Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

نماز میں سینے پر ہاتھ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #1
    Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

    لو انہوں نے تو نماز کا طریقہ ہی بدل دیا
    اب یہ سب جھنم میں جائیں تو قصور ہمارا تو نا ہوا
    ہم تو کہتے ہیں اہل سنت و اہل بیت کی ٹھنڈی چھاؤں میں آجائیں اور رسول اللہ اور آل رسول کا ہاتھ تھام لیں

    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #2
      Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

      Originally posted by miski View Post
      ہم سنی مسلمان غیر مقلدوں( اہلحدیث، وہابیوں) کی طرح نماز میں سینے پر ہاتھ کیوں نہیں باندھتےغیر مقلدوں پاس نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحیح حدیث ہے اور نہ ہی خیرالقرون (یعنی صحابہ تابعین تبع تابعین) کا عمل نماز میں سےنے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہیں۔غیر مقلدوں کے دلائل اور ان کا ادنیٰ ساجائزہپہلی دلیل: ( و انحر ) کی تفسیر حضرت علی ؓسے سےنہ پر ہاتھ باندھنا ہے۔ سنن الکبری بیہقی ج 2 ص 30،31
      اعتراض نمبر 1: تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔
      اعتراض نمبر2: تفسیر قرطبی میں بھی اس کی سند کو ضعیف قرار دیا گیاہے۔
      اعتراض نمبر 3: تفسیر ابن جریر میں ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ وانحر سے مراد قربانی ہے۔ ج 15 ص 328
      اعتراض نمبر 4: غیر مقلدین کے عالم ابو عبدالسلام بن عبد الحنان اپنی کتاب القول المقبول ص 343 پر لکھتے ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
      اعتراض نمبر 5: اس کی سند میں ابوالحریش کلابی ہے ۔ اسکی ثقات مطلوب ہے؟
      اعتراض نمبر 6: ابوالحریش یہ روایت شیبان بن فروخ سے نقل کر رہا ہے ابوالحریش کلابی کا شیبان بن فروخ سے سماع ثابت نہیں۔
      اعتراض نمبر 7: شیبان بن فروغ کے بارے میں تقریب التہذیب ج 1 ص148 میں صدوق ہے ۔ وہم ہو جاتا ہے۔
      دوسری دلیل: غیر مقلدوں کی دوسری دلیل تفسیر ابن عباس ہے۔
      اعتراض نمبر 1: غیر مقلدزبیر علی زئی اپنی کتاب تسہیل الوصول ص 201 پر اس کی سند کو ضعیف قرار دیتا ہے۔
      اعتراض نمبر 2: غیرمقلد مبارک پوری ابکار المنن ص 109 میں لکھتا ہے کہ میں تسلیم کر تا ہوں کہ اس کی سند ضیعف ہے۔
      اعتراض نمبر3: اس کی سند میں ایک راوی روح بن المسیب ہے ۔ وضاع الحدیث (یعنی حدیثیں گھڑتا تھا) میزان الااعتدال ج 2 ص 61
      اعتراض نمبر4: اس روایت میں عندا نحر ہے علی انحر نہیں ہے لہٰذا غیر مقلدوں کی دلیل ہی نہ بنی۔
      تیسری دلیل: ابن خزیمہ کی حدیث ج 1 ص243 ہے۔
      اعتراض نمبر 1: غیر مقلد ناصر الدین البانی ابن خزیمہ کے حاشیہ میں لکھتا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
      اعتراض نمبر 2: غیرمقلد مبارک پوری ابکار المنن ص 109 میں لکھتا ہے کہ میں تسلیم کر تا ہوں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
      اعتراض نمبر 3: غیر مقلد ابو عبد السلام القول المقبول میں ص 345 میں لکھتا ہے اس کی سند ضعیف ہے۔
      اعتراض نمبر 4: اس روایت میں ایک راوی مومل بن اسماعیل ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہے یہ منکر الحدیث ہے(المغنی فی الضعفاءج 2 ص446، تہذیب الکمال ج 91 ص526، تہذیب التہذیب ج 5 ص2، میزان الااعتدال ج 4 ص 228امام بخاری ؒ فرماتے ہیں جسکو میں منکر الحدیث کہہ دوں اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔ میزان ج 1 ص6، تدریب الراوی)
      اعتراض نمبر 5: امام بخاریؒ کے استاد امام ابوزرعہؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں کثرت سے خطا ءکرتاہے۔(میزان ج 4 ص 228)
      اعتراض نمبر 6: تقریب التہذیب میں ہے ۔برئے حافظے والا ہے ۔(ج 2 ص 231)
      اعتراض نمبر 7: غیر مقلد زبیر علی زئی نے اپنی کتاب نور العینین ص 61 پر لکھا ہے جو راوی کثیر الخطاءاور برئے حافظہ والا ہو، اس کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے یہاں مومل بن اسماعیل کا بھی یہی حال ہے۔
      چوتھی دلیل : ابن حجر ؒ سے ایک روایت بیہقی کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں وہ بھی ضعیف ہے(القول المقبول ص 340)
      اعتراض نمبر 1: فتح الباری ج 9 ص 170 پر ہے مومل بن اسماعیل کثیر الخطا ہے سفیان سے اسکی روایت ضعیف ہوتی ہے یہاں مومل بن اسماعیل سفیان سے نقل کر رہا ہے۔
      اعتراض نمبر 2: نورالعینین ص 127 پر لکھا ہے جب سفیان (عن) سے روایت کر ے تو حجت نہیں غیرمقلدوں آنکھیں کھولوں یہاں بھی سفیان (عن) سے روایت کررہاہے
      اعتراض نمبر 3: غیر مقلد حکیم عبد الرحمن خلیق بارہ مسائل ص 38 پر لکھتا ہے کہ عاصم بن کلیب بالاتفاق کبار محدثین کے نزدیک سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے کہ یہاں بھی عاصم بن کلیب راوی موجود ہے اسے کہتے ہے کہ ” گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“
      پانچویں دلیل: مسند احمد کی روایت ہے جو ج 5 ص 226 پر ہے۔
      اعتراض نمبر 1: غیرمقلدین کی مشہور کتاب القول المقبول اس کے ص341 پر لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
      اعتراض نمبر 2: اس روایت میں سماک بن حرب ہے جو کہ استاد ہے سفیان کا ، سفیان فرماتے ہیں سماک بن حرب ضعیف ہے ۔ (میزا ن الااعتدال ج 2 ص 232)
      اعتراض نمبر 3: سفیان کا خود عمل ناف کے نیچے نماز میں ہاتھ باندھنے کا ہے ۔(شرح مسلم ج 1 ص173
      اعتراض نمبر 4: امام نسائی فرماتے ہیں سماک بن حرب جب منفرد ہو تو حجت نہیں۔(میزان ج2 ص232
      اعتراض نمبر 5: کتاب الثق ہم سنی مسلمان غیر مقلدوں( اہلحدیث، وہابیوں) کی طرح نماز میں سےنے پر ہاتھ کیوں نہیں باندھتے؟
      اعتراض نمبر 6: سماک بن حرب کے تمام شاگرد ھذہ علی ھذہ کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ سےنہ پر ہاتھ باندھنے کو بیان نہیں کرتے ان کے حوالے (سنن ابن ماجہ ج 1 ص 58، مسند احمد ج5 ص 226)
      اعتراض نمبر 7: یہ روایت کوفہ کی ہے اور کوفہ سے غیر مقلدوں کوپہلے ہی بہت بغض وکینہ ہے اور کوفہ کا عملی تواتر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔
      اعتراض نمبر 8: مسند احمد کی روایت میں لفظ ھذہ ہے جس سے دو ہاتھ کا ترجمہ کرنا جہالت ہے اسی وجہ سے غیر مقلدوں کے بہت بڑے مناظر مبشر ربانی اپنی کتاب ” آپ کے سوال قرآن وسنت کی روشنی میں “ کے ص 125 جلد اول پر اس رویت کے لفظ ھذہ کو ھذا میں بدل دیا نئے چھاپے میں بھی درست نہیں کیا اور نظر ثانی کرنےوالے زیبر علی زئی کی بھی اس لفظ پر آکر آنکھیں بند ہوگئی اﷲ تعالیٰ غیر مقلدوں کی عقل و آنکھوں کو درست فرمائے۔ آمین
      نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیلوں کا یہ حال دیکھ کر کون جاہل و بیوقوف نماز میں سینے پر ہاتھ باندھ کر اپنی نماز سنت رسول ﷺ کے خلاف بنائے گا۔









      Comment


      • #3
        Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

        .

