبتلا کر کے صبر کی توفیق دی جاتی ہے اور اس طرح اسے ان بلند درجات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ بس بندہ کا کام ہے ہر حال کو اپنے لئے خیر سمجھے اور ہر حال میں اپنے آپ کو دین پر جمائے رکھے۔ اور اللہ ہی سے صبر و استقلال مانگتا رہے۔ اور عافیت اور سہولت بھی مانگتا رہے۔ اور اپنے کو ہمیشہ کمزور سمجھے اور آزمائش کے قابل نہ سمجھے اور اللہ سے کہتا رہے کہ اے اللہ سہولت کے ساتھ آخری دم تک اپنی مرضیات پر چلالے۔ بچل جانے سے پھسل جانے سے حفاظت فرما۔ اللھم لاتزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب ۔
اللہ سے عافیت مانگیں صبر نہ مانگیں، صبر مانگنا تو گویا مشکلات مانگنا ہے۔ کیونکہ مشکلات آئیگی تو ہی صبر کی ضرورت پڑے گی۔ چاہے مشکل دین پر چلنے میں ہو یا گناہ سے بچنے میں یا کسی مصیبت میں، اللہ اپنے فضل سے آسانیوں کا معاملہ فرمائے۔ آمین۔