Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟


    قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

    قرآن لکھنے والا کون ہے اور اسے جمع کس طرح کیا گیا ؟

    الحمد للہ

    1 – اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآ ن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لیتے ہوۓ فرمایا ہے :
    { بیشک ہم نے ہی قرآن کی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } الحجر ( 9 ) ۔

    ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

    اللہ تعالی کافرمان ہے کہ{ بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل فرمایا ہے } اور وہ ذکر قرآن ہے { اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والےہیں } اللہ تعالی نے اس میں یہ فرمایا ہے کہ ہم قرآن کی حفا ظت کرنے والے ہیں کہ کہیں اس میں باطل کا اضافہ نہ کر دیا جاۓ* یا پھر اس کے احکام
    و حدود اور فرائض میں سے کچھ کمی نہ کردی جاۓ ۔ تفسیر الطبری ( 14 / 8 )

    اور شیخ السعدی رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسیر ميں کہتے ہیں کہ :

    { بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے } یعنی قرآن کو نازل کیا جس میں ہرچيزکے کا ذکر ہے مسائل اورواضحہ دلائل وغیرہ اور اسی طرح اس میں سے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کے لۓ نصحیت بھی ہے ۔

    { اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } یعنی وقت نزول اور نزول کے بعد بھی ، تو نزول کی حالت میں ہم نے اسے ہر شیطان مردود سے جو کہ چوری چھپے سننے والا ہے سے محفوظ رکھا ہے ، اور نزول کے بعد اللہ تعالی نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے سینوں میں محفوظ کیا ، اور اللہ تعالی نے اس کے الفاظ کو زیادتی اور نقصان اور اس کے معانی کو تغیر تبدل سے محفوظ رکھا ہے ، تو اس کے معانی میں تحریف کرنے والا کوئ بھی تحریف کرتا ہے تو اللہ تعالی ایسے علماء پیدا فرما دیتا ہے جو کہ حق کو بیان کرتے ہیں ۔

    تو اللہ تعالی کی یہ سب سے عظیم نشانی اور نعمت ہے جو کہ اس نےاپنےمومن بندوں پر کی ہوئ‏ ہے ، اور قرآن کی یہ بھی حفاظت ہے کہ اللہ تعالی اس پر عمل کرنے والوں کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا اور ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط نہیں ہونے دیتا ۔ اھـ

    نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن تئیس ( 23 ) برس میں تھوڑا تھوڑا کرکے بوقت ضرورت نازل کیا گیا ۔

    اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

    { اور قرآن کو ہم نے تھوڑ تھوڑا کرکے اس لۓ اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں
    اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا } الاسراء ( 106 ) ۔

    شیخ شعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :

    یعنی : ہم نے یہ قرآن فرق کرنے والا بنا کر نازل کیا ہے جو کہ حق وباطل اورھدایت وگمراہی کے درمیا ن فرق کرنے والا ہے ۔

    {ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں } یعنی مہلت کے ساتھ تاکہ وہ اس کے معانی پر غوروفکراور تدبر کر سکیں اور اس کے علوم کا استخراج کریں ۔

    { اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا } تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس برس میں نازل کیا ۔ اھـ تفسیر السعدی ص ( 760 )۔

    2 - : عرب میں لکھائ اور کتابت بہت ہی کم کی جاتی تھی ، اور اللہ تعالی نے انہیں اسی وصف سے نوازتے ہوۓ فرمایا ہے :

    { اللہ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا } الجمعۃ ( 2 ) ۔

    تو وہ لوگ قرآن کریم کو اپنے سینوں میں حفظ کرتے تھے اور ان میں سے بہت ہی ایسے تھے جو کہ بعض آیات اور سورتیں چمڑے اورباریک پتھروں وغیرہ پر لکھ لیا کرتے تھے ۔

    3 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے
    ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔

    4 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےامین اورفقہاء صحابہ کرام کی ایک جماعت کووحی لکھنے کی ذمہ داری سونپی رکھی تھی ، اور وہ صحابہ اپنے تراجم میں کاتب وحی کے ساتھ اس طرح معروف نہیں جتنے کہ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم معروف ہیں ۔

