روز ے کے مسائل۔۔۔۔ تعلیم الصیام اور مسائل تراویح
روزہ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ جس طرح مسلمان اپنی اولاد کو سات برس کی عمر سے نماز کی عادت ڈالتے ہیں، اسی طرح بچوں کو روزہ بھی رکھواتے ہیں۔ اس لئے روزے کا طریقہ معلوم کرنا ہر مسلمان مرد عورت، بوڑھے اور بچے پر ضروری ہے۔ رمضان کے روزے شعبان ۲ ہجری میں فرض ہوئے تھے۔ اس کی فرضیت ویسی ہی ہے جیسے نماز کی۔ جو حکم نماز کے تارک کا ہے وہی حکم تارکِ صوم کا ہے جب بلا عذر نماز کو عمداً ترک کیاجائے ، یا بلا عذر روزہ نہ رکھا جائے۔
فضیلت ِرمضان و صیام:
حدیث ابوہریرہؓ میں فرمایا ہے کہ ’’جب رمضان آتاہے تو بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دوازے بند ہوجاتے ہیں، شیطان کو جکڑ بند کردیا جاتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)
جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے ایک کا نام ’ریان‘ ہے۔ روزہ دار اسی دروازے سے بہشت میں جائیں گے۔ جو کوئی رمضان میں روزہ رکھتا ہے، رات کونماز پڑھتا ہے، شب ِقدر کو جاگتا ہے، اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ ہرنیکی کا اجردس گنا سے سات سو گنا تک ہوجاتا ہے۔مگر روزہ، کہ اللہ تعالیٰ نے (حدیث ِقدسی میں) فرمایا: اِلا الصوم فإنه لي وأنا أجزی به (عن ابی ہریرہ)
’’لیکن روزہ چونکہ میرے لئے ہے، اس کا اجر بھی (بلا حساب) میں ہی دوں گا۔‘‘ متفق علیہ
روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک بوئے مشک سے بھی پاکیزہ تر ہوتی ہے۔ روزہ آتش دوزخ سے ڈھال ہے۔ مسلمان کوچاہئے کہ روزے میں گالی نہ بکے، شور نہ کرے بلکہ اس کو کوئی گالی دے توکہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ رمضان میں اللہ ہر رات کچھ مسلمانوں کو جہنم سے آزاد کرتاہے۔ (رواہ الترمذی عن ابی ہریرۃ مرفوعاً)
روزہ اور قرآن:
مسلمان کی قیامت کے دن شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول ہوگی۔ حدیث ِانسؓ میں آیا ہے:’’اس مہینے میںایک رات ہے جو ہزا رمہینے سے بہتر ہے جو کوئی اس رات سے محروم رہا، وہ کل خیر سے محروم رہا۔‘‘ (رواہ ابن ما جہ)
اس مہینے میں جو کوئی نیک کام کرتا ہے وہ اَجر میںفرض ادا کرنے کے برابر ہے، اور جوکوئی فرض بجا لاتا ہے وہ ستر فرض ادا کر نے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اورصبر کا ثواب بہشت ہے۔یہ مہینہ مؤاسات (ہمدردی) کا ہے، اس ماہ میں جو کسی کا روزہ افطار کراتا ہے تو اس کا رزق بڑھتا ہے، اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ دودھ کے ایک گھونٹ سے یا کھجور یا پانی سے افطار کرائے، اور جو کوئی کھانا کھلاتا ہے وہ روزِ قیامت نبی کریم ا کے حوض کا پانی پئے گا، پھر جنت میں جانے تک پیاسا نہ ہوگا۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اوّل عشرہ رحمت ہے اور اوسط مغفرت اور آخر آگ سے آزادی ہے ۔(مشکوٰۃ بحوالہ شعب الایمان، بیہقی عن سلمانؓ)
آنحضرت ﷺ رمضان میں ہر قیدی آزاد کردیتے، ہرسائل کو عطا کرتے (ایضاً بروایت ِابن عباسؓ)
جنّت رمضان کے لئے شروع سال سے سال آئندہ تک زینت کی تیاری کرتی ہے۔ چنانچہ جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو بہشت کے پتوں کی ہوا عرش کے نیچے سے حورِعین پر چلتی ہے اور وہ کہتی ہیں:
’’اے ربّ! تو اپنے بندوں میں سے ہم کو ایسے خاوند دے، جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔‘‘ (بروایت ِابن عمر مرفوعا ً)
رؤیت ِہلال:
حدیث ِابن عمرؓ میں فرمایا ہے:’’روزہ نہ رکھو جب تک ہلال (پہلی رات کا چاند) نہ دیکھ لو اور اِفطار نہ کرو جب تک کہ ہلال کو نہ دیکھ لو، اگر بادل ہو تو اندازہ کرکے تیس دن کی گنتی پوری کرو۔‘‘ (متفق علیہ)
رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا ابوالقاسم ا کی نافرمانی کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺنے ایک مسلمان شخص کے چاند دیکھنے پر روزہ رکھنے کا حکم دیا تھاجیسا کہ ابن عمرؓ کے ہلال دیکھنے پر ( رواہ اہل السنن)۔ پس جب ایک قابل اعتماد شخص ہلال کو دیکھ لے تو رمضان کا روزہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی نہ دیکھے تو شعبان کی گنتی پوری کرکے روزہ رکھے اور تیس روزے پورے کرے جب تک کہ ہلالِ شوال ظاہر نہ ہو ۔ایک شہر والوں نے جب چاند دیکھ لیا تو اب باقی شہر والوں کو ان کی موافقت کرنا لازمی ہے۔
نیت ِروزہ:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنابدعت ہے، نیت درحقیقت دل کے فعل کا نام ہے۔ یہ نیت رات کو، فجر سے پہلے کرنی چاہئے۔ حضرت حفصہؓ سے مرفوعاً حدیث ہے کہ جس نے فجر سے قبل روزے کا عزم نہ کیا، اس کا روزہ نہ ہوا۔ (رواہ اہل السنن) بہتر یہی ہے کہ ہر رات کو کل کے روزہ کی نیت کرلی جائے۔ اگرچہ سارے رمضان کی ایک ہی بار نیت کرنا بھی بعض کے نزدیک رَوا ہے۔ عام دنوں میں روزوں میں وِصال (مسلسل روزہ )کرنا حرام ہے۔ ابوہریرہؓ نے مرفوعا ً بیان کیا ہے کہ حضرت ا نے وصالِ صوم سے منع فرمایا ہے۔ کسی نے کہا: آپ ا تو وصال کرتے ہیں تو فرمایا:
ايكم مثلی إنی أبيت يطعمني ربی ويسقيني (متفق علیہ) ’’یعنی کیا تم میری طرح ہو؟… مجھ کو تو میرا ربّ کھلاتا پلاتا ہے۔‘‘
افطار میں جلدی کی جائے:
حدیث ِسہلؓ میں فرمایا ہے: لوگ ہمیشہ خیریت سے رہیں گے جب تک کہ افطار میںجلدی کریں گے۔ (متفق علیہ)… جب رات ادھر (مشرق کی طرف سے) آئے اور دن پیٹھ پھیر ے اور سورج ڈوب جائے تو اب روزہ دار افطار کرلے۔ (متفق علیہ) …ابوہریرہؓ کے لفظ یہ ہیں: اللہ نے فرمایا: أحب عبادی إلیّ أعجلھم فطرا(رواہ الترمذی) یعنی ’’میں اس بندے کوبہت دوست رکھتا ہوں جو روزہ کھولنے میں جلدی کرتا ہے۔‘‘ … روزہ کھجور سے افطار کرنا باعث ِبرکت ہے، اگر نہ ملے تو پانی سے کھولے کہ یہ طہور (پاک کردینے والا) ہے… جب تک افطار میں جلدی ہوا کرے گی، دین غالب رہے گا کیونکہ یہودو نصاریٰ اِفطار میں دیر لگاتے ہیں۔
افطار کی دعا:
آنحضرت ا جب روزہ کھولتے تو فرماتے: ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ إِنْ شَائَ اللهُ تَعَالٰی
’’پیاس جاتی رہی اور رگیں ترہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا، اگر اللہ نے چاہا۔‘‘(رواہ ابوداود عن ابن عمرؓ)
معاذ بن زہرہ نے کہا: آنحضرت ا وقت ِافطار یوں کہتے :اللهم لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ (ابوداود: ۲۳۹۸)
’’یا اللہ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا۔‘‘
روزہ افطار کرانے کا ثواب:
زید بن خالد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ ’’جس نے کسی کو روزہ افطار کرایا یاغازی کا سامان درست کردیا، اس کو ان کے برابر اجر ملے گا۔‘‘ ( روایت ِ بیہقی… اس کی سند صحیح ہے)
سحری:
حضرت انسؓ کی مرفوع حدیث میں ہے ’’تم سحری کیا کرو، سحری کرنے میں برکت ہے‘‘(متفق علیہ) ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں یہی فرق ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں اور وہ نہیں کھاتے۔ (صحیح مسلم عن عمرو بن عاص) آنحضرت ﷺ نے سحری کا نام ’غذاء ِمبارک‘ رکھا ہے اور کھجور کو ’عمدئہ سحور ِمؤمن‘ فرمایا ہے۔ غرضیکہ سحر کے وقت تھوڑا بہت ضرور کھا لے، ایک دو کھجور ہی سہی۔ سحری میں تاخیر کرنا اسی طرح ہی مستحب ہے جیسے افطاری میں جلدی کرنا۔حضرت ﷺنے فرمایا: ’’میری اُمت ہمیشہ خیریت سے رہے گی جب تک کہ سحور میں دیر کرے گی۔‘‘ حضرت ﷺکی نماز اور سحری کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا تھا جتنی دیر میں کوئی قرآن کی پچاس آیتیں پڑھ لے۔
روزے کو نقصان دینے والے کاموں سے بچایا جائے:
