Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم

    ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا :۔

    آجکل بہت سارے لوگ غیر مقلدین کی سازشوں اور مکروہ پروپیگنڈے کا شکار ہو کر جہاں اور بہت اعمال بد میں مبتلا ہو چکے ہیں وہاں ننگے سر نماز پڑھنے والا عمل بھی شامل ہے ۔ حالانکہ نہ تو اس طرح نماز پڑھنے کا ثبوت قرآن پاک سے ملتا ہے اور نہ ہی ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاہے ، بلکہ نی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو پوری زندگی میں ایک دفعہ بھی ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ، پھر نہ جانے لوگوں نے اس طرح نماز پڑھنے کی عادت کیوں بنا ڈالی ہے۔



    مسجد میں زیب و زینت اختیار کر کے آنے کا حکم خداوندی:۔



    مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنے والے حضرات کو اللہ تعالٰی نے کیا حکم دیا ہے ، اس کو اس آیت میں پڑھ لیجیے ۔ چنانچہ فرمان خداوندی ہے ” یبنی اٰدم خذوا زینتکم عند کل مسجد” (سورہ اعراف )۔ یعنی ہر نماز کے وقت زیب و زینت والا لباس پہن لیا کرو۔ اس اٰیت میں زیب و زینت کر کے نماز پڑھنے کے لیے آنے کو کہا جارہاہے ۔ اور زیب و زینت مکمل لباس کے بعد ہی اختیار کی جاتی ہے ۔ مکمل لباس میں لباس ساتر بھی شامل ہے اور پورے جسم کو ڈھانپ کر رکھنے والا لباس بھی۔ گویا ان دونوں کے علاوہ ایک ایسا لباس پہننے کا حکم ہو رہا ہے جس سے انسان کی زینت ظاہر ہو ۔ ذرا سوچیں کہ ایک آدمی نے سر پر ٹوپی یا عمامہ باندھا ہوا ہو اور دوسرے آدمی نے سر پر کچھ بھی نہ رکھا ہو ، بالوں کو سنوار کر یا بغیر سنوارے کھڑا ہوا ، دونوں کا موازنہ کر کے دیکھ لیں آپ کو خود ہی اندازہ ہو جایے گا کہ زیب و زینت کس نے اختیار کی ہے اور کون اس کا تارک ہے ۔ باادب ہو کر کون نماز پڑھ رہا ہے اور بے ادبی کس کی نماز سے ظاہر ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟۔


    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر پر عمامہ اور کپڑا رکھنا:۔

    اگر سر کو ننگا رکھنا بہتر ، سنت یا ضروری ہوتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اپنے سر پر عمامہ رکھنے کا معمول نہ بناتے ۔ لیکن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مباک پر عمامہ یعنی پگڑی کا ذکر اتنی کثرت سے آتا ہے کہ اس کے ضروری ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ ان روایات کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیجیے تاکہ آپ کو یقین ہو جایے کہ سر کو ننگا رکھن خلاف سنت ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہویے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا ۔ اور دوسری روایت حضرت عمروابن حریث رضٰی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ دیکھا ۔ تیسری روایت بھی انہی سے خطبہ کے وقت عمامہ باندھنے کی ہے ۔ اور چوتھی روایت حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اس کے شملہ کو اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان پچھلی جانب ڈال لیتے تھے ۔ اور پانچویں روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک خطبہ پڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا یا چکنی پٹی تھی۔ یہ تمام روایات شمایل ترمذی میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہیں ۔ کتب احادیث میں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے عمامہ باندھنے کی متعلق اتنی کثرت سے احادیث منقول ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھتے تھے ۔ عمامہ سے یا کسی کپڑے سے لیکن سر ننگا رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر گز عادت مباکہ نہ تھی۔

    عمامہ باندھنے کا حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حکما” بھی عمامہ باندھنے کا ثبوت احادیث کے اندر ملتا یے ۔ چنانچہ ایک روایت یوں ملتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اعتموا تزدادو حلما” عمامہ باندھا کرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤ ۔ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر ج ا ص 194 مرفوعا )۔

    امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے ۔
    ۔ ( فتح البار ج 10 ص 335 )۔

    ایک اور روایت حضرت رُکانہ سے اس طرح آتی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ” ہمارے اور مشرکوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں ” (مشکوۃ باب اللباس )۔

    ان روایات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا بھی ہے اور اس کے باندھنے کا اپنی امت کو حکم بھی دیا ہے ۔ اب اس بات کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو اور اس کے کرنے کا حکم بھی دیں تو کیا وہ سنت نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔؟۔ لیکن غیر مقلدین کو کون سمجھائے کہ نہ تو وہ خود اس سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مسلمانوں کو اس سنت پر عمل کرنے دیتے ہیں بلکہ اس سنت کے برعکس ہر ایک کو سر ننگا کر کے گھومنے کی دعوت دیتے ہیں۔

    عمامہ اور ٹوپی کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ علیھم سے :۔
    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین وہ شخصیات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل وہ جان سے ایمان لائے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی ۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ” اٰمنوا کما اٰمن الناس ” (سورہ بقرہ)۔ کہ ایسے ایمان لاؤ جیسے یہ لوگ (یعنی صحابہ کرام ) ایما لائے ۔

    ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صدق دل سے ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ہی تھے ۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے ان کے ایمان کو آنے والی نسلوں کے لئے معیار حق قرار دیا ۔ آئیے ذرا ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کہ انہوں نے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟۔

    چنانچہ حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ٹوپیاں اس طرح کی ہوتی تھیں کہ سروں پر چپکی رہتی تھی ۔ (مشکوۃ باب اللباس )۔ اس روایت کو اگرچہ امام ترمذی نے منکر کہا ہے لیکن یہ روایت متناً صحیح ہے نیز اسے تلقی بالقبول کا درجہ بھی حاصل ہے کیونکہ امت میں ہر دور کے اندر اس روایت پر عمل ہوتا رہا ہے جو اس روایت کا مؤید ہے۔

    حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہھا کو شملہ اپنے دونوں منڈھوں کے درمیان ڈالتے دیکھا ۔ (شمایل ترمذی باب ماجاء فی عمامہ)۔

    حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے کسی نے پوچھا کہ عمامہ باندھنا سنت ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔ فرمایا ” ہاں سنت ہے “۔ اور مزید فرمایا ” عمامہ باندھا کرو کہ اسلام کا نشان ہے ، مسلمان اور کافر میں فرق کرنے والا ہے ” ( عینی عمد ۃ القاری ج 21 ص30)۔

    عبید اللہ جو نافع رحمۃ اللہ علیہ تابعی کے شاگرد ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ( حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے )اورسالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے ) کو ایسا کرتے ( یعنی شملہ اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈالتے ) دیکھا۔ ۔ (شمایل ترمذی باب ماجاء فی عمامہ)۔

    اس روایت کے متعلق علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں کہ ” واشارہ بذالک الی انہ سنۃ مؤکدہ محفوظۃ لم یترکھا الصلحا “(مواہب لدنیہ ص 101)۔ یعنی سر پر پگڑیاں باندھنا ایک ایسی سنت مؤکدہ ہے جو ہمیشہ محفوظ رکھی گئی اور اس کو صلحاء یعنی نیک بندوں نے کبھی نہیں چھوڑا ۔ نیز حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی مندرجہ بالا روایت جس میں سیاہ عمامہ باندھ کر خطبہ کا ذکر ہے اس کے بارے میں صاحب اتحافات والے لکھتے ہیں کہ ” ھذہ الخطبۃ وقعت فی مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذی توفٰی فیہ “۔( شرح شمایل اتحافات ص 159 )۔

    یعنی یہ خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں دیا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخر لمحات تک سر پر عمامہ باندھا۔ علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” والعامۃ سنۃ لا سیما للصلوٰۃ و بقصد التجمل لا خبار کثیرۃ فیھا ” ۔ (مواہب لدنیہ )۔ اس عبات میں علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ۔
    ۔(۱) کہ عمامہ باندھنا سنت ہے ۔
    ۔(۲) کہ عمامہ نماز کے لئے اور زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
    ۔(۳) کہ خوبصورتی کی علامت ہے ۔
    ۔(۴) کہ بہت ساری روایات سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔

    ان تمام روایات و آثار سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ، تابعین عظام رحمۃ اللہ علیھم اور شارحین حدیث سر پر ٹوپی بھی پہنتے تھے اور اس کے اوپر عمامہ بھی باندھا کرتے تھے ۔ نیز اس کو سنت بھی سمجھتے تھے ۔ اور یہی کچھ احناف اہلسنت والجماعت بھی کہتے ہیں۔

    غیر مقلدین کے اپنے علماء کی گواہی :۔
    غیر مقلدین کو اگر محدیثین اور مجتہدین کی باتوں پر یقین نہیں آتا تو اپنے علمائے غیر مقلدین ہی کو دیکھ لیں ۔ شاید انہیں ان پر یقین آجائے ۔ چنانچہ میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں ” ٹوپی و عمامہ سے نماز پڑھنا اولٰی ہے کیونکہ یہ امر مسنون ہے “۔ ( فتاوٰی نذیریہ ج 1 ص 240 )۔

    غیرمقلد مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ “نماز کا مسنون طریقہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالدوام ثابت ہے یعنی بدن پر کپڑا اور سر ڈھکا ہوا، پگڑی یا ٹوپی سے”۔( فتاوٰ ی ثنایہ ج 1 ص 525 )۔

    یہی کچھ ابوداود غزنوی اور دیگر علمائے اہل حدیث نے لکھا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے کنزل الحقائق۔ (ص 27 اور نزل الابرار ج1ص114)۔ یہاں پر غیر مقلدین کے دلدادہ علامہ ابن قیم کے حوالے سے بھی ایک بات سن لیجئے وہ فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کو اس وقت تک شہر کا حاکم مقرر نہ فرماتے تھے جب تک اسے عمامہ نہ بندھواتے تھے ۔(زادالمعاد ج 1ص50)۔ اسی طرح ابن قیم اپنے استاد علامہ ابن تیمیہ سے پگڑی اور سملہ کی حمایت میں ایک طویل روایت لانے کے بعد فرماتے ہیں ” جو اس سنت کا منکر ہے وہ جاہل ہے”۔
    (زادالمعاد ج1ص50 )۔

