بسم الله الرحمن الرحيم
روزہ کے آداب اور روزہ توڑنے والے کام
واجبی آداب
1) نماز با جماعت : واجبی آداب یہ ہیں کہ روزہ دار تمام ان قولی وفعلی عبادات کو بجالائے جنہیں اسکے اوپر اللہ تعالٰی نے واجب قرار دیا ہے ، ان میں سب سے اہم فرض نمازیں ہیں جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ تاکیدی ُرکن ہے ، لہذا ضروری ہے کہ روزہ دار اس پر محافظت اور ارکان وواجبات وشرطوں کے ساتھ اسکی ادائیگی کا اہتمام کرے ، وقت کی پابندی کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھے کیونکہ باجماعت نماز یہ اس تقوی کا ایک حصہ ہے جس کے لئے روزہ مشروع اور فرض کیا گیا ہے ، برخلاف اسکے نماز کو ضائع کرنا تقوی کے منافی اور عذاب الٰہی کا سبب ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا " ’’پھر انکے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے ، سو ان کا نقصان انکے آگے آئے گا ‘‘ ( سورۃ مریم : ٥٩ )
ان پر واجب ہونے کے باوجود بعض روزہ دار باجماعت نماز کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالٰی نے اسکا حکم دیا ہے : " وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ۔۔۔۔۔۔ " ’’جب تم ان میں ہواور ان کیلئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو ، پھر یہ سجدہ کرچکیں تویہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں ..........‘‘ ( النساء : ١٠٢ )
ذرا سوچیں کہ جب اللہ تعالی حالتِ حرب وخوب میں(جنگ کی حالت میں) باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن واطمینان کے حالت میں تو بدرجہ أولی اسکا حکم ہوگا ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی نے عرض کیا : ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلّم ، مسجد تک لانے کیلئے کوئی میرا مدد گار نہیں ہے اس لئے آپ مجھے گھرمیں نماز پڑھنے کی رخصت دے دیجئے ( آپ صلی اللہ علیہ سلّم نے اولاً تو رخصت دے دی ) لیکن جب وہ جانے لگے تو آپ نے انہیں واپس بلایا اور سوال کیا : ھل تسمع النداء ، "کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟ " انہوں نے جوا ب دیا ہاں ، اذان کی آواز سنتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : "فأجب " "تب تو اسکا جواب دو ( یعنی مسجد میں حاضری دو )" ( صحیح مسلم : ٦٥٤)
اسی طرح باجماعت نماز کی بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے " باجماعت نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب رکھتا " ( صحیح بخاری : ٦٤٥ ، مسلم : ٦٥٠ )
اسی طرح باجماعت نماز چھوڑنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منافقین کی صف میں شامل فرمایاہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ " اقامت کا حکم دوں اور جماعت چھوڑنے والوں کو انکے گھروں سمیت جلادوں " ( بخاری : ٦٥٧ ، مسلم : ٦٥١ )
2) جھوٹ سے پرہیز : روزے کے واجبی آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ روزہ دار ایسے تمام اقوال وافعال سے پرہیز کرے جنہیں اللہ اور اسکے رسول نے حرام قرار دیا ، چنانچہ جھوٹ سے پرہیز کرے ( واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں ) اور سب سے بڑی جھوٹ اللہ اور اسکے رسول پر جھوٹ بولنا ہے جیسے کسی حرام کام کی حلّت اور حلال کام کی حُرمت کی نسبت اور اسکے رسول کی طرف کرنا ، ارشاد باری تعالی ہے :" وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ " "کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو ، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے " ( النحل: ١١٦ )
3) غیبت سے پرہیز : روزہ دار کو غیبت سے بھی پرہیز کرنا چاہئے ، اپنے بھائی کی ناپسندیدہ بات عیب کو اسکے پیٹھ پیچھے بیان کرنا غیبت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کاارشاد ہے :" تو اپنے بھائی کا عیب بیان کررہا ہے اگر اس میں پایا جارہا ہے تو یہی تو غیبت ہے اور اگر اسکا عیب جو بیان کررہاہے وہ اس میں نہیں ہے تو ، تو نے اس پر بہتان باندھا ہے " ( الترمذی : ١٥٧٨ )