حدیث ابوہریرہؓ میں فرمایا ہے :’’جس شخص نے قولِ زُور اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا تو اللہ کو اس کے ترک ِطعام و شراب کچھ تعلق نہیں ہے۔‘‘ (فتح الباری مع بخاری :۴؍۱۰۴)
قولِ زُور سے مراد کلامِ باطل ہے جیسے جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، کلمہ کفر بکنا، اِفترا کرنا، غیبت کرنا،بہتان باندھنا، تہمت لگانا، لعنت کرنا، گالی بکنا۔ عمل بالزُّور سے مراد فواحش کرنا ہے کیونکہ یہ گناہ میں زُور کے برابر ہیں۔ انسان پر یہ کام کرنے حرام ہیں اور ان سے بچنا واجب ہے۔ اللہ ایسے روزے قبول نہیں کرتا اور روزہ دار کو سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیںہوتا… جس کو احتلام یا صحبت کی و جہ سے نہانے کی حاجت ہو اور فجرہوجائے تو وہ نہاکر روزہ رکھے۔ (متفق علیہ عن عائشہ مرفوعاً)
بھول کر کھا لینا اور جن چیزوں سے روزہ باطل ہوجاتاہے:
’’ جس نے بھول کر کھا لیا یا پی لیا تو وہ اپنا روزہ پورا کرے، اللہ نے اس کو کھلایا پلایا۔‘‘ (متفق علیہ) اس پر کفارہ وقضا نہیں ہے۔ اور جس شخص نے عمدا ً (جان بوجھ کر) روزہ توڑ ڈالا وہ مثل کفارۂ ظہار کے کفارہ دے یعنی ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ لگاتار روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کفارہ فقط جماع کرنے سے لازم آتا ہے، کسی اور سبب سے نہیں۔ اس لئے کہ اس شخص نے جس کو حضرت ﷺنے اس کفارہ کا حکم دیا تھا، رمضان میں دن کے وقت جماع کیا تھا، لیکن ایک دوسری روایت میںفقط توڑنے کا ذکر آیا ہے، نہ کہ جماع کرنے کا… واللہ اعلم !
بعض کے نزدیک بھول کر جماع کرلینا، بھول کر کھانے پینے کے مصداق ہے۔ روزہ عمداً کھانے سے اور عمداً قے کرنے سے ٹوٹ جاتاہے، نہ کہ قے کے خود بخود آنے سے۔ اگر قے ہوگئی تو روزے دار پر اس کی قضا نہیں ہے، ہاں عمدا ً قے کرے گا تو روزہ قضا کرنا پڑے گا۔ روزے میںمسواک کرنا، سرمہ لگانا درست ہے۔ اس کو ترمذی وغیرہ نے عامرؓ و انسؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ گرمی و پیاس کی وجہ سے حالت ِصوم میں سر پر پانی بہانا درست ہے، خود حضرت ا نے یہ کام کیا ہے۔ (رواہ مالک و ابوداود) ’’جس نے رمضان میںایک روزہ بھی بغیر رخصت و مرض کے نہ رکھا، وہ اگر صومِ دہر (ہمیشہ روزہ) رکھے تب بھی اس روزے کی قضا نہ ہوگی۔‘‘ (رواہ احمد والبخاری واہل السنن عن ابی ہریرۃ)
ان کے دوسرے الفاظ بروایت ِدارمی ؒیہ ہیں: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے سوائے پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے رات کوقیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو ان کے قیام سے سوا ئے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا۔‘‘
ہم سے دلِ مردہ اگر رات کو جاگے تو کیا چشم بیدار تو ہے پر دل بیدار نہیں
پھر جو شخص کسی عذرِ شرعی سے روزہ افطار کرے، اس پرروزے کا قضا کرنا واجب ہے، جیسے مسافر ومریض۔ اس قضا کا حکم خاص قرآن میں آیا ہے :
وَمَنْ کَانَ مَرِيضا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيامٍ اُخَر (البقرۃ:۱۸۵) ’’جو شخص (رمضان میں) مریض یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی مکمل کرے۔‘‘ اور حدیث میں حیض کو بھی عذر ٹھہرایا گیا ہے، یہی حکم نفاس کا بھی ہے۔مسافر ومانند مسافر کے لئے رخصت ہے کہ روزہ ترک کردے لیکن اگر روزہ رکھنے سے ہلاکت کا خطرہ ہو یا غزوہ درپیش ہو تو پھر ترکِ روزہ ضروری ہے۔ میت پر اگر روزے رہ گئے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا وَلی روزہ رکھے، یہ اولیٰ وافضل ہے یا اس کی طرف سے ہر دن کے عوض ایک مسکین کوکھانا کھلائے، یہ بھی کفایت کرجائے گا۔ (رواہ الترمذی عن ابن عمرؓ والصحیح أنہ موقوف علیہ) اور جوبوڑھا مرد یا زَن اَدا و قضا سے عاجز ہو وہ بھی ہر دن کے عوض ایک محتاج کو کھانا کھلائے، اس پر کچھ قضانہیں ہے۔ اسی طرح دودھ پلانے والی اور حاملہ بھی روزہ نہ رکھیں بلکہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کوکھانا کھلائیں۔ ابن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حکم بیان کیا ہے اور یہی زیادہ مناسب ہے۔