    یہ ہیں غیرمقلدین کے وہ علماء جنہوں نے انکو اس راہ پر لگایا ہے ۔ اور یہی سر ڈھانپ کر سنت نماز کا سبق دے رہے ہیں۔ اور علامہ ابن قیم اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیھم اجمعین تو وہ شخصیات ہیں جن کے تذکرہ سے شاید ہی غیر مقلدین کی کوئی مجلس خالی ہوتی ہو ۔ ان ہر دو حضرات کے اقوال بھی ان کے سامنے ہیں۔ اب تو غیر مقلدین کو یقین آجانا چاہئے کہ ننگے سر نماز پڑھنا سنت طریقے کے خلاف ہے ۔ ان تمام روایات و آثار سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر عمامہ باندھتے تھے اور اس کا حکم بھی دیتے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر اپنے سروں پر سجائے رکھا اور تابعین نے بھی ایسا ہی کیا لیکن آج کل کے غیر مقلدین سرننگے کر کے پھرتے ہوئے عمامہ والی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری اختیار کرتے ہیں حالانکہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پوری طرح اپنے سروں کو ڈھانپ لینا چاہئے۔

    غیر مقلدین کی ایک دلیل کا جواب :۔
    غیر مقلدین اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی تہبند میں نماز پڑھی جس کو گردن کے پیچھے سے گرہ لگا رکھی تھی ، حالانکہ ان کے کپڑے پیچھے کھونٹی پر لٹک رہے تھے ۔ اس پر کسی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک ہی کپڑے میں نمازپڑھتے ہیں تو انہوں نے جواب میں فرمایا ہاں ، میں نے ایسا اس لئے کیا کہ تیرے جیسا احمق مجھے دیکھ لے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم میں سے کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے ۔ ( مشکوۃ ص72)۔ غیر مقلدین اس روایت کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ اس روایت میں سر پر کپڑا یا پگڑی نہ باندھنے کا ذکر سرے سے ہے ہی نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ کام بیان جواز کے لئے تھا ۔ یعنی یہ بتلانا مقصود تھا کہ ایک ایسے کپڑے میں جس میں ستر چھپ جائے باامر مجبوری نماز ہو جاتی ہے ۔ اس سے ان کی مراد کپڑا ہونے کے باوجود سر پر عمامہ نہ باندھنے کی ہر گز نہیں تھی۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت پر تو غیر مقلدین کا خود بھی عمل نہیں بلکہ وہ اس روایت کا بالکل ہی الٹ کرتے ہیں ۔ کیونکہ نہ تو وہ ایک کپڑا لے کر گردن سے باندھتے ہی اور نہ ہی کپڑے اتار کر کھونٹی پر لٹکاتے ہیں ۔ بہرحال اس روایت سے ننگے سر استدلال کرنا کسی جاہل ہی کا کام ہو سکتا ہے ۔ آج تک کسی محدث ، مفسر اور مجتہد نے اس روایت اور ان جیسی دوسری روایات سے ننگے سر نماز پڑھنا نہیں لیا۔ اگر محدیثین یا فقہاء کی طرف سے کوئی حوالہ ان روایات کے سلسلے مں اسی قسم کا غیر مقلدین کے پاس ہے تو اسے منظر عام پر لائیں وگرنہ عوام کو گمراہ نہ کریں۔

    ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والے کو تنبیہہ کرنا:۔
    حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کپڑے میں نمازپڑھنا بھی سنت ہے ۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اور اسے معیوب نہیں سمجھتے تھے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا یہ اس وقت تھا ” اذا کان فی الثیاب قلۃ ” جب کپڑوںکی قلت تھی لیکن جب اللہ تعالٰی نے وسعت عطا فرمادی تو دو کپڑوں میں نماز پڑھنا مستحب اور پاکیزہ کام تھا ۔ (مسند احمد بحوالہ مشکوۃ)۔

    حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے اندر اگر ایک کپڑے میں نماز پرھتے تھے تو ان کا ایسا کرنا کپڑے کی قلت کی وجہ سے تھا نہ کہ شوقیہ ۔ اور بعد میں جب کپڑوں کی فراوانی ہوئی تو دو کپڑوں میں ہی نماز پڑھنا مستحب کہلوایا۔ اب اگر کوئی ان روایات کو سامنے رکھ کر سر پر کپڑا نہ لینے کا کہے تو یہ اس کے دماغ کا فتور ہے کیونکہ کسی بھی مجتہد اور محدث نے ان روایات سے سر پر کپڑا نہ لینے کی دلیل نہیں پکڑی ۔ پھر ان روایات کے علاوہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات بھی تو موجود ہیں جن میں سر پر پگڑی باندھنے کا حکم ، ان کے بارے میں غیر مقلدین کیا رائے دینگے ۔۔۔۔ ؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ پگڑی باندھنا اور سر پر کپڑا لینا ضروری نہیں تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا رد لازم نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔ ؟۔

