Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اللہ کہاں ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اللہ کہاں ہے





    چاروں اِماموں رحمہم اللہ کے أقوال

    تابعین اور تبع تابعین کے اقوال میں سب سے پہلے اُمت کے چار بڑے صاحبء مذھب اماموں رحمہم اللہ کے اقوال پیش کر رہا ہوں ،
    قارئین کرام ، خیال رہے کہ یہ اقوال ان چاروں بڑے اماموں رحمہم اللہ کے زمانے کی ترتیب کے مطابق ہیں ، کسی کا ذِکر پہلے یا کسی کا بعد میں ہونے سے اُن کی درجہ بندی مقصود نہیں ،

    اِمام نعمان بن ثابت أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ ، تاریخ وفات 150 ہجری

    أبو اِسماعیل الأنصاری اپنی کتاب ’’’الفاروق ‘‘‘میں أبی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی ، جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ’’’ الفقہ الاکبر ‘‘‘ لکھی ، جسے غلط عام طور پر اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے،اِن أبی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا """ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟"""،
    تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
    تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے
    الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
    الرحمٰن عرش پر قائم ہوا
    اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے
    میں نے پھر پوچھا """ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟
    تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
    ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے

    حوالہ جات ::: مختصر العلو لعلی الغفار / دلیل رقم 118/صفحہ 136/مؤلف امام شمس الدین الذھبی رحمہ ُ اللہ /تحقیق و تخریج امام ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ ، ناشرمکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان،دوسری اشاعت،
    شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 288/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
    اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اِماموں کی بات نقل کرتا چلوں ۔


    اِمام أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 321ہجری

    اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں :
    اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے
    اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
    یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
    (یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں اِن شاء اللہ تعالیٰ )،
    پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا
    فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا
    يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا


    اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)



    لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے
    حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،

    قارئین کرام ، یہ مذکورہ بالا شدید فتوے میرے نہیں ہیں ، بلکہ امام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ اور فقہ حنفی کے اِماموں رحمہم اللہ کے ہیں ، لہذا کوئی بھائی یا بہن انہیں پڑھ کر ناراض نہ ہو ۔


    اِمام مالک ابن أنس ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 179 ہجری

    مھدی بن جعفر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اِمام مالک بن أنس رحمہ ُ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا:
    " اے أبو عبداللہ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى::: الرحمٰن عرش پر قائم ہوا ﴾ کیسے قائم ہوا ؟"
    اِس سوال پر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ اتنے غصے میں آئے کہ میں نے اُنہیں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا کہ غصے کی شدت سے اِمام صاحب پسینے پسینے ہوگئے ، اور اِمام رحمہ ُ اللہ بالکل خاموش ہو گئے ، لوگ انتظار کرنے لگے کہ اب اِمام صاحب کیا کہیں گے !
    کافی دیر کے بعد اِمام رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
    (اللہ کا عرش پر )قائم ہونا (یعنی استویٰ فرمانا) أنجانی خبر نہیں ، اور (اللہ کے أستویٰ فرمانے کی )کیفیت عقل میں آنے والی نہیں (کیونکہ اُس کی ہمارے پاس اُس کیفیت کے بارے میں کوئی خبر نہیں نہ اللہ کی طرف سے اور نہ ہی اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے )اور اِس پر اِیمان لانا فرض ہے ، اور اِس کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ، اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تُم گمراہ ہو
    پھر اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے اُس آدمی کو مسجد (نبوی )سے نکال دینے کا حُکم دِیا اور اُس کو نکال دِیا گیا ۔

    حوالہ::: أثبات الصفۃ العلو /روایت 104/مؤلف اِمام موفق الدین عبداللہ بن أحمد بن قدامہ المقدسی۔
    اِمام الذہبی نے کہا کہ یہ قول اِمام مالک سے ثابت ہے ، اِس کے عِلاوہ یہ قول اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اُستاد سےبھی ثابت ہے،
    اِن شاء اللہ تابعین کے ذِکر میں، اُن کا ذِکر کروں گا ۔
    عبداللہ بن نافع رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ اِمام مالک رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
    اللہ آسمان پر ہے اور اُس کا عِلم ہر جگہ ہے اور اُس کے عِلم سے کوئی چیز خارج نہیں
    حوالہ جات ::: أعتقاد اہل السُّنۃ/مؤلف اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي ،
    التمھید/مؤلف اِمام أبن عبد البَر ۔


    اِمام مُحمد بن اِدریس الشافعی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 204 ہجری

    أبی شعیب ، اور أبی ثور رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اِمام الشافعی رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
    میں نے اِمام مالک اور اِمام سفیان الثوری اور دیگر تابعین (اِِن کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا )کو جِس طرح سُنّت کی جِس بات پر پایا میں بھی اُس پر ہی قائم ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اِس بات کی شہا دت دِی جائے کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ آسمان سے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ہے ، جیسے چاہتا ہے اپنی مخلوق کے قریب ہوتا ہے ، اور جیسے چاہتا ہے دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور عقیدے کے دیگر معاملات کا ذِکر کیا ۔
    حوالہ ::: اجتماع الجیوش الاسلامیۃ/فصل في بیان أن العرش فوق السموات و أنّ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فوق العرش/مؤلف اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ ،ناشر دارالکتب العلمیہ، بیروت ، پہلی اشاعت،
    مختصر العلو للعَلي الغفار /دلیل رقم 196