        Comment


        • #4
          Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

          Originally posted by miski View Post
          [ATTACH]103699[/ATTACH]
          [CENTER]
          بخاری شریف کی حدیث کا کیا کریں










          Comment


          • #5
            Re: نماز میں سینے پر ہاتھ



            آپ لوگ سے کی بات یہ کہا گیا کہ آپ حدیثوں کے حوالے دینا چھوڑ دیں


            کیوں کہ آپ کے لیے امام کا قول آخری ہے



            ایک حنفی کو احادیث کے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، قرآن اور احادیث سے دلائل لینا تو قرآن اور حدیث والوں کا کام ہے جسے قرآن اور حدیث سے مسلہ لینا ہو وہ اہل حدیث سے رجوع کرے اور جسے فقہ سے مسلہ لینا ہو فقہ سے رجوع کرے....ایک حنفی کے لئے تو قول امام ہی دلیل ہے
            (جو آج کل قول مسجد کا امام ہے کیونکہ مسجد کا امام جو کہتا ہے مان لیتے ہیں ان بیچاروں کو تو یہ بھی نہیں پتا کے امام ابو حنیفہ کے خاص شاگردوں امام محمد اور امام یوسف نے دو تہائی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے بقول فقہ احناف کے )


            .. اگر کسی مسلے میں کوئی حدیث نا بھی ہو تو بھی ایک حنفی جو کے اگر پکا حنفی ہے تو اسے فقہ حنفی کی ہی کی تقلید کرنی چاہیے..پھر تو اسکا حنفی ہونا سچا ...مگر یہ کیا ایک طرف تو اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں پھر حدیث سے دلائل بھی لانے کی کرتے ہیں اور ظلم یہ کے ضعیف احادیث بھی پیش کرنے میں عار محسوس نہیں
            کرتے..کیوں کے فقہ کی ترجیح جو ثابت کرنی ہے



            Comment


            • #6
              Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

              Originally posted by miski View Post
              [ATTACH]103699[/ATTACH]
              مصنف ابن أبی شیبۃ والی روایت علماء دیوبند کی ایجاد کردہ ہے.... مصنف ابن ابی شیبۃ میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں جس میں تحت السرۃ کے ہاتھ باندھنے کا ذکر موجود ہو
              کسی بھی اتھنٹک مطبع سے جو بیروت لبنان یا مصر سے پرنٹڈ ہو.... میں ایسی کسی روایت کا وجود نہیں تلاش کر سکتے ہیں
              دوسرے نمبر پر جو روایت ہے ... اس میں صحیح حدیث سے اتنا ہی ثابت ہے

              ثلاث من أخلاق النبوة : تعجيل الإفطار و تأخير السحور و وضع اليمين على الشمال في الصلاة

              اس سے آگے ’’تحت السرۃ‘‘ کے الفاظ دیوبند علماء کا کارنامہ تو لگتا ہے مگر کسی صحیح حدیث میں ان الفاظ کا وجود نہیں......... جس نے یہ لگایا ہے اس کو چاہیے تھا کہ اس کو بمع سند وحوالہ ذکر کرتا.... یہ تو اس کے جھوٹا ہونے کی بین دلیل ہے کہ اس نے کتاب کا نام تک ذکر کرنا پسند نہیں کیا
              اور سنن ابی داود کی جس روایت کا ذکر کیا ہے ابن الاعرابی کے نسخہ میں ایسا ہے... اس کو چاہیے کہ وہ نسخہ کے صفحہ کا سکین لگائے.... یا پھر اس روایت کو بمع سند ومتن اور حوالہ کے ذکر کرے
              رہی آخری حدیث کی بات جس میں ہے کہ

              إِنَّ مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعَ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّةِ
              اس میں خود ہی ذکر کرتے ہیں کہ سیدنا علی سے روایت کی گئی ہے..... سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے جو شخص ہیں

              النعمان بن سعد

              سخت ضعیف شخص ہے
              پوری روایت بمع سند کے

              حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ أَخْبَرَنَا عَلِىُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِىٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ : إِنَّ مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعَ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّةِ.
              حفص بن غیاث
              حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ اگر اپنی تحریر کردہ کتاب سے حدیث بیان کرے تو مان لی جائے اگر اپنے حافظہ سے کچھ بیان کرے تو اس سے انتہائی بچنے کی ضرورت ہے
              اسی سند میں ’’’ محمد بن القاسم‘‘

              حافظ ذہبی فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے..

              حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ کذاب ہے
              اسی سند میں.... عبد الرحمن بن إسحاق

              ضعیف ترین شخص ہے



              http://www.islamghar.blogspot.com/

              Comment


              • #7
                Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                ان صاحب سے مجھے یہ پوچھنا ہے کہ احناف کی عورتیں نماز میں سینے پر کیوں ہاتھ باندھتی ہیں؟؟، براہ مہربانی اس حوالے سے کوئی صحیح حدیث پیش کریں۔ جب کہ آپ لوگ تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث کو ضعیف کہتے ہیں۔
                http://www.islamghar.blogspot.com/

                Comment


                • #8
                  Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                  مصنف ابن أبی شیبۃ والی روایت علماء دیوبند کی ایجاد کردہ ہے.... مصنف ابن ابی شیبۃ میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں جس میں تحت السرۃ کے ہاتھ باندھنے کا ذکر موجود ہو
                  کسی بھی اتھنٹک مطبع سے جو بیروت لبنان یا مصر سے پرنٹڈ ہو.... میں ایسی کسی روایت کا وجود نہیں تلاش کر سکتے ہیں
                  دوسرے نمبر پر جو روایت ہے ... اس میں صحیح حدیث سے اتنا ہی ثابت ہے
                  مصنف ابن ابی شیبہ کی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کی تحقیق

                  حدثنا و کیع عن موسٰی بن عمیر عن علقمہ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علٰی شمالہ فی الصلٰوۃ تحت السرہ ۔ ( ج 1 ص 390، ادارۃ القرآن دارالعلوم الاسلامیہ کراچی )۔

                  حضرت علقمہ بن وائل اپنے والد وائل بن حجر سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں یہ حدیث ہے ، اس میں تحت السرہ کا لفظ نہیں اور بعض نسخوں میں تحت السرہ کا لفظ ہے۔ ان دونوں نسخوں کی اشاعت کا شرف اہل السنۃ والجماعۃ احناف کو ہی نصیب ہوا۔ جس میں تحت السرہ نہیں اسکو بھی سب سے پہلے احناف نے ہی حیدرآباد دکن سے شائع کیا اور جس میں یہ لفط ہے اسکو بھی احناف نے ہی کراچی سے شائع کیا۔ جس سے احناف کی امانت و دیانت واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں نسخوں کو مانتے ہیں

                  اس نسخہ کی اطلاع سب سے پہلے الشیخ قاسم بن قطلو بغا شاگرد رشید ابن ہمام نے دی ، ان کا وصال 879ھ ہے ۔ ان کی مخطوطات پر وسیع نطر تھی ، بہت بڑے محدث تھے ، پوری دنیا میں ان کے علم کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس صدی میں اور پھر دسویں صدی میں گیارہویں صدی کے نصف تک دنیا بھر میں عرب یا عجم کے کسی محدث نے اس کا انکار نہ کیا۔ تقریبا پونے تین سو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد محمد حیات سندھی نے کہا کہ مجھے اس قلمی نسخہ میں یہ الفاظ نہیں ملے جو میں نے دیکھا ہے۔ یہ محمد حیات سندھی ، محمد معین ٹھٹھوی کا شاگرد ہے جو دراصل شیعہ تھا لیکن تقیہ کر کے اپنے آپ کو حنفی کہتاتھا۔ حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے دراسات اللبیب کے ضمیمہ میں اس کے سیعی عقائد کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے ۔

                  محمد حیات سندھی کی وفات 1163 ھ میں ہے ، نہ ہی محمد حیات سندھی بعد میں حنفی رہا اور نہ ہی محمد فاخرا الٰہ آبادی حنفی تھا ، اس کی وفات 1124 ھ میں ہے وہ بھی محمد حیات سندھی کا ساتھی تھا جو محمد معین شیعہ کی وجہ سے حنفیت سے برگشتہ ہوگیا اور محمد فاخر بھی اسی کے مذہب پر تھا۔ الغرض پونے تین سو سال بعد اس نے انکار کیا کہ میرے نسخہ میں نہیں تو مولانا قائم سندھی اور مولانا محمد ہاشم سندھی نے اس کو صحیح نسخہ میں تحت السرہ کا لفظ دکھا کر اس کی بولتی بند کردی ۔