    5 - : قرآن کریم سات لغات ولہجات میں اتارا گیا جیسا کہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ صحیح بخاری ( 2287 ) صحیح مسلم ( 818 ) اور یہ لغات اور لہجات فصاحت میں معروف ہیں ۔

    6 - : خلیفہ اول ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں اور چمڑے وغیرہ پر باقی اور محفوظ رہا ، اس کے بعد مرتدین کے ساتھ لڑائيوں میں بہت سے حفاظ صحابہ کرام شھید ہوگۓ تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کو ڈر پیدا
    ہوا کہ کہیں قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں میں ہے
    نہ رہ کر ضائع ہو جاۓ ، تو انہوں نے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ
    مکمل قرآن کریم کو ایک کتاب
    میں جمع کیوں نہ کرلیا جاۓ تا کہ وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے ، تو یہ کام انہوں نے حفاظ

    میں سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے ذمہ لگایا ۔

    اس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے کچھ یوں کیا ہے :

    زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا
    قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ،
    اور میری راۓ تو یہ ہے
    کہ
    آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔

    تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟

    تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم یہ ایک خیر اور بھلائ ہے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ بار بارمیرے ساتھ یہ بات کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے اس بارہ میں میرا شرح صدرکردیا ، اور اب میری راۓ بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے ۔

    زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ تم ایک نوجوان اور عقل مند شخص ہو ہم آپ پر کوئ کسی قسم کی تہمت بھی نہیں لگاتے ، اور پھرتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ، تو تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو ۔

    زید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قسم اگر وہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئ پہاڑ منتقل کرنے کا مکلف کرتے تو مجھ پر وہ اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کریم جمع کرنے کا کام بھاری اور مشکل تھا ، میں کہنے لگا تم وہ کام کیسے کروگے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خیر اوربھلائ ہے ، تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرا بھی شرح صدر کردیا جس طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا شرح صدر ہوا تھا ، تو میں قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں اور چھال اور باریک پتھروں سے جمع کرنا شروع کردیا حتی کہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیات ابو خزیمۃ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کسی اور کس پاس نہ پائ { لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم ۔۔۔ } ( تمہارے پا‎س ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تم میں سے ہے جسے تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں کزرتی ہے ۔۔ ) ۔

    تو یہ مصحف ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر ان کے بعد تاحیات عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اور ان کے بعد حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہما کے پاس رہے ۔

    العسب : کھجور کی ٹہنی کو کہتے ہیں اس کی چھید اس کی چوڑائ میں لکھتے تھے ۔

    اور اللخاف ، باریک پتھر کو کہتے ہیں ۔

    صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ خود بھی حافظ قرآن تھے ،
    لیکن اس کے باوجود انہوں نے قرآن کریم کے ثبوت کے لۓ ایک خاص منھج اختیار کیا تو وہ اس
    وقت تک کو‏ئ آیت نہیں لکھتے تھے کہ جب تک دوصحابی یہ گواہی نہ دے دیں کہ انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔

    تویہ مصحف خلفاء کے ھاتھ میں خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک رہا ، اور صحابہ کرام مختلف ممالک میں پھیل چکے اور وہاں وہ قرآن ان سات لہجوں میں ہی پڑھتے تھے جن میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ، تواس طرح ان کے شاگرد اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ اس کے شیخ اور استاد نے اسے پڑھایا تھا ۔

    جب ایک شاگرد اپنے ہم عصر بھائ کو قرآن کسی اور لہجے میں پڑھتا ہوا دیکھتا وہ اسے غلط کہتا اور اس کا انکار کرتا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو صحابہ کرام کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ تابعین اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان فتنہ نہ پیدا ہوجاۓ اس لۓ انہيں یہ خیال آیا کہ لوگوں کو صرف قریش کے لہجہ پر جمع کردیا جاۓ
    جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے تاکہ اختلاف کو مٹایا اور اس کی جڑ ہی ختم کردی جاۓ ،
    عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اس موافقت کردی ۔

    امام بخاری رحمہ اللہ تعالی انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہما
    عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آۓ جو کہ آرمینیا اورآذربائجان کو فتح کرنے کے لۓ اہل عراق
    کے ساتھ مل کر شامیوں سے غزوہ کر رہے تھے حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآت ميں ان کے اختلاف نے گھبراہٹ میں ڈال دیا تھا ۔

    حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے اے امیر المؤمنین اس امت کو کتاب اللہ میں یھودیوں اور عیسائیوں کی طرح اختلاف کرنے سے پہلے ہی پکڑ لیں ، تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ام المؤمنین حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ مصحف دو تاکہ ہم اس کے نسخے تیار کرنے کے بعدیہ مصحف آّ پ کو واپس دے دیا جاۓ گا ، عثمان رضي اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت ، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن عاص
    اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام کو مصحف کے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا ، اور اس گروہ میں سے تین قریشیوں کو یہ کہا کہ اگر تم اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کی کسی چیزمیں اختلاف کرو تو اسے قریش کے لغت میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے ، توانہوں نے ایسے ہی کیا ۔

    جب نسخے تیار ہوچکے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی کو واپس کردیا ،اور ان نسخوں میں سے ہرایک طرف ایک نسخہ بھیج دیا اور یہ حکم دیا کہ اس نسخہ کے علاوہ ہر مصحف اور صحیفہ جلا دیا جاۓ ۔

    ابن شہاب زھری کہتے ہیں کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے مصحف نسخ کرتے وقت سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہ ملی جو کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا جب ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ ہمیں خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے ملی ( من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ ) تو ہم نے مصحف میں سورۃ الاحزاب میں ملا دیا ۔

    تو اس طرح اختلاف کی جڑ کاٹ دی گئ اور ایک ہی کلمہ بن اور قرآن کریم لوگوں کے سینوں میں تواتر کے ساتھ محفوظ رہا اور قیامت تک رہے گا ، تو یہی وہ اللہ تعالی کی حفاظت ہے جو اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق ہے :

    { بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } الحجر ( 9 ) ۔

    واللہ تعالی اعلم .












    Last edited by lovelyalltime; 23 July 2012, 21:33.

  • #2
    Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

    تم نے قرآن کو حدیث سے ثابت کرنے بجائے واقعات سے ثابت کیا
    دوسرا اسے پڑھو جس تحریر کو کاپی کیا

    3 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے
    ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔



    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

      دوسرا آپ غور کریں صرف قرآن کی تدوین کتنی مشکل سے ہوئی آپ بار بار اصرار کرتے رہے نہیں حدیث پہلے سے ہی کتابی صورت میں تھی
      اب آپ کیا کہتے ہیں؟
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

        Originally posted by Sub-Zero View Post
        دوسرا آپ غور کریں صرف قرآن کی تدوین کتنی مشکل سے ہوئی آپ بار بار اصرار کرتے رہے نہیں حدیث پہلے سے ہی کتابی صورت میں تھی
        اب آپ کیا کہتے ہیں؟


        قرآن کی تدوین کیسے ہوئی

        یہ بھی صحیح حدیث سے پتا چلے گا

        حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے جنگ یمامہ (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) کے زمانہ میں بلا بھیجا، میں حاضر ہوا تو وہا ں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے آ کر کہا جنگ یمامہ میں قرآن پاک کے بہت سے حفاظ و قراء شہید ہو گئے ہیں مجھے ڈر ہے کہ مختلف علاقوں میں اگر قرآن کے حفاظ و قراء اسی طر ح شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا میرے خیال میں آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ہم اور آپ کیسے کر سکتے ہیں؟
        حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بخدا یہ اچھا کام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اپنی بات دہراتے رہے یہاں تک اللہ پاک نے میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا اور میری رائے وہی ہوگئی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا تم عقلمند نوجوان ہو، تمہا ری دیانت و امانت پر ہم الزام نہیں لگا سکتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتے تھے، قرآن کریم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو۔ زید کہتے ہیں خدا کی قسم مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے نقل کر نیکی تکلیف دیتے تو جمع قرآن کے کام سے زیادہ میرے لئے بوجھل نہ ہو تا۔ کہتے ہیں میں نے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا آپ کیوں کرتے ہیں؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا، خدا کی قسم یہ کام اچھا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلسل مجھے سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک نے میرا سینہ بھی اس حقیقت کے لئے کھول دیا جس کے لئے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا، تو میں نے قرآن کریم کی تلاش شروع کر دی۔ میں نے کھجور کی چھال، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کیا یہا ں تک کہ سورۃ توبہ کا آخری حصہ مجھے خزیمہ انصا ری رضی اللہ عنہ کے پاس ملا، کسی اور کے پا س نہ ملا یعنی لقد جاء کم ر سول من انفسکم… آخر تک یہ نسخے ابو بکر صدیق کے پاس تھے یہا ں تک کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، پھر زندگی بھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ
        کے پاس اور پھر وہ نسخے حضر ت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پا س ر ہے۔