    اِمام أحمد بن حنبل ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 241 ہجری

    یوسف بن موسیٰ البغدادی کہتے ہیں کہ ، انہیں عبداللہ ابن احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ نے بتایا کہ اُن کے والد اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ سے پوچھا گیا" کیا اللہ عز و جلّ ساتویں آسمان کے اُوپر اپنے عرش سے اُوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے ، اور اُسکی قدرت اور عِلم ہر جگہ ہے ؟ "
    تو اِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ فرمایا:
    جی ہاں اللہ عرش پر ہے اور اُس (کے عِلم ) سے کچھ خارج نہیں
    اِمام العلامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ نے "اجتماع الجیوش الاسلامیہ"میں لکھا کہ اِس روایت کو اِمام أبو بکر الخلال رحمہُ اللہ"السُّنّۃ " میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔
    واضح رہے کہ اس عقیدے کے بارے میں ان أئمہ کرام کی طرف سے صِرف یہی اقوال میسر نہیں ، بلکہ اور بھی صحیح ثابت شدہ اقوال ملتے ہیں ، میں نے صِرف اختصار کے پیش نظر یہ چند ایک اقوال نقل کیے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ انہیں ہی سب قارئین کے لیے کافی کرنے پر مکمل قُدرت رکھتا ہے۔





  • #2
    Re: اللہ کہاں ہے

    .

    Comment


    • #3
      Re: اللہ کہاں ہے

      jin ke zehn mein " Allah kahan he " ka swaal he.............woh lambi lambi baaten chorr ker back to basics jain.....aur shuru se sab smjhne ki koshish karein...!!!!


      sigpic

      Comment


      • #4
        Re: اللہ کہاں ہے

        سوال یہ ہونا چاہئے اللہ کہاں نہیں
        :tasali:
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: اللہ کہاں ہے

