قبر پر اذان کہنا علمائے احناف کی زبانی
جہاں بھی نماز پڑھنی ہو وہاں پر اذان کہنا مسنون ہے خواہ وہ مسجد ہو یا مسجد کے علاوہ کوئی اور جگہ۔افسوس کہ لوگوں نے بعض اور مقامات پر بھی اذانیں کہنا شروع کر دی ہیں جن کا ثبوت قرآن وحدیث میں کہیں نہیں ملتامثلاً
(١) بارش زیادہ ہو رہی ہو تو اس وقت اذانیں کہنا شروع کر دینا کہ بارش بند ہو جائے
(٢) قبر پر اذان دینا۔۔نعیم الدین مرادآبادی بریلوی صاحب، در البحار کے حوالے سے لکھتے ہیں :من البدع التی شاعت فی بلاد الہندالاذان علی القبربعد الدفن۔ہندوستان میں عام ہونے والی بدعتوں میں سے ایک بدعت دفن کے بعد اذان کہنا ہے ۔
(منقول از جاء الحق:ج١ص٣١٨)
ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں: لا یسن الاذان عند ادخال المیت فی قبری کما ہو المعتاد الان،قد صرح ابن حجر بانہ بدعۃوقال :من ظن انہ سنۃلم یصب۔میت کو قبر میں داخل کرتے وقت مروجہ اذان سنت نہیں حافظ ابن حجر المکی نے اس کے بدعت ہونے کی صراحت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جس نے اس کو سنت سمجھا ،وہ درستی کو نہیں پہنچا۔
(شامی :ج٢ص٢٣٥،جاء الحق ج١ص٣١٧،٣١٨
Comment