٭ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ’’مجھ پر رمضان کے روزے ہوتے، میں ان کی قضائی نہ کرسکتی مگر شعبان میں، بسبب ِشغل کے۔‘‘ (متفق علیہ) معلوم ہوا کہ جس سال کی قضا ہو، اس کو اسی سال میں مکمل کرے چاہے آخر سال میں، اس سے زیادہ تاخیرنہ کرے۔
حدیث ِابوہریرہؓ میں فرمایا ہے کہ ’’کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ نفلی روزہ رکھے جبکہ اس کا خاوند (سفر پر نہ ہو، گھر میں) موجود ہو، مگر اس کی اجازت سے اور ایسے ہی کسی کو گھر میں نہ آنے دے مگر خاوند کی اجازت سے۔‘‘ (رواہ مسلم)
نفلی روزے:
1 شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔ ہر نیکی دس گنا ہوتی ہے، اس حساب سے گویا تمام سال کے روزے ہوگئے۔ اگر متصل نہ رکھ سکے تو آخر ماہِ شوال تک پورے کرلے۔
2 ذوالحجہ کے ۹ دن کے روزے رکھے، ان میں زیادہ تر تاکید عرفہ کے دن (۹ ذوالحجہ )کی آئی ہے۔ عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ایک سال گذشتہ، دوسرا سال آئندہ۔
3 عشرئہ محرم کے روزے مستحب ہیں خصوصاً عاشورہ (۱۰ محرم) کاکہ اس کی بہت تاکید آئی ہے۔ یہ ایک سال کے گناہوں کاکفارہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ایک دن اور ملا لے یعنی نواں دسواں۔یہ روزہ اس شکرانہ کے طور پر رکھا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون سے نجات دی۔
4 شعبان میں جتنے روزے رکھے بہتر ہے۔ حضرت ﷺاس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
لیکن رمضان کے استقبال کے لئے شعبان کے آخری روزے خصوصی طور پررکھنا ممنوع ہے۔
5 پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔ آنحضرت ﷺ ان دو دن میں اہتمام سے روزہ رکھتے اور فرماتے کہ میں پیر کے دن پیدا ہوا ہوں اور اِسی دن مجھ پر وحی اُتر ی تھی۔
6 ایامِ بیض کے روزے سنت ہیں جو کوئی ہر مہینے میں تین روزے چاند کی ۱۳؍۱۴ ؍۱۵ تاریخ کورکھتا ہے۔ پھر رمضان کورمضان تک پورا کرتا ہے تو گویا اس نے صومِ دہر رکھا۔ یہ بھی آیا ہے کہ کبھی یہ روزے ہفتہ، اتوار، پیر کو رکھتے اور کبھی منگل ، بدھ، جمعرات کو … ولکل وجهة
افضل نفلی روزہ: افضل نفلی روزہ یہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھے، ایک دن افطار کرے۔ حضرت داود علیہ السلام اسی طرح روزہ رکھتے تھے۔ حجۃ اللہ البالغہ میں کہا ہے کہ صوم میں انبیا کا طریقہ مختلف تھا۔ نوح علیہ السلام صائم الدہر تھے۔عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دو دن افطار کرتے یا کئی دن تک۔ ہمارے حضرت ﷺ کبھی لگاتار رکھتے یہاں تک کہ یہ گمان ہوتا کہ اب افطار نہ کریں گے اور کبھی لگاتار افطار کرتے یہاں تک کہ یہ کہا جاتا کہ اب روزہ نہ رکھیں گے۔ لیکن سوائے رمضان کے کسی مہینے کے پورے روزے نہ رکھتے، یہ اس لئے کہ روزہ تریاق ہے اور تریاق کا استعمال بقدرِ مرض کیا جاتاہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا مزاج سخت تھا اور حضرت داود علیہ السلام صاحب ِقوت و رزانت تھے، لڑائی کے وقت نہ بھاگتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضعیف البدن، فارغ البال، بے اہل و مال تھے۔ اس لئے ہر ایک نے اپنے حسب ِحال کو اختیار کیا۔ ہمارے حضرت ﷺ اپنے مزاج کے شناسا تھے۔فوائد ِصوم وافطار کے عارف تھے، آپ ﷺ نے حسب ِصحت جو چاہا، اختیار کیا۔
حرام روزے:
صومِ دہر (ہمیشہ روزہ رکھنا ) مکروہ ہے۔ حضرت نے فرمایا: لا صام من صام الأبد رواہ الشیخان عن ابن عمر) ابوموسیٰ کے الفاظ مرفوعا یہ ہیں: ’’جس نے دہر کا روزہ رکھا، اس پر جہنم تنگ کی جائے گی، اس طرح پھر عقد ِتسعین (یعنی انگشت شہادت اور انگوٹھے سے دائرہ تنگ بنا کر اشارہ)کیا۔‘‘ (رواہ ابن حبان بسند صحیح) …اسی طرح صرف جمعہ کوروزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح صرف ہفتہ کوبھی، حدیث ِصماء میں اس کی ممانعت آئی ہے (رواہ احمد وغیرہ)۔ اسی طرح دونوں عید وںکا روزہ رکھناحرام ہے۔ اس کو شیخین نے ابوسعیدؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔ اسی طرح صومِ ایام تشریق (۱۱ تا ۱۳ ذوالحجہ) سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح رمضان کے استقبال میں ایک یادو روزے رکھنابھی حرام ہے۔
اعتکاف کا بیان:
مسجد میں کسی وقت بھی اعتکاف کرنا مشروع (باعث ِثواب) ہے، اس کی رغبت دلائی گئی ہے۔ وقت ِمعین کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ ہاں رمضان میں اعتکاف کرنے کی زیادہ تاکید موجود ہے، خصوصاً عشرئہ اخیر میں۔ معتکف کو چاہئے کہ عمل صالح میں خوب کوشش و محنت کرے۔ دن بھر تلاوت و ذکر کرے، رات کوجاگے، تہجد پڑھے،شب ہائے قدر میں قیام کرے، اس سے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
شب ِقدر:
شب ِقدر کی تعیین میں چالیس سے زیادہ اَقوال آئے ہیں۔ یہ رات رمضان کے ساتھ کچھ خاص نہیں ہے٭۔ سال بھر میں چلتی پھرتی رہتی ہے۔ جس سال قرآن اُترا تھا، اس سال میں اتفاقاً یہ رات رمضان ہی میں آپڑی تھی لیکن رمضان میں اس کا غالب اِمکان ہے۔ طاق راتوں میں ہوا کرتی ہے۔ ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷ کی تاریخوں میں زیادہ ممکن ہے ۔ پاخانہ، پیشاب کے سوامعتکف کو کسی کام کے لئے باہر نہ آنا چاہئے۔ مگر باہر آنے سے اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا ،ہاں کھانے پینے کے لئے نہ نکلے۔ معتکف کو سردھونا، کنگھی کرنا وغیرہ جائزہے۔ بیمار کی عیادت اور نماز جنازہ کے لئے بھی نہ نکلے۔ راہ چلتے بیمار کا حال پوچھ سکتا ہے۔ واللہ اعلم (تاریخ تحریر : ۷؍جمادی الآخرۃ ۱۳۰۵ھ )
فوائد ِچند (ازمولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ )…
رمضان شریف سخاوت کرنے کا مہینہ:
رسول کریم ﷺ یوں تو جود و سخا کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے لیکن بالخصوص رمضان میں بہت ہی سخاوت فرماتے تھے کما ورد فی الصحيحين عن ابن عباس قال: کان النبیﷺ أجود الناس بالحخير وکان أجود ما يكون فی رمضان (لطائف المعارف:ص۱۷۲، لابن رجب ؛ بخاری: ۱۹۰۲)
ایک حدیث میں ارشاد ہے: أفضل الصدقة صدقةفی رمضان (أخرجه الترمذی عن أنس (لطائف) یعنی ’’رمضان کا صدقہ بہترین صدقہ ہے۔‘‘
امام شافعی ؒکاارشاد ہے: أحب للرجل الزيادۃ بالجود فی رمضان اقتداء برسول الله ولحاجةالناس فيه إلی مصالحهم ولتشاغل كثير منهم بالصوم والصلٰوة عن مکاسبهم (لطائف، ص۱۷۹) ’’انسان کو چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے رمضان المبارک میں خوب خوب خرچ کرے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس مہینے میں مسلمانوں کی بہت سی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سے لوگ دن کے روزوں او ر رات کے قیام کی وجہ سے کمانے میں زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔‘‘ (مالداروں کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کی طرف دست ِتعاون بڑھائیں تاکہ وہ اطمینان سے عبادتِ الٰہی میں مصروف رہ سکیں)
ایک بزرگ اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے: إذا حضر شهررمضان فانبسطوافيه بالنفقة فإن النفقة فيه مضاعفة
’’رمضان شریف میں دل کھول کر خرچ کرو کیونکہ اس میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا اجر کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔‘‘ (لطائف، ص۱۵۹)
تلاوتِ قرآن کی کثرت:
کان السلف يتلون القرآن فی شهررمضان فی الصلٰوةوغيرها ’’رمضان شریف میں ہمارے بزرگ اسلاف نماز میں نیز اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کیا کرتے تھے۔‘‘ (لطائف المعارف ،ص ۱۸۱)
قیامِ رمضان (تراویح)
تلاوتِ قرآن کی بہترین شکل اسے نماز میں پڑھنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی رمضان کی راتوں میں قیام فرمایا اور اس کی ترغیب بھی دی، اگرچہ اس کو فرض نہیں گردانا۔ عوام میں تراویح کو روزے کے لئے جو شرط سمجھا جاتاہے، یہ غلط خیال ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:أن رسول اللهﷺ کان يرغب الناس فی قيام رمضان من غيرأن يأٔمرھم بعزيمة(سنن نسائی وغیرہ)
’’رسول اللہ ﷺ لوگوں کورمضان کے قیام کی خوب خوب ترغیب دیا کرتے تھے، اگرچہ اس کو فرض نہیں قرار دیتے تھے۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ أن رسول اللهﷺ ذکر شهررمضان فقال: إن رمضان شهرافترض الله صيامه وانی سننت للمسلمين فيامه (سنن نسائی، ص ۲۵۰، ج۱،مکتبہ سلفیہ، لاہور ) ’’نبی کریم ا نے رمضان شریف کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا : اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے اور اس کی راتوں کا قیام میری سنت ہے۔‘‘
تراویح کی و جہ تسمیہ:
رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد طلوعِ صبح صادق سے پہلے جونفلی نماز ادا کی جائے، اسے رسول اللہﷺ کے زمانے میں قیامِ رمضان سے تعبیر کیاجاتا تھا جو باجماعت تو عہد ِنبویؐ میں چند دن ہی پڑھی گئی مگر حضرت عمر فاروق ؓنے اس کا باجماعت بھی اہتمام فرما دیا۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ لمبی قراء ت ہونے کے باعث ہر چار رکعت کے بعد آرام کر لیا جاتاتھا۔شاید صحابہ ؓ ہی کے زمانے میں اس آرام کانام ’ترویحہ‘ رکھ لیا گیا، جس کی جمع تراویح ٹھہری۔اس تعبیر کی اصل، آثارِ صحابہؓ میں ملتی ہے۔ (دیکھئے سنن بیہقی، ص۴۹۷، ج۲… فتح الباری ،صفحہ ۳۱۵…قیام اللیل، ص۹۲، ص ۹۹)
قیامِ مسنون:
آنحضرت ﷺ تراویح مع وتر ۱۱؍رکعات پڑھا کرتے تھے،
جس پر مندرجہ ذیل تین حدیثیں صاف طور پر دلالت کرتی ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے ایک اور جابرؓ سے دو…
حديث عائشة:عن أبی سلمة أنه سال عائشةكيف کانت صلٰوة رسول اللهﷺ فی رمضان فقالت ماکان يزيد فی رمضان ولا فی غيرہ علی إحدی عشرۃ ركعة (موطا ٔمحمد ، باب قیام رمضان) ’’ صحیحین اور موطا ٔاما م محمد میں حضرت ابوسلمہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے آنحضرت ﷺ کے قیامِ رمضان کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا آپﷺ کا قیام رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔‘‘ یاد رہے کہ یہ روایت امام بخاریؒ وغیرہ محدثین نمازِ تراویح کے ذیل میں لائے ہیں :
حديث جابر: عن جابر قال صلی رسول اللهﷺ فی رمضان ليلة ثمان رکعات والوتر فلما کان من قابلة اجتمعنا فی المسجد ورجونا أن يخرج إلينا فلم نزل فيه حتی أصبحنا قال إنی کرھت وخشيت أن يكتب عليكم الوتر ( فتح الباری، ص ۵۹۷، ج۱… قیام اللیل ص۹۰ للمروزی… معجم صغیر طبرانی، ص۱۰۸… میزان الاعتدال للذہبی ص ۲۸۰، ج۲، وقال سندہ وسط، وقال القاری الحنفی صح عنہ أنہ صلی لہم ثمان رکعات والوتر (مرقاۃ ص ۱۷۴، ج۲ طبع قدیم مصر) ’’آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ رات ہم لوگوں کوباجماعت آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، بعد میں وتر پڑھے گئے۔ دوسری رات بھی ہم مسجد میں اکٹھے ہو کر آپؐ کا انتظار صبح تک کرتے رہے۔ صبح کو آپؐ تشریف لائے اور فرمایا: میں نے آج باجماعت تراویح پڑھنا اس لئے مناسب نہیں سمجھا تاکہ تم لوگوں پر رمضان کا قیام کہیں فرض نہ ہوجائے‘‘اس روایت کی سند اچھی ہے۔