          Originally posted by miski View Post
          نمبر {01} سبوحیت و قدوسیتحق تعالی جل شانہ تمام نقائص اور عیوب سے اور حدوث کے نشانوں سے اورمخلوقات کے مشابہت سے اورمماثلت سے پاک اور منزہ ہے اور وہ خداوند بےمثل و مانند ہے جوہر اور عرضہونے سے مبرا اور صورت اور شکل و جسم اورجسمانیت سے معرا ہے اور جواہر اور اجسام اور اعراض کی صفات اور لوازم سےمبرا ہے [‏لیس کمثله شئ وهو السميع البصير]- [سبحان ربكرب العزۃعمایصفون]اور اصطلاح میں اس کا نام سبوحیت وقدوسیتہے اور بالفاط دیگرتسبیح و تقدیس ہےنمبر {02} وہ بے مثل اور بے چون و چگون ہےنمبر {۰۱} وہ بے مثل اور بے چون و چگون ہے کوئی شي اس کے مثل اور برابرنہیں "لیس کمثله شئ"اور کوئی چیز خدا تعالی کے ہمسر نہیں [لم یکن لهکفوا احد] - [ھل تعلم له سمیا] اس لئے کہ خدا قدیم اور ازلی ہے تو ممکناور حادث کے مشابہ کیسے ہوسکتا ہے - اگر بالفرض خدا کا مخلوق کے مشابہہونا جائز ہو تو پھر مخلوق کے احکام کا خالق پر جاری ہونا بھی ممکن ہوگا - الغرض نہ خدا مخلوق کے مشابہ ہے اور نہ مخلوق خدا کے مشابہ ہے یہناممکن ہے کہ قدیم کی کوئی صفت حادث میں اور حادث کی کوئی صفت قدیم میںپائی جائے اس لئے الله تعالی ہر قسم کے تغیر و تبدل سے پاک ہے - اس لئےکہ تغیر و تبدل ممکن کی صفت اور خاصیت ہےنمبر {۰۲} الله تعالی نہ جسم ہے اور نہ جوہر ہے اور نہ عرض ہے - وہ ان سبچیزوں سے پاک اور منزہ ہےنمبر {03} خدا تعالی جسم نہیںنمبر {۰۱} جسم تو اس لئے نہیں کہ جسم بہت سے اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اورجو مرکب ہوتا ہے اس کی تحلیل اور تفریق اور تقسیم بھی ممکن ہوتی ہے - اورترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم الله تعالی کی بارگاہ سے بہت دور ہےنمبر {۰۲} نیز ترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم حدوث کے لوازم میں سے ہےجو قدم اور ازلیت کے منافی ہےنمبر {۰۳} نیز جسم طویل اور عریض اور عمیق ہوتا ہوتا ہے اور الله تعالیطول و عرض اور عمق سے پاک اور منزہ ہےنمبر {۰۴} نیز جو چیز اجزاء سے مل کر بنتی ہے اول تو وہ اپنی ترکیب میںاجزاء کی محتاج ہوتی ہے اور احتیاج اور خدائی کا جمع ہونا عقلا محال ہے - اور پھر مرکب اپنی بقاء میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور الله احتیاج سےمنزہ ہےنمبر {۰۵} نیز اجزاء کا وجود ، مرکب اور مجموعہ کے وجود سے مقدم ہوتا ہےاور مجموعہ مرکب موخر ہوتا ہے- پس اگر [معاذالله] خدا تعالی کو جسم مرکبمانا جائے تو خدا تعالی کا اپنی اجزاء ترکیبیہ سے مؤخر ہونا لازم آئے گاجو اس کی ازلیت اور اولیت اور قدم کے منافی ہےنمبر {۰۶} نیز اگر صانع عالم کا جسم ہونا ممکن ہو تو شمن و قمر کا خداہونا بھی ممکن ہوگا اور جیسے نصاری حضرت مسیح کے جسم کو خدا اور معبودمانتے ہیں اور بندہ اپنے اوتاروں کو خدا کہتے ہیں تو پھر یہ بھی جائز اورممکن ہونااور کرامیہ کہتے ہیں کہ حق تعالی جسم ہے مگر دیگر اجسام کی طرح نہیں اوراہل سنت کے نزدیک حق تعالی پر جسم کا اطلاق درست نہیںنمبر {04} خدا کے لئے باپ اور بیٹا ہونا محال اور ناممکن ہےجب یہ ثابت ہوگیا کہ خدا تعالی کا جسم ہونا ناممکن اور محال ہے تو ثابتہوگیا کہ خدا نہ کسی کا باپ ہوسکتا ہے اور نہ بیٹا ہوسکتا ہے کیونکہتوالد اور تناسل خاصہ جسمانیت کا ہے اور الله تعالی جسمانیت سے پاک اورمنزہ ہے نیز توالد اور تناسل محتاجگی کی دلیل ہے - جیسے اولاد اپنے پیداہونے میں ماں باپ کی محتاج ہے - ایسے ہی ماں باپ اپنی خدمت گزاری میں اورنسل کے باقی رہنے میں اولاد کے محتاج ہیں اور الله تعالی احتیاج سے منزہہے نیز اولاد ماں باپ کی ہم جنس ہوا کرتی ہے سو اگر کوئی خدا کا بیٹاہوگا تو خدا کی وحدانیت ختم ہوجائے گی جو ابھی دلائل سے ثابت ہوچکی ہےنمبر {05} خدا تعالی عرض نہیںنمبر {۰۱} اور خدا تعالی کا عرض ہونا اس لئے محال ہے کہ عرض وہ شئے ہے کہجو قائم بالغیر ہو اور اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہو اور دوسرے کےسہارے سے موجود ہو اور یہ بات خدا تعالی کے لئے ناممکن ہے اس لئے اللهتعالی تو قیوم ہے تمام کائنات کے وجود کو قائم رکھنے والا اور ان کی ہستیکو تھامنے والا ہے تمام عالم اسی کے سہارے سے قائم ہے اس لئے اس کو کسیسہارے کی ضرورت نہیں - سہارے کی ضرورت تو محتاج کو ہوتی ہے - اور وہ صمدہے یعنی وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اسی کے محتاج ہیںنمبر {۰۲} نیز حق تعالی غنی مطلق ہے کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیںاور عرض اپنے وجود میں محل کا محتاج ہوتا ہےنمبر {۰۳} نیز عرض کا وجود پائیدار نہیں ہوتا اور الله تعالی تو واجبالبقاء اور دائم الوجود اور مستحیل العدم ہے ہے جیسا کہ کلام پاک میں ہے[کل من علیها فان ، ویبقی وجه ربك ذوالجلال والاکرام]- {سورۃ الرحمن : آیت نمبر 26 تا 27 پارہ 27]‏نمبر {۰۴} نیز