        بخاری، الصحيح، 4 : 1720، رقم : 4402


        Comment


        • #5
          Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

          Originally posted by Sub-Zero View Post
          تم نے قرآن کو حدیث سے ثابت کرنے بجائے واقعات سے ثابت کیا
          دوسرا اسے پڑھو جس تحریر کو کاپی کیا

          3 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ
          علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے
          ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔




          خطبہ فتح مکہ


          فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا، یمن کے ایک صاحب ابو شاہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے یہ لکھ دیجئے۔ آپ نے حکم دیا
          ’اکتبوا لأبی شاه‘
          ابوشاہ کے لئے اسے لکھ دو۔
          بخاري، الصحيح، 6 : 2522، رقم : 6486
          ٭ حضر ت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر ابو بکر بن حزم کو یہ فرمان لکھ کر بھیجا۔
          ’أنظر ما کان من حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فاکتبه فانی خفت دروس العلم و ذهاب العلماء ولا يقبل إلا حديث النبی صلی الله عليه وآله وسلم ولتفشو العلم ولتجلسوا حتی يعلم من لا يعلم فان العلم لا يهلک حتی يکون سرا‘
          بخاری، الصحيح، 1 : 49، رقم : 34
          دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام حدیثیں لکھ لو! مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے (دنیا سے) چلے جانے کا ڈر ہے اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث قبول کی جائے، علم کو خوب پھیلائیں اور اہل علم بیٹھیں تا کہ بے علموں کو تعلیم دیں، علم صرف اس وقت تباہ ہوتا ہے جب راز بن جائے‘‘۔
          حدیثیں لکھی جاتی تھیں

          ٭ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سوا مجھ سے زیادہ کسی کے پاس حدیثیں نہیں۔
          ’فإنه کان يکتب ولااکتب‘
          وہ لکھا کیا کر تے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
          بخاری، الصحيح، 1 : 54، رقم : 113
          ٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سنتا یاد رکھنے کی نیت سے لکھ لیتا۔ بعض لوگوں نے یہ کہہ کر مجھے منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ آپ انسان ہیں غصہ اور رضا کی حالت میں بات کرتے ہیں، میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کر دی، آپ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طر ف اشارہ کر کے فرمایا۔’أکتب‘ ’لکھا کر‘ ’فوالذی نفسی بيده ما يخرج منه إلا حق‘ ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے صرف حق نکل سکتا ہے‘‘۔
          ابوداؤد، السنن، 3 : 318، رقم : 3646
          کتابت حدیث

          ٭رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
          قيد و العلم بالکتاب.
          ’’علم کو لکھ کر قابو کر لو‘‘۔
          حاکم، المستدرک، 1 : 188، رقم : 360
          ٭ حضر ت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے دو عادتیں زندہ رہنے کا حوصلہ اور شوق دیتی ہیں
          1. [*=center]الصادقۃ
            [*=center]الوھط

