بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز نہ پڑھنے والوں کے متعلق حکم
زیر نظر سطور میں ہم آپ کے لئے فضیلۃ الشیخ محمد بن العثیمین سے کئے گئے چند سوال و جواب تحریر کر رہے ہیں۔
سوال: ایک شخص جب اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم دے اور وہ اس حکم پر کان نہ دھریں تو وہ شخص کیا کرے؟ کیا اپنے گھر والوں سے میل جول رکھے یا گھر چھوڑ کر خود نکل جائے؟
جواب: اگر کسی شخص کے گھر والے ہمیشہ ہمیش کے لئے تارکِ صلوٰۃ ہیں اور انہوں نے کبھی بھی نماز نہیں پڑھی تو ایسے لوگ بالکل کافر اور مرتد ہیں۔ ان کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ لیکن وہ شخص اپنے گھر والوں کو باربار نماز کی دعوت دیتا رہے۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے۔ کیونکہ کتاب و سنت اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطابق نماز کو چھوڑنے والا کافر ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی بات کریں تو اس میں یہ فرمان ہے: ’’فَاِنْ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا …‘‘ یعنی اگر یہ لوگ توبہ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم علم رکھنے والی قوم کے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں (سورہ توبہ:)۔
اس آیت کا مفہومِ مخالف یہ نکلتا ہے کہ اگر وہ نماز قائم نہیں کرتے تو پھر ہمارے بھائی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ گناہوں کی وجہ سے دینی اخوت ختم نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے اسلام سے خروج ہی دینی اخوت کو ختم کرتا ہے۔
سنت کو دیکھیں تو فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کا ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)۔ دوسری حدیث ہے:’’ہمارے اور کافروں کے درمیان حد ِفاصل نماز ہے جو نماز کو چھوڑتا ہے وہ کافر ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)۔
امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے، اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘ یہاں پر قلیل و کثیر تمام حصوں کی نفی کی گئی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن شفیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی بھی چیز کے ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے علاوہ نماز کے‘‘۔
اگر ہم عقل سلیم کے اعتبار سے دیکھیں تو ذرا سوچئے۔ میں نے ایسی دلیلوں پر بہت غور و فکر کیا ہے جو نماز نہ پڑھنے والوں کو کافر قرار نہیں دیتیں لیکن مجھے انہوں نے متاثر نہیں کیا۔ ان دلیلوں میں سے چار حالتیں ضرور پائی جاتی ہیں: 1یا تو یہ دلیل حقیقتاً دلیل بننے کے لائق نہیں ہے۔ 2یا اس دلیل میں کسی ایسی صفت کی قید لگائی گئی ہے جو نماز پڑھنے میں رکاوٹ ہو۔ 3یا پھر اس دلیل میں کسی عذر کا تذکرہ ہے جو ترکِ صلوٰۃ کا سبب بنا۔ 4یا پھر یہ دلائل عام ہیں۔ لہٰذا یہ کفر والی احادیث نے اس عام حکم کو خاص کر دیا ہے۔
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکِ نماز کفر ہے۔ لہٰذا نماز چھوڑنے والوں پر مرتدوں کے احکام نافذ کرنا چاہئیں۔ کسی بھی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ تارکِ صلوٰۃ مومن ہے۔ یا وہ جنت میں جائے گا۔ کچھ لوگ ان احادیث کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کفر سے مراد کفر نعمت ہے۔ یا یہ چھوٹا کفر ہے۔ لیکن جواباً عرض ہے: 1نماز چھوڑنے والے سے شادی بیاہ نہیں کرنی چاہئے۔ اگر نکاح ہو جائے اور وہ نماز نہ پڑھتا ہو تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔ اس کی بیوی اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اگر تمہیں علم ہے کہ یہ عورتیں مومن ہیں تو پھر انہیں کافروں کی طرف مت لوٹاؤ۔ یہ کافر ان عورتوں کے لئے اور یہ عورتیں ان کافروں کے لئے حلال نہیں ہیں۔ (الممتحنہ:)۔
اگر کوئی شخص پہلے نماز پڑھتا ہو پھر وہ چھوڑ دے تو بھی اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ اس کی بیوی اس کے لئے جائز نہیں ہے۔
3 بے نمازی کو مکہ میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ فرمانِ الٰہی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا (سورہ توبہ:)۔
اے ایمان والو! بے شک مشرک لوگ ناپاک ہیں۔ یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام میں داخل نہ ہوں۔
4 بے نمازی کو میراث میں حق بھی نہیں ملنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشادِ گرامی ہے:
لا یرث المسلم الکفار ولا الکفار المسلم (متفق علیہ)۔
یعنی کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔
اسی طرح بیٹا بے نمازی ہے تو اس کو وارث نہ بنایا جائے بلکہ کسی دوسرے قریبی کو وارث بنایا جائے۔
5 اگر بے نمازی مر جائے تو اس کو نہ غسل دیا جائے، نہ کفن اور نہ نمازِ جنازہ ہو۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی نہیں چاہیے۔ بلکہ کسی بھی میدان، صحراء میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے
6 قیامت کے دن ایسے شخص کا حشر فرعون، قارون اور ہامان کے ساتھ ہو گا۔ کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت و رحمت کرے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْآ اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
نبی اور ایمان والوں کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کیلئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ جہنمی ہیں (توبہ:)۔
اے میرے بھائیو! یہ مسئلہ بڑا خطرناک ہے۔ ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
Comment