اعراض ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور حق تعالی کی ذات و صفاتمیں تغیر و تبدل کو کہیں راہ نہیںنمبر {06} الله تعالی جوہر نہیںنمبر {۰۱} اور الله تعالی جوہر اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جوہر کے معنی اصلشئے کے ہیں یعنی جو کسی چیز کی اصل ہو اور جواہر فردہ ان اجزاء لطیفہ کوکہتے ہیں جن سے جسم مرکب ہو اور وہ اجزاء جسم کی اصل ہوں اور ظاہر ہے کہیہ بات الله تعالی کے لئے محال ہے کہ وہ کسی جسم وغیرہ کا جوہر اور اصلاور جز بنےنمبر {۰۲} نیز جواہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر حرکت اور سکون وارد اورطاری ہوسکے اورلون اور طعم یعنی رنگت اور مزہ کے ساتھ موصوف ہو اور یہسب چیزیں حادث ہیں اور جواہر کے لوازم ہیں اور ظاہر ہے کہ جو چیز حوادثسے خالی نہ ہوسکتی ہو وہ بھی ضرور حادث ہوگی تو جب یہ حوادث جوہر کے لئےلازم ہوں گے تو لامحالہ جوہر بھی حادث ہوگا پس معلوم ہوا کہ الله تعالیجوہر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ حوادث اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہےنمبر {07} خدا تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیںنمبر {۰۱} نیز الله تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں - اس لئے کہصورت اور شکل تو جسم کی ہوتی ہے اور الله تعالی تو صورتوں اور شکلوں کاخالق ہے - "ھو الله خالق الباری المصور"نمبر {۰۲} نیز صورتیں اور شکلیں حادث میں بدلتی رہتی ہیںنمبر {۰۳} نیز جس چیز کے لئے صورت اور شکل ہوتی ہے وہ محدود اور متناہیہوتی ہے ، اور الله تعالی میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اور خدا کے لئے کوئیحد اور نہایت نہیںنمبر {08} خدا تعالی کے لئے کوئی مکان اور زمان اور جہت اور سمت نہیںنیز حق تعالی کے لئے نہ کوئی مکان ہے اور نہ کوئی زمان ہے اور نہ اس کےلئے کوئی سمت اور جہت ہے کیونکہ وہ غیر محدود ہے اور مکان اور جہت محدودکے لئے ہوتے ہیں اور مکان اور زمان مکین کو احاطہ کئے ہوئے اور گھیرےہوئے ہوتے ہیں - اور الله تعالی ہی سب کو محیط ہے - زمین و زمان اور کونو مکان سے اسی کے مخلوق ہیں اور اس کے احاطہ قدرت میں ہیں ، "کان اللهولم یکن شیء غیرہ" یعنی ازل میں صرف خدا تعالی تھا اور اس کے سوا اورکوئی چیز نہ تھی - اسی نے اپنی قدرت سے زمین اور مکین اور مکان کو پیداکیا جس طرح وہ مکان اور زمان کے پیدا کرنے سے پہلے بغیر مکان اور بغیرجہت کے تھا اب بھی اسی شان سے ہے جس شان سے وہ پہلے تھا "ھو الآن کماکان"‎نیز جہات امور اضافیہ اور نسبیہ میں سے ہیں مثلآ فوق اور تحت اور یمیناور شمال یے سب چیزیں حادث ہیں نسبت کے بدلنے سے ان میں تغیر و تبدل ہوتارہتا ہے - ایک شئے کسی اعتبار سے فوق ہے اور کسی کے اعتبار سے تحت ہے پسیہ کیسے ممکن ہے کہ حق تعالی ازل میں کسی جہت یا سمت کے ساتھ مخصوص ہو - جہت اور سمت حادث کے لئے ہوتی ہے ازلی کے لئے نہیں ہوتی پس ثابت ہوا کہالله تعالی کے لئے نہ کوئی مکان ہے اور نہ کوئی جہت ہے اور نہ کوئی سمتہے مکان اور جہت اور سمت تو محدود اور متناہی کے لئے ہوتی ہے اور اللهتعالی کے لئے نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی نہایت ہے
          ایں جہاں محدود آں خود بیحد است
          اس کی ہستی سمت اور جہت اور مکان اور زمان کی حدود اور قیود سے پاک ہےلہذا خدا تعالی کے متعلق یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ وہ کہاں ہے اور کب سے ہےاس لئے کہ وہ مکان اور زمان سب سے سابق اور مقدم ہے - مکان اور زمان سباسی کی مخلوق ہے ، وہ تو لامکان اور لازمان ہے - اس کی ہستی مکان اورزمان پر موقوف نہیں بلکہ زمان اور مکان کی ہستی اس کے ارادہ پر موقوف ہے - مشبہ اور مجسمہ یہ کہتے ہیں کہ الله تعالی کے لئے جہت ہے اور جہت فوقمیں ہے اور الله تعالی عرش پر متمکن ہے "سبحانه وتعالی عما یصفون"نمبر {09} صفات متشابہات جیسے استواء علی العرش وغیرہ کی تحقیقعلماء اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ براہین قطعیہ اور دلائل عقلیہ ونقلیہ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الله تعالی مخلوق کی مشابہت اور مماثلت سےاور کمیت اور کیفیت اور مکان اور جہت سے پاک اور منزہ ہے لہذا جن آیاتاور احادیث میں حق جل شانہ کی ہستی کو آسمان یا عرش کی طرف منسوب کیا ہےان کا یہ مطلب نہیں کہ آسمان اور عرش الله کا مکان اور مستقر ہے بلکہ انسے الله جل شانہ کی شان رفعت اور علو اور عظمت اور کبریائی کو بیان کرنامقصود ہے اس لئے کہ مخلوقات میں سب سے بلند عرش عظیم ہے - ورنہ عرش سے لےکر فرش تک سارا عالم اس کے سامنے ایک ذرہ بے مقدار ہے وہ اس ذرہ میں کیسےسماسکتا ہے - سب اسی کی مخلوق ہے اور مخلوق اور حادث کی کیا مجال کہ خالققدیم کا مکان اور جائے قرار بن سکے
          پر تو حسنت نہ گنجد در زمین و آسمان