          الصادقۃ وہ بیاضی (رجسڑ) صحیفہ ہے جس میں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں لکھی ہیں۔
          الوھط وہ زمین جسے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رفاہ عامہ کے لئے و قف کیا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ اس کے منتظم تھے۔
          ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
          ٭ ر بیع بن سعد کہتے ہیں میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ابن سابط کے پاس تختیو ں پر حدیث پاک لکھتے دیکھا۔
          ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
          ٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’علم کو قید تحریر میں لاؤ۔‘‘
          ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
          ٭ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے ایک کتا ب دکھا کر حلفاً کہا کہ یہ (احادیث) میرے والد نے اپنے ہا تھ سے لکھی تھی۔
          ابن عبدالبر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 86
          ٭ بشیر بن نھیک (شاگرد رشید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو سنتا لکھ لیتا جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو اپنی کتاب ان کو پیش کی اور عرض کی یہ ہے مجموعہ آپ سے سنی ہوئی احادیث کا، انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
          ٭ ابو قلابہ کہتے ہیں مجھے لکھ لینا زیادہ پسند ہے کہ بھول نہ جاؤں۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
          ٭ عبد اللہ بن خنیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے لوگوں کو براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کانوں کے قلم پکڑے حدیثیں لکھتے دیکھا۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
          ٭ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیثیں لکھنے کی اجا زت دی۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
          ٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بیٹو ں سے فرمایا کرتے علم کو لکھ کر قابو کرو۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 87
          ٭ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ ’’علم کو قید کرنا کیا ہے؟ فرمایا لکھنا‘‘۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
          ٭ پہلا شخص جس نے علم حدیث کو مدون کیا اور لکھا ابن شہاب زہری میں۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
          ٭ابو الزناد کہتے ہیں ہم حلال و حرام سے متعلق حدیثیں لکھا کر تے تھے اور ابن شہا ب زہری جو حدیث سنتے لکھ لیتے، جب ان کی احتیاج ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ وہی سب سے بڑے عا لم تھے۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
          ٭ معاویہ بن قرہ کہتے ہیں جو علم حدیث نہ لکھے اسے عالم نہ سمجھو۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 88
          ٭ حسن بن عمرو کہتے ہیں میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک حدیث بیان کی، انہوں نے اس کا انکار کیا۔ میں نے کہا جناب میں نے یہ حدیث آ پ سے سنی ہے، فرمایا اگر مجھ سے سنی ہے تو میرے پاس لکھی ہوگی۔ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کی بہت سی تحریریں دکھائیں ان میں وہ حدیث مل گئی۔ فرمانے لگے میں نے تجھے کہا تھا کہ اگر میں نے تجھے یہ حدیث سنائی ہے تو میرے پاس لکھی ہو گی۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 89
          ٭ عر وہ بن زبیر (سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے بھا نجے) کی کتابیں واقعہ حرہ میں جل گئیں، کہا کر تے تھے کاش میرا اہل و مال جل جاتا کتب حدیث نہ جلتیں۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 90
          ٭ سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں تین قسم کی حدیثیں لکھنا چاہتا ہوں۔
          1. [*=center]حدیث لکھتا ہوں اور اسے دین بناتا ہوں
            [*=center]ایسے شخص سے حدیث لکھتا ہوں جس میں توقف کرتا ہوں، نہ رد کرتا ہوں، نہ دین بناتا ہوں۔
            [*=center]کمزور راوی کی حدیث پہچاننا چاہتا ہوں مگر اسے اہمیت نہیں دیتا۔ ان روایات کا علم بھی حاصل کرتا جنہیں قبول کرتا ہوں جن سے ان کا علم حاصل کرتا ہوں جو ناقابل قبول ہیں تا کہ صحیح و غلط میں پرکھ ہو۔

          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 91
          ٭ امام ابن شہاب زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ہمیں تمام احادیث و سنن جمع کر نے کا حکم دیا، ہم نے دفتر دفتر مجموعے تیار کئے، انہوں نے اپنی تمام سلطنت میں ایک ایک نسخہ بھیج دیا۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
          ٭ صالح بن کسیان کہتے ہیں میں اور ابن شہاب زہری حصول علم میں مصروف تھے۔ ہمارا سنن و احادیث لکھنے پر اتفاق ہو گیا، پس ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام احادیث لکھ لیں پھر امام زہری نے کہا ہمارے ساتھ صحابہ کرام کی بھی تمام احادیث و آثار لکھیں، میں نے کہا نہیں، وہ سنت میں شامل نہیں، امام زہری نے کہا وہ سنت میں شامل ہیں چنانچہ انہوں نے لکھ لیں اور میں نے نہ لکھیں وہ کامیاب رہے میں نے عمر ضائع کی۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
          ٭ امام زہری کہتے ہیں، بادشاہوں نے مجھ سے حدیث رسول لکھنے کا مطالبہ کیا تو میں نے انہیں کتابیں لکھ دیں پھر مجھے اللہ تعالی ٰ سے شرم آتی کہ بادشاہوں کے لئے لکھوں اور دوسروں کے لئے نہ لکھو ں؟
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 92
          ٭ خلیفہ عبدالملک کے بیٹے شھاب نے امام زہری سے حدیث لکھنے کے لئے دو کاتب مقرر کئے جنہوں نے ان کے ہاں قیام کیا اور سال بھر احادیث لکھتے رہے۔ المبرد نے خلیل بن احمد (امام النحو) کا یہ قول نقل کیا ہے میں نے جو سنا لکھ لیا اور جو لکھا اسے یاد کر لیا اور جو یاد کر لیا اس نے مجھے فائدہ پہنچایا۔
          ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 93

          Last edited by lovelyalltime; 23 July 2012, 19:31.