                  خلاصہ یہ ہے کہ الشیخ قاسم بن قطلوبغا (879ھ) نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ” تخریج احادیث الاختیار ” میں لکھا : ھذا سند جید ۔ اور اس صدی میں کسی نے اس پر انکار نہیں کیا ، پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔ ھذا حدیث قوی من حیث السند ان کا وصال 1140 ھ میں ہے اور شیخ ابوالحسن السندھی کے معاصر ہیں۔ جب شیخ حیات سندھی نے انکار کیا تو شیخ قائم السندھی اور شیخ ہاشم سندھی نے انکو نسخہ صحیحہ دکھایا اور محمد فاخر نے اس زیادت کا انکارنہیں کیا ۔ اس کے بعد شیخ عابد السندھی (1257ھ) نے بھی طوالع الانوار شرح در مختار میں اس حدیث کو ذکر کیا اور اس پر ایک آواز بھی اس کے خلاف بلند نہ ہوئی کیونکہ محمد حیات السندھی کا انکار نہ صرف بے دلیل بلکہ خلاف دلیل تھا۔ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری :۔ تاآنکہ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری غیر مقلد (1335ھ) نے محمد حیات السندھی کی مردود بات کو دوبارہ ہوا دی اور اس پر تیل چھڑکا لیکن مبارک پوری بھی مانتا ہے کہ بعض نسخوں میں یہ زیادت ہے ۔

                  انکار حدیث کے لئے انکا کہنا ہے کہ نسخوں میں ” تحت السرہ” تو ہے مگر یہ سہو کاتب ہے نچلی سطر میں “تحت السرہ ” تھا وہ غلطی سے نظر سے چوکنے سے اوپر والی حدیث میں لکھ دیا ۔ اگر انکا یہ وہم مان لیا جائے تو پھر نیچے والی روایت میں تحت السرہ کا لفظ نہیں رہنا چاہیے ، آخر دو سطروں میں دو جگہ ” تحت السرہ ” تو فورا” نظر آجاتا ہے ۔ تصحیح کے وقت اصل نسخہ میں ایک تحت السرہ ہوتا نقل میں ساتھ ساتھ دو جگہ نظر آئے تو یہ غلطی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی اس لئے یہ محض وہم ہے۔ و ان الظن لا نغنی من الحق شیا “سو اٹکل کام نہیں دیتی حق بات میں کچھ بھی

                  دوسرا وہم یہ ہے کہ ابن ترکمانی ، زیلعی ، عینی وغیرہ نے اسکا ذکر نہیں کیا تو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کے دو نسخے ہیں ایک میں یہ الفاظ ہیں ایک میں نہیں تو انکے پاس پہلا نسخہ ہو تو اس سے دوسرے نسخے کی نفی کیسے ہوگی ۔

                  شیخ قاسم کے بعد ابن طولون حنفی (953ھ) ، علی حنفی (975ھ ) ، ملاعلی قاری حنفی ( 1014 ھ ) ، احمد شبلی حنفی (1027ھ) ، شیخ عبدالحق حنفی (1052ھ) ، محدث ایوب بن احمد خلوتی حنفی (1071ھ ) ، محدث حسن بن علی عجیمی مکی حنفی (1113ھ) ، محدث ابن الہادی السندھی (1139ھ) ، محدث شیخ عبدالغنی نابلسی حنفی (1143ھ) ، محدث محمد بن احمد عقیلہ مکی حنفی (1150ھ) ، شیخ محدث عبداللہ بن محمد اماسی حنفی شارح بخاری و مسلم (1127ھ) ، شیخ محدث محمد بن حسن المعروف بابن ہمات حنفی ( 1175ھ) ، شیخ محدث سید مرتضٰی زبیدی حنفی ( 1205ھ ) ، محدث فقیہ محمد ہبۃ اللہ باہلی ( 1224ھ ) ، محدث شھیر ابن عابدین ( 1252ھ) ، شیخ محدث شاہ ولی اللہ حنفی (1276ھ) ، شیخ محدث عبدالغنی مجددی المدنی ( 1296ھ) ، شیخ محمد عبدالحی لکھنوی ( 1304ھ) وغیرہ ہم کسی نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا ۔

                  اپنی خواہش کے مخالف حدیث کو جھٹلانا بلکہ اس حدیث کو شہید کرنا غیر مقلدیت کی سرشت میں شامل ہے ، پہلے دونوں وار کار گر نہ ہوئے تو اب تیسرا اور آخری وارکیا ۔ جو پہلے دو سے بھی زیادہ بودا اور کمزور ہے بلکہ بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ اور وہ یہ کہ حدیث مسند احمد اور دارقطنی میں ہے ، اس میں تحت السرہ نہیں ہے ، اس لئے مصنف ابن ابی شیبہ میں تحت السرہ نہیں ہے۔

                  اختلاف نسخہ کی پہلی مثال :۔ اگر یہ اعتراض بھی علم حدیث میں کوئی حیثیت رکھتا ہے تو اسی مسلہ میں غیر مقلدین جو حدیث مسند احمد سے پیش کرتے ہیں عن ھلب (الطائی) قال : راءیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ و عن شمالہ و راءیتہ یضع ھذہ علی صدرہ وصف یحیٰ الیمنی علی الیسری فوق المفصل ۔ (احمد )

                  ترجمہ :۔ ھلب طائی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں طرف سے پھرتے تھے اور میں نے دیکھا آپ نے اس کو اپنے سینے پر رکھا یحیٰی نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر گٹ پر رکھ کر دکھایا:۔

                  (۱)اس حدیث کی سند اوپر سے یوں ہے ۔ سفیان ، سماک ، قبیصہ ، ھلب اس حدیث کو ترمذی ، (2) ابن ماجہ نے ابوالاحوص ، سماک الخ سے روایت کیا ہے اور اس میں صدرہ نہیں۔ دارقطنی نے (3) عبدالرحمٰن بن المحدی اور (4) وکیع عن سفیان سے اس کو روایت کیا ہے ۔ اس میں علی صدرہ نہیں۔ پھر (6) امام احمد نے ہی اس کو شریک عن سماک سے روایت ہے اس میں بھی علی صدرہ نہیں ہے۔ اپنا فیصلہ یہاں بھی جاری کریں کہ “6″ جگہ علی صدرہ نہیں ، صرف ایک جگہ ہے اس لئے علی صدرہ تحریف ہے۔

                  (2):۔ اس حدیث میں مرکزی راوی سماک بن حرب ہے اور وہ منفرد ہے قال فصانی اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ الانہ کان یلقن فیتلقن۔ (میزانا الاعتدال ج2 ص233)۔ امام نسائی فرماتے ہیں جب وہ اکیلا ہو تو حجت نہیں کیونکہ وہ تلقین کو قبول کر لیتا تھا ۔ پھر یہ سماک کوفی بھی ہے اور اہل کوفہ کی روایت کو صاحب حقیقۃ الفقہ نے ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔

                  (3):۔ اس سند میں سفیان ثوری بھی ہیں جو اس حدیث کے خلاف ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے ۔

                  (4):۔ اس میں نماز کے بعد کا ذکر ہے کہ اس کو اپنے سینے پر رکھا ، کوئی صاف معنی نہیں بنتا ،نماز کے اندر ہاتھ باندھنے کا معنی نکلتا ہے ۔

                  (5):۔ امام احمد بھی اس حدیث کو نہیں مانتے ، ان کا ایک قول ” فوق السرہ ” اور دوسرا “تحت السرہ ” کا ہے ” علی صدرہ ” کا کوئی قول نہیں۔

                  (6):۔ یحیٰی بن سعید نے دایاں ہاتھ بائیں گٹ پر رکھا ، غیر مقلد دایاں ہاتھ بائیں کہنی پر رکھتے ہیں۔

                  (7):۔ ابن عبدالبر نے ” التمہید “میں اس حدیث میں ” علی صدرہ” ذکر نہیں کیا ۔

                  (8۔):۔ علامہ ہیثمی نے ” مجمع الزوائد ” میں مسند احمد کی تمام زائد احادیث لی ہیں اور اس میں ” علی صدرہ ” والی کا ذکر تک نہیں ۔

                  (9):۔ علامہ سیوطی نے ” جمع الجوامع ” میں مسند احمد کی روایات لی ہیں مگر اس روایت کا نشان تک نہیں ۔