          در حریم سینہ حیرانم کہ چوں جاکردہ
          خدا تعالی اس سے منزہ ہے کہ وہ عرش پر یا کسی جسم پر متمکن اور مستقر ہوجس طرح بادشاہ کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بادشاہ تخت پر بیٹھا ہوا ہے - خداتعالی کی نسبت ایسا کہنا جائز نہیں اس لئے کہ خدا تعالی کوئی مقداری نہیںکیونکہ کسی جسم پر وہی چیز متمکن ہوسکتی ہے کہ جو ذی مقدار ہو اور اس سےبڑی ہو یا چھوٹی ہو یا اس کے برابر ہو اور یہ کمی بیشی بارگاہ خداوندیمیں محال ہے - عقلآ یہ ممکن نہیں کہ کوئی جسم مخلوق جیسے مثلآ عرش کہ وہاپنے خالق کو اپنے اوپر اٹھاسکے اور پھر فرشتے اس جسم کو [عرش کو] اپنےکاندھوں پر اٹھائیں کما قال تعالی "ویحمل عرش ربك فوقهم يومئذ ثمانية" ترجمہ "اور آپ کے پروردگا کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے" سورۃ الحاقہ : آیت 17 پارہ 19.عقلآ یہ بات محال ہے کہ کوئی مخلوق فرشتہ ہو یا جسم ہو وہ اپنے خالق کواپنے کاندھوں پر اٹھاسکے - خالق کی قدرت کو تھامے ہوئے ہے- مخلوق میںقدرت نہیں کہ وہ خالق کو اٹھاسکے اور تھام سکے اور جن آیات میں اللهتعالی کی شان علو اور فوقیت کا ذکر آیا ہے ان سے علو مرتبہ اور فوقیت قہرو غلبہ مراد ہے اور مکانی فوقیت مراد نہیں ، کما قال تعالی "وھو القاھرفوق عبادہ"- "وھو العلی الکبیر" "وله المثل الاعلیاور جیسے"‎وفوق کل ذی علم علیم" اور انا فوقھم قاھرون" میں فوقیت مرتبہاور فوقیت قہر اور غلبہ مراد ہے - اور جن آیات اور احادیث میں الله تعالیکے قرب اور بعد کا ذکر آیا ہے - اس سے مسافت کے اعتبار سے قرب اور بعدمراد نہیں ، بلکہ معنوی قرب اور بعد مراد ہے اور نزول خداوندی سے نزولرحمت یا خدا تعالی کا بندوں کی طرف متوجہ ہونا مراد ہے ،[معاذ الله] خداکا بلندی سے پستی کی طرف اترنا مراد نہیں اور دعاء کے وقت آسمان کی طرفہاتھ اٹھانا اس لئے نہیں کہ آسمان ، الله تعالی کا مکان ہے بلکہ اس لئےہے کہ آسمان قبلہ دعاء ہے جیسا کہ خانہ کعبہ قبلہ نماز ہے - خانہ کعبہ کوجو بیت الله کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ الله تعالی کی عبادتکا گھر ہے اور [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ خانہ کعبہ الله تعالی کا مکانہے اور اس کے رہنے کی جگہ ہے - سمت قبلہ عابدین کی عبادت کے لئے مقرر کیگئی - [معاذالله] معبود کی سمت نہیں پس جیسے کعبہ نماز کا قبلہ ہے ویسےہی آسمان دعاء کا قبلہ ہے اور دونوں صورتوں میں الله تعالی اس سے منزہ ہےکہ وہ خانہ کعبہ کے اندر یا آسمان کے اندر متمکن ہو ، خلاصہ کلام یہ کہان اوصاف کو اوصاف تسبیحی کہتے ہیں اور اوصاف تنزیہی اور اوصاف جلال بھیکہتے ہیں اور علم و قدرت اور سمیع و بصر جیسے اوصاف کو اوصاف تحمیدی اوراوصاف جمال کہتے ہیںمجسمہ اور مشبہہ یہ کہتے ہیں کہ عرش ایک قسم کا تخت ہے اور الله تعالی اسپر مستوی ہے یعنی اس پر مستقر اور متمکن ہے اور فرشتے اس عرش کو اٹھائےہوئے ہیں اور "الرحمن علی العرش استوی"ترجمہ : بڑی رحمت والا عرش پرمستوی ہے [سورۂ طہ آیت 5 پارہ 16] کے ظاہر لفظ سے استدلال کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ استواء علی العرش سے عرش پر بیٹھنا مراد ہےاور بعض کہتے ہیں کہ الله تعالی ہر مکان میں ہے اور ہر جگہ میں موجود ہےاور الله تعالی کے اس قول سے حجت پکڑتے ہیں "مایکون من نجوی ثلاثة الا ھورابعهم - الایة" سورۃ المجادلۃ آیت 7 پارہ 28 ترجمہ : کوئی سرگوشی تینآدمیوں کی ایسی نہیں ہوئی جس میں چوتھا وہ [یعنی الله نہ ہو]اور حق تعالی کے اس قول سے "ونحن اقرب الیه من حبل الورید"[سورۂ ق آیت 16 پارہ 26] ترجمہ : ہم انسان کی رگ گردن سے زیادہ قریب ہےاور "ونحن اقرب الیه منکم ولکن لاتبصرون" [سورہ الواقعہ آیت 75 پارہ 27]ترجمہ : اور ہم اس شخص کے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم سمجھتےنہیںاور "وھو الذی فی السمآء اله وفی الارض اله"[سورۂ الزخرف آیت 84 پارہ 25] ترجمہ : اور وہی ذات ہے جو آسمان میں بھی قابل عبادت ہے اور زمین میںبھی قابل عبادت ہے - سے دلیل لاتے ہیںاہل سنت کہتے ہیں کہ قران کریم میں اس قسم کی جس قدر آیتیں وارد ہوئی ہیںان سے حق شانہ کے کمال علو اور رفعت شان کو اور اس کا احاطۂ علم و قدرتکو بیان کرنا مقصود ہے کہ الله تعالی کا علم اور قدرت تمام کائنات کومحیط ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے "قلب المؤمن بین اصبعین مناصابع الرحمن"ترجمہ : مؤمن کا دل خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہے سو اسسے بالاجماع متعارف اور ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں بلکہ اس سے قدرتعلی التقلیب بیان کرنا ہے کہ "قلب" خدا کے اختیار میں ہے جدھر چاہےپھیردے - اور حدیث میں حجر اسور کے متعلق یہ آیا ہے "انه یمین الله فیالارض"کہ حجر اسود زمین الله کا دایاں ہاتھ ہے تو یہاں بھی بالاتفاقظاہری معنی مراد نہیں ، بلکہ معنی مجازی مراد ہیں کہ حجر اسود کو بوسہدینا گویا کہ الله سے مصافحہ کرنا اور اس کے دست قدرت کو بوسہ دینا ہے - جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے "ان الذین یبایعونك انما یبایعون الله"[سورۂ الفتحآیت 15 پارہ 26] ترجمہ : کہ جو لوگ نبی کریم صلی الله علیه وسلم کے دستمبارک پر بیعت کرتے ہیں گویا کہ وہ الله سے بیعت کرتے ہیں ، یہاں بھیبالاتفاق معنی مجازی مراد ہیں [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ خدا اور رسولدونوں ایک دوسرے کا عین ہیں - اسی طرح سمجھو کہ استواء علی العرش سےظاہری اور حسی معنی مراد نہیں کہ الله تعالی عرش پر بیٹھا ہوا ہے بلکہ اسسے الله کی علو شان اور رفعت مرتبہ کا بتلانا ہے - کما قال تعالی "رفیعالدرجات ذوالعرش"[سورۂ المومن آیت 15 پارہ 24] ترجمہ : وہ رفیع الدرجاتہے وہ عرش کا مالک ہےاور اسی طرح جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ الله تعالی ہر شب آسمانی دنیا پرنزول فرماتا ہے سو [معاذ الله] اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کوئی جسم ہے کہعرش سے اتر کر آسمانی دنیا پر آتا ہے بلکہ اس خاص وقت میں اس کی رحمت کانزول یا کسی رحمت کے فرشتے کا آسمانی دنیا پر اترنا مراد ہے اور اللهتعالی کا بندہ سے قرب اور بعد باعتبار مسافت کے مراد نہیں بلکہ قرب عزت وکرامت اور بعد ذلت و اہانت مراد ہے - مطیع اور فرمانبردار بندہ الله سےبلا کیفیت اور بلا کی مسافت کے قریب ہے اور نافرمان بندہ بلا کیفیت اوربلا مسافت کے الله سے بعید ہےاہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ الله تعالی مکان اور جہت اور سمت سے پاکاور منزہ ہے - اس لئے کہ جو چیز کسی مکان میں ہوتی ہے تو وہ محدود ہوتیہے اور مقداری ہوتی ہے اور مکین مقدار میں اور مسافت میں ، اور مساحت میںمکان سے کم ہوتا ہے اور الله تعالی مقدار سے اور مساحت سے اور مسافت سےاور کمی اور زیادتی سے منزہ ہے اور جو چیز سمت اور جہت میں ہوتی ہے تو وہاس سمت اور جہت میں محصور اور محدود ہوتی ہے اور الله تعالی اس سے بھیمنزہ ہے - مکان اور زمان اور جہت اور سمت سب الله تعالی کی مخلوق ہے ازلمیں صرف الله تعالی تھا اور اس کے سوا کوئی شے نہ تھی - نہ مکان اور نہزمان اور نہ عرش اور کرسی اور نہ زمین اور آسمان اس نے اپنی قدرت سے عرشاور کرسی اور زمیں و آسمان کو پیدا کیا وہ خداوند قدوس ان چیزوں کے پیداکرنے کے بعد اسی شان سے ہے کہ جس شان سے وہ مکان اور زمان اور زمین وآسمان کے پیدا کرنے سے پہلے تھا - ہم اہل سنت ایمان لائے اس بات پر کہبلا کسی تشبیہ اور تمثیل کے اور بلا کسی کمیت اور کیفیت کے اور بلا کسیمسافت اور مساحت کے رحمن کا "استواء" عرش پر حق ہے جس معنی کا الله تعالینے ارادہ فرمایا ہے اور جو اس کی شان کے لائق ہےجس کا علم الله ہی کو ہے [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے ، ایسا ہیالله تعالی بھی عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور عرش پر مستقر اور متمکن ہے اسلئے کہ تمکن اور استقرار شان حادث اور ممکن کی ہے - مکان مکین کو محیطہوتا ہے اور عرش تو ایک جسم عظیم نورانی ہے جو الله کا مخلوق ہے اس کیکیا مجال کہ خداوند ذوالجلال کو اٹھاسکے [معاذ الله] ، عرش خدا تعالی کواٹھائے ہوئے نہیں بلکہ الله کا لطف اور قدرت عرش کو اٹھائے ہوئے اورتھامے ہوئے ہےاستواء علی العرش کے ذکر سے خداوند ذوالجلال کی علو شان اور بے مثال رفعتکو بیان کرنا ہے ، اور "وھو الذی فی السمآء اله وفی الارض اله"سے یہبتلانا مقصود ہے کہ آسمان و زمیں میں سب جگہ اسی کی عبادت کی جاتی ہے اوروہی آسمان و زمیں میں متصرف ہے اور سب جگہ اسی کا حکم چلتا ہے - آسمان وزمین اس کی عبادت اور تصرف کا اور اس کی حکمرانی کا ظرف ہے معبود کا ظرفنہیں ، اور [معاذ الله] یہ مطلب نہیں کہ عرش یا آسمان الله تعالی کا مکانہے جس میں خدا تعالی رہتا ہےمجسمہ اور مشبہ نے ان آیات کا یہ مطلب سمجھا کہ عرش عظیم یا آسمان و زمینالله کا مکان اور جائے قرار ہے اور یہ نہ دیکھا کہ سارا قرآن تنزیہ اورتقدیس سے بھرا پڑا ہے کہ الله مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے اور تمام انبیاءنے اپنی اپنی امتوں کو ایمان تنزیہی کی دعوت دی ہے ایمان تشبیہی اورتمثیلی کی دعوت نہیں دی
          عقائد اسلام حصہ دوم صفحہ نمبر 375 تا 385