          Comment


          • #6
            Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

            Originally posted by Sub-Zero View Post
            تم نے قرآن کو حدیث سے ثابت کرنے بجائے واقعات سے ثابت کیا
            دوسرا اسے پڑھو جس تحریر کو کاپی کیا

            3 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے
            ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔






            حدیث لکھنے سے منع کیو ں فرمایا؟



            یاد رکھو! کسی صحابی یا بعد کے امام و بزرگ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث و سنت کی اہمیت و حجیت اور اصل شریعت ہونے کا کبھی انکار کیا نہ شک۔ جیسے اطيعواﷲ کا مطلب ہے قرآن پر ایما ن، اسی طرح اطیعو الرسول کا مطلب ہے حدیث و سنت رسول پر ایمان رکھنا۔ دونوں کو احکام شرع کے اصل اصول ماننا جیسے اطیعو اللہ کا انکار، قرآن کا انکار، اسی طرح سنت و حدیث رسول کا انکار اطیعوالرسول کا انکار ہے اور ہر انکار مستقل کفر ہے۔ ہا ں ایک خاص وقت کے لئے خاص حکمت کے تحت حدیث لکھنے سے منع کیا گیا، جیسے قرآن کو کتا بی شکل میں مدون و مرتب کرنے میں اکابر صحابہ کا اختلاف ہوا، ہر نئے کام میں تردد و اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جو بحث و تمحیص اور مخلصانہ افہام و تفہیم سے زائل ہو جاتاہے۔
            ٭ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا گیا، کیا اچھا ہو کہ آپ ہمیں حدیثیں لکھوا دیا کر یں، انہوں نے فرمایا ہم تمہیں لکھواتے نہیں، ہم سے حاصل کرو جیسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیں۔
            ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 76
            ٭ ابو نضرہ کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا، ہم آپ سے جو حدیثیں سنتے ہیں، ان کو لکھ نہ لیا کر یں؟ انہو ں نے کہا تم حدیثوں کو مصاحف بنانا چاہتے ہو؟ تمہارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو حدیثیں سناتے اور ہم انہیں زبانی یاد کر لیا کر تے تھے۔ تم بھی اسی طر ح یاد کرو جیسے ہم زبانی یاد کرتے تھے۔
            ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 76
            ٭ امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔ امام مالک نے کہا ابن شہاب زہری کے پاس ایک ایک کتاب کے سوا جس میں ان کی قوم کا نسب لکھا تھا کوئی کتاب نہ تھی۔ لوگوں میں لکھنے کا نہیں، حفظ کرنے کا رواج تھا، جو لکھتا تھا وہ حفظ کرنے کی نیت سے لکھتا تھا جب حفظ کر لیتا تحریر مٹا دیتا۔
            ابن عبد البر، جامع بيان العلم و فضله، 1 : 77