4) چُغل خوری سے پرہیز : روزہ دار کو چاہئے کہ چغل خوری سے پرہیز کرے ۔ چغل خور ی یہ ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص تک فساد واختلاف کی غرض سے پہنچائی جائے چغل خوری گناہ کبیرہ ہے ، اس سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ : " لا یدخل الجنة نمام " " چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا " ( بخاری : ٦٠٥٦ ، مسلم : ١٠٥ )
5) دھوکہ دہی سے پرہیز : روزہ دار کو چاہئے کہ خرید وفروخت ، پیشہ مزدوری اور رہن وغیرہ جیسے معاملات میں دھوکہ دہی سے بچتا رہے اور ہر مشورہ اور نصیحت طلبی کے وقت بھی دھوکہ دہی سے پرہیز کرے ، کیونکہ دھوکہ دینا کبیرہ گناہ ہے ، دھوکہ دینے والے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے براء ت کا اظہار کیا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا : " من غشنا فلیس منا " " جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں " حدیث ان الفاظ میں بھی مروی ہے کہ ’’ من غش فلیس منی ‘‘ " جس نے دھوکہ دیا وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے " ( صحیح مسلم : ١٠٢ )
6) گانا بجانا : روزہ دار کو چاہئے کہ گانے بجانے کے آلات سے پرہیز کرے ، لہو ولعب کے تمام آلات خواہ وہ سارنگی ہو ،رباب ہو ، دو تارو ستار ہو ، یا بانسری وکمان ،سب کے سب حرام ہیں اور اگر اسکے ساتھ سُریلی آواز میں گیت اور جذبات کو ابھارنے والے گانے ہوں تو انکی حرمت وقباحت او ر بڑھ جاتی ہے ، ارشاد باری تعالٰی ہے : ’’ ) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ‘‘ " اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں ، جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنکے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے " ( لقمان : ٦)
مستحب آداب
سحری کھانا :مُستحب آداب میں سے ایک ادب سحری کھانا بھی ہے ، رات کے آخری حصہ میں ( روزہ رکھنے کی نیت سے ) جو کھانا کھایا جاتا ہے اسے سحری کھانا کہتے ہیں ، اسکا نام سحری اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ کھانا سحر کے وقت کھایا جاتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سحری کھانے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے : ’’ تسحروا فن فی السحور برکة ‘‘ ’’ سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ‘‘( صحیح بخاری : ١٩٢٣ ، مسلم : ١٠٩٥ ) اور ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ سحری کا کھانا برکت ہے اس لئے اسے چھوڑو نہیں ، اگرچہ صرف ایک گھونٹ پانی ہی پی لو ، کیونکہ اللہ تعالٰی اور اسکے فرشتے سحری کھانے والوں کیلئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔ ( أحمد ،ج: ٣ ، ص: ١٢ ، صحیح الجامع : ٣٦٨٣ ) اسی طرح روزہ کیلئے نیّت دل کے ارادہ کا نام ہے ، زبان سے الفاظ اداکرنا سنت سے ثابت نہیں ہے ۔
اِفطاری میں جلدی: روزے کے مستحب آداب میں سے ایک ادب افطار میں جلدی کرنا ہے ، جب کہ دیکھنے سے سورج کا غروب ہونا محقق ہوجائے ، یا اذان وغیرہ یا وبا وثوق ذریعہ سے سورج کے ڈوبنے کا غالب گمان ہوجائے ( تو افطاری میں جلدی کرنا مستحب ہے ) چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلّم نے ارشاد فرمایا :’’ لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر‘‘ ’’ لوگ برار بخیر رہیں گے جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ‘‘ ( صحیح بخاری : ١٩٥٧ ، مسلم : ١٩٠٢ ) ، سنت یہ کہ تازہ کھجور سے افطار کیا جائے ، اگر نہ ملے تو عام کھجور سے پھر اگر وہ بھی نہ ملے تو پانی سے ( صحیح الترمذی : ٥٦٠ )
تلاوتِ قُرآن: روزہ کے مستحب آداب میں تلاوتِ قرآن ، ذکر ودعاء ، نفلی نماز وصدقات میں کثرت سے مشغولیت بھی ہے ، چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلّم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبرئیل آپکے پاس تشریف لاتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تو آپ کی سخاوت میں مزید اضافہ ہوجاتا ، اس وقت تو رسول صلی اللہ علیہ و سلّم تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے ( صحیح بخاری : ٢٦٠ ، مسلم : ٢٣٠٨ ) ۔