ملا علی قاری حنفیؒ نے اس روایت کو دو جگہ صحیح تسلیم فرمایا ہے۔ حديث جابر: جاء أبی بن کعب فی رمضان فقال يارسول اللهﷺ! کان منی الليلة شئ قال: وماذاک يا أبی؟ قال تسوة داری قلن: إنا لانقرء القرآن فنصلی خلفک بصلاتک، فصليت بهن ثمان رکعات والوتر، فسکت عنه وکان شبه الرضا (رواہ ابویعلی وقال الہیثمی: سندہ حسن…آثار السنن ص۵ جلد۲ مصنفہ مولانا نیموی حنفی مرحوم … قیام اللیل ص۹۰، و سندہ وسط) ’’حضرت اُبی بن کعبؓ نے بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا: حضورؐ آج رات ایک بات ہوگئی ہے۔ فرمایا اُبی! وہ کون سی؟ عرض کیا گھر کی عورتوں نے کہا ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں۔ ہم چاہتی ہیں کہ تمہارے پیچھے تراویح پڑھ لیں، تو میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھا دئیے۔ آپؐ نے سکوت فرمایا (یعنی اس بات کو پسند فرمایا) اس حدیث کی سند بھی حسن ہے۔‘‘
ان تینوں روایتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عہد ِنبوی میں آٹھ تراویح ہی پڑھی گئی ہیں۔ خود آنحضرت ﷺ نے بھی آٹھ رکعت پڑھیں اور صحابہ ؓ نے بھی آٹھ ہی ادا کیں۔
گیارہ رکعت کا فاروقی ؓ حکم:
محمدبن يوسف عن السائب بن يزيد أنه قال أمر عمر بن الخطاب أبی بن کعب وتميما الداری أن يقوما للناس بإحدای عشرة ركعة (موطأ امام مالک… قیام اللیل مروزی، ص۹۱… شرح معانی الآثار ص۱۷۳، ج۱) ’’سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ وہ گیارہ رکعت مع وتر لوگوں کو پڑھایا کریں۔‘‘
آئمہ کے مسالک:
عام کتابوں میں یہ شہرت ہے کہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد تینوں امام اور ان کے متبعین بیس رکعت ’مسنون‘ کے قائل ہیں لیکن ذرا مطالعہ کو وسعت دی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ائمہ اور محققین فقہا بیس رکعتوں کو استحباب ہی کا درجہ دیتے ہیں، سنت ِمؤکدہ کا نہیں، اس پر قرائن یہ ہیں:
1 قیام اللیل میں ہے کہ امام احمدؒ سے سوال ہوا : کم من الركعة يصلي فی قيام رمضان؟ فقال: قد قيل فيه ألوان نحوا من أربعين ، إنما ھو تطوع ’’قیامِ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں تو فرمایا اس میں تقریباً ۴۰؍ اقوال مروی ہیں۔ یہ تو ایک نفلی نمازہے۔‘‘
2 امام شافعیؒ فرماتے ہیں : رايت الناس يقومون يمكة بثلاث وعشرين وبتسع وثلاثين وليس فی شيئ من ذلک ضيق (فتح الباری: ص۳۰۷، ج۲)
ولأحد ينتهي إليه کأنه نافلة وإن أطالوا القيام وأقلّوا السجود فحسن وھو أحب إلی(قیام اللیل ص۹۲)
’’مکہ میں لوگ بیس پڑھتے ہیں اور مدینہ میں ۳۶، اس پر کوئی خاص پابندی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حد بندی ہوسکتی ہے کیونکہ نفلی نماز ہی تو ہے۔ ہاں قیام لمبا کرکے رکعتیں کم کرلی جائیں تو مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘ (مثلاًطویل قیام کے ساتھ آٹھ رکعات)
3 امام مالکؒ سے اگرچہ ۲۰،۳۹،۴۰ کا قول مروی ہے لیکن انہوں نے ترجیح آٹھ ہی کو دی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ آٹھ رکعت سنت ہیں باقی مستحب۔امام ابوبکر محمد بن الولید طرطوسی ؒ (ف ۵۲۰ھ) نے امام مالکؒ کا عمل نقل کیا ہے: والذي أخذ به في نفسی في قيام شهر رمضان الذي جمع عمر عليه الناس إحدی عشرۃ ركعة بالوتر وهي صلٰوة النبی ﷺووجه ما اختارہ مالک اتفاق أهل المدينة (کتاب الحوادث والبدع: ص ۵۲، للطرطوسیؒ) وھو اختیارہ مالک لنفسہ واختارہ ابن العربی (عمدۃ القاری:ص۳۷۵، ج۵)
’’امام مالک نے فرمایا مجھے وہی طریقۂ عمل پسند ہے جس کا حضرت عمرؓ نے حکم فرمایا اور وہ وتر سمیت گیارہ رکعت ہے اور وہی رسول ﷺ کا قیامِ رمضان تھا اور اس پر اہل مدینہ کا متفقہ عمل تھا۔‘‘
ابوبکر ابن العربی مالکی ؒ کا فیصلہ