          از : حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمه الله
          نمبر {10} کیا عرش خدا سے بڑا ہے؟رئیس المناظرین ، متکلم اسلام ، وکیل احناف ، ترجمان اہلسنت حضرت مولانامحمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ میں مکہ سے مدینہ جارہا تھا ۔ راستہ میں غیرمقلدین شرارتیں کر رہے تھے ، بس میں بیٹھے ہوئےایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ روضہ پاک کی زیارت کی نیت نہ کرنا مسجد نبویکی نیت کرنا ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نےفرمایا : یہ آپ کو گمراہ کررہے ہیں آپ روضہ پاک کی ہی نیت کریں مسجد میںتو جانا ہی جانا ہے ۔ وہ حضرات مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمهالله کی طرف دیکھنے لگے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمهالله نے فرمایا کہ لوگ مکہ سے مدینہ کیوں جاتے ہیں ایک لاکھ کا ثواب چھوڑکر پچاس ہزار کا ثواب لینے کے لئے؟ یہ کوئی عقل مندی تو نہیں کہ اعلیٰ کوچھوڑ کر ادنیٰ کو حاصل کیا جائے وہ بھی اتنا لمبا سفر کرکے اور اتنے پیسےلگا کر ، یہ اتنا نقصان کیوں کرتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ وہاں کوئی ایسی چیزضرور ہے جو بیت الله میں بھی نہیں ہے ، جس کی شان بیت الله سے بھی بڑھکر ہے ۔ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ وہ خاک پاک جو جسداطہر سے مس کررہی ہے وہ درجہ میں عرش اعظم اور بیت الله دونوں سے بڑھ کرہے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا : کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا سے مصطفی صلی الله علیه وسلم کے مکان کو بلندکردیا ہے اس لئے کہ خدا لامکان ہے ، اگر خدا کا مکان ہوتا تو ہم اسےمصطفیٰ صلی الله علیه وسلم کے مکان سے اعلیٰ سمجھتے ، لیکن چونکہ خدالامکان ہے اس لئے جتنے مکان والے ہیں ان میں سب سے زیادہ شان مصطفی صلیالله علیه وسلم کے مکان کی ہے ۔ ایک غیرمقلد جلدی سے بولا "الرحمٰن علیالعرش استویٰ"الله کا بھی مکان ہے عرش اعظم - حضرت محمد امین صفدراوکاڑوی صاحب رحمه الله نے جواب ميں فرمایا : آپ کو مکان ، مکین کا معنیبھی آتا ہے؟ مکان ہمیشہ مکین سے بڑا ہوتا ہے اسی لئے تو آدمی اس کے اندربیٹھتا ہے ۔ کیا عرش خدا تعالیٰ سے بڑا ہے اور وہ خدا کو گھیرے ہوئے ہے؟غیرمقلد نے کہا : بے شک عرش بڑا ہے ۔ حضرت نے جواب میں فرمایا : پھر تونماز کے شروع میں ’’الله اکبر‘‘ کیوں کہتا ہے ’’العرش اکبر‘‘ کیوں نہیںکہتا؟ جب تو الله اکبر سے نماز شروع کرتا ہے پھر تو بڑا بے ایمان ہے کہتجھے الله سے بھی بڑی چیز مل گئی ہے پھر بھی تو الله اکبر ہی کہتا ہے ۔وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا


          ایک حنفی کو احادیث کے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، قرآن اور احادیث سے دلائل لینا تو قرآن اور حدیث والوں کا کام ہے جسے قرآن اور حدیث سے مسلہ لینا ہو وہ اہل حدیث سے رجوع کرے اور جسے فقہ سے مسلہ لینا ہو فقہ سے رجوع کرے....ایک حنفی کے لئے تو قول امام ہی دلیل ہے (جو آج کل قول مسجد کا امام ہے کیونکہ مسجد کا امام جو کہتا ہے مان لیتے ہیں ان بیچاروں کو تو یہ بھی نہیں پتا کے امام ابو حنیفہ کے خاص شاگردوں امام محمد اور امام یوسف نے دو تہائی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے بقول فقہ احناف کے ).. اگر کسی مسلے میں کوئی حدیث نا بھی ہو تو بھی ایک حنفی جو کے اگر پکا حنفی ہے تو اسے فقہ حنفی کی ہی کی تقلید کرنی چاہیے..پھر تو اسکا حنفی ہونا سچا ...مگر یہ کیا ایک طرف تو اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں پھر حدیث سے دلائل بھی لانے کی کرتے ہیں اور ظلم یہ کے ضعیف احادیث بھی پیش کرنے میں عار محسوس نہیں
          کرتے..کیوں کے فقہ کی ترجیح جو ثابت کرنی ہے