حمد و ثناء : روزہ کے مستحب آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ روزہ دار اپنے اوپر اللہ تعالٰی کی اس نعمت کو دھیان میں رکھے کہ اللہ تعالٰی نے اسے روزہ رکھنے کی توفیق بخشی اور روزہ کو اسکے لئے آسان کیا کہ اس نے روزہ رکھ لیا اور پورے مہینہ کا روزہ مکمل کیا کیونکہ بہت سے لوگ ایسے جو روزہ کی نعمت سے محروم رہتے ہیں یا تو روزہ کا مہینہ آنے سے قبل وفات پاچکے یا ( کسی بیماری کی وجہ سے ) اس سے عاجز رہ گئے یا پھر گمراہی میں پڑےہیں اور روزہ رکھنے سے اعراض کرتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ روزہ دار ، روزہ کی توفیق پر جو گناہوں کی بخشش لغزشوں کی معافی اور رب کریم کے پڑوس ونعمت والے گھر ( جنت ) میں درجات کی بلندی کا سبب ہے ، اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان کرتے رہے ۔
روزہ کو فاسد کرنے والے کام
بھائیو!!! اللہ تعالی کافرمان ہے :
’’ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آَيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ‘‘
" روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالٰی کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرماکر تم سے در گزر فر ما لیا ، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔ " ( البقرہ: 187)،
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے روزہ کو توڑنیوالے اصولی کام بیان کردئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں اسکی مکمل وضاحت کردی ہے ، اسکی تفصیل یہ ہے کہ ، روزہ کو توڑ دینے والے کام سات ہیں :
(١) جماع ( ہمبستری ) کرنا ، روزہ توڑنے والے کاموں میں یہ سب سے بڑا اور گناہ کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا ہے ، روزہ نفلی ہو کہ فرض جماع سے باطل ہوجاتا ہے ، اگر رمضان کا روزہ ہو تو اس پر قضا کے ساتھ کفارہ مُغلّظہ لازم ہے ، کفارہ مغلظہ یہ کہ ، ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ، اگر نہ ملے تو دو مہینہ کا لگاتار روزہ رکھنا ، ان دونوں مہینوں میں بغیر عذر شرعی کے افطار نہیں کرسکتا ، جیسے عید کا دن درمیان میں آگیا ، آیا تشریق ، یا کوئی عذر بیماری ، سفر وغیرہ ، یا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔ ( صحیح مسلم : ١١١١)
(٢)ترکِ شہوت رانی : بوس وکنار کے ذریعہ یا اپنے وہاتھ وغیرہ سے اختیاری طور پر منی خارج کرنا ، کیونکہ یہ عمل بھی شہوت رانی میں داخل ہے ، جس سے پرہیز کئے بغیر کسی کا روزہ صحیح نہیں ہوسکتا ، جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ ... بندہ اپنا کھانا ، پانی ، اور شہوت کو میرے لئے چھوڑ دیتا ہے ( بخاری : ١٨٩٤ )
(٣) کھانا اور پینا : اس سے مراد کھانے یا پینے کی چیز کو منہ یا ناک کے ذریعہ معدہ تک پہنچانا ہے ، خواہ کھانے پینے کی کوئی بھی چیز ہو ، ارشاد باری تعالٰی ہے : ’’ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ‘‘ " اور کھائو ، پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ ( فجرصادق ) اور کالا دھاگہ ( فجر کاذب ) کے درمیان فرق واضح ہوجائے ، پھر رات تک روزہ کو پورا کرو " ( البقرة : ١٨٧ )
(٤) جو کھانے پینے کے حکم میں ہو : یہ دو طرح کے ہیں ،
أول : روزہ دار کو خون چڑھانا ، مثلاً بہت زیادہ خون نکل گیا ، جس کے لئے خون چڑھایا گیا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ، کیونکہ خون ہی کھانے پینے کی اصل غایت ہے اور خون چڑھانے سے یہ مقصد پوارا ہوا ہے ۔
دوم: وہ گلوکوز چڑھانا جو کھانے پینے کے قائم مقام ہو ، اگر انجکشن وغیرہ کے ذریعہ ایسا گلوکوز چڑھایا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ وہ کھانے پینے کے حکم میں ہے ، البتہ وہ انجکشن جو کھانے پینے کا بدل نہیں ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ انجکشن پٹھوں میں یا رگوں میں لیا جائے ، حتی کہ اسکا مزہ حلق میں محسوس ہو ،پھر بھی اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، کیونکہ وہ کھانے پینے کے حکم میں نہیں ہے ۔