                  (10):۔ علی متقی نے ” کنزالعمال ” میں مسند احمد کی روایات لی ہیں مگر اس میں ” علی “صدرہ” کا نشان تک نہیں۔ کیا ان دس دلائل قاہرہ سے آپکے اصول پر تحریف ثابت ہوگئی یا نہیں ، اب ذرا مسند احمد کے حوالہ سے ” علی صدرہ ” نقل کرنے والوں کے خلاف بھی گالیں کا پلندہ شائع کرو۔

                  اختلاف نسخہ کی دوسری مثال :۔ اگر اس طرح تحریف ثابت ہوتی تو جو حدیث غیر مقلدین صحیح ابن خزیمہ کے حوالہ سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی پیش کرتے ہیں اس کا حال ملاحظہ فرمائیں ۔

                  (۱):۔یہ حدیث حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ہے اور حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری زندگی ساری کوفہ میں گزاری ہے اور اہل کوجہ کا سینے پر ہاتھ باندھنا ہرگز ثابت نہیں ، پس اس پر صحابی کا عمل ہی ثابت نہیں۔

                  (2):۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے انکے ایک صاحب زادہ علقمہ ( احمد ج 4 ص 316 ، دارقطنی ج1 ص117 ، نسائی ج1ص141) اور ان کے دوسرے صاحبزادے عبدالجبار عن علقمہ و اہل بیت و مولٰی لہم روایت کرتے ہیں ۔ (مسلم ج1ص173، ابوداؤد ج1ص112 ،بیہقی ج2ص26 ، احمد ج4ص318 ، دارمی ج1ص164)۔ مگر کسی روایت میں نہ “علی صدرہ ” ہے اور نہ ہی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں سے کسی ایک کا سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھناثابت ہے۔

                  (3):۔ عاصم بن کلیب سے شعبہ (احمد ج4 ص 319 ) عبدالواحد ( ایضا” ج4 ص319) زہیر بن معاویہ ( ایضا” ج4 ص318 ) زائدہ (ایضا” ج4 ص 318 ) بشر بن المفصل ( ابوداؤد ج1ص112) عبداللہ بن ادریس ( ابن ماجہ ص59) سلام بن سلیم (طیالسی ص137) خالد بن عبداللہ ( بیہقی ج2ص31)روایت کرتے ہیں اور کسی ایک روایت میں بھی علٰی صدرہ نہیں ہے۔

                  (4):۔ عاصم سے صرف سفیان ثوری کی سند میں ہے اور وہ اس کے خلاف زیرناف ہاتھ باندھتے ہیں۔ (شرح المہزب ج 3ص313، مغنی ابن قدامہ ج اص519)۔

                  (5):۔ اس کے بعد مؤمل بن اسماعیل کا انفراد اور ضعف بھی بیان ہو چکا۔ اب فرمائیے ! اس کو آپ تحریف کہیں گے ? محمد حیات سندھی ، محمد فاخرالہ آبادی اور مبارک پوری نے اس کو تحریف نہیں ، سہو کاتب کہا تھا ، جو ان کا وہم تھا۔ جبکہ ان تین غیر مقلدوں کے علاوہ کسی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی نے اسکو سہو کاتب بھی نہیں کہا۔


                  اختلاف نسخہ کی تیسری مثال:۔ (1):۔ تمام غیر مقلدین اہل السنۃ والجماعۃ کی ضد میں وتر میں دو رکعتوں کے بعد قعدہ نہیں کرتے ، وہ مستدرک حاکم کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں لا یقعد الا فی آخر ھن ۔ مگر یہ مستدرک کے اکثر نسخوں میں نہیں ہے ۔ علامہ زیلعی ، شیخ ابن ہمام ، علام عینی ، سید مرتضٰی زبیدی سب نے لا یقعد کی جگہ لا یسلم ہی نقل کیا ہے لیکن وہ چونکہ غیر مقلدین کی خواہش کے موافق ہے اس لئے قبول ہے اس کو تحریف نہیں کہیں گے۔ ابو داؤد:۔

                  (2):۔ ابوداؤد سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث ابن الاعرابی کے نسخہ میں ہے۔ لؤلؤی جو آخری نسخہ ہے اس میں بالکل نہیں مگر اس کو تحریف نہیں کہتے۔

                  (3):۔ ابو داؤد شریف میں ہی یہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع یدین والی حدیث کے بارے میں انہوں نے فرمایا ہے : لیس بصحیح بھذا اللفظ یہ عبارت ابوداؤد کے اکثر نسخوں میں نہیں ہے۔ ابن الاعرابی کے نسخہ میں بھی بریکٹ میں ہے۔اور ابوداؤد کے آخری اور صحیح ترین نسخے لؤلؤی میں نہیں ہے۔ جب آخری نسخہ سے خود ابوداؤد نے اس کو نکال دیا تو اب دوبارہ اس کو ابوداؤد میں داخل کرنے کی ضرورت کیا تھی، صرف خواہش نفسانی۔

                  (4):۔ مگر ابو داؤد شریف میں ہی بعض نسخوں میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عشرین رکعۃ” ہے ، چونکہ یہ روافض کی تقلید میں بیس رکعت تراویح کا انکار کرتے ہیں اس لئے اس نسخہ کا انکار کردیا ، اب بجائے اس کے کہ انکار حدیث پر کچھ شرم کرتے الٹا شور مچادیا کہ دیوبندیوں نے تحریف کردی۔ ان کے شیخ الحدیث سلطان محمود جلال پوری نے اس پر پورا رسالہ لکھ مارا ، اس کو کہتے ہیں:۔

                  چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد

                  علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء ج ا ص 400 پر ابوداؤد سے سند کے ساتھ عشرین رکعۃ” (بیس رکعت) ہی نقل کیا ہے ۔ اس کتاب کے محقیقن شعیب الارنوط اور حسین الاسد نے بھی اس کی حاشیہ میں تائید کی ہے ۔ ذہبی کا وصال 748ھ ہے اس وقت سے لے کر آج تک کسی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، محدث نے اس نسخہ کا انکار نہیں کیا ۔ اس کے انکار کی لعنت جلالپوری کے چہرہ پر برسی اور انکار پر شرم کرنے کی بجائے الٹا اسے تحریف کا نام دیا۔

                  (5):۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے کی جو عادات یہود میں تھیں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے میں غیر مقلدین نے یہود کا ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ مسند الحمیدی میں ایک نہایت صحیح السند حدیث ترک رفع یدین پر ہے جو ان کے اس جھوٹ کے خلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رفع یدین کرتے رہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ اس صحیح حدیث کے بعد اپنے جھوٹ سے توبہ کرلیتے ابھی توبہ کا دروازہ کھلاہے ، مگر اپنے جھوٹ سے توبہ کرنے کے بجائے الٹا اس حدیث کا انکار کردیا کہ یہ حدیث دمشق کے مکتبہ ظاہریہ کے نسخہ میں نہیں ۔




                  Attached Files

                  Comment


                  • #9
                    Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                    Originally posted by i love sahabah View Post


                    مصنف ابن ابی شیبہ کی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کی تحقیق

                    حدثنا و کیع عن موسٰی بن عمیر عن علقمہ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علٰی شمالہ فی الصلٰوۃ تحت السرہ ۔ ( ج 1 ص 390، ادارۃ القرآن دارالعلوم الاسلامیہ کراچی )۔

                    حضرت علقمہ بن وائل اپنے والد وائل بن حجر سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں یہ حدیث ہے ، اس میں تحت السرہ کا لفظ نہیں اور بعض نسخوں میں تحت السرہ کا لفظ ہے۔ ان دونوں نسخوں کی اشاعت کا شرف اہل السنۃ والجماعۃ احناف کو ہی نصیب ہوا۔ جس میں تحت السرہ نہیں اسکو بھی سب سے پہلے احناف نے ہی حیدرآباد دکن سے شائع کیا اور جس میں یہ لفط ہے اسکو بھی احناف نے ہی کراچی سے شائع کیا۔ جس سے احناف کی امانت و دیانت واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں نسخوں کو مانتے ہیں




                    بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے "تحت السرة" والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اصل (عام) قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں "تحت السرة" کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطوبغا (کذاب بقول البقاعی/ الضوءاللا مع ۱۸۲/۲) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔

                    انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں


                    "پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرة والی عبارت) نہیں ہے۔

                    "
                    (فیض الباری ۲۶۷/۲)

                    چلو اچھا ہوا کہ آپ نے

                    انور شاہ کشمیری

                    کو جھوٹا ثابت کر دیا



                    Last edited by lovelyalltime; 12 August 2012, 00:42.