چھٹی صدی ہجری کے مالکی محدث قاضی ابوبکر ابن العربی ؒ کہتے ہیں کہ والصحيح أن يصلي إحدی عشرة ركعة صلٰوةالنبیﷺ وقيامه وأما غيرذلک من الأعداد فلا أصل له ولا حدّ فيه وإذا لم يكن بد من الحد فما کان النبیﷺ يصلي فوجب أن يقتدي بالنبیﷺ (عارضۃ الاحوذی : ۴؍ ۱۹، مصر) ’’صحیح گیارہ رکعت ہی ہیں، کیونکہ یہی آنحضرت ﷺ کی نماز تراویح تھی۔ باقی نفلوں کی کوئی حد بندی نہیں ہے پس ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺکی اقتدا کی جائے۔‘‘
علامہ ابن ہمامؒ اور دوسرے فقہائے حنفیہ ؒ
آٹھ رکعت تراویح والا مسئلہ اپنے اندر اس قدر دلیل کی طاقت رکھتا ہے کہ علامہ ابن ہمامؒ جیسے حنفی فاضل اس کے اعتراف پر مجبور ہوگئے حالانکہ علامہ کی تحریروں کو دیکھنے والے جانتے ہیں کہ علامہ کا حنفی مسلک کو مدلل بنانے میںکس قدر دخل ہے۔ اس مسئلہ پر آپ نے شرحِ ہدایہ میں بڑی تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے اور آخر میں فرمایا ہے : فتحصل من ھذا كله إن قيام رمضان سنة إحدی عشرة ركعة بالوترفيكون سنة وکونها عشرين سنة الخلفاء فيكون مستحبا وظاهر کلام المشائخ أن السنة عشرون ومقتضیٰ الدليل ما قلنا انتهاملخصًا (فتح القدیر :۱؍۴۶۸ ) ’’نتیجہ یہ ہے کہ گیارہ رکعت سنت ہیں اور بیس مستحب ہیں،اگرچہ فقہائِ حنفیہ بیس کو سنت ہی قرار دیتے ہیں لیکن دلیل کا تقاضا وہی ہے جو ہم نے کہا ہے۔‘‘ مصنف البحرالرائق (۲؍۷۲) نے بھی اسی مسلک کو پسند فرمایا ہے۔
۲۰ رکعت والی روایت:
رہی ابن عباسؓ کی روایت: أنه ﷺکان يصلي فی رمضان عشرين ركعة (کہ آنحضرت ﷺ نے ۲۰ رکعت تراویح پڑھی تھیں) تو وہ روایت سخت کمزور ہے اس میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان ہے جس کے ضعف پر سب متفق ہیں،پھر وہ حدیث صحیح (بخاری) کے بھی خلاف ہے۔ضعيف بأبی شيبة إبراهيم بن عثمان متفق علی ضعفه مع مخالفته للصحيح (فتح القدیر:۱؍۴۶۷)
ایسے ہی ’عینی‘ شرح صحیح بخاری اور مرقاۃ میں ہے لہٰذا یہ دلیل نہیں بن سکتی۔
تراویح باجماعت:
یہ نماز آنحضرت ﷺنے توتین دن ہی باجماعت ادا فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری وقیام اللیل للمروزی) ہاں حضرت فاروق اعظمؓ نے اس کے لئے باقاعدہ حکم نافذ فرمایا۔ اس لئے افضل یہی ہے کہ نمازِ تراویح باجماعت ہی ادا کی جائے۔ مندرجہ ذیل ایک مرفوع حدیث سے بھی اس پر علماء نے استدلال فرمایا ہے اور امام احمدؒ کا مسلک بھی یہی ہے أن النبیﷺ قال إذا قام مع الإمام حتی ينصرف، کتب له بقية ليلته قال أحمد: يقوم مع الناس حتی يوتر معهم ولا ينصرف حتی ينصرف الامام ’’آنحضرت ﷺنے فرمایا اگر (رمضان کی راتوں میںتراویح کی نماز باجماعت کی) تکمیل امام کے ساتھ کی جائے تو پوری رات کے قیام کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔اسی بنا پر امام احمدؒ فرماتے تھے کہ دیر تک امام کے ساتھ تراویح ادا کرنا بہتر ہے۔‘‘ (قیام اللیل للمروزی ص۱۱)
رکعاتِ تراویح کے درمیان میں ذکر، اذکار:
رکعتوں کے درمیان کوئی خاص ذکررسول اللہ ا اور صحابہؓ سے مروی نہیں اور جو عام طور پر مشہور ہے (یعنی سبحان ذي الجبروت والملکوت … الخ) اس کا کوئی اصل نہیں۔ البتہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے ایک ذکرمنقول ہے جسے وہ تراویح کے اثنا میں پڑھا کرتے تھے۔چونکہ یہ معلوم ہے کہ حضرت امام ؒ کے معمولات و فتاویٰ عام طور پرکسی حدیث و اثر پر ہی مبنی ہوتے ہیں،اس لئے اگر تراویح کے درمیانی عرصہ میں وہ ذکر کر لیا جائے تو درست ہے۔حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: (بدائع الفوائد ، ص۱۱۰ جلد۴)
رأيت أحمد يقعد بين التراويح ويردد ھذا الکلام: ’’لا اله الا الله وحدہ لا شريك له استغفرالله الذی لا اله الاھو‘‘ ’’امام احمدؒ تراویح کے درمیان بیٹھتے اور یہ کلمات باربار پڑھاکرتے تھے ’’لاَ اِلهَ اِلاَّ الله وَحْدَہٗ لَاشَرِيك لهٗاَسْتَغْفِرُاللهَ الَّذِیْ لَا اِله اِلاَّ
ھُوَ…‘
Comment