    سر پر پگڑی رکھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :۔
    اس تفصیل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ سر کو پگڑی یا ٹوپی سے ڈھانپنا اور عام حالات میں بھی سر کو ننگا نہ رکھنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حضرت جعفر بن عمرو کے طریق سے اس طرح مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عمامہ اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا ۔ (بخاری کتاب الوضو باب مسح علی الخفین )۔ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے صحیح مسلم کتاب الطہارت میں بھی اسی کرح کی ایک روایت موجود ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت سر پر عمامہ رکھتے تھے ، حتٰی کہ وضو فرماتے وقت بھی عمامہ سر پر ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے صاحب مواہب لدنیہ فرماتے ہیں “والعمامۃ سنۃ لا سیما للصلوٰۃ ” ۔ ( مواہب لدنیہ ص 99)۔
    یعنی عمامہ سنت ہے اور نماز کے لئے نہایت ضروری ہے ۔

    آخری گذارش :۔


    *مندرجہ بالا روایات ، آثار اور تشریحات سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت عمامہ اپنے سر پر رکھتے تھے ۔ جب عام حالات میں آداب کا تقاضا یہ ہے کہ سر ننگا نہ ہو تو پھر خاص حالات میں بالخصوص نماز جیسی عبادت کے اندر ربّ ذولجلال کے حضور کھڑے ہو کر ننگا سر سامنے کرنا کیسے ادب میں داخل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟۔ اگر استاد کے سامنے شاگرد ، اور بزرگ کے سامنے مرید اور آفیسر کے سامنے فوجی سر سے کپڑا اتارنے کی جراءت نہیں کرتا اور اسے بے ادبی خیال کرتا ہے تو ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و افعال اور قرآن پاک کی تعلیمات نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سر ڈھانپ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں نماز کے لئے حاضر ہونا چاہئے اور ان ارشادات کی روشنی میں سر پر پگڑی یا ٹوپی رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

    اللہ تعالٰی ہمیں اس سنت پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ اٰمین ۔

    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم

    :jazak:

    Comment


    • #3
      Re: ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم

      Originally posted by Sub-Zero View Post
      ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا :۔

      آجکل بہت سارے لوگ غیر مقلدین کی سازشوں اور مکروہ پروپیگنڈے کا شکار ہو کر جہاں اور بہت اعمال بد میں مبتلا ہو چکے ہیں وہاں ننگے سر نماز پڑھنے والا عمل بھی شامل ہے ۔ حالانکہ نہ تو اس طرح نماز پڑھنے کا ثبوت قرآن پاک سے ملتا ہے اور نہ ہی ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاہے ، بلکہ نی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو پوری زندگی میں ایک دفعہ بھی ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ، پھر نہ جانے لوگوں نے اس طرح نماز پڑھنے کی عادت کیوں بنا ڈالی ہے۔



      مسجد میں زیب و زینت اختیار کر کے آنے کا حکم خداوندی:۔



      مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنے والے حضرات کو اللہ تعالٰی نے کیا حکم دیا ہے ، اس کو اس آیت میں پڑھ لیجیے ۔ چنانچہ فرمان خداوندی ہے ” یبنی اٰدم خذوا زینتکم عند کل مسجد” (سورہ اعراف )۔ یعنی ہر نماز کے وقت زیب و زینت والا لباس پہن لیا کرو۔ اس اٰیت میں زیب و زینت کر کے نماز پڑھنے کے لیے آنے کو کہا جارہاہے ۔ اور زیب و زینت مکمل لباس کے بعد ہی اختیار کی جاتی ہے ۔ مکمل لباس میں لباس ساتر بھی شامل ہے اور پورے جسم کو ڈھانپ کر رکھنے والا لباس بھی۔ گویا ان دونوں کے علاوہ ایک ایسا لباس پہننے کا حکم ہو رہا ہے جس سے انسان کی زینت ظاہر ہو ۔ ذرا سوچیں کہ ایک آدمی نے سر پر ٹوپی یا عمامہ باندھا ہوا ہو اور دوسرے آدمی نے سر پر کچھ بھی نہ رکھا ہو ، بالوں کو سنوار کر یا بغیر سنوارے کھڑا ہوا ، دونوں کا موازنہ کر کے دیکھ لیں آپ کو خود ہی اندازہ ہو جایے گا کہ زیب و زینت کس نے اختیار کی ہے اور کون اس کا تارک ہے ۔ باادب ہو کر کون نماز پڑھ رہا ہے اور بے ادبی کس کی نماز سے ظاہر ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟۔


      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر پر عمامہ اور کپڑا رکھنا:۔

      اگر سر کو ننگا رکھنا بہتر ، سنت یا ضروری ہوتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اپنے سر پر عمامہ رکھنے کا معمول نہ بناتے ۔ لیکن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مباک پر عمامہ یعنی پگڑی کا ذکر اتنی کثرت سے آتا ہے کہ اس کے ضروری ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ ان روایات کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیجیے تاکہ آپ کو یقین ہو جایے کہ سر کو ننگا رکھن خلاف سنت ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہویے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا ۔ اور دوسری روایت حضرت عمروابن حریث رضٰی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ دیکھا ۔ تیسری روایت بھی انہی سے خطبہ کے وقت عمامہ باندھنے کی ہے ۔ اور چوتھی روایت حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اس کے شملہ کو اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان پچھلی جانب ڈال لیتے تھے ۔ اور پانچویں روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک خطبہ پڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا یا چکنی پٹی تھی۔ یہ تمام روایات شمایل ترمذی میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہیں ۔ کتب احادیث میں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے عمامہ باندھنے کی متعلق اتنی کثرت سے احادیث منقول ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھتے تھے ۔ عمامہ سے یا کسی کپڑے سے لیکن سر ننگا رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر گز عادت مباکہ نہ تھی۔