                    Comment


                    • #10
                      Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                      الشیخ قاسم بن قطلوبغا (879ھ) نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ” تخریج احادیث الاختیار ” میں لکھا : ھذا سند جید ۔ اور اس صدی میں کسی نے اس پر انکار نہیں کیا ، پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔ ھذا حدیث قوی من حیث السند ان کا وصال 1140 ھ میں ہے اور شیخ ابوالحسن السندھی کے معاصر ہیں۔ جب شیخ حیات سندھی نے انکار کیا تو شیخ قائم السندھی اور شیخ ہاشم سندھی نے انکو نسخہ صحیحہ دکھایا اور محمد فاخر نے اس زیادت کا انکارنہیں کیا ۔ اس کے بعد شیخ عابد السندھی (1257ھ) نے بھی طوالع الانوار شرح در مختار میں اس حدیث کو ذکر کیا اور اس پر ایک آواز بھی اس کے خلاف بلند نہ ہوئی کیونکہ محمد حیات السندھی کا انکار نہ صرف بے دلیل بلکہ خلاف دلیل تھا۔ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری :۔ تاآنکہ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری غیر مقلد (1335ھ) نے محمد حیات السندھی کی مردود بات کو دوبارہ ہوا دی اور اس پر تیل چھڑکا لیکن مبارک پوری بھی مانتا ہے کہ بعض نسخوں میں یہ زیادت ہے ۔

                      شیخ محمد ابن عبدالوہاب رھمہ اللہ کا حوالہ میں پہلے دے چکا ہوں

                      سعودیہ کے مشہور محدث شیخ عوامہ نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں ”تحت السرۃ“ کی تصدیق کی ہے اور شیخ قاسم کے نسخے کی تصدیق کی ہے اور کتاب کے شروع میں مصنف ابن ابی شیبہ کے نسخے کا عکس دیا ہے جہان ” تحت السرۃ “ کی وضاحت ہے.
                      (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفھہ 320،321 تحقیق شیخ عوامہ)

                      Attached Files

                      Comment


                      • #11
                        Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                        Originally posted by i love sahabah View Post
                        الشیخ قاسم بن قطلوبغا (879ھ) نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ” تخریج احادیث الاختیار ” میں لکھا : ھذا سند جید ۔ اور اس صدی میں کسی نے اس پر انکار نہیں کیا ، پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔ ھذا حدیث قوی من حیث السند ان کا وصال 1140 ھ میں ہے اور شیخ ابوالحسن السندھی کے معاصر ہیں۔ جب شیخ حیات سندھی نے انکار کیا تو شیخ قائم السندھی اور شیخ ہاشم سندھی نے انکو نسخہ صحیحہ دکھایا اور محمد فاخر نے اس زیادت کا انکارنہیں کیا ۔ اس کے بعد شیخ عابد السندھی (1257ھ) نے بھی طوالع الانوار شرح در مختار میں اس حدیث کو ذکر کیا اور اس پر ایک آواز بھی اس کے خلاف بلند نہ ہوئی کیونکہ محمد حیات السندھی کا انکار نہ صرف بے دلیل بلکہ خلاف دلیل تھا۔ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری :۔ تاآنکہ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری غیر مقلد (1335ھ) نے محمد حیات السندھی کی مردود بات کو دوبارہ ہوا دی اور اس پر تیل چھڑکا لیکن مبارک پوری بھی مانتا ہے کہ بعض نسخوں میں یہ زیادت ہے ۔

                        شیخ محمد ابن عبدالوہاب رھمہ اللہ کا حوالہ میں پہلے دے چکا ہوں

                        سعودیہ کے مشہور محدث شیخ عوامہ نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں ”تحت السرۃ“ کی تصدیق کی ہے اور شیخ قاسم کے نسخے کی تصدیق کی ہے اور کتاب کے شروع میں مصنف ابن ابی شیبہ کے نسخے کا عکس دیا ہے جہان ” تحت السرۃ “ کی وضاحت ہے.
                        (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفھہ 320،321 تحقیق شیخ عوامہ)







                        انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں


                        "پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرة والی عبارت) نہیں ہے۔

                        "
                        (فیض الباری ۲۶۷/۲)

                        چلو اچھا ہوا کہ آپ نے

                        انور شاہ کشمیری

                        کو جھوٹا ثابت کر دیا

                        Comment


                        • #12
                          Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                          لولی میں شیخ قاسم کے کتاب کے اصل صفحات سے ثابت کر چکا ہوں اس نسخے کو اور اس کے ساتھ ساتھ سعودیہ کے مشہور محدیث شیخ عوامہ نے بھی اس نسخے کی تصدیق کی ہے اور اس کو صحیح مانا ہے


                          اب اگر تم اصل صفحات دیکھ کر بھی نہیں مان رہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔



                          بات رہی علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی تو جناب انہوں نے تو جھوٹ نہیں بولا بلکہ واضح کہہ دیا کہ ان کو نسخے میں یہ الفاظ نہیں ملے لیکن انہوں نے شیخ قاسم کے نسخے کی تصدیق کی کہ اس میں زیادتی ہے۔


                          سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کے بارے میں علامہ انور کشمیری رھمہ اللہ کہتے ہیں کہ

                          ابن خزیمہ کی حدیث میں وائل رضی اللہ کی حدیث میں علی صدرہ بھی آیا ہے اور میرے نزدیک یہ معلول ہے اور ائمہ میں سے اور سلف میں سے نہ کسی نے اس پہ عمل کیا ہے اور نہ کوئی اس طرف گیا ہے۔( فیض الباری جلد 2)



                          جھوٹ کسے کہتے ہیں یہ اہلحدیثوں سے دیکھنا چاہیئے کہ اس مسئلہ پہ تم نام نہاد اہلحدیثوں نے کتنے جھوٹ بولے۔

                          یہ دیکھو ذرا۔

                          غير مقلدوں پاس نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحيح حديث ہے اور نہ ہی خيرالقرون (يعنی صحابہ تابعين تبع تابعين) کا عمل نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہيں۔ صرف اورصرف جھوٹ ہيں۔
                          قرآن:الالعنت اﷲ علی الکاذبین
                          سنو اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔
                          جھوٹ نمبر1:سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات....بخاری ومسلم میں بکثرت ہیں۔( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص443)
                          جھوٹ نمبر2:
                          سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہے۔(بلوغ المرام فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ۔ص593)
                          جھوٹ نمبر3:
                          سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتلایا ہے۔ ( ثنائیہ جلد1ص 457 نیز دلائل محمدی ص 110 حصہ دوم)
                          جھوٹ نمبر4:
                          امام احمد نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے۔
                          یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی ہی حدیث آتی ہے۔واللہ اعلم ثنائيہ جلد 1ص457


                          جھوٹ نمبر5:
                          مسلم کی سند ابن خزیمہ کے متن کے ساتھ ملادی۔ملاحظہ ہو۔( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص444)
                          اصل سند ابن خزیمہ جلد1 ص 243 پر ملاحظہ کریں۔ مسلم کی سند جلد1 ص 172 پر ملاحظہ کریں۔

                          یہ تمہارے ثناء اللہ امرتسری ہیں جنہون نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہہ دیا کہ سینے پہ ہاتھ باندنے کی روایات بخاری اور مسلم میں ہیں اب دکھاؤ ذرا یہ احادیث بخاری اور مسلم میں یا پھر تسلیم کرو کہ تمہارے عالم نے جھوٹ بولا۔

                          Comment


                          • #13
                            Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                            کیا صرف سینے پر یا ناف پہ ہاتھ باندھنے سے رب راضی ہوگا یا سچی نیت سے؟
                            یہ علماء انتہائی درجے کے خود غرض ، مطلبی اور دھوکے باز ہیں
                            ان کا بس نہیں چلا ورنہ یہ پسند کا قرآن بنادیتے جیسے پسند کے ترجمے و تفسیریں ہیں

                            بھائی لوگ اللہ کو سب معلوم ہے کس کی نیت کیا ہے بس تو پریشان مت ہو
                            نماز جیسے بھی پڑھو مگر سچے دل سے اور اللہ کی رضا کے لئے بس
                            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                            Comment


                            • #14
                              Re: نماز میں سینے پر ہاتھ

                              Originally posted by i love sahabah View Post
                              لولی میں شیخ قاسم کے کتاب کے اصل صفحات سے ثابت کر چکا ہوں اس نسخے کو اور اس کے ساتھ ساتھ سعودیہ کے مشہور محدیث شیخ عوامہ نے بھی اس نسخے کی تصدیق کی ہے اور اس کو صحیح مانا ہے


