بـســم الله الرحــمن الـرحـــيم
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بیان قرآن کریم میں:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔
(آل عمران:104)
اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہیے جو لوگوں کو اس راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی رہنمائی کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کاربند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں اور انہیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں۔"
(تفسیر السعدی)
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔
(آل عمران آیت 110 کا ابتدائی حصہ)
اللہ تعالی اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمام امتوں سے بہتر اور افضل امت ہے جسے اللہ نے لوگوں کیلئے پیدا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامل کرتے ہیں یعنی ایسا ایمان رکھتے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کو مستلزم ہے۔ اور دوسروں کو بھی کامل بناتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوتے ہیں، جس میں مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا، اس مقصد کیلئے ان سے جہاد کرنا، ان کو گمراہی اور نافرمانی سے روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا شامل ہے۔ اس وجہ سے وہ بہترین امت ہیں۔"
(تفسیر السعدی)
امر بالمعروف اورنہی عن المنکر سے مراد کیا ہے
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مفہوم نہایت وسیع ہے معروف کا مبدأ ع رف ہے جس کے لغوی معنیٰ پہچاناہواہے اور اصطلاحی طورہر وہ کام جو عقل اور شرع کی نظر میں قابل تعریف ہو وہ معروف کے زمرے میں آتا ہے اور جو کام عقل اور شرع کی نظر میں قبیح ہو وہ منکر کے زمرے میں آتا ہے۔
پس معرفت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو عقل وشرع کے نزدیک امر خیر ہو اور منکر ہر اس امر کو کہتے ہیں جو عقل و شرع کے نزدیک قبیح ہو یا دوسرے الفاظ میں معروف کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے '' معروف طاعت الہی کا مصداق ،خداسے تقرب کا سبب اور لوگوںکے ساتھ نیکی کرناہے،،۔
امر بالمعروف کا انسان کی اپنی ذات پر اثر
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے امام حسن رضی الله تعالی سے فرمایا''امربالمعروف کرو تاکہ تمہارا شمار اہل معروف میں سے ہو جس طرح کسی چیز کو دھونے سے ہاتھ بھی پاک ہو جاتے ہیں اسی طرح امر بالمعروف کے انجام دینے انسان کا باطن بھی پاک ہو جاتا ہے اور خود بخود انسان برائیوں سے دور ہو جاتا ہے۔
اگر معاشرے میں کوئی امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے والا نہ ہو تو شر پسند عناصر غالب آ جا ئیں گے اور مظلوموں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں رہے گا۔
منافقین کی صفات
اس آیت میں منافقین کی صفات کے بیان میں اُن کی اِس بُرائی کا تذکرہ سب سے پہلے ہے کہ وہ بُرائی کا حکم دینے والے اور بھلائی سے روکنے والے ہوتے ہیں:
الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (67)
ترجمہ: تمام منافق مرد و عورت آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں، یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بے شک منافق ہی فاسق و بدکردار ہیں۔
(التوبۃ:67)
مومنوں کی صفات
اس کے برعکس مومنوں کی صفات میں یہ صفتِ امر و نہی بیان فرمائی گئی:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (71)
ترجمہ: مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بُرائیوں سے روکتے ہیں ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت جلد رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
(التوبۃ:71)
ایک اور مقام پر اس کا بیان یوں ہے:
التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ترجمہ: (وہ ایسے ہیں جو) توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، (راہ حق میں) سفر کرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔
(التوبہ:112)
سورۃ الحج میں اپنے نیک بندوں کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔
(الحج:41)
احادیثِ مبارکہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بیان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) اور یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الایمان)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم ضرور اچھائی کا حکم کرو گے اور بُرائی سے روکو گے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے۔ پھر تم اس کو پکارو گے (لیکن) وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔
(صحیح مسلم)
تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ اگر بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جسم میں پھیل جاتی ہے اور پھر اس کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح برائی کو اگر ابتدا ہی میں ختم نہ کیا جائے اور اسے معاشرے میں پھیلنے دیا جائے اور چھوٹے بڑے اس کے عادی ہوجائیں تو پھر اسے مٹانا اور اس کا ازالہ مشکل ہوجاتا ہے اور بالآخر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، یہ قانونِ ایزدی ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
اسی طرح اگر اسلامی معاشرہ میں برائی کو پنپنے دیا جائے اور اچھائی کا پرچار معدوم ہوجائے تو کچھ مدت بعد لوگ گندے اور شریر النفس بن جائیں گے۔ اچھائی و برائی کا امتیاز مٹ جائے گا اور پھر اس زمین پر انہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ چنانچہ مختلف اسباب و ذرائع سے اللہ سبحانہ و تعالی انہیں برباد کردیں گے۔
