ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیاﻻت اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں (16)
تفسیر
۱ ٦ ۔۱ یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالٰی نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان باب اذا حنت ناسیا فی الایمان مسلم ، باب تجاوز اللہ عن حدیث النفس والخواطر بالقلب اذالم تستقر
١٦۔١ ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے اس قرب علمی کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔یتلقی المتلقین کے معنی ہیں یاخذان ویثبتان امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال کو جانتے ہیں ، بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کے محتاج ہوں جن کو ہم نے انسان کے اعمال اقوال لکھنے کے لیے مقرر کیا ہے ، یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لیے مقرر کیے ہیں ۔ دو فرشتوںسے مراد بعض کے دیک ایک نیکی اور دوسرا بدی لکھنے کے لیے ۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح لقدیر)
تفسیر
۱ ٦ ۔۱ یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالٰی نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان باب اذا حنت ناسیا فی الایمان مسلم ، باب تجاوز اللہ عن حدیث النفس والخواطر بالقلب اذالم تستقر
١٦۔١ ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے اس قرب علمی کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔یتلقی المتلقین کے معنی ہیں یاخذان ویثبتان امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال کو جانتے ہیں ، بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کے محتاج ہوں جن کو ہم نے انسان کے اعمال اقوال لکھنے کے لیے مقرر کیا ہے ، یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لیے مقرر کیے ہیں ۔ دو فرشتوںسے مراد بعض کے دیک ایک نیکی اور دوسرا بدی لکھنے کے لیے ۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح لقدیر)
Comment