                              اب اگر تم اصل صفحات دیکھ کر بھی نہیں مان رہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔



                              بات رہی علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی تو جناب انہوں نے تو جھوٹ نہیں بولا بلکہ واضح کہہ دیا کہ ان کو نسخے میں یہ الفاظ نہیں ملے لیکن انہوں نے شیخ قاسم کے نسخے کی تصدیق کی کہ اس میں زیادتی ہے۔


                              سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کے بارے میں علامہ انور کشمیری رھمہ اللہ کہتے ہیں کہ

                              ابن خزیمہ کی حدیث میں وائل رضی اللہ کی حدیث میں علی صدرہ بھی آیا ہے اور میرے نزدیک یہ معلول ہے اور ائمہ میں سے اور سلف میں سے نہ کسی نے اس پہ عمل کیا ہے اور نہ کوئی اس طرف گیا ہے۔( فیض الباری جلد 2)



                              جھوٹ کسے کہتے ہیں یہ اہلحدیثوں سے دیکھنا چاہیئے کہ اس مسئلہ پہ تم نام نہاد اہلحدیثوں نے کتنے جھوٹ بولے۔

                              یہ دیکھو ذرا۔

                              غير مقلدوں پاس نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحيح حديث ہے اور نہ ہی خيرالقرون (يعنی صحابہ تابعين تبع تابعين) کا عمل نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہيں۔ صرف اورصرف جھوٹ ہيں۔
                              قرآن:الالعنت اﷲ علی الکاذبین
                              سنو اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔
                              جھوٹ نمبر1:سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات....بخاری ومسلم میں بکثرت ہیں۔( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص443)
                              جھوٹ نمبر2:
                              سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہے۔(بلوغ المرام فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ۔ص593)
                              جھوٹ نمبر3:
                              سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتلایا ہے۔ ( ثنائیہ جلد1ص 457 نیز دلائل محمدی ص 110 حصہ دوم)
                              جھوٹ نمبر4:
                              امام احمد نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے۔
                              یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی ہی حدیث آتی ہے۔واللہ اعلم ثنائيہ جلد 1ص457


                              جھوٹ نمبر5:
                              مسلم کی سند ابن خزیمہ کے متن کے ساتھ ملادی۔ملاحظہ ہو۔( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص444)
                              اصل سند ابن خزیمہ جلد1 ص 243 پر ملاحظہ کریں۔ مسلم کی سند جلد1 ص 172 پر ملاحظہ کریں۔


                              یہ تمہارے ثناء اللہ امرتسری ہیں جنہون نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہہ دیا کہ سینے پہ ہاتھ باندنے کی روایات بخاری اور مسلم میں ہیں اب دکھاؤ ذرا یہ احادیث بخاری اور مسلم میں یا پھر تسلیم کرو کہ تمہارے عالم نے جھوٹ بولا۔




                              علماء احناف سے ثبوت

                              علماء احناف سے ثبوت دینے کے لئے کچھ عبارتیں تحریر کی جاتی ہیں

                              (۱) علامہ بدر الدین عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ص۲۷۹ج۵(المنیریہ) میں اسطرح اقرارکرتے ہیں کہ

                              واحتج الشافعی بحدیث وائل بن حجراخرج ابن خزیمۃ فی

                              امام شافعیؒ نے صحیح ابن خزیمہ کی حدیث سے دلیل لیا ہے جس میں

                              صحیحہ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺفَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ وَلَمْ یَذْکُرِ النَّووِیُّ غَیْرَہُ فِیْ الْخُلاَصَۃِ وَکَذٰلِکَ الشَّیْخُ تقی الدین فِی الاِمَام وَاحْتَجَّ صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ لاَصْحَابِنَا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ ﷺ اِنَّ مِنَ الْسُنَّۃِ وَضْعُ الْیَمِیْنِ عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّۃِ قُلْتُ ہٰذَا قَوْلُ عَلِیّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَاِسْنَادُہٗ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ غَیْرُ صَحِیْحٍ ۔

                              رسول اللہ ﷺ کے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور یہی حدیث امام النووی نے الخلاصہ میں اورامام ابن دقیق تقی الدین نے کتاب الامام میں ذکر کی ہے اور صاحب ھدایہ نے ہم (احناف) کے لئے یہ روایت بطور دلیل کے پیش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان اورسنت یہ ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے رکھے جائیں مگر یہ قول رسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں ہے بلکہ علی ؓ کا قول ہے ۔

                              ناظرین :یہ عبارت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ علامہ عینی رسول اللہ ﷺ سے سینے پر ہاتھ باندھنے کے ثبوت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کو ثابت نہیں کہتے اور کہتے ہیں کہ علیؓ کا قول ہے مگر یہ قول علیؓ سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ قول مسند احمد ص۱۱۰ج ۱ (زوائد عبداللہ بن احمد) میں ہے اور اس کی سند میں راوی عبدالرحمان بن اسحاق الواسطی ابو شیبہ ہے جس پر سخت جرح کی گئی ہے ۔ امام احمد اور ابو حاتم نے منکر الحدیث کہا ہے اور امام یحییٰ بن معین نے اس کو متروک کہا ہے اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ روایات اور اسناد تبدیل کرتا تھا اور مشہور اشخاص سے منکر روایات لاتا تھا اس کی روایت سے دلیل لینا حرام ہے اور بے شمار ائمہ مثلاً بخاری ابو زرعہ ، نسائی ، ابو داؤد ، ابن سعد ، یعقوب بن سفیان وغیرھم اس کو ضعیف کہتے ہیں (میزان الاعتدال ص ۵۴۸ ج ۲ اور تہذیب التہذیب ص۱۳۴ ج۱) اور علامہ ابن العجمی نے اپنی کتاب الکشف الحثیث میں اس کو عمن رمی بوضع الحدیث میں ذکر کیا ہے اس عنوان کے تحت صرف وہ راوی مذکور ہیں جن پر جھوٹی روایات گھڑنے کاالزام ہے اس لئے ایسے شخص کی روایت پر کوئی مسلمان اعتبار نہیں کر سکتا بلکہ علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ ص۳۱۴ج۱ اور علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی ھدایہ کے حاشیہ ص۱۰۲ج۱ میں امام نووی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے اسی طرح شیخ ابن الھمام فتح القدیر شرح الھدایہ ص۲۰۱میں بھی نقل کرتے ہیں ۔

                              (۲) علامہ ابن نجیم بحرالرائق شرح کنز الدقائق ص۳۲۰ج۱ میں فرماتے ہیں کہ

                              وَلَمْ یَثْبتْ حَدِیْثٌ یُوْجِبُ تعیین الْمَحَلِّ الَّذِیْ یَکُوْنُ فِیْہِ الْوَضَعُ مِنَ الْبَدَنِ اِلاَّ حَدِیْث وَائِلِ الْمَذْکُوْر ۔

                              کوئی بھی ایسی حدیث پایہ ِٔ ثبوت کو نہیں پہنچتی جس میں نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا تعین کیا جاسکے مگر صرف ایک حدیث جو وائلؓ سے ذکر کی جاتی ہے یعنی جو حدیث نمبر ۳ میں صحیح ابن خزیمہ کے حوالے سے ذکر کی گئی ۔

                              (۳) اسی طرح علامہ ابن امیر الحاج شرح منیۃ المصلی میں فرماتے ہیں

                              (فتح الغفور)

                              (۴) ملا الھداد جونپوری شرح ھدایہ ورق ۴۰۷(القلمی ) میں فرماتے ہیں کہ

                              وَحُجَّتُہٗ حَدِیْثُ وَائِلٍ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ واما حدیث علی رضی اﷲ عنہ اِنَّہٗ قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ فِیْ الصَّلاَۃِ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّۃِ فَضَعِیْفٌ متفق علی تضعیفہ کذا فی النووی قلت وَمِنَ الدَّلِیْلِ عَلی ضُعْفِہٖ اَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ فَسَّرَ قَوْلَہ تَعَالیٰ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ باَنَّہُ وَضْعُ الْیَمِیْن عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ الصَّدْرِ وَذَالِکَ اِنَّ تَحْتَ الصَّدْرِ عِرْقًا یُقَالُ لَہٗ النَّاحِرای وَضَعْ یَدَکَ

                              (ترجمہ)