            نہ لکھنے کی وجوہات


            علامہ ابن عبد البر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے ایک باب میں کتابت حدیث کے حق میں اور دوسرے میں اس کے خلاف متعدد روایات و اقوال جمع کر دیئے ہیں۔ ہم نے دونوں کی ایک جھلک آ پ کے سامنے پیش کر دی تا کہ مثبت و منفی دونو ں پہلو سامنے آ جائیں
            دونوں کا خلاصہ یہ ہے :
            ٭ ہر نئے کام میں پہلے ہچکچاہٹ ہوتی ہے جیسے کتابی صورت میں جمع قرآن کے سوال پر ہوئی۔
            ٭ عربوں کو اپنے حافظہ پر بڑا اعتماد تھا فصیح و بلیغ خطبات، سینکڑوں اشعار کے قصائد، مراثی، غزلیات اور نسبت عام لوگوں کو زبانی یاد ہوتے تھے۔ لکھنے کو ذہنی کمزوری اور حفظ کو بجا طور پر کمال سمجھتے تھے۔
            ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو دین کا مرکز و محور مانتے تھے۔ آ پ کی ہربات کو حق سمجھ کر زندگی کا عملی لائحہ عمل بنا لیتے تھے۔ آ پ کے دامن کرم سے وابستگی کو دین اور اس میں کمی کو ایمان سے محرومی سمجھتے تھے۔
            ٭ دور اول میں جس طرح ماننے والوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ منکرین، حاسدین اور منافقین کی شیطانی سازشیں بھی زوروں پر تھیں۔ اپنے رسول سے مسلمانوں کی بے مثال عقیدت و وابستگی نے منکرین کے دلوں میں آگ لگا دی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ حق و صداقت کا یہ سورج کبھی غروب نہ ہوگا، اس لئے ان کی ہمیشہ یہ کوشش بلکہ حسرت رہی کہ قرآن کریم کو ختم کر دیں یا پہلی کتابوں کی طرح اسے منحرف کر دیں یا کم سے کم یہ ممکن نہیں تو اس لافانی کتاب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تفسیر اور عملی زندگی سے الگ کر دیں تا کہ اس کی انقلابی تعلیم و تربیت سے دنیا کو محروم کیا جائے۔
            کتاب اللہ کا متن لیکر من مانی تفسیر کر کے اسلام کے رخ روشن پر شیطانی تلبیس کے پردے ڈال دیں اس مقصد کے لئے ایک طرف قرآن کریم کے متن کے خلاف کوششیں ہوئیں جو اپنی موت آپ مر گئیں، پھر حدیث و سنن کے خلاف پروپیگینڈا کیا گیا تا کہ نبوی تشریح سے امت کو محروم کیا جائے اور دین کا پورا نقشہ بدل دیا جائے پھر قرآن میں تحریف کے لئے صحیح احادیث کے مقابل میں جعلی روایات کو گھڑا اور پھیلایا گیا، مگر اس دین کا محافظ اس کی حفاظت کرتا رہا۔ جہاں اصل چیز ہوتی ہے وہیں جعلی اور نقلی مال بھی آ جاتا ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے ساتھ روز اول سے ہوتا رہا۔ چنانچہ جہاں سنت و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امت کو کار بند کیا وہیں من گھڑت اور جعلی روایا ت ہی نہیں، آیا ت پر بھی نظر رکھی۔
            مسلیمہ کذاب سے لیکر مر زا قادیانی تک نبوت کے ہر جھوٹے دعو یدار نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے حق میں من گھڑت وحی اور آیتیں بنائیں اور گھڑیں۔ لہٰذا خدشہ تھا کہ صحیح و غلط، خلط ملط نہ ہو جائے۔ متن قرآن میں کمی بیشی نہ ہو جائے اسی کے پیش نظر احادیث کے لکھنے، نہ لکھنے میں اختلا ف ہوا۔ حدیث پاک کی حجیت میں تو کبھی کسی مسلمان کو اختلاف ہوا ہی نہیں اور جو اختلاف کرے وہ مسلما ن نہیں۔

            اس مقصد کے لئے احادیث کی جمع و تدوین بھی ضروری تھی اور ملاوٹ سے اسے پاک رکھنا بھی ضروری تھا۔ لہٰذا جو علم و تقویٰ میں معروف اور محتاط تھے ان کیلئے حفظ و کتابت حدیث کا راستہ کھول دیا اور جو اس درجہ و معیار کے نہ تھے ان کو اس کام سے منع کر دیا گیا، اس لئے اجازت و ممانعت دونوں ساتھ ساتھ ہیں جس کام سے اطمینان ہو اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جو کام غیر تسلی بخش پایا اس کی ممانعت فرما دی یہ صرف حدیث کی بات نہیں، قرآن کریم کے وہ تمام نسخے جو غیر معیاری تھے اور خدشہ تھا کہ آئندہ کسی وقت باعث فتنہ ہو نگے، ان کو بھی جلایا گیا اور آج بھی بالفرض غفلت و کوتاہی یا عناد کی بنا پر کوئی قرآن پاک کا تحریف شدہ نسخہ شائع کرے، اسے مسلمان حکومت ضبط کرے گی اور متعلقہ شخص یا ادارہ کو اس جرم کی سزا ہوگی۔ اللہ کی کروڑہا رحمتیں ہوں ان نفوس قدسیہ پر جنہوں نے صحیح وغلط کی تحقیق و تمیز کی۔ دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کر کے امت بلکہ انسانیت کی ہدایت کا سامان کیا۔ اللہ تعالیٰ منکرین حدیث و قرآن کو ہدایت دے اور خلق خدا کو ان کے شر سے بچائے۔

            Last edited by lovelyalltime; 23 July 2012, 21:30.