      عمامہ باندھنے کا حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:۔
      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حکما” بھی عمامہ باندھنے کا ثبوت احادیث کے اندر ملتا یے ۔ چنانچہ ایک روایت یوں ملتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اعتموا تزدادو حلما” عمامہ باندھا کرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤ ۔ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر ج ا ص 194 مرفوعا )۔

      امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے ۔
      ۔ ( فتح البار ج 10 ص 335 )۔

      ایک اور روایت حضرت رُکانہ سے اس طرح آتی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ” ہمارے اور مشرکوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں ” (مشکوۃ باب اللباس )۔

      ان روایات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا بھی ہے اور اس کے باندھنے کا اپنی امت کو حکم بھی دیا ہے ۔ اب اس بات کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو اور اس کے کرنے کا حکم بھی دیں تو کیا وہ سنت نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔؟۔ لیکن غیر مقلدین کو کون سمجھائے کہ نہ تو وہ خود اس سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مسلمانوں کو اس سنت پر عمل کرنے دیتے ہیں بلکہ اس سنت کے برعکس ہر ایک کو سر ننگا کر کے گھومنے کی دعوت دیتے ہیں۔

      عمامہ اور ٹوپی کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ علیھم سے :۔
      صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین وہ شخصیات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل وہ جان سے ایمان لائے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی ۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ” اٰمنوا کما اٰمن الناس ” (سورہ بقرہ)۔ کہ ایسے ایمان لاؤ جیسے یہ لوگ (یعنی صحابہ کرام ) ایما لائے ۔

      ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صدق دل سے ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ہی تھے ۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے ان کے ایمان کو آنے والی نسلوں کے لئے معیار حق قرار دیا ۔ آئیے ذرا ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کہ انہوں نے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟۔

      چنانچہ حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ٹوپیاں اس طرح کی ہوتی تھیں کہ سروں پر چپکی رہتی تھی ۔ (مشکوۃ باب اللباس )۔ اس روایت کو اگرچہ امام ترمذی نے منکر کہا ہے لیکن یہ روایت متناً صحیح ہے نیز اسے تلقی بالقبول کا درجہ بھی حاصل ہے کیونکہ امت میں ہر دور کے اندر اس روایت پر عمل ہوتا رہا ہے جو اس روایت کا مؤید ہے۔

      حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہھا کو شملہ اپنے دونوں منڈھوں کے درمیان ڈالتے دیکھا ۔ (شمایل ترمذی باب ماجاء فی عمامہ)۔

      حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے کسی نے پوچھا کہ عمامہ باندھنا سنت ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔ فرمایا ” ہاں سنت ہے “۔ اور مزید فرمایا ” عمامہ باندھا کرو کہ اسلام کا نشان ہے ، مسلمان اور کافر میں فرق کرنے والا ہے ” ( عینی عمد ۃ القاری ج 21 ص30)۔

      عبید اللہ جو نافع رحمۃ اللہ علیہ تابعی کے شاگرد ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ( حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے )اورسالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے ) کو ایسا کرتے ( یعنی شملہ اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈالتے ) دیکھا۔ ۔ (شمایل ترمذی باب ماجاء فی عمامہ)۔

      اس روایت کے متعلق علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں کہ ” واشارہ بذالک الی انہ سنۃ مؤکدہ محفوظۃ لم یترکھا الصلحا “(مواہب لدنیہ ص 101)۔ یعنی سر پر پگڑیاں باندھنا ایک ایسی سنت مؤکدہ ہے جو ہمیشہ محفوظ رکھی گئی اور اس کو صلحاء یعنی نیک بندوں نے کبھی نہیں چھوڑا ۔ نیز حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی مندرجہ بالا روایت جس میں سیاہ عمامہ باندھ کر خطبہ کا ذکر ہے اس کے بارے میں صاحب اتحافات والے لکھتے ہیں کہ ” ھذہ الخطبۃ وقعت فی مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذی توفٰی فیہ “۔( شرح شمایل اتحافات ص 159 )۔

      یعنی یہ خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں دیا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخر لمحات تک سر پر عمامہ باندھا۔ علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” والعامۃ سنۃ لا سیما للصلوٰۃ و بقصد التجمل لا خبار کثیرۃ فیھا ” ۔ (مواہب لدنیہ )۔ اس عبات میں علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ۔
      ۔(۱) کہ عمامہ باندھنا سنت ہے ۔
      ۔(۲) کہ عمامہ نماز کے لئے اور زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
      ۔(۳) کہ خوبصورتی کی علامت ہے ۔
      ۔(۴) کہ بہت ساری روایات سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔

      ان تمام روایات و آثار سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ، تابعین عظام رحمۃ اللہ علیھم اور شارحین حدیث سر پر ٹوپی بھی پہنتے تھے اور اس کے اوپر عمامہ بھی باندھا کرتے تھے ۔ نیز اس کو سنت بھی سمجھتے تھے ۔ اور یہی کچھ احناف اہلسنت والجماعت بھی کہتے ہیں۔