                              امام شافعی کی دلیل وائل ؓ کی حدیث ہے (جو حدیث نمبر ۲ میں گذری )اور علی ؓ سے جو روایت ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے ہیں وہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے نیز اس کے ضعیف ہونے کے لئے دوسری دلیل یہ ہے کہ علی ؓ نے آیت ’’والنحر‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ سینے پرہاتھ باندھنے چاہیئے اور الناحر سینے کی رگ کو کہا جاتا ہے اس لئے یہ تفسیر کی گئی ہے جو ا س روایت کو رد کرے اس پر وائل ؓ کی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے اور اس طرح کہنا

                              عَلَی النَّاحِرِ کَذَا فِیْ الْعوارفِ وَہٰکَذَا ذُکر فی المغنی أیضَا فَہٰذَا التَّفْسِرُ عَنْ عَلِیٍّ یَرُدُّ مَارُوِیَ عَنْہُ مِنْ حَدِیْثِ وَائِلٍ عَلی مَا رَوَیْنَا قَوْلَہُ لِاَنَّ الْوَضْعَ تَحْتَ السُّرَّۃِ اَقْرَبُ

                              کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم والا فعل ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ حدیث کے خلاف ہے ۔

                              اِلَی التَّعْظِیْمِ وَہُوَ الْمَقْصُوْدُ قُلْتُ وَہٰذَا التَّعْلِیْلُ بِمُقَابِلَۃِ حَدِیْثِ وَائِلٍ فَیُرَدُّ وَحَدِیْثُ عَلِیٍّ لاَ یُعَارِضُہ کَمَا ذکرنا ۔

                              ناظرین

                              یہ حوالہ جات معتبر احناف علماء سے نقل کئے گئے ہیں خاص طور پر ابن امیر الحاج جو کہ اپنے استاد ابن ھمام کے ہاں نزدیکی حیثیت رکھتا ہے ۔ اور ان عبارتوں سے چند اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔


                              الف: صحیح حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے ۔
                              ب : اور یہ حدیث واجب العمل ہے ۔
                              ج : امیر المؤمنین علی ؓ نے آیت ’’وانحر‘‘ کے معنی سینے پر ہاتھ باندھنا کئے ہیں ۔
                              د : یعنی حدیث نمبر ۷ کی تصدیق اور تصحیح ہو گئی ۔
                              ھ : اس آیت کی یہی تفسیر صحیح اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس سے مسئلے کو ثابت کیا ہے ۔
                              و : یعنی کہ قرآن کریم میںبھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم ہے ۔
                              ز : اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے ۔
                              ح : بلکہ جو روایت اس بارے میں ذکر کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔
                              حنفی دوستو: ان عبارتوں سے عبرت پکڑو اور نا ثابت عمل کو چھوڑ کر ثابت حدیث پرعمل کرو کیونکہ اس میں ہی نجات اخروی ہے ۔

                              Comment


                              • #15
                                Re: نماز میں سینے پر ہاتھ



                                دعوت
                                ہم پھر سنجیدہ طبع اور بیدار مغز حنفی دوستوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ٹھنڈے دل سے احادیث کی کتب کا مطالعہ کر کے غور کریں نبوی طریقہ کون سا ہے خود امام ابو حنیفہ ؒ نے یہی تلقین کی ہے کہ
                                اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِیْ ۔
                                (الشامی ص۳۷۵، ج۱)
                                جب بھی کوئی صحیح حدیث ثابت ہو جائے تو میرا وہی مذہب ہے ۔
                                نیز فرماتے ہیں کہ :
                                اُتْرُکُوْا قَوْلِیْ بخَبَرِ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ۔ (خزانۃ الروایات ص۲۵ قلمی)
                                رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی وجہ سے میرے قول کو چھوڑ دو ۔


                                حنفی ساتھیو
                                امام ھمام کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ ان کی صحیح اتباع یہی ہے کہ حدیث پر عمل کیا جائے اس لئے آ پ پر حق ہے کہ آپ اگر امام موصوف کی سچی تابعداری کے مدعی ہیں تو مندرجہ بالا احادیث جن کو محدثین خواہ فقہاء نے صحیح مانا ہے اور ان میں صاف الفاظ میں سینے پر ہاتھ باندھنا مذکور ہے انہیںدیکھیں پھر ان پر عمل کریں اس کے بعد خاص برگزیدہ بندوں سے ثبوت پیش کیا جاتا ہے جو عام لوگوں کے نزدیک مسلم ہیں ۔

                                مثلاً (۱) : مرزا مظہر جان جاناں ہو سلسلہ نقشبندیہ کے پیشوا مانے جاتے ہیں اور فرقوں ان کو مانتے ہیں جو ۱۱۹۵؁ھ میں فوت ہوئے انکے بارے میں نواب صدیق حسن صاحب ابجد العلوم ص ۹۰۰ میں لکھتے ہیں کہ :
                                وَکَانَ یَرَی الاِشَارَۃَ بِالْمُسَبِّحَۃِ وَیَضَعُ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ تَحْتَ صَدْرِہ وَیُقَوِّیْ قِرَاء ۃَ الْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الاِمَامِ عَامَ وَفَاتِہٖ ۔
                                نما ز میں بیٹھتے وقت انگلی اٹھا کر اشارہ کرتے تھے اور سینے سے نیچے یعنی اسکے قریب ہاتھ باندھتے تھے اور اپنی وفات والے سال فاتحہ خلف الامام پڑھنے کو قوی کہتے تھے ۔
                                اور اس طرح علامہ سید شریف عبدالحئی الحسینی حنفی نے نزھۃ الخواطر ص۵۲ج۶ میں بھی ذکر کیا ہے ۔

                                (۲) علامہ شیخ ابو الحسن سندھی کبیر پر اس مسئلہ کی وجہ سے جو آزمائشی امتحان آیا اس عبرت ناک واقعہ کو علامہ محمد عابد سندھی نے اپنی کتاب تراجم الشیوخ میں نقل کیا ہے شیخ موصوف حدیث پر عمل کرتے تھے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سیدھے ہوتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور نماز میں اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے تھے انکے دور میںشیخ ابو الطیب سندھی متعصب حنفی تھا جوشیخ ابو الحسن سے مناظرے کرتاتھا مگر دلائل دیکھ کر عاجز آجاتا تھا بالاٰخر اس نے مدینہ کے قاضی کے پاس شکایت کی اور شیخ ابو الحسن کو طلب کیا گیا جب آپ کے دلائل قاضی صاحب نے سنے تب اس کو معلوم ہوا کہ آپ تو تمام فنون میں امام ہیں اور پورے مدینے والے آپ کے شاگرد ہیں اس لیے قاضی صاحب کے پاس کوئی چارہ نہ رہا اس نے آپ سے دعا کی التجا کرتے ہوئے آپ کو رخصت کر دیا اس طرح ہر سال نئے نئے قاضی کے پاس شکایت آتی رہی او رشیخ صاحب کامیاب ہوتے رہے بالآخر ایک سال ایسا قاضی آیا جو حنفی مذہب میں سخت متعصب تھا ابو الطیب نے اس کو شکایت پیش کی جس پر قاضی صاحب نے شیخ صاحب کو طلب کر کے حکم دیا کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور رفع یدین نہ کرو شیخ صاحب نے واضح طور پر یہ فرمایا کہ ’’لا افعل ذالک ‘‘ یعنی میں اس طرح نہیں کروں گا اس بناء پر آپ کو جیل کی تاریک کوٹھری میں بند کرنے کا حکم دیا گیا جہاں پر آدمی اپنے اعضاء کو بھی نہ دیکھ سکے اور اسی کوٹھری میں پیشاب پخانہ کرتے رہے چھ دنوں تک وہاں رہے پھر مدینے کے لوگ آکر شیخ صاحب کو نصیحت کرنے لگے کہ قاضی صاحب کا حکم مانئے اورجیل سے رہائی حاصل کیجئے ۔شیخ صاحب نے فرمایا کہ :
                                لاَ اَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَصِحَّ عِنْدِیْ وَلاَ اَتْرُکُ شَیْئًا صَحَّ عِنْدِیْ مِنْ فِعْلِہٖ ﷺ وَحَلَفَ عَلٰی ذَالِکَ ۔
                                میرے نزدیک جو عمل رسول اللہ ﷺ سے صحیح ثابت نہیں ہے وہ نہیں کروں گا اور جو ثابت ہے وہ نہیں چھوڑوں گا اس بارے میں انہوں نے قسم اٹھائی ۔