            Comment


            • #7
              Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

              اتنا علمی اور مدلل تھریڈ بنانے پر آپ شکریہ کے مستحق ہیں

              اگر آغاز کچھ عمدہ الفاظ سے کرتے تو اور بھی اچھا ہوجاتا ہے

              اگر مجھ جیسا کم عقل کی کم عقل عالم سے پوچھ لے کہ اپنے ہاتھ سے مارا حلال اور خدا کا مارا ہوا حرام کیوں ہے

              تو وہ مولوی مجھ کو درست جواب تو نہیں دے گا لیکن مجھے "کافر اور منکر قرآن وغیرہ کے تمغے ضرور دے دے گا۔

              ندیا جب بہتی ہے تو اس کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کا پانی پاک جانور پئیں گے یا ناپاک اُس کا کام تو بس پیاس بجھانا ہے۔

              اُمید ہے کہ میری بات ہر آپ برا نہیں منائیں گے۔
              :star1:

              Comment


              • #8
                Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

                salam. sub - zero bhai aap nay yahan kuch nahin kaha.

                Comment


                • #9
                  Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

                  salam brothers

                  Comment


                  • #10
                    Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

                    pr bhai abhi pichly thread mae tou aap keh rahe thy k


                    Hazrat Umer ny farmaya mae aik ayat Quran mae nahi pata


                    ......... end tak poori bat ..



                    yahan shuru mae Quran ki ayat pesh k keh rahe ho har cheez ki hifazat hao



                    ye kia chakkar hai





                    Comment


                    • #11
                      Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

                      Originally posted by Baniaz Khan View Post
                      pr bhai abhi pichly thread mae tou aap keh rahe thy k


                      Hazrat Umer ny farmaya mae aik ayat Quran mae nahi pata


                      ......... end tak poori bat ..



                      yahan shuru mae Quran ki ayat pesh k keh rahe ho har cheez ki hifazat hao



                      ye kia chakkar hai



                      meray bhai apna poora jawab likhoo yahan per. aadhi bat na karo.

                      Comment


                      • #12
                        Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

                        Originally posted by lovelyalltime View Post

                        meray bhai apna poora jawab likhoo yahan per. aadhi bat na karo.
                        ye mera jwab nahi huzoor iltijae swal hai





                        Comment


                        • #13
                          Re: قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟

                          میرے چندا

                          تھریڈ سے فرار ہونے کے طعنے آپ مجھے دیتے ہو
                          مگر جہاں تم خود اپنی ہی پیش کردہ باتوں میں پھنستے ہو
                          تو وہاں سے تمھارے اندر ایک پردہ دار خاتون نمودار ہوجاتی ہے

                          خیر

                          تم نے اس تھریڈ میں جمیل کے ایک بات کے جواب میں کہا کہ

                          یہ بھی حدیث سے ہی پتہ چلے گا کہ قرآن کیسے لکھا گیا

                          تو یہ بھی حدیث سے ہی پتہ چلے گا کہ وہ خود کیسے لکھی گئی

                          اور اس کا حال تمھارے سامنے ہے ۔۔

                          اس میں ٹھیک بھی ہے غلط بھی ہے ۔۔۔

                          تو قرآن کے لکھنے یا تدوین ہونے کی ایک بات کیسے سمجھ آئے گی ۔۔۔

                          پھر آپ یہ بھی مانتے ہو کہ حدیث قرآن جیسی ہی ایک چیز ہے

                          مگر یہاں خدا نے ساری بات صرف قرآن کے لیے کہی ہے

                          یعنی اللہ تعالیٰ نے نہ حدیث کی حفاظت کا ذمہ لیا

                          نہ اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا

                          بحرحا ل

                          دعا ہے کہ تمھاری عقلوں پہ پڑا ہوا یہ پردہ جلد ہٹ جائے

                          اور آپ تقلید پرستی کی لعنت سے جلد آزاد ہوجائیں





                          Comment

                          Working...
                          X