یہ بات بھی تجربہ سے ثابت ہے کہ انسانی نفوس جب قبیح اور خراب چیزوں کے عادی ہوجائیں تو وہ انہیں اچھی لگتی ہیں۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیا جائے تو لوگ اچھے کام چھوڑ دیتے ہیں اور برے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برائی عام ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی عادات اور بتقاضائے بشری وہ برائی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ الٹا اسے اچھائی اور عمدہ بات سمجھ لیا جاتا ہے اور یہی بصیرت کا ختم ہونا اور یہی فکری مسخ ہے۔ (العیاذ باللہ)
اسی بنا پر اللہ سبحانہ و تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے کہ یہ انسانی معاشرہ کی پاکیزگی اور درستگی کا باعث ہے اور اقوام و ملل کے عز و شرف کا محافظ بھی۔
(مندرجہ بالا عقلی دلائل کتاب "منہاج المسلم" ص 121، 122 سے لیے گئے، مؤلفِ کتاب "شیخ ابوبکر جابر الجزائری" ہیں)
اصلاح کرنے والا جس بات سے منع کررہا ہو، خود بھی اس پر عامل ہو اور اس کے قریب نہ جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! کیوں وہ بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی ناراضگی کا باعث ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔
(الصف: 2،3)
نیز فرمانِ الہی ہے:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
ترجمہ: کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
(البقرۃ: 44)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''ایک شخص کو روز قیامت لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیاجائے گا، اس کی انتڑیاں نکل آئیں گی اور وہ ان کو لے کر اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی پر چکر لگاتا ہے۔ اتنے میں جہنمی اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے "اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ کیا تم نیکی کا حکم نہیں کرتے تھے اور برائی سے نہیں روکتے تھے؟" وہ کہے گا: "ہاں! یقیناً میں نیکی کا حکم تو کرتا تھا۔ لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا۔ اور برائی سے (دوسروں کو) منع تو کرتا تھا۔ لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔''
(متفق علیہ)
"یقیناً اللہ تعالی خاص لوگوں کے عمل (گناہوں) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب عام لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ برائی اپنے درمیان ہوتے دیکھیں اور وہ اس پر نکیر کرنے پر قادر بھی ہوں لیکن وہ اس سے نہ روکیں، جب ایسا ہونے لگے تو اللہ کا عذاب عام اور خاص سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
(مسند الامام احمد ج 5 ص 388)
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بیان قرآن کریم میں:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔
(آل عمران:104)
اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہیے جو لوگوں کو اس راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی رہنمائی کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کاربند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں اور انہیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں۔"
(تفسیر السعدی)
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔
(آل عمران آیت 110 کا ابتدائی حصہ)
اللہ تعالی اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمام امتوں سے بہتر اور افضل امت ہے جسے اللہ نے لوگوں کیلئے پیدا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامل کرتے ہیں یعنی ایسا ایمان رکھتے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کو مستلزم ہے۔ اور دوسروں کو بھی کامل بناتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوتے ہیں، جس میں مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا، اس مقصد کیلئے ان سے جہاد کرنا، ان کو گمراہی اور نافرمانی سے روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا شامل ہے۔ اس وجہ سے وہ بہترین امت ہیں۔"
(تفسیر السعدی)
امر بالمعروف اورنہی عن المنکر سے مراد کیا ہے
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مفہوم نہایت وسیع ہے معروف کا مبدأ ع رف ہے جس کے لغوی معنیٰ پہچاناہواہے اور اصطلاحی طورہر وہ کام جو عقل اور شرع کی نظر میں قابل تعریف ہو وہ معروف کے زمرے میں آتا ہے اور جو کام عقل اور شرع کی نظر میں قبیح ہو وہ منکر کے زمرے میں آتا ہے۔
پس معرفت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو عقل وشرع کے نزدیک امر خیر ہو اور منکر ہر اس امر کو کہتے ہیں جو عقل و شرع کے نزدیک قبیح ہو یا دوسرے الفاظ میں معروف کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے '' معروف طاعت الہی کا مصداق ،خداسے تقرب کا سبب اور لوگوںکے ساتھ نیکی کرناہے،،۔
امر بالمعروف کا انسان کی اپنی ذات پر اثر
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے امام حسن رضی الله تعالی سے فرمایا''امربالمعروف کرو تاکہ تمہارا شمار اہل معروف میں سے ہو جس طرح کسی چیز کو دھونے سے ہاتھ بھی پاک ہو جاتے ہیں اسی طرح امر بالمعروف کے انجام دینے انسان کا باطن بھی پاک ہو جاتا ہے اور خود بخود انسان برائیوں سے دور ہو جاتا ہے۔
اگر معاشرے میں کوئی امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے والا نہ ہو تو شر پسند عناصر غالب آ جا ئیں گے اور مظلوموں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں رہے گا۔