      غیر مقلدین کے اپنے علماء کی گواہی :۔
      غیر مقلدین کو اگر محدیثین اور مجتہدین کی باتوں پر یقین نہیں آتا تو اپنے علمائے غیر مقلدین ہی کو دیکھ لیں ۔ شاید انہیں ان پر یقین آجائے ۔ چنانچہ میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں ” ٹوپی و عمامہ سے نماز پڑھنا اولٰی ہے کیونکہ یہ امر مسنون ہے “۔ ( فتاوٰی نذیریہ ج 1 ص 240 )۔

      غیرمقلد مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ “نماز کا مسنون طریقہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالدوام ثابت ہے یعنی بدن پر کپڑا اور سر ڈھکا ہوا، پگڑی یا ٹوپی سے”۔( فتاوٰ ی ثنایہ ج 1 ص 525 )۔

      یہی کچھ ابوداود غزنوی اور دیگر علمائے اہل حدیث نے لکھا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے کنزل الحقائق۔ (ص 27 اور نزل الابرار ج1ص114)۔ یہاں پر غیر مقلدین کے دلدادہ علامہ ابن قیم کے حوالے سے بھی ایک بات سن لیجئے وہ فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کو اس وقت تک شہر کا حاکم مقرر نہ فرماتے تھے جب تک اسے عمامہ نہ بندھواتے تھے ۔(زادالمعاد ج 1ص50)۔ اسی طرح ابن قیم اپنے استاد علامہ ابن تیمیہ سے پگڑی اور سملہ کی حمایت میں ایک طویل روایت لانے کے بعد فرماتے ہیں ” جو اس سنت کا منکر ہے وہ جاہل ہے”۔
      (زادالمعاد ج1ص50 )۔

      یہ ہیں غیرمقلدین کے وہ علماء جنہوں نے انکو اس راہ پر لگایا ہے ۔ اور یہی سر ڈھانپ کر سنت نماز کا سبق دے رہے ہیں۔ اور علامہ ابن قیم اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیھم اجمعین تو وہ شخصیات ہیں جن کے تذکرہ سے شاید ہی غیر مقلدین کی کوئی مجلس خالی ہوتی ہو ۔ ان ہر دو حضرات کے اقوال بھی ان کے سامنے ہیں۔ اب تو غیر مقلدین کو یقین آجانا چاہئے کہ ننگے سر نماز پڑھنا سنت طریقے کے خلاف ہے ۔ ان تمام روایات و آثار سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر عمامہ باندھتے تھے اور اس کا حکم بھی دیتے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر اپنے سروں پر سجائے رکھا اور تابعین نے بھی ایسا ہی کیا لیکن آج کل کے غیر مقلدین سرننگے کر کے پھرتے ہوئے عمامہ والی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری اختیار کرتے ہیں حالانکہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پوری طرح اپنے سروں کو ڈھانپ لینا چاہئے۔

      غیر مقلدین کی ایک دلیل کا جواب :۔
      غیر مقلدین اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی تہبند میں نماز پڑھی جس کو گردن کے پیچھے سے گرہ لگا رکھی تھی ، حالانکہ ان کے کپڑے پیچھے کھونٹی پر لٹک رہے تھے ۔ اس پر کسی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک ہی کپڑے میں نمازپڑھتے ہیں تو انہوں نے جواب میں فرمایا ہاں ، میں نے ایسا اس لئے کیا کہ تیرے جیسا احمق مجھے دیکھ لے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم میں سے کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے ۔ ( مشکوۃ ص72)۔ غیر مقلدین اس روایت کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ اس روایت میں سر پر کپڑا یا پگڑی نہ باندھنے کا ذکر سرے سے ہے ہی نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ کام بیان جواز کے لئے تھا ۔ یعنی یہ بتلانا مقصود تھا کہ ایک ایسے کپڑے میں جس میں ستر چھپ جائے باامر مجبوری نماز ہو جاتی ہے ۔ اس سے ان کی مراد کپڑا ہونے کے باوجود سر پر عمامہ نہ باندھنے کی ہر گز نہیں تھی۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت پر تو غیر مقلدین کا خود بھی عمل نہیں بلکہ وہ اس روایت کا بالکل ہی الٹ کرتے ہیں ۔ کیونکہ نہ تو وہ ایک کپڑا لے کر گردن سے باندھتے ہی اور نہ ہی کپڑے اتار کر کھونٹی پر لٹکاتے ہیں ۔ بہرحال اس روایت سے ننگے سر استدلال کرنا کسی جاہل ہی کا کام ہو سکتا ہے ۔ آج تک کسی محدث ، مفسر اور مجتہد نے اس روایت اور ان جیسی دوسری روایات سے ننگے سر نماز پڑھنا نہیں لیا۔ اگر محدیثین یا فقہاء کی طرف سے کوئی حوالہ ان روایات کے سلسلے مں اسی قسم کا غیر مقلدین کے پاس ہے تو اسے منظر عام پر لائیں وگرنہ عوام کو گمراہ نہ کریں۔

      ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والے کو تنبیہہ کرنا:۔
      حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کپڑے میں نمازپڑھنا بھی سنت ہے ۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اور اسے معیوب نہیں سمجھتے تھے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا یہ اس وقت تھا ” اذا کان فی الثیاب قلۃ ” جب کپڑوںکی قلت تھی لیکن جب اللہ تعالٰی نے وسعت عطا فرمادی تو دو کپڑوں میں نماز پڑھنا مستحب اور پاکیزہ کام تھا ۔ (مسند احمد بحوالہ مشکوۃ)۔

      حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے اندر اگر ایک کپڑے میں نماز پرھتے تھے تو ان کا ایسا کرنا کپڑے کی قلت کی وجہ سے تھا نہ کہ شوقیہ ۔ اور بعد میں جب کپڑوں کی فراوانی ہوئی تو دو کپڑوں میں ہی نماز پڑھنا مستحب کہلوایا۔ اب اگر کوئی ان روایات کو سامنے رکھ کر سر پر کپڑا نہ لینے کا کہے تو یہ اس کے دماغ کا فتور ہے کیونکہ کسی بھی مجتہد اور محدث نے ان روایات سے سر پر کپڑا نہ لینے کی دلیل نہیں پکڑی ۔ پھر ان روایات کے علاوہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات بھی تو موجود ہیں جن میں سر پر پگڑی باندھنے کا حکم ، ان کے بارے میں غیر مقلدین کیا رائے دینگے ۔۔۔۔ ؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ پگڑی باندھنا اور سر پر کپڑا لینا ضروری نہیں تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا رد لازم نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔ ؟۔

      سر پر پگڑی رکھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :۔
      اس تفصیل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ سر کو پگڑی یا ٹوپی سے ڈھانپنا اور عام حالات میں بھی سر کو ننگا نہ رکھنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حضرت جعفر بن عمرو کے طریق سے اس طرح مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عمامہ اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا ۔ (بخاری کتاب الوضو باب مسح علی الخفین )۔ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے صحیح مسلم کتاب الطہارت میں بھی اسی کرح کی ایک روایت موجود ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت سر پر عمامہ رکھتے تھے ، حتٰی کہ وضو فرماتے وقت بھی عمامہ سر پر ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے صاحب مواہب لدنیہ فرماتے ہیں “والعمامۃ سنۃ لا سیما للصلوٰۃ ” ۔ ( مواہب لدنیہ ص 99)۔
      یعنی عمامہ سنت ہے اور نماز کے لئے نہایت ضروری ہے ۔

      آخری گذارش :۔


      *مندرجہ بالا روایات ، آثار اور تشریحات سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت عمامہ اپنے سر پر رکھتے تھے ۔ جب عام حالات میں آداب کا تقاضا یہ ہے کہ سر ننگا نہ ہو تو پھر خاص حالات میں بالخصوص نماز جیسی عبادت کے اندر ربّ ذولجلال کے حضور کھڑے ہو کر ننگا سر سامنے کرنا کیسے ادب میں داخل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟۔ اگر استاد کے سامنے شاگرد ، اور بزرگ کے سامنے مرید اور آفیسر کے سامنے فوجی سر سے کپڑا اتارنے کی جراءت نہیں کرتا اور اسے بے ادبی خیال کرتا ہے تو ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و افعال اور قرآن پاک کی تعلیمات نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سر ڈھانپ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں نماز کے لئے حاضر ہونا چاہئے اور ان ارشادات کی روشنی میں سر پر پگڑی یا ٹوپی رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

      اللہ تعالٰی ہمیں اس سنت پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ اٰمین ۔



      sub-zero bhai

      ہر کام ہمارے ذمہ نہ ڈالا کرو

      ننگے سر نماز جائز ہے یا نہیں۔تو اس کے جواز ہو نے میں کسی کا اختلافنہیں ہے۔احرام کی حا لت میں سب حا جی ننگے سر نماز پڑ ھتے ہیں۔بلو غ المرام باب شروط الصّلوٰۃ میں ہے۔

      «ولهما من حدیث ابی هریرة رضی اللہ تعالیٰ عنه لا یُصَلِّی اَ حَدُ کُمْ فِی الثَّوبِ الْوَاحِدِ لَیْس علی عاتقه منه شیءٌ۔»


      تر جمہ: یعنی ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ تمہا را ایک کپڑے میں اس طر ح نماز نہ پڑھے کہ کندھے پر کچھ نہ ہو۔د یکھئے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کی اجاز ت دے دی ہے لیکن کندھے کاڈھکنا ضرور ی بتلایا ہے۔سر کا کہیں ذکر نہیں۔

      آل حضر ت کا عمل

      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کرنماز پڑھی ہے۔ جس کے پڑھنے کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلاف طور سے کندھےپر ڈال لیں۔یعنی اس کی دائیں طر ف بائیں کندھے پراور با ئیں طرف دائیں کندھے پر ڈال لیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سر پر کچھ نہ کچھ تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادفعل کے علاوہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قو ل بھی ہے۔بلو غ المرام میں ہے۔

      «عن جابر رضی الله تعالیٰ عنه انَّ النبی صلی الله عليه وسلم قال (اذا کان الثو ب واسعا فلتحف به يعنی فی الصَّلوٰۃ وفی المسلم فخالف بين طر فيه فان کان ضيقا فاتَّز ربه» (متفق عليه )


