جامع مسجد قرطبہ
سپین پر مسلمانوں کا سنہری عہد حکومت 711-1492 تک ہے ۔اس عہد حکومت میں بہت سی دلکش و دلفریب عمارات تعمیر ہوئیں۔ لیکن جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ نہ تو الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال ، تزئین و آرائش ، نسخی گلکاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے ۔ وہ ایسی چیز تھی جودیکھنے کی چیز تھی اور بار بار دیکھنے کی چیز تھی۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے آج کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبی اور جدت تعمیر و ندرت آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان زبان حال سے سناتے نظر آتے ہیں۔اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق نظم مسجد قرطبہ میں انہوں نے اس مسجد کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل کو چھو لینے والی اور ساتھ ہی دل کو چیر دینے والی ہے ۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے کئی صدیوں بعد 1931ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
یہ مسجد امیر عبدالرحمن اول المعروف الداخل کے دور حکومت جو کہ(756-788) پر محیط ہے۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے ۔ یہی وجہ تھی کی اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔ یہ عظیم مسجد وادی الکبیر (ہسپانوی: Guadalquivir)میں دریا پر بنائے گئے قدیم ترین پل(اس پل کو رومی Claudius Marcellus نے تعمیر کروایا تھا) کے قریب اس جگہ واقع ہے جہاں پہلے سینٹ ونسنٹ (St. Vincent of Saragossa) کی یاد میں تعمیر کردہ ایک گرجا قائم تھا اور جس کا ایک حصہ پہلے ہی سے بطور مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف تھا (الرازی)۔ السمح بن مالک الخولانی کے عہد میں جب قرطبہ دارالسلطنت بنا تو مسلمانوں نے مسجد کی توسیع کے لئے عیسائیوں سے باقی ماندہ حصہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ مسلمانوں کی تمام تر رواداری کے باوجود اسے فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے ۔ لیکن جب عبدالرحمن الداخل کا زمانہ آیا تو اس نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے پورا گرجا خریدلیا۔ قبضہ حاصل کرلینے کے بعد 786ء میں امیر نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ امیر نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ کر دئیے ۔
مسجد کے کل دروازے اکیس ہیں نو دروازے مشرق کی جانب اور نو مغرب کی جانب تھے۔ ان میں ہر طرف کے آٹھ دروازے مردوں کے لئے اور ایک ایک دروازہ عورتوں کے لئے مخصوص تھا۔ شمال کی جانب تین دروازے تھے ان تمام دروازوں کے کواڑوں پر صیقل شدہ پیتل کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں جو سورج کی روشنی میں خوب چمکتی تھیں۔ اس کے علاوہ جنوب کی طرف سونے کے کواڑوں والا ایک بڑا دروازہ بھی تھا جو قصر خلافت سے ملانے والی ”ساباط“ نامی مسقف گزرگاہ پر بنا ہوا تھا۔ اسی راستے سے گزر کر امراءاندلس مقصورہ میں داخل ہوتے تھے ۔ ساباط کے دروازے کی محراب پر گنجان پچی کاری کا کام کیا گیا ہے حتی کہ کوفی رسم الخط میں تحریر عبارتیں تک پچی کاری سے لکھی گئی ہیں۔
مسجد قرطبہ کی محراب (Niche) جس سنگ مر مر سے تیار کی گئی تھی وہ دودھ سے زیادہ اجلا اور برف سے زیادہ چمکیلا تھا ۔ صناعوں نے اسے ہفت پہلو کمرہ بنا دیا تھا جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے خوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل کی جو محراب (Arch) بنائی گئی ہے اسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے ۔ ہر جانب ایک ستون نیلگوں اور ایک سرخ ہے ۔ اس محراب پر قوس ہی کی شکل میں پچی کاری (Inlay work)کے ذریعے خوبصورت رنگین نقش ونگار(Arabsque) بنائے گئے ہیں جس کے گرداگرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ محراب کی چھت ایک بہت بڑے صدف سے آراستہ ہے ۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ پچی کاری سے مزین تین بڑے بڑے دروازے ہیں جن میں سے درمیانی دروازے میں مسجد کی محراب واقع ہے ۔ محراب کے قریب قبلہ کی دیوار نے تین عظیم قبوں (Vaults or Cupolas) کو تھام رکھا ہے ۔ جن میں سے درمیانی قبے کے اندر پچی کاری کا خوبصورت کام کیا گیا ہے ۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ جو دروازہ ”ساباط“پر بنایا گیا ہے اس کی ایک جانب وہ منبر تھا جو خوشبو دار اور قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا۔ ٹکڑوں کو جوڑنے کے لئے سونے اور چاندی کے کیل لگائےدسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینیڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مستردکردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدس جگہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر عبادت کر کے عیسائی دنیا میں ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کیلئے دیگر مذاہب سے بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ گرجا جو دنیا بھر میں مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آتے ہیں۔ گئے تھے ۔ لکڑی کے ہر ٹکڑے پر سات درہم نقرئی خرچ آئے تھے (ابن بشکوال : نفخ الطیب) ۔ جو لکڑی استعمال کی گئی تھی اس میں صندل ، بقم ، حدنگ، آبنوس، اور شوحط شامل ہیں ۔ یہ منبر آٹھ فنکاروں نے سات برس کی طویل مدت میں مکمل کیا تھا ۔ منبر میں زیادہ آب و تاب پیدا کرنے کے لئے اسے جواہرات سے مرصع کیا گیاتھا۔ انقلابات زمانہ کی دستبرد سے اگر مسجد کا کوئی حصہ صحیح حالت میں بچ سکا ہے تو وہ یہی محراب ہے جس کی چمک اور تابانی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔
امیر عبد الرحمن الداخل اور امیر ہشام اول کے عہد میں جو ستون مسجد قرطبہ میں استعمال کئے گئے وہ یا تو قرطاجنہ(Cartagena) سے لائے گئے تھے یا اربونہ(Arbonne) اور اشبیلیہ (Seville)سے ۔ لیکن یہ ستون تعداد میں اس قدر زیادہ نہ تھے کہ آئندہ کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتے ۔ لہذا عبدالرحمن الناصر (912-961)نے اندلسی سنگ مرمر سے مختلف رنگوں کے ستون ترشوائے ۔ سنگ مر مر کے یہ ستون سفید ، نیلگوں، سرخ، سیاہ، سبز، گلابی اور رنگ برنگ کی چتیوں والے تھے۔ سنگ سماق، سنگ رخام ، اور زبر جد سے بنائے گئے ان ستونوں پر سونے کی مینا کاری اور جواہرات کی پچی کاری کی گئی تھی ۔ مجموعی طور پر ان ستونوں کی تعداد 1400سے زائد تھی۔ ان ستونوں پر نعلی محرابیں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ یہ ستون کھجور کے تنے اور ان پر بنے چھوٹے بڑے محاریب کھجور کی شاخیں معلوم ہوتی ہیں۔ جس ترتیب اور وضع سے انہیں نسب کیا گیا تھا اس کی بناءپر کسی بھی زاویہ سے انہیں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کسی دل فریب نخلستان میں کھڑا ہے اور اس کے سامنے ہزار ہا کھجور کے درخت صف بستہ کھڑے ہیں ۔ چھت کو سہارا دینے والے ستونوں پر قائم محرابوں کے علاوہ بہت سی چھوٹی بڑی آرائشی محرابیں بھی بنائی گئی تھیں جو ایک دوسرے کو قطع کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ زیادہ تر بند محرابیں (Blind Arches) ہیں جن کے درمیانی حصوں کو گچ کاری (Stucco work)، پچی کاری (Inlay work)اور ٹائلوں کے کام سے آراستہ کیا گیا ہے۔
مسجد میں فانوسوں اور موم بتیوں کی روشنی کے سبب رات کو بھی دن کا گمان گزرتا تھا ۔ اگرچہ اس میں جلنے والے چراغوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں مگر پھر بھی وہ ساڑھے سات ہزار سے کسی طرح کم نہ تھے ۔ سال بھر میں ساڑھے تین من موم کے علاوہ تین سو من تیل جلایا جاتا تھا۔
شروع میں وضو کرنے کے لئے پانی مسجد کے باہر کے ایک کنویں سے میضاة (وضو خانہ) میں پکھالوں کے ذریعہ لا کر بھرا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں الحکم نے چار میضاة بنوائے جن میں سے دو بڑے اور دو چھوٹے تھے ۔ ان میں پانی بھرنے کے لئے ایک پختہ نہر جبل قرطبہ کو کاٹ کر مسجد تک لائی گئی تھی ۔ اس کا پانی نہایت عمدہ اور شیریں تھااور ہر وقت رواں رہتا تھا ۔ مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد یہ پانی تین زمین دوز نالیوں کے ذریعہ مسجد سے باہر نکل جاتا تھا۔
مسجد قرطبہ میں مینار کا اضافہ سب سے پہلے ہشام اول نے کیا تھا ۔ یہ مینار چہار پہلو تھا اور اس کے اوپر جانے کے لئے صرف ایک زینہ تھا۔ اس کی بلندی بھی عمارت کی مناسبت سے رکھی گئی تھی۔ 888ءمیں ایک زلزلہ سے اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔ لہذا عبدالرحمن الناصر جب سریر آرائے خلافت ہوا تو اس نے پرانے مینار کی جگہ دوسرا مینار بنوایا جو پہلے مینار کی بہ نسبت کہیں زیادہ رفیع الشان تھا ۔ اس مینار کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کی جو عبارت نقل ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی بلندی بہتر ہاتھ تھی ۔ زمین سے چون ہاتھ کی بلندی پر ایک چھجہ تھا ۔ جس پر ستون قائم کرکے ان پر ایک برج بنا دیا گیا تھا جہاں مؤذن اذان دیتا تھا ۔ پہلے مینار کے برعکس اس میں اوپر جانے کے لئے دو زینے بنا دئے گئے تھے ۔ برج کے اوپر کلس تھا جو سیب کی شکل کے تین گولوں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے بیچ کا گولہ چاندی کا اور دوسرے دونوں سونے کے تھے ۔ ان سیبوں کے اوپر چھ پنکھڑیوں والا سوسن کا پھول تھا جس پر نہایت خوبصورت سونے کا انار بنا دیا گیاتھا۔
دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینیڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مستردکردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدس جگہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر عبادت کر کے عیسائی دنیا میں ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کیلئے دیگر مذاہب سے بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ گرجا جو دنیا بھر میں مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آتے ہیں۔
جامع مسجد قرطبہ
Comment