          ارے بھائی کیوں امام ابو حنیفہ رحم اللہ کی بات کو ٹھوکر مارتے ھو تقلیدی بھائی

          کیسے لوگ ھو تم اپنے امام کی بات کو ٹھوکر مار رھے ھو
          کب سے غیر مقلد بن گۓ ھو

          -----------------------------------------------------------------------------------------


          اِمام نعمان بن ثابت أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ ، تاریخ وفات 150 ہجری

          أبو اِسماعیل الأنصاری اپنی کتاب ’’’الفاروق ‘‘‘میں أبی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی ، جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ’’’ الفقہ الاکبر ‘‘‘ لکھی ، جسے غلط عام طور پر اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے،اِن أبی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا """ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟"""،
          تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
          تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے
          الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
          الرحمٰن عرش پر قائم ہوا
          اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے
          میں نے پھر پوچھا """ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟
          تو اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے فرمایا:
          ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے

          حوالہ جات ::: مختصر العلو لعلی الغفار / دلیل رقم 118/صفحہ 136/مؤلف امام شمس الدین الذھبی رحمہ ُ اللہ /تحقیق و تخریج امام ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ ، ناشرمکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان،دوسری اشاعت،
          شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 288/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،
          اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اِماموں کی بات نقل کرتا چلوں ۔


          اِمام أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی ، رحمہُ اللہ ، تاریخ وفات 321ہجری

          اپنی مشہور و معروف کتاب"""عقیدہ الطحاویہ"""میں کہتے ہیں :
          اللہ عرش اور اُس کے عِلاوہ بھی ہر ایک چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے أحاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُس کی مخلوق اُس کا أحاطہ کرنے سے قاصر ہے
          اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین (تاریخ وفات 792ہجری)رحمہ ُ اللہ، جو ابن أبی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس " عقیدہ الطحاویہ " کی شرح میں اِمام الطحاوی رحمہُ اللہ کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
          یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے
          (یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم کے ذریعے، اِس کے دلائل ابھی آئیں اِن شاء اللہ تعالیٰ )،
          پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے جُدا ، بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں میں وارد ہونے والی نصوص کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصوص تقریباً بیس اقسام میں ہیں ، اور پھر انہی اقسام کو بیان کرتے ہوئے سولہویں قِسم (نمبر 16)کے بیان میں لکھا
          فرعون نے (بھی)موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہیں مانا تھا کہ اُن کا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا
          يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ o أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا


          اے ھامان میرے لیے بلند عمارت بناؤ تا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں o آسمان کے راستوں تک ، (اور اُن کے ذریعے اُوپر جا کر ) موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور بے شک میں اِسے (یعنی موسی کو )جھوٹا سمجھتا ہوں(سُورۃ غافر(40) /آیت36،37)



          لہذا جو اللہ تعالیٰ کے (اپنی مخلوق سے الگ اور )بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے اور جواِقرار کرتا ہے وہ موسوی اور محمدی ہے
          حوالہ ::: شرح عقیدہ الطحاویہ/صفحہ رقم 287/ناشر مکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،نویں اشاعت،

          قارئین کرام ، یہ مذکورہ بالا شدید فتوے میرے نہیں ہیں ، بلکہ امام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ اور فقہ حنفی کے اِماموں رحمہم اللہ کے ہیں ، لہذا کوئی بھائی یا بہن انہیں پڑھ کر ناراض نہ ہو ۔





          Comment


          • #6
            Re: اللہ کہاں ہے

            .

            Comment

            Working...
            X