                                پھر لوگ قاضی کے پاس سفارش کے لئے گئے تب قاضی نے بھی قسم اٹھا کر کہا کہ اگر ان کو میں نے دوبارہ سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھا تو جیل بھیج دوں گا تو لوگوں نے شیخ صاحب کوعرض کی کہ مہربانی کر کے نماز پڑھتے وقت چادر لپیٹ کر نماز پڑھا کریں کہ قاضی آپ کو سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے نہ دیکھے پھر شیخ صاحب نے اس طرح کیا کچھ مدت گزرنے کے بعد نماز پڑھتے ہوئے شیخ صاحب کو کسی نے خبر دی کہ قاضی مر گیا تو شیخ صاحب نے نماز ہی کی حالت میںچادر اتار دی ۔
                                ناظرین : یہی ہے ایمان کا تقاضا کہ ہر تکلیف برداشت کی جائے لیکن سنت پر قائم رہا جائے شیخ صاحب موصوف عالم ہیں صحاح ستہ اور مسند احمد وغیرہ پر آپ کے حاشیہ جات تحریر ہیں اور موصوف اہل حدیث اور احناف کے نزدیک مسلم بزرگ ہیں آپ کا یہ واقعہ سبق اور عبرت آموز ہے ۔

                                (۳) جد امجد صاحب الخلافۃ کے سندھ میں اکثر لوگ معتقد ہیںاور آپکی اعلیٰ اہمیت اور مہارت دین سب کے نزدیک مسلم ہے آپ بھی اپنے ہاتھ نماز میں سینے پر باندھتے تھے جیسے ہمارے والد ماجد سید احسان اللہ راشدی مرحوم نے مسلک الانصاف ص ۲۸ پر ذکر کیا ہے بلکہ آپ کی عبارت اوپر گزری کہ سنت کا مسنون طریقہ سینے پر ہاتھ باندھنا ہے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت نہیں اس مسئلہ کے بارے میں آپ کا ایک کتابچہ عربی زبان میں بنام درج الدرر فی وضع الایدی علی الصدر تصنیف کیا ہواہے جس سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔
                                اِنَّ الصَّحِیْحَ الثَّابِتَ مِنْ سَاقِی الْکَوْثَرِ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلاَمُ اِلٰی دَوَامِ الدَّہْرِ فِیْ الصَّلوٰۃِ وَہُوَ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ وَاَمَّا وَضْعُہُمَا تَحْتَ السُّرَّۃ فَلَمْ یَرِدْ فِیْہِ حَدِیْثٌ مُسْنَدٌ مُعْتَبَرٌ فَضْلاً عَنْ صَحِیْحٍ ۔

                                (۱) صحیح حدیث سے رسول اللہ ﷺ سے یہی ثابت ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھے جائیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث تو در کنار کسی معتبر سند سے بھی کوئی روایت وارد نہیں ۔
                                اِنَّ الاَصْلِ عِنْدَ الشَّافِعِی الْوَضْعُ عَلَی الصَّدْرِ ۔
                                فَالظَّاہِرُ مِنْہُ اِنَّہٗ رجَعَ بَعْدَ وُصُوْلِ الرِّوَایَۃِ ۔

                                (۲) امام شافعی کا اصل مذہب یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ رکھے جائیں ۔
                                (۳) امام احمد بن حنبل حدیث کے ملنے کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل بنے۔
                                مَرْوِیَّۃٌ عَنْ مَالِکٍ کَمَا ذَکَرَہٗ الْعَیْنِیْ
                                (۴) امام مالک سے بھی سینے پر ہاتھ باندھنا مروی ہے جیسے عینی حنفی نے ذکر کیا ہے ۔
                                ناظرین :۔ ان تینوں عبارتوں سے معلوم ہوا کہ تینوں ائمہ کرام (مالک ، شافعی ، اور احمد بن حنبل ) کا صحیح مذہب بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
                                عَنْد مُعَارَضَۃِ الآثَارِ یجبُ الرُّجُوْعُ اِلَی الْمَرْفُوْعِ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ وَالْمَرْفُوْعُ لَمْ یَثْبُتْ فِیْہِ الْوَضْعُ اِلاَّ عَلَی الصُّدُوْرِ وَعِنْدَ الصَّدْرِ لاَ تَحْتَ السُّرَّۃِ ۔
                                (۵) جب اثر اور قول ایک دوسرے کے معارض ہوں تو اس وقت (فیصلہ کے لئے ) مرفوع حدیث کی طرف رجوع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) کسی بھی چیز میں تم اختلاف یا جھگڑا کرو تو اس کو فیصلہ کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اور اس مسئلہ میںہاتھ ناف سے نیچے باندھنے کے لئے کوئی مرفوع حدیث ثابت نہیں بلکہ اسمیں صرف سینے پریا سینے کے پاس ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے ۔
                                وَاَمَا وَضْعُہُمَا تَحْتَ السُّرَّۃِ فَلاَ تَعْظِیْمَ اَصْلاً بَلْ لَوْ اِنَّہٗ مُوْجِبُ اِسَاء ۃٍ لاَ یَبْعَدُ لاَنَّ تَحْتَ السُّرَّۃِ عَوْرَۃٌ ۔
                                (۶) اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے میں کوئی تعظیم یا ادب نہیں بلکہ اگر اس کو بے ادبی کہا جائے تو کوئی بعید نہیں کیونکہ ناف کے نیچے شرمگاہ ہے
                                قَدْ ثَبَتَ مِنْ حَدِیْثِ وَائِلٍ وَّ ہُلْبٍ تَعَدُّدُ الْوَاقِعَۃِ وَاسْتُفِیْدَ مِنْ ظَاہِرِ کَانَ فِیْ مُرْسِلِ طَاؤُسِ الْمُنْجَبِرِ الاِسْتَمْرَار ۔
                                (۷) وائل بن حجرکی حدیث (حدیث نمبر۲) اور ھلب کی حدیث (حدیث نمبر۳)سے ثابت ہواکہ رسول اللہ ﷺ کا سینے پر ہاتھ باندھنا ایک بار کا واقعہ نہیں ہے بلکہ متعددبار آپؐ نے سینے پر ہاتھ باندھے ہیں اور طاؤس کی روایت اگرچہ مرسل ہے مگر شواہد کی وجہ سے قوی ہے اس میں لفظ ’’کان‘‘ یعنی آپؐ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے جس سے آپؐ کادوام ثابت ہوتا ہے ۔

                                ناظرین: علماء صرف کے نزدیک ’’کان‘‘ مضارع پر داخل ہوگی جیسے (کان یضرب) (مارتا تھا ) تو اس کو ماضی استمراری کہتے ہیں تو یہاں (کان یضع علی صدرہ) کے معنی ہوں گے کہ آپ سینے پر ہاتھ باندھتے او ررکھتے تھے ا س سے ہمیشگی کا فائدہ ملتاہے۔
                                قَدْ ثَبَتَ ہٰذَا الْمَعْنٰی عَن ابْنِ عَبَّاسٍ وَ عَلِیٍّ وَاَنَسٍ ۔
                                (۸) آیت وانحر کے معنی سینے پر ہاتھ باندھنا تین صحابہ کرام سے ثابت ہے
                                نمبر ۱ مشہور مفسر رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی۔
                                نمبر۲ چوتھے خلیفہ آپؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب
                                نمبر ۳ آپؐ کے خادم انس بن مالک

                                ناظرین : جد امجد کی عبارتوں سے چند باتیں معلوم ہوئی ۔
                                نمبر ۱ آپﷺ کا اپنا مذہب اور معمول سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نہ کہ ناف کے
                                نیچے۔

                                نمبر ۲ رسول اللہ ﷺ سے بھی صرف سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے ۔
                                نمبر ۳ اور آپؐ کا یہ ہمیشگی والا اور دائمی عمل تھا ۔
                                نمبر ۴ اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کسی قسم کا ثبوت نہیں ملتا ۔
                                نمبر ۵ قرآن میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے ۔
                                نمبر۶ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بے ادبی ہے ۔

                                جد امجد کی یہ عبارتیں دیکھنے کے بعد آپ کا کوئی بھی معتقد یا آپ کی اولاد اور خاندان میں سے کوئی بھی سمجھدار فرد ناف کے نیچے ہاتھ نہیں باندھے گا آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا اور اس کے در پر التجا ہے کہ مسلمانوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرے اور سنت نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔

                                و اخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علی اھل طاعتہٖ اجمعین ۔

                                Comment

                                Working...
                                X