(٥) سینگی ، خون نکالنا ( حجامت ) : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلّم کا ارشاد ہے ، افطر الحاجم والمحجوم ’’ پچھنا لگانے والا اور پچھنا لگوارہا ہے دونوں نے افطار کیا ‘‘( أحمد ، ج: ٥، ص: ٢٧٦ ، ابو دائود: ٢٣٦٧ ، دیکھئے صحیح الجامع : ١١٣٦ ) ۔ اسی بنیاد پر علماء کا کہنا ہے کہ واجبی روزہ دار کے لئے خون دینا جائز نہیں ہے اِلاّ یہ کہ وہ شخص ایسا مجبور ہوکہ بغیر خون دئے اسکی ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے ، اور خون دینے والے کو خون نکالنے سے ضرر لاحق نہ ہورہا ہو تو ضرورت ومجبوری کے تحت وہ اس دن ( خون دےکر ) افطار کردے اور بعد میں اسکی قضا کرلے ۔
(٦) عمداً قئے کرنا
(٧ ) حیض ونفاس کا خون آنا
روزہ دار کیلئے مستحب کام
رمضان المبارک بڑی فضیلتوں والا مہینہ ہے ' اس مہینہ میں نیک کام کا اجر بڑھ جاتا ہے اس لئے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے مستفید ہونا ضروری ہے اس مہینہ کے روزوں کو اللہ تعالٰی نے اسلام کا ایک رکن قرار دیا ہے ، روزہ داروں کیلئے اللہ تعالٰی نے جنت کا ایک دروازہ ہی خاص کردیا ہے ۔
کچھ ایسے نیک عمل ہیں جن کا اہتما م روزہ دار کیلئے مستحب ہے : ـ
(1) قرآن کریم کی تلاوت : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلّم کا فرمان ہے جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا تو اسکے عوض اسے ایک نیکی ملتی ہے اور ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملتا ہے ' میں نہیں کہتا کہ " الم " ایک حرف بلکہ الف ایک حرف ہے ' لام ایک حرف ہے ' اور میم ایک حرف ہے ۔ ( سنن الترمذی )
(2) کثرت سے دعاء مانگنا : روزہ کے احکام بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ’’ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.... الآیة‘‘ " جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ' ہر پکارنے والے کی پکارکو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں قبول کرتا ہوں" ( البقرہ: 186)
(3) افطار کے وقت دعاء کرنا :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالٰی افطار کے وقت بہت سے لوگوں کو معاف کردیتا ہے ۔ (مسند أحمد )
(4) گھر سے نکلنے کی دعاء : بسم اللہ توکلت علی ولا حول ولا قوة لا باللہ ۔ (أبودائود ؛ الترمذی ) اللھم نی أعوذبک أن اضل أو ازل أو ازل أو أظلم أو أظلم أو أجھل أو یجھل علی ۔ ( أبودائود ؛الترمذی ) گھر میں داخل ہونے کی دعا ء : ـ بسم ولجنا وبسم اللہ خرجنا وعلی ربنا توکلنا ۔ ( سنن أبودائود )
(5) بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دعاء: بسم اللہ .... أللھم نی أعوذبک من الخبث والخبائث ۔ ( بخاری ومسلم وابودائود ) بیت الخلاء سے نکلنے کی دعاء : ـ غفرانک ۔۔ ( أبودائود ؛ الترمذی )
(6) سونے کی دعاء : با سمک اللھم أموت وأحیا ( بخاری ومسلم ) أللھم قنی عذابک یوم تبعث عبادک ( ابوداؤد ؛ الترمذی ) بیدار ہونے کی دعاء: الحمدللہ الذی أحیانا بعد ما أماتنا ولیہ النشور ۔ ( صحیح بخاری ومسلم )
(7) سواری پر بیٹھنے کی دعاء : بسم اللہ ؛ الحمدللہ ؛ سبحان الذی سخرلنا ھذا وماکنا لہ مقرنین ونا لی ربنا لمنقلبون ۔
(8) صدقہ وخیرات : صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے ۔
(9) عمرہ کرنا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔ ( بخاری )
(10) زبان کی حفاظت : غیبت چغلی جھوٹ ' فحش بات اور گالی گلوچ سے زبان کی حفاظت کی جائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کا فرمان ہے : "جو شخص جھوٹ بولنا اور اسکے مطابق عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اسکے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ( صحیح بخاری ) جو شخص فحش کلام اور جھوٹ کو ترک نہ کرے اللہ تعالٰی کو اسکے کھانا پانی چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے" ( الطبرانی )۔ " اگر تم لوگ روزہ رکھو تو فحش کلامی اور شور وغل سے پرہیز کرو اور اگر کوئی تمہیں گالی دے یا لڑائی کرے تو اس سے کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں " ( متفق علیہ ) ۔
(11) صلہ رحمی کا اہتمام کرنا : کیونکہ قطع رحمی بندے کے نیک عمل کے ثواب کو ختم کردیتی ہے ۔
(12) بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
(13) زکاة دینا
(14) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا
Comment