منافقین کی صفات
اس آیت میں منافقین کی صفات کے بیان میں اُن کی اِس بُرائی کا تذکرہ سب سے پہلے ہے کہ وہ بُرائی کا حکم دینے والے اور بھلائی سے روکنے والے ہوتے ہیں:
الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (67)
ترجمہ: تمام منافق مرد و عورت آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں، یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بے شک منافق ہی فاسق و بدکردار ہیں۔
(التوبۃ:67)
مومنوں کی صفات
اس کے برعکس مومنوں کی صفات میں یہ صفتِ امر و نہی بیان فرمائی گئی:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (71)
ترجمہ: مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بُرائیوں سے روکتے ہیں ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت جلد رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
(التوبۃ:71)
ایک اور مقام پر اس کا بیان یوں ہے:
التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ترجمہ: (وہ ایسے ہیں جو) توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، (راہ حق میں) سفر کرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔
(التوبہ:112)
سورۃ الحج میں اپنے نیک بندوں کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔
(الحج:41)
احادیثِ مبارکہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بیان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) اور یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الایمان)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم ضرور اچھائی کا حکم کرو گے اور بُرائی سے روکو گے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے۔ پھر تم اس کو پکارو گے (لیکن) وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔
(صحیح مسلم)
تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ اگر بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جسم میں پھیل جاتی ہے اور پھر اس کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح برائی کو اگر ابتدا ہی میں ختم نہ کیا جائے اور اسے معاشرے میں پھیلنے دیا جائے اور چھوٹے بڑے اس کے عادی ہوجائیں تو پھر اسے مٹانا اور اس کا ازالہ مشکل ہوجاتا ہے اور بالآخر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، یہ قانونِ ایزدی ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
اسی طرح اگر اسلامی معاشرہ میں برائی کو پنپنے دیا جائے اور اچھائی کا پرچار معدوم ہوجائے تو کچھ مدت بعد لوگ گندے اور شریر النفس بن جائیں گے۔ اچھائی و برائی کا امتیاز مٹ جائے گا اور پھر اس زمین پر انہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ چنانچہ مختلف اسباب و ذرائع سے اللہ سبحانہ و تعالی انہیں برباد کردیں گے۔
یہ بات بھی تجربہ سے ثابت ہے کہ انسانی نفوس جب قبیح اور خراب چیزوں کے عادی ہوجائیں تو وہ انہیں اچھی لگتی ہیں۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیا جائے تو لوگ اچھے کام چھوڑ دیتے ہیں اور برے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برائی عام ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی عادات اور بتقاضائے بشری وہ برائی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ الٹا اسے اچھائی اور عمدہ بات سمجھ لیا جاتا ہے اور یہی بصیرت کا ختم ہونا اور یہی فکری مسخ ہے۔ (العیاذ باللہ)
اسی بنا پر اللہ سبحانہ و تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے کہ یہ انسانی معاشرہ کی پاکیزگی اور درستگی کا باعث ہے اور اقوام و ملل کے عز و شرف کا محافظ بھی۔
(مندرجہ بالا عقلی دلائل کتاب "منہاج المسلم" ص 121، 122 سے لیے گئے، مؤلفِ کتاب "شیخ ابوبکر جابر الجزائری" ہیں)
اصلاح کرنے والا جس بات سے منع کررہا ہو، خود بھی اس پر عامل ہو اور اس کے قریب نہ جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! کیوں وہ بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی ناراضگی کا باعث ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔
(الصف: 2،3)
نیز فرمانِ الہی ہے:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
ترجمہ: کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
(البقرۃ: 44)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''ایک شخص کو روز قیامت لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیاجائے گا، اس کی انتڑیاں نکل آئیں گی اور وہ ان کو لے کر اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی پر چکر لگاتا ہے۔ اتنے میں جہنمی اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے "اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ کیا تم نیکی کا حکم نہیں کرتے تھے اور برائی سے نہیں روکتے تھے؟" وہ کہے گا: "ہاں! یقیناً میں نیکی کا حکم تو کرتا تھا۔ لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا۔ اور برائی سے (دوسروں کو) منع تو کرتا تھا۔ لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔''
(متفق علیہ)
"یقیناً اللہ تعالی خاص لوگوں کے عمل (گناہوں) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب عام لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ برائی اپنے درمیان ہوتے دیکھیں اور وہ اس پر نکیر کرنے پر قادر بھی ہوں لیکن وہ اس سے نہ روکیں، جب ایسا ہونے لگے تو اللہ کا عذاب عام اور خاص سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
(مسند الامام احمد ج 5 ص 388)
Comment