      یعنی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کپڑافراخ ہو تو اوڑھ لے۔ یعنی نماز میں اور مسلم کی روایت میں اوڑھنے کا طر یق بتایا ہے کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلا ف طور پر کرے یعنی خلاف ِطور سے کندھے پر ڈال لے۔اگر کپڑا تنگ ہو تہ بند باندھ لے۔دیکھئے اس میں بھی کندھوں کا ذکرہے۔ اگر سر کا ڈھکنا ضروری ہوتا تو کسی روایت میں اس کا ذکر بھی ہوتا۔

      ایک شبہ اور اس کا جواب

      بعض کہتے ہیں ایک کپڑے میں نماز اس وقت تھی جب کپڑوں میں تنگی تھی۔اس وقت جائز تھی لیکن ان کا یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ جابررضی اللہ عنہ باوجود کپڑا ہونے کے ایک
      کپڑے میں نماز پڑھ کر یہ مسئلہ بتایا کہ اب بھی جائز ہے۔
      51بخا ری صفحہ نمبر


      حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فیصلہ


      کنز العمال میں ہے۔

      «عن الحسن ان ابیَّ بن کعب وعبدالله بن مسعود اختلفا فی الصَّلوة فی الثوب الواحد فقال ابی لا بأس به قد صلی النی صلی اللہ علیه وسلم کان ذالک اذا کان الناس لا یجدون الثیاب وامّا اذا وجدوها فا لصلوٰۃ فی ثوبین فقام»


      «عمررضی اللہ عنه علی المنبر فقا ل ما قال ابیٌّ ولم یال ابن مسعودٍ(عب)»


      کنز العما ل جلد نمبر3 صفحہ143یعنی ابی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں اختلا ف ہوا۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا نماز ایک کپڑ ے میں جائز ہے کیونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑ ے میں پڑھی ہے۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا یہ اس وقت تھا جب کپڑوں میں تنگی تھی۔ جب کپڑا ملے تو پھر دو ہی کپڑوں میں نماز پڑھنی چاہیئے۔ان دونوں میں فیصلہ کے لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا ابی رضی اللہ عنہ کا قول ٹھیک ہے۔ اور عبد اللہ بن مسعود نے کوئی کمی نہیں کی۔ (تحقیق میں)پس جب ایک کپڑے میں نماز ثابت ہو گئی جس کے اوڑھنے کی صورت یہ ہےکہ دونوں طرفین خلاف ِ طور سے کندھے پر ڈال لے تو ننگے سر نماز ثابت ہو گئی۔نیز بخاری کے صفحہ54میں ہے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا۔

      «صلیّٰ رجلٌ فی ازارٍ ورداءٍ فی ازارٍ وقميصٍِ فی ازارٍوقباءٍ فی سراويلَ ورِدتءٍ فی سراويلَ وَقميصٍ»


      یعنی انسان تہ بند اور چادر میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے نیز تہ بند اور قمیص میں۔ تہ بند اور چوغہ میں۔پاجامہ اور چادر میں پاجامہ اور قمیص میں۔کنز العمال جلد3 صفحہ14 میں یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابن حبا ن مرفوع ذکر کی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان تہ بند اور چادر۔ تہ بند اور قمیص ،تہ بند اور چوغہ ،پاجامہ اور قمیص میں نماز پڑھ سکتا ہے۔اس سے بھی صاف معلوم ہوا کہ سر ڈھکنا ضروری نہیں۔ نیز ابھی گزرا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا فر اخ ہونے کے وقت کندھے ڈھکنے کا حکم دیا ہے سر ڈھکنے کا حکم نہیں دیا اگر سر کا ڈھکنا ضروری ہوتا تو اس کا بھی کہیں حکم ہوتا۔ہاں افضل ہے۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر بڑے بڑے صحابہ کی موجودگی میں یہ فیصلہ کیا ہے۔یہ یاد رہے کہ افضل کے مقابلہ میں جواز ہے اگر کوئی جواز پرعمل کرے تو اس پر طعن یا اعتراض نہیں ہوسکتا جیسا کہ رات کو تہجد پڑھنا افضل ہے لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو اس پر طعن یا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

      «اِ ذَا وَسَعَ الله فَا سْعَوْا»


      یعنی جب اللہ تعالٰی فرا خی کرے تم بھی فراخی کرو۔ (بخاری مع فتح الباری)مشکوٰۃ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے قر یب روایت ہے نیز عام حا لت سلف کی یہی تھی کہ وہ پگڑی اور ٹوپیوں کے ساتھ نماز پڑھتے اور اسی بنا پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ پر ایک کپڑے میں نماز پڑھنے پر اعتر اض ہوا۔ اور حسن بصریؒ کے قول سے بھی یہی ظاہر ہے۔

      وباللہ التوفیق





      Last edited by lovelyalltime; 1 August 2012, 01:03.

      Comment


      • #4
        Re: ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم

        i think monday ko Maulana Tariq Jameel ka bayan sun rai ti unhone bataya k Huzoor e PAk sallalaho alehi wasallam ne sirf Aehraam ki halat me ser se kapra utara tha werna pori zindagi kabi khaali ser na rakha....:)

        